تاریخ کے کسی بھی حصے میں دنیا کی کوئی بھی قوم اس رنج و اندوہ اور ایسے ظالمانہ اقدامات سے روبرو نہیں ہوئی کہ علاقے سے باہر رچی جانے والی ایک سازش کے تحت ایک ملک پر مکمل طور سے قبضہ ہو جائے، پوری قوم کو اس کے گھر بار سے بے دخل کر دیا جائے اور اس کی جگہ پر دنیا میں چہار سو سے جمع کرکے ایک گروہ کو بسا دیا جائے۔ ایک حقیقی وجود کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ ایک جعلی وجود کو دے دی جائے۔

فلسطینی عوام کی وحشیانہ سرکوبی، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، اس قوم کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں کالونیوں کی تعمیر، مقدس شہر قدس اور مسجد الاقصی، اسی طرح اس شہر میں واقع دیگر اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کی شناخت اور ماہیت تبدیل کرنے کی کوششیں، شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور دوسرے بہت سے مظالم بدستور جاری ہیں اور انھیں ریاستہائے متحدہ امریکا اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

تحریک انتفاضہ جو اس وقت مقبوضہ علاقوں میں تیسری دفعہ شروع ہوئی ہے، ماضی کی دونوں انتفاضہ تحریکوں سے زیادہ مظلوم ہے، لیکن درخشندگی اور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اذن پروردگار سے آپ دیکھیں گے کہ یہ تحریک انتفاضہ جدوجہد کی تاریخ میں بڑا اہم مرحلہ رقم کریگی اور غاصب حکومت کے ماتھے پر ایک اور شکست چسپاں کر دیگی۔ یہ سرطان شروع سے اب تک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ مصیبت میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کا علاج بھی مرحلہ وار ہے اور چند انتفاضہ تحریکوں اور بے وقفہ مزاحمت نے بڑے اہم مراحل کے اہداف حاصل کر لئے ہیں اور وہ اسی طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔

1973 عیسوی کی جنگ میں مختصر ہی سہی جو کامیابیاں ملیں ان میں مزاحمت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔  1982 عیسوی سے عملی طور پر مزاحمت کی ذمہ داری فلسطین کے اندر موجود عوام کے دوش پر آن پڑی، اسی بیچ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک -حزب اللہ- کا طلوع ہوا جو فلسطینیوں کی جدوجہد میں ان کی مددگار بنی۔ اگر مزاحمت نے صیہونی حکومت کو زمیں بوس نہ کر دیا ہوتا تو آج ہم علاقے کی دیگر سرزمینوں، مصر سے لیکر اردن، عراق، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں تک اس کی جارحیت کا مشاہدہ کرتے۔ ہاں یہ بہت بڑا ثمرہ ہے، لیکن مزاحمت کا یہی واحد ثمرہ نہیں ہے، بلکہ جنوبی لبنان کی آزادی اور غزہ کی آزادی، فلسطین کو آزاد کرانے کے عمل کے دو اہم تدریجی اہداف کا حصول سمجھی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی جغرافیائی توسیع پسندی کا عمل برعکس سمت میں مڑ گیا۔

فلسطین کے عوام  اور فلسطین کے مزاحمتی محاذ کی ضرورتوں کی تکمیل بہت اہم اور حیاتی فریضہ ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے۔ اس عمل میں غرب اردن کے علاقے کے مزاحمتی محاذ کی بنیادی ضرورتوں کی طرف سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے جو اس وقت مظلومانہ تحریک انتفاضہ کا اصلی بوجھ اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے۔

امام خامنہ ای

21 فروری 2017