بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے اور میں خداوند متعال کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ توفیق عطا کی کہ آج ماہ مبارک رمضان کے پہلے دن، آپ عزیزوں کے ساتھ، جو اس نور سے منور ہیں اور بحمد اللہ قرآن سے مانوس ہیں، اس محفل میں شریک ہو سکوں اور قریب سے آپ کی زیارت کر سکوں۔ واقعی آج میں نے استفادہ کیا اور یہ جو تلاوتیں کی گئيں اور جو پروگرام پیش کیے گئے ان سے محظوظ ہوا۔

میں کچھ باتیں رمضان کے مبارک مہینے کے بارے میں اور کچھ باتیں قرآن اور کلام اللہ مجید سے انس کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد آپ تلاوت کے ہنرمندوں کے بارے میں بھی کچھ نکات عرض کروں گا۔

ماہ مبارک رمضان کے بارے میں کہا گيا ہے: ھُوَ شَھرٌ دُعیتُم فیہِ اِلى ضیافَۃِ اللَّہ.(2) بڑی اچھی بات ہے، آپ کو دعوت دی گئي ہے۔ کبھی انسان کو کہیں دعوت دی جاتی ہے اور وہ اسے قبول کر لیتا ہے اور اس ضیافت میں چلا جاتا ہے جہاں اس کی پذیرائي ہوتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں دعوت دی جاتی ہے لیکن ہماری ہمت نہیں ہوتی کہ وہاں جائيں اور اس ضیافت میں شریک ہوں۔ تو یہ میرے اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔

رمضان کا مہینہ، رمضان کا مہینہ ہے۔ ضیافت کا مہینہ ہے۔ رحمت الہی کے لامتناہی دسترخوان کا مہینہ ہے۔ جو اس دسترخوان پر جا کر بیٹھے، وہ کون ہے؟ جس کی پذیرائي کی جائے، وہ کون ہے؟ اصل بات یہ ہے۔ ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ پذیرائي کے اس وسیع ہال میں داخل ہو جائيں اور اس  دسترخوان پر بیٹھ جائيں۔ یہ ضیافت کیا ہے؟ خداوند متعال - ان شاء اللہ اگر آپ سب بہترین طریقے سے ضیافت کے اس ہال میں داخل ہو گئے اور ضیافت الہی سے مشرف ہوئے تو- آپ کو کیا عطا کرے گا؟ اللہ کی مہمان نوازی یہ ہے کہ وہ تقرب کا موقع عطا کرتا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر کوئي دوسری چیز نہیں ہے۔ خداوند متعال نے اس مہینے میں آپ کو خود سے قریب ہونے کا موقع فراہم کیا ہے، اگر آپ اس ضیافت میں پہنچ گئے تو اس پذیرائي سے بہرہ مند ہوں گے۔

یہ موقع کیا ہے؟ یہ موقع روزہ ہے، یہ موقع تلاوت قرآن کا لامتناہی اجر ہے۔ تلاوت قرآن ہے۔ یہ موقع اپنے نفس کی اصلاح اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کا دگنا اجر ہے جو خطبۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں موجود ہیں۔ ہمیں خداوند عالم سے ان چیزوں کی دعا کرنی چاہیے، دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم ان موقعوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہا گيا ہے: "فَاساَلُوا اللَّہَ رَبَّکُم بِنیّاتٍ صادِقَۃٍ وَ قُلوبٍ طاھِرَۃٍ اَن یُوَفِّقَکُم لِصِیامِہِ وَ تِلاوَۃ کِتابِہ"(3) خدا سے یہ طلب کیجیے۔

 بحمد اللہ آپ میں سے اکثر نوجوان ہیں اور آپ کے دل پاکیزہ، نورانی اور درخشاں ہیں اور واقعی انسان کو آپ نوجوانوں کی حالت پر رشک ہوتا ہے۔ آپ ان موقعوں سے بہترین طریقے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ صحیفۂ سجادیہ کی دعا میں، چوالیسویں دعا میں جو ماہ رمضان میں داخل ہونے کی دعا ہے، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اللہ تعالی سے اس طرح عرض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: و اعنا علی صیام بکف الجوارح عن معاصی. اس طرح کا روزہ ہو۔ تو پتہ چلا کہ روزہ صرف نہ کھانا اور ان ظاہری کاموں سے اجتناب کا نام نہیں ہے۔ یہ بھی روزے کا حصہ ہے کہ جو آپ کو خدا سے اس طرح قریب کرتا ہے۔ جسمانی اعضاء کو گناہوں سے روکنا "وَ استِعمالِھا فیہِ بِما یُرضیک ..." البتہ یہ ایک طویل دعا ہے اور میں نصیحت کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ دعا نہیں پڑھی ہے، وہ اسے ضرور پڑھیں، یقینا آپ مستفیض ہوں گے۔ آپ لوگوں میں یہ صلاحیت ہے کہ صحیفۂ سجادیہ میں امام زین العابدین علیہ السلام کے الفاظ سے بہترین طریقے سے استفادہ کریں۔ اسی دعا میں کچھ فاصلے کے بعد حضرت فرماتے ہیں: " وَ اَن نَتَقَرَّبَ اِلیکَ فیہِ مِن الاَعمالِ الزّاکیَۃِ بِما تُطَھِّرُنا عَن الذُّنوبِ وَ تَعصِمُنا فیہِ مِمّا نَستَانِفُ مِنَ العَیوب" خداوند متعال ماضی کے گناہوں سے بھی ہمیں پاک کرے اور مستقبل میں بھی محفوظ رکھے۔ ہمیں اس مہینے کی قدر سمجھنی چاہیے۔

جہاں تک کلام اللہ سے انس کا تعلق ہے تو قرآن مجید کے مبارک ناموں میں سے ایک، 'ذکر' ہے۔ خود قرآن میں کئي جگہوں پر ذکر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور مراد قرآن مجید ہے۔ مثال کے طور پر "و ھذا ذکر مبارک انزلناہ"(4) سورۂ انبیاء میں قرآن کو ذکر کی حیثیت سے متعارف کرایا گيا ہے۔ یا "اِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَ اِنّا لَہُ لَحافِظون"(5) سورۂ حجر میں بھی اسی طرح ہے اور قرآن میں کچھ دوسری جگہوں پر شاید پانچ چھے مقامات ہیں جہاں، قرآن کو ذکر کہا گيا ہے، ذکر کیوں؟ ذکر یعنی یاد۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ قرآن ذکر ہے؟ مطلب یہ کہ قرآن، یاد دہانی کرانے والا ہے، قرآن ہمیں یاد دلاتا رہتا ہے۔ یہ صفت، مبالغے کے طور پر استعمال ہوئي ہے۔ عربی زبان میں جب کسی چیز کی کثرت اور مبالغے کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اسم فاعل یا اسم فعال کے طور پر استعمال نہیں کرتے بلکہ مصدر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں "زید عدل" جب وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زید بہت زیادہ عادل ہے تو (زید عادل نہیں بلکہ) زید عدل کہتے ہیں۔ قرآن ذکر ہے یعنی یاد دہانی کی انتہا پر ہے۔ یہ قرآن ہے۔

ذکر، رابطے کا ذریعہ ہے۔ ذکر یعنی یاد۔ اگر آپ کو یاد ہو تو آپ کسی شخص یا کسی چیز سے رابطہ قائم کرتے ہیں اور اگر آپ کو یاد نہ ہو تو پھر آپ رابطہ قائم ہی نہیں کر سکتے۔ ذکر فطرتا رابطے کا ذریعہ ہے، اگر ہم خداوند عالم سے رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، بہشت سے رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، اپنے اعلی باطن سے رابطہ رکھنا چاہتے ہیں جسے خداوند متعال نے ہمارے لیے قرار دیا ہے اور ہم اس تک پہنچ سکتے ہیں اور اسے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں تو اگر ہم کسی شخص یا چیز سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہمیں یاد رہنا چاہیے۔ اگر ہم بھول گئے تو غفلت طاری ہو جائے گي اور یہ غفلت وہی چیز ہے جس سے قرآن میں بار بار روکا گیا ہے۔ "لقد کنت فی غفلۃ من ھذا ..." قیامت میں کافر اور منحرف سے کہا جائے گا: "لقَد کُنتَ فی غَفلَۃٍ مِن ھذا وَ کَشَفنا عَنکَ غِطائَک"(6) یہ سورۂ قاف میں ہیں۔ اسی طرح سورۂ مبارک انبیاء میں ہے: "یا وَیلَنا قَد کُنّا فی غَفلَۃٍ مِن ھذا"(7) کافر قیامت میں اس طرح سے کہے گا: "یا ویلنا" وائے ہو مجھ پر۔ ہم غفلت میں مبتلا تھے۔ غفلت بہت بڑی بلا ہے۔ اسی لیے نافلۂ شب کی دعاؤں میں سے ایک میں آيا ہے: "اَللَّھُمَّ اِنّی اَعوذُ بِکَ مِنَ الکَسَلِ وَ الھَرَمِ وَ الجُبنِ وَ البُخلِ وَ الغَفلَۃِ وَ القَسوَۃ"(8) خدا ہم غفلت سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ تو غفلت، ذکر کی ضد ہے اور قرآن ذکر ہے تو آپ قرآن سے جتنا زیادہ انس حاصل کریں گے، ذکر اتنا ہی زیادہ بڑھتا جائے گا۔ البتہ ذکر اور مراقبہ تقریبا یکساں ہیں یا ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ مراقبہ کا مطلب ہے خود پر نظر رکھنا، جس پر سیر و سلوک الہی کے سالکین بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان کی معراج کی سیڑھی مراقبہ ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے مرحوم آخوند ملا حسین قلی ہمدانی یا ان کے کسی شاگر کا قول ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ بغیر مراقبے کے بھی کبھی کبھی انسان کے اندر 'حال' پیدا ہو جاتا ہے لیکن وہ 'حال' باقی نہیں رہتا۔ اگر مراقبہ ہو تو وہ 'معنوی حال'، انسان کے اندر باقی رہتا ہے۔ بنابریں، تلاوت کی یہ خصوصیات ہیں۔

یہ سب اللہ سے باتیں کرنا ہی تو ہے۔ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو خدا ہم سے بات کرتا ہے۔ یہ بات کرنا صرف ماضی اور قرآن کے واقعات اور قصوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہماری اسی موجودہ حالت سے متعلق ہے جو اس زبان میں انجام دیا جا رہا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہم اپنا راستہ تلاش کر لیں اور خدا کی باتیں سننے کے لیے بیٹھ جائيں۔ یہ ایک بڑی نعمت ہے جو خداوند عالم نے ہمیں عطا کی ہے۔ ایک نعمت تو یہ ہے کہ جب بھی ہمارا دل چاہے، خدا سے بات کر سکتے ہیں: "بغیر شفیع"(9) - جیسا کہ دعائے ابو حمزہ میں ہے - جب بھی ہم ارادہ کریں، خداوند عالم سے بات کر سکتے ہیں اور ہم جب بھی ارادہ کریں، خدا کی باتیں سن سکتے ہیں۔ وقت آپ کے ہاتھ میں ہے، وقت کا تعین اصل میں آپ کر رہے ہیں کہ خدا کی باتیں سنیں اور اس سے فائدہ اٹھائيں۔ اس نظریے سے قرآن کی تلاوت کو دیکھیے۔ ہمیں قرآن کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے۔

تلاوت کو دوہراتے رہنا چاہیے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ تلاوت کو دوہراتے رہنا چاہیے۔ قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھنا چاہیے اور مکمل کرنا چاہیے، دوبارہ شروع کرنا چاہیے، اول سے آخر تک، لگاتار اور مسلسل قرآن سے استفادہ کرنا چاہیے۔

قرآن، پیغمبر کا معجزہ ہے۔ تو یہ پیغمبر جو خاتم المرسلین ہیں، ان کا دین ابدی ہے تو ان کا معجزہ بھی ابدی اور جاوید ہونا چاہیے۔ پیغمبر کا دین ابدی ہے تو ان کا معجزہ بھی ابدی ہونا چاہیے۔ ابدی کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ آپ تاریخ کے طویل دور میں کبھی بھی، جب تک یہ دین باقی ہے، یعنی ابد تک، اپنی زندگي کے لیے ضرورت کے معارف ہم قرآن سے حاصل کر سکیں۔ زندگي کا کیا مطلب ہے؟ زندگي سے مراد وہی وسیع مفہوم ہے۔ معنوی زندگي، اعلی الہی زندگي، مادی زندگي، گھرانہ، حکومت، سماجی روابط سے لے کر خداوند متعال سے وصل تک۔ انسان کی زندگي کے وسیع و عریض میدان یہ سب چیزیں ہیں۔ قرآن کو اس پورے عظیم میدان کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے اور وہ کر سکتا ہے۔ آپ کے سوالوں کو اللہ کے عظیم معارف سے متصل کر سکتا ہے۔ انسان کی زندگي سے متعلق سب سے اعلی مفاہیم، قرآن ہمارے سامنے پیش کر سکتا ہے، البتہ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہ چیز تعلیم اور غور و خوض سے حاصل ہوتی ہے۔ جی ہاں سبھی لوگ تو نہیں لیکن زیادہ تر لوگ، قرآن مجید کے ظاہر سے کچھ فائدہ حاصل کرتے ہیں لیکن قرآن کی گہرائيوں اور بطون قرآن سے استفادہ، تعلیم اور غور و خوض کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 110 میں (امیرالمومنین علیہ السلام) فرماتے ہیں: "و تعلموا القرآن" پھر تھوڑے سے فاصلے کے بعد فرماتے ہیں: "و تفقھوا فیہ" تفقہ یعنی عمیق تعلیم، گہرائي سے سیکھنے کو  'تفقہ' کہتے ہیں۔ قرآن کے بارے میں گہرائي سے علم حاصل کیجیے۔ "فانہ ربیع القلوب" کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔ دل کو شادابی عطا کرتا ہے، شکوفائي عطا کرتا ہے۔ یہ ایسا ہے۔ غور و فکر، تفقہ اور تعلیم اس کا لازمہ ہیں۔ البتہ اس کی شرط، دلوں کی پاکیزگي ہے۔ ہمیں اپنے دلوں کو پاکیزہ بنانا چاہیے، بہت سی دلی خواہشوں سے اپنے آپ کو نجات دینا چاہیے اور یہ کام بھی میرے جیسے افراد کی نسبت آپ نوجوانوں کے لیے کہیں زیادہ آسان ہے۔ یہ بات میں آپ سے عرض کروں کہ آپ جان لیں کہ ہم نے آپ جیسا زمانہ بھی گزارا ہے، اس کا ہمیں تجربہ ہے، ہمیں اپنے آج کے زمانے کا بھی تجربہ ہے، جس کا آپ کو تجربہ نہیں ہے۔ یہ جو میں دل کی پاکیزگي کی بات کر رہا ہوں، یہ ہمارے آج کے زمانے کی نسبت آپ کے زمانے میں کہیں زیادہ آسان ہے۔ لا یَمَسُّہُ اِلّا المُطَھَّرون(10) دل کو پاکیزہ بنانا چاہیے اور قرآن کو مس کرنا چاہیے۔

مرحوم علامہ طباطبائي رضوان اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے(11) مجھے مناسب معلوم ہوا کہ آپ کے سامنے ذکر کروں۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کی حدیث ہے جس کے بارے میں مرحوم طباطبائي فرماتے ہیں: "و ھو من غرر الاحادیث" یہ اہلبیت علیہم السلام کی سب سے اہم حدیثوں میں سے ایک ہے۔ "قیل لہ ھَل عِندَکُم شَی‌ءٌ مِنَ الوَحی" ایک شخص نے امیرالمؤمنین علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ جو قرآن ہمارے پاس ہے، کیا اس کے علاوہ بھی وحی کی کوئي چیز آپ کے پاس ہے؟ "قالَ لَا وَ الَّذی فَلَقَ الحَبَّۃَ وَ بَرَاَ النَّسَمَۃ" حضرت امیر فرماتے ہیں کہ نہیں، خدا کی قسم، اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئي چیز نہیں ہے، "اِلَّا اَن یُعطِیَ اللَّہُ عَبداً فَھماً فی کِتابِہ" اس کا ترجمہ ہماری آج کی زبان میں یہ ہوگا: ہاں اگر خداوند متعال راستہ کھول دے، یہی جو چیز ہے، ہم اسی پر غور کریں تو بہت ساری چیزیں ہمارے اختیار میں ہوں گي۔ مرحوم علامہ طباطبائي کہتے ہیں کہ توحید کے بارے میں، الہی معارف کے بارے میں امیرالمومنین کے یہ اقوال، جو علامہ طباطبائي کے الفاظ میں، امیر المومنین کے عجیب و غریب اقوال ہیں - آپ نہج البلاغہ کو دیکھیے، ان کے الفاظ میں واقعی یہ حیرت انگیز چیز ہے - ان سب کو امیرالمومنین نے قرآن سے حاصل کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام اعلی اور ممتاز معارف، جن کو سمجھنے کے لیے عام اور معمولی عقلیں کافی نہیں ہیں، انسان کو غور کرنا پڑتا ہے، سیکھنا پڑتا ہے، مطالعہ کرنا پڑتا ہے تاکہ سمجھ سکے، ان تمام معارف کو امیرالمومنین نے قرآن سے لیا ہے، قرآن سے استفادہ کیا ہے۔ قرآن، ایسا ہے، یہ بحر عمیق اس طرح کا ہے۔

اب کچھ باتیں اور کچھ نکات سامعین کے مجمع میں تلاوت سے متعلق مسائل کے بارے میں جو آپ کا گرانقدر کام ہے۔

سب سے پہلے تو خدا کا شکر کہ ہمارا ملک خوش الحان قاریوں کے لحاظ سے ایک نمایاں اور آئیڈیل ملک ہے۔ مطلب یہ کہ عالم اسلام میں شاید مصر کے علاوہ، جس نے اس میدان میں کچھ کارہائے نمایاں کئے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی دوسرے ملک میں اتنی تعداد میں ممتاز، خوش الحان اور درست تلاوت کرنے والے قاری موجود ہوں گے، بحمد اللہ ہمارے ملک میں ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی برکت سے ہے۔ ہم کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے! انقلاب کے اوائل میں ہماری پوری کوشش اور اہتمام یہ ہوتا تھا کہ ہمارے قاری کو یہ معلوم ہو کہ کہاں پڑھنا ہے، کہاں وصل کرنا ہے، کہاں وقف کرنا ہے، کہاں رکنا ہے۔ یعنی وہ اس حد کے تھے اور وہ قاری بھی بڑی کم تعداد میں تھے۔ مگر آج بحمد اللہ جب ہم دیکھتے ہیں تو بہت بڑی تعداد میں قاریوں کو دیکھتے ہیں۔ الحمد للہ میں ریڈیو تلاوت سے مانوس ہوں، جب بھی موقع ملتا ہے، اکثر و بیشر سنتا ہوں۔ اس ریڈیو میں اور کبھی ٹیلی ویژن میں، جسے دیکھنے کا موقع مجھے کم ہی ملتا ہے، اتنی زیادہ تعداد میں اچھی تلاوتیں ہیں کہ انسان واقعی خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ بہت سے موقعوں پر جب میں تلاوت سنتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔

آج ہمارے بہت سے قاری، بہت سے بڑے قاریوں سے برتر ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ سبھی سے۔ ابھی آپ ان معروف قاریوں تک نہیں پہنچے ہیں۔ آپ کو کام کرنا ہوگا۔ یہ بھی ان نکات میں سے ایک ہے جسے میں جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کر دوں: آپ جو اچھا پڑھتے ہیں، صحیح پڑھتے ہیں اور سننے والے کو وجد میں لے آتے ہیں، یہ مت سوچیے کہ کام پورا ہو گيا۔ جب بھی اور جہاں بھی انسان یہ سوچے کہ وہ آخری حد کو پہنچ گيا ہے اور اب اس سے آگے کوئي چیز نہیں، وہی جگہ اس کے زوال کا نقطۂ آغاز ہے۔ میں شاعروں سے بھی یہی کہتا ہوں، لکھنے والوں سے بھی یہی کہتا ہوں، طلباء سے بھی یہی کہتا ہوں۔ آپ کو آگے بڑھنا چاہیے، اور بھی آگے بڑھنا چاہیے، آگے بڑھیے اور مکمل کیجیے، مکمل کرنے کی گنجائش اب بھی موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ اب سب کچھ پورا ہو گيا۔ البتہ اس وقت جو صورتحال ہے وہ واقعی افتخار امیز ہے۔ یعنی آج جو کچھ ہمارے پاس ہے، بحمد اللہ قاریوں کی اتنی بڑی تعداد اور یہ کیفیت، ویسی اس جگہ کے علاوہ اور کہیں دکھائي نہیں دیتی جس کا میں نے نام لیا۔ یہاں تک کہ ہمارے بہت سے موجودہ قاری، ان بعض قاریوں سے بہتر ہیں جنھیں ہم نے دعوت دی ہے اور یہاں بلایا ہے، انھیں پیسے بھی دیے ہیں، ان کی تلاوت بھی سنی ہے، ہزار لوگوں نے ان کی قرائت کے وقت بے کار میں ہی "اللہ اللہ" کے نعرے لگائے ہیں کہ جس کی کوئي ضرورت نہیں تھی! کبھی کبھی قاری خراب بھی پڑھتا ہے لیکن پھر بھی مجمع "اللہ اللہ" کہتا ہے، قاری سمجھ جاتا ہے کہ اس مجمع کو اچھی اور بری تلاوت کا فرق نہیں معلوم، اسی لیے وہ اچھا پڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ یہ چیز میں نے دیکھی ہے۔ مصر میں بعض قاریوں نے اچھی تلاوت کی ہے، جب یہاں آئے تو بھی تلاوت کی لیکن ان کی تلاوت لائق تعریف نہیں تھی! یہ اہم بات ہے۔ آپ لوگوں کا واسطہ سننے والوں سے ہے، انھیں یہ چیزیں بتائيے، اگرچہ کچھ عرصے سے ہمارے یہاں اس طرح کے مہمان نہیں آئے ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے قاری، اچھے قاری ہیں۔

آج ہی جن لوگوں نے تلاوت کی، میں نظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ میں نے جو تلاوتیں سنیں، وہ بہت اچھی تھیں! جناب نظریان(12) نے سورۂ قصص کی ایک تلاوت کی تھی - اسی حصے کی، جسے مصطفی اسماعیل نے پڑھا ہے، بہت ہی اچھی تھی۔ یا جناب مقدمی(13) نے سورۂ ھود کی ایک تلاوت کی جو بہت اچھی تھی، واقعی بہت عمدہ تھی۔ حامد صاحب(14) نے بھی اسی طرح بہت اچھی تلاوتیں کی ہیں۔ بعض دوست، جنھوں نے آج یہاں تلاوت کی ہے اور اسی طرح بہت سے دوسرے بھی اسی طرح اچھی تلاوت کرتے ہیں۔ چونکہ میں ان لوگوں کو دیکھتا نہیں ہوں اور ان کے نام نہیں جانتا اور مجھے نہیں پتہ کہ کون کون ہیں اور کون کون نہیں ہیں، اس لیے نام نہیں لوں گا۔ بس ان چند لوگوں کا نام لیا ہے جنھوں نے یہاں تلاوت کی ہے، یہ سب، ان لوگوں سے بہت بہتر پڑھتے ہیں جو یہاں آئے ہیں اور استاد کی حیثیت سے – 'استاد فلاں' کہہ کر انھیں پکارا جاتا ہے، بحمد اللہ یہ ہمارے افتخارات میں سے ایک ہے۔ یہ تو پہلی بات ہوئي۔

دوسری بات یہ ہے کہ مجمع کے بیچ میں تلاوت ایک ہنر ہے، ایک مقدس ہنر ہے۔ اس ہنر کو، جو سب سے برتر مقدس فنون میں سے ایک ہے، ذکر اور دعوت کی خدمت میں ہونا چاہیے۔ قرآن ذکر ہی تو ہے نا۔ آپ کی تلاوت ذکر کی خدمت میں ہونی چاہیے، آپ اس طرح تلاوت کریں کہ مجھ سامع کو انتباہ حاصل ہو اور مجھے خدا کی یاد، قیامت کی یاد اور عالم بالا کی یاد آنے لگے، انسان کو ان سب چیزوں کی جتنی یاد ہے، اس سے زیادہ یاد آپ کی تلاوت کے باعث ہونی چاہیے۔ آپ اپنی تلاوت میں اس بات کو نظر میں رکھیں، یہ چیز چاہئے۔ ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ بعض ذیلی چیزیں اور دکھاوے غلبہ نہ کرنے پائيں، کہ ہم انسان ہیں، کمزور ہیں، ہمارے کاموں میں ایک حصہ دکھاوا بھی ہوتا ہے، البتہ میں اس جزوی بات کو بہت زیادہ ٹارگٹ نہیں کرنا چاہتا لیکن بہرحال آپ جو تلاوت کرتے ہیں اس میں یاد دہانی اور اللہ کی طرف دعوت دینے کی حالت پر، خود نمائی اور دکھاوا غلبہ حاصل نہ کرنے پائے۔ آپ اسے صرف ایک آرٹ کی نظر سے مت دیکھیے، انسان جب بعض غیر ایرانی قاریوں کو دیکھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو صرف ایک ہنر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ نہیں، یہ صرف ایک آرٹ نہیں ہے۔ یہ اللہ کی طرف دعوت دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ اسے اس طرح دیکھیے۔ ایسا ہونا چاہیے کہ "وَ اِذا تُلِیَت عَلَیھِم آیاتُہُ زادَتھُم ایمانا"(15) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو میرے ایمان میں اضافہ ہونا چاہیے، سننے والوں کے ایمان میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اس کا ایک حصہ آپ کے ذمے ہے کہ آپ اس کام کو انجام دیجیے، یہ بڑی حد تک قاری کے ذمے ہے۔

آپ استعاذہ کے ساتھ قرائت شروع کرتے ہیں، یہ استعاذہ حقیقی ہونا چاہیے۔ اس استعاذہ کے ذریعے آپ حقیقت میں شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگیے: "فَاِذا قَرَاتَ القُرآنَ فَاستَعِذ بِاللّہِ مِنَ الشَّیطانِ الرَّجیم" (16) کہ جو سورۂ مبارکۂ نحل میں ہے۔ اگر یہ تلاوت، استعاذہ کے ساتھ ہوئي تو شیطانی اغراض و مقاصد کی سمت میں نہیں جائے گي۔ یہ دوسری بات ہوئي۔

ایک اور بات، تلاوت کی انجینیرنگ یا مہارت سے متعلق ہے۔ یہ وہ بات ہے جو میں یہاں پر تلاوت کرنے والے بعض قاریوں سے کہنا چاہتا تھا لیکن موقع نہیں مل پایا۔ قاری کی حیثیت سے آپ کو جو چیزیں نظر میں رکھنی چاہیے، ان میں سے ایک تلاوت کی انجینیرنگ ہے۔ آپ کو اپنی اس تلاوت کا خاکہ پہلے سے ذہن میں تیار کر لینا چاہیے۔ البتہ بعد میں فطری طور پر یہ چیز انسان کے لیے معمول بن جاتی ہے لیکن شروعات میں یقینی طور پر اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ آپ اس پر توجہ دیں۔

انجینیرنگ کا کیا مطلب ہے؟ کئي طرح کی انجینرنگ ہے: ایک، ہر حصے کے لیے مناسب لحن کا انتخاب ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ تمام الحان، قصے کے بیان کے لیے مناسب نہیں ہیں یا انذار (ڈرانے والی) اور عذاب کی آيتوں کے لیے ہر لحن مناسب نہیں ہے۔ کچھ مناسب ہیں، کچھ مناسب نہیں ہیں۔ اس مضمون کے مناسب لحن کو تلاش کیجیے۔ مصر کے بعض قاری واقعی اس کام میں اعلی سطح کے ہیں اور جانتے ہیں کہ کس لحن میں ان آیتوں کو پڑھنا چاہیے۔ آیتیں اگر انذار کی ہیں، اگر وعید کی ہیں، اگر بشارت کی ہیں، اگر جنت کے وعدے کی ہیں، اگر قصے کی ہیں تو ان میں سے ہر ایک، ایک  خاص لحن کی متقاضی ہے۔ اس لیے آپ کو ان کی انجینیرنگ کرنی ہوگي۔

ایک دوسری انجینیرنگ آپ کی آواز کے اتار چڑھاؤ کی ہے۔ آواز کو کب اونچا اٹھانا ہے، کب نیچے لانا ہے۔ یہ اہم ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ آواز کو اونچا اٹھاتے ہیں جبکہ وہ جگہ آواز اونچا کرنے کی ہوتی ہی نہیں ہے۔ آپ کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ کہاں آواز اونچی اٹھانی ہے اور اونچی ٹون میں تلاوت کرنی ہے اور کہاں دھیمی آواز میں پڑھنا ہے۔ البتہ جب ہم بعض معروف قاریوں کی کچھ تلاوتیں سنتے ہیں تو ان میں ایک خاص اتار چڑھاؤ ہوتا ہے جو انہی سے مخصوص ہے، انھیں من و عن دوہرانا ہمارے خیال میں بہت مناسب نہیں ہے۔ خود آپ کو سمجھ میں آنا چاہیے، توجہ دیجیے کہ کہاں آواز اونچی کرنی ہے اور کہاں دھیمی آواز میں پڑھنا ہے۔

ایک اور نکتہ، لوگوں تک کلام پہنچانے کی کیفیت سے متعلق ہے۔ یہ چیز بڑی اہم ہے۔ میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ عبدالفتاح شعشاعی نے سورۂ مبارک فاطر کی جو تلاوت کی ہے، وہ واقعی ایک بڑے زبردست اور غیر معمولی قاری تھے، تو اس تلاوت میں جب وہ اس آيت پر پہنچتے ہیں: یا اَیُّھَا النّاسُ اَنتُمُ الفُقَرآءُ اِلَی اللّہ(17) آپ جانتے ہیں کہ عرب سامعین لمبی سانس کو پسند کرتے ہیں اور جب قاری لمبی سانس میں تلاوت کرتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور تعریف کرتے ہیں، اللہ اللہ کہتے ہیں، وہ چھوٹی سانس کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ عبدالفتاح کی سانس چھوٹی ہے لیکن انھوں نے یا اَیُّھَا النّاسُ اَنتُمُ الفُقَرآءُ اِلَی اللّہ کو ایک ایسے لحن میں پڑھا ہے کہ محفل تہ و بالا ہو گئي! اس تلاوت کو ضرور سنیے۔ کتنے اچھے لحن میں اس آيت کی تلاوت کی ہے۔ اس مناسب لحن کو نظر میں رکھیے۔ یہ ایک انجینیرنگ ہوئي۔

ایک انجینیئرنگ اور بھی ہے، وہ ہے تلاوت کا ایسا انداز جو سامعین کے لئے واقعے کی تصویر کشی کر دے۔ یعنی اس انداز سے پڑھا جائے کہ آپ ویسے تو سن رہے ہیں لیکن ایسا محسوس ہو کہ گویا واقعے کو دیکھ رہے ہیں۔ اس معاملے میں مستند استاد شیخ مصطفی اسماعیل ہیں۔ اس پہلو سے بے مثال ہیں۔ سورہ قصص کی ان آیات کریمہ کی: «وَجَدَ مِن دونِهِمُ امرَاَتَینِ تَذودانِ قالَ ما خَطبُکُما قالَتا لا نَسقی ‌حَتَّی‌ یُصدِرَ الرِّعآءُ وَ اَبونا شَیخٌ کَـبیرٌ * فَسَقَی لَهُما ثُمَّ تَوَلَّی اِلَی الظِّلِّ فَقالَ رَبِّ اِنّی لِمآ اَنزَلتَ اِلَىَّ مِن خَیرٍ فَقیرٌ * فَجآءَتهُ اِحداهُما تَمشی عَلَی استِحیـآء»،(18) اس انداز سے تلاوت کرتے ہیں کہ آپ گویا دیکھ رہے ہیں کہ وہ لڑکی آتی ہے اور شرماتی ہے۔ یہ شرم ایک خاص احساس کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے اپنے والد کے پاس جاکر اس نوجوان کے بارے میں بات کی ہے۔ جواب ملا ہے کہ جاؤ اسے تلاش کرو اور بلاکر لاؤ۔ «فَجآءَتهُ اِحداهُما تَمشی عَلَی استِحیـآء» اس جملے کو بار بار دہراتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر سورہ نمل ہے: اَیُّکُـم یَأتینی بِعَرشِهـا قَبلَ اَن یَأتونی مُسلِمین *  قالَ عِفریتٌ مِنَ الجِنِّ اَنَا ءاتیکَ بِهِ قَبلَ اَن تَقومَ مِن مَقامِک.(19) اس انداز سے یہ فقرہ «اَنَا ءاتیکَ بِهِ» عفریت جن کی زبانی دہراتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ عفریت نظروں کے سامنے ہے جو بڑے غرور سے کہہ رہا ہے کہ قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اسے لا دوں گا۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: قالَ الَّذی عِندَهُ عِلمٌ مِنَ الکِتابِ اَنَا ءاتیکَ بِهِ قَبلَ اَن یَرتَدَّ اِلَیکَ طَرفُک (20) یعنی اس دوسرے شخص نے عفریت کو دنداں شکن جواب دیا اور اپنی تجویز دی کہ میں پلک جھپکنے سے بھی پہلے حاضر کر دوں گا اور حاضر کر دیا۔ ان آیتوں کو اس انداز سے پڑھتے ہیں کہ گویا انسان اس واقعے کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی 'انجینیئرنگ' ہے۔ بہرحال مختصر یہ کہ قاری کی تلاوت اثر انگیز ہونا چاہئے۔ آپ جب تلاوت کیجئے تو انداز ایسا ہو کہ آپ کے سامعین پر اس کا اثر ہو، تلاوت اثر انگیز واقع ہو۔ اِنَّما تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکرَ وَ خَشِیَ الرَّحمٰنَ بِالغَیب (21) آپ کی تلاوت سے اتباع کا جذبہ پیدا ہو، آپ کی تلاوت سے اطاعت کا جذبہ بیدار ہو۔ تو یہ چند نکات تھے جو میں نے عرض کر دئے۔

ایک بات قرائتوں کے اختلاف کے بارے میں بھی عرض کرنا ہے۔ بعض مصری قاریان محترم جو ہماری دعوت پر یہاں آتے رہے ان گزشتہ برسوں میں، انہوں نے یہ التزام رکھا کہ الگ الگ قسم کی قرائتیں پیش کیں۔ چونکہ مجھے اس موضوع پر عبور نہیں ہے لہذا میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ قاری 'شاذ' قرائتیں بھی استعمال کرتے تھے یا نہیں۔ چودہ قرائتیں ہیں اور ان کے علاوہ کچھ اور قرائتیں ہیں جو شاذ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان میں بعض قاری اپنی تلاوت میں مسلسل جو اس بات کو کوشش کرتے تھے کہ الگ الگ قرائتوں سے پڑھیں تو شاذ قرائتوں سے بھی پڑھتے تھے۔ میری نظر میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کوئی انتباہ نہیں ہے، کوئی دعوت نہیں ہے۔ بے شک قرائتوں کے اختلاف کو میں مسترد نہیں کرتا لیکن اسے ایک حد میں رہنا چاہئے۔ ورش کی قرائت اس اعتبار سے اہم ہے کہ شمالی افریقا میں اور دنیائے اسلام کے مغربی حصے میں رائج قرائت ہے۔ ورش نے اپنی عمر کے کئی سال مصر میں گزارے۔ ورش بھی اور قالون بھی دونوں مصر میں رہتے تھے۔ ورش برسوں مصر میں رہے اس لئے ورش کی قرائت مصر، شمالی افریقا، تیونس وغیرہ میں بہت مشہور ہے۔ وہاں ورش کی قرائت اور قالون کی قرائت کے مطابق قرآن شائع ہوئے ہیں جو ہمیں بھی بھیجے گئے، میں نے انھیں دیکھا ہے۔ یہ ورش کی قرائت ہے۔ تو قرائت ورش کے مطابق تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رائج قرائتوں میں سے ایک ہے۔ بے شک یہ حفص کی قرائت جتنی رائج تو نہیں ہے لیکن بہرحال رائج تو ہے ہی۔ یہ ٹھیک ہے۔ قرائت حمزہ بھی جس کے مطابق ہمارے اس نوجوان (22) نے تلاوت کی ایک اعتبار سے اچھی ہے کہ حرف ساکن اور ہمزہ کے درمیان جو سکتہ ہے، بہت دلنشیں ہے۔ اس اعتبار سے کہ بسا اوقات اس سے تلاوت کی جاذبیت بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے میرے خیال میں اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ان دو قرائتوں کے مطابق تلاوت کی جائے تو برا نہیں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ دوسری قرائتوں کے مطابق تلاوت، ایک ہی حرف کو الگ الگ شکلوں میں ادا کرنا اور اس طرح کی چیزوں کی خاص ضرورت نہیں ہے۔ یعنی جس چیز کی آپ سے توقع کی جا رہی ہے جیسے ذکر، دعوت، انتباہ وغیرہ وہ چیزیں اس سے واقعی حاصل نہیں ہوں گی۔

میں نے ایک نکتہ اور بھی نوٹ کیا تھا وہ بھی عرض کر دوں، قرآنی سرگرمیوں کے بارے میں۔ کام تو بہت اچھا ہوا ہے لیکن یہی اتنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جو ایک تجویز دی گئی ہے اور بالکل درست ہے، میں وہ بھی عرض کر دوں گا، آپ میں سے جو بھی کر سکے ضرور انجام دے۔ تجویز یہ ہے کہ ہر محلے کی مسجد، مثلا تہران میں، فلاں حصے  کی مساجد جو تین یا چار یا پانچ مساجد ہیں، ان میں سے ہر ایک مسجد قرآنی مرکز میں تبدیل ہو جائے اور ان میں باہمی رابطہ بھی قائم رہے۔ ایک مسجد کے افراد دوسری مسجد والوں کے یہاں مہمان کے طور پر جائیں، وہ ان کی نشست میں آئیں۔ آپس میں مقابلے رکھیں۔ یہ ان مقابلوں سے الگ ہے جو اوقاف وغیرہ کی طرف سے رکھے جاتے ہیں۔ ایسے کام انجام دئے جائیں۔ یہ بچوں اور نوجوانوں کو قرآن خوانی کی وادی میں لے جانے کی بہترین ترغیب ہو سکتی ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔

ہمارے نوجوان قرآن خوانی بالخصوص حفظ قرآن کے میدان میں اتریں۔ ہمارے یہاں حافظ قرآن افراد کی خاصی تعداد ہے۔ چند سال قبل ہم نے تجویز دی تھی (23)، کام بھی ہوا لیکن وہ منزل ابھی دور ہے۔ اگر آپ ایک کروڑ حافظ کی تعداد پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ یہ ہے کہ ہمارے بچے وادی قرآن میں قدم رکھیں۔ بچے میدان میں آ گئے تو حفظ کا کام آسان ہو جائے گا۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ مساجد میں یہ کام انجام دیا جائے۔ ہر مسجد قرآنی مرکز میں تبدیل ہو جائے اور محلوں کی ان مساجد میں باہمی رابطہ رہے، تعاون رہے، اساتذہ انھیں ایک دوسرے سے متعارف کرائیں، وہ ایک دوسرے کے یہاں جائیں۔ مشہد میں یہ چیز تھی۔ مسجد کرامت میں بھی اور مسجد امام حسن مجتبی میں بھی۔ اللہ رحمت نازل کرے آقا مختاری مرحوم پر مشہد کے بڑے اچھے قاری تھے! اسی طرح جناب آقا مرتضی فاطمی پرجو مشہد کے بہترین قاریوں میں تھے۔ آج وہ الحمد للہ ملک کے بہترین قاریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ میں نے ان دونوں حضرات کو دعوت دی تھی، بلایا تھا۔ وہاں برسوں مسجد کرامت میں اس نشست کا اہتمام کرتے تھے۔ مسجد امام حسن میں ہم لوگ ہوتے تھے۔ یہ دو مسجدیں تھیں جہاں میری آمد و رفت رہتی تھی، وہاں یہ لوگ آکر تلاوت کرتے تھے۔ مساجد میں یہ باہمی رابطہ، قاریوں، سامعین اور قاریوں کے شاگردوں کا باہمی رابطہ بڑی  اہم چیز ہے، اس سے ان شاء اللہ اس کام میں مدد مل سکتی ہے۔ مناسب ہے کہ یہاں ہم آقائے مولائی مرحوم کو بھی یاد کریں، تہران میں تلاوت قرآن کے میدان میں ان کی بڑی خدمات ہیں، انھوں نے بڑی محنت کی۔ غفاری مرحوم اور دوسرے برادران جو اس نشست میں گزشتہ برسوں میں موجود رہتے تھے مگر امسال ہمارے درمیان نہیں ہیں، اللہ تعالی ان شاء اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔

پروردگار! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں اہل قرآن میں قرار دے، ہمیں قرآن سے مانوس فرما، ہمیں قرآن کے ہمراہ زندہ رکھ اور قرآن کے ہمراہ اس دنیا سے اٹھا، قرآن کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگار! ہمارے دلوں میں قرآنی معرفتوں کو بیدار اور زںدہ کر دے۔ پروردگار! ہمارے اساتذہ جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، رہنمائی کی، قرآن سے انس کی تعلیم دی ان پر رحمتیں نازل فرما۔ ہمارے بزرگوار امام اور ہمارے عزیز شہیدوں کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں ان کے راستے پر ثابت قدم رکھ۔

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة‌ اللّه ‌و برکاته  

(1) رمضان 1443 کے پہلے دن منعقد ہونے والے اس پروگرام کی ابتدا میں ملک کے کچھ ممتاز قاریوں نے قرآن مجیدکی کچھ آيتوں کی تلاوت کی۔

(2) امالی صدوق، مجلس بیستم، صفحہ 93

(3) ایضا

(4) سورۂ  انبیاء، آيت 50

(5) سورۂ  حجر، آيت 9

(6) سورۂ  ق، آيت 22

(7) سورۂ  انبیاء، آيت 57

(8) کافی، جلد دو، صفحہ 586

(9) مصباح کفعمی، صفحہ 589 (دعائے ابو حمزہ ثمالی)

(10) سورۂ واقعہ، آيت 79 (کہ پاکیزہ بنائے گئے لوگوں کے علاوہ کوئي اسے مس نہیں کرتا)

(11) المیزان فی تفسیر القرآن، جلد 3، صفحہ 71

(12) جناب وحید نظریان

(13) جناب قاسم مقدمی

(14) جناب حامد شاکر نژاد

(15) سورۂ انفال، آيت 2، اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

(16) سورۂ نحل، آيت 98، تو جب بھی قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔

(17) سورۂ فاطر، آيت 15، اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو ...

(18) سورۂ قصص، آيت نمبر 23 سے 25، اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں۔ موسی نے ان عورتوں سے پوچھا: "تمہیں کیا پریشانی ہے؟" انہوں نے کہا: "ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نکال کر نہ لے جائیں اور ہمارے والد بہت بوڑھے آدمی ہیں۔" یہ سن کو موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھے اور بولے: "پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں" (کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی۔

(19) سورۂ نمل، آيت 38 اور 39، تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لاتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوں؟" جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا۔ "میں اسے حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں۔"

(20) سورۂ نمل، آيت 40، جس شخص کے پاس کتاب خدا کا (کچھ) علم تھا، وہ بولا: "میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں۔"

(21) سورۂ یس، آيت 11، آپ تو اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہیں جو کتاب حق کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے۔

(22) جناب علی رضا حاجی زادہ، تبریز

(23) پورے ملک کے قاریوں سے ملاقات میں تقریر بتاریخ 2 اگست 2011