اس ملاقات میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکا کے دباؤ اور کثیر جہتی جنگ کے مقابلے میں ایران اور وینیزوئلا کی استقامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دونوں ملکوں کے کامیاب تجربے نے دکھا دیا کہ اس طرح کے دباؤ کے مقابلے کی واحد راہ مزاحمت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کے ساتھ سخت مقابلے اور وینیزوئلا کے خلاف شروع کی گئي کثیر جہتی اور ہمہ گير جنگ میں وینیزوئلا کی حکومت اور قوم کو فتحیاب قرار دیتے ہوئے صدر مادورو سے کہا: آپ کی اور وینیزوئلا کی قوم کی استقامت قابل تعریف ہے کیونکہ یہ ایک قوم اور اس ملک کے رہبروں کی قدر و منزلت اور لیاقت کو بڑھاتی ہے اور آج وینیزوئلا کے سلسلے میں امریکا کا نظریہ پہلے سے مختلف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح حالیہ برسوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشرفت اور نئی ایجادات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ بڑے بڑے قدم ایسے حالات میں اٹھائے گئے ہیں کہ ایرانی قوم پر بڑی سنگین اور عدیم المثال پابندیاں اور دباؤ مسلط کیے گئے تھے اور خود امریکیوں نے اس کا نام، آخری درجے کا دباؤ رکھا تھا۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ ایرانی قوم کی استقامت، اس انتہائي دباؤ کی پالیسی کی شکست کا سبب بنی اور کچھ عرصے پہلے خود امریکا کے ایک بڑے سیاسی عہدیدار نے اسے "شرمناک شکست" سے تعبیر کیا تھا۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا: ایران اور وینیزوئلا کی اقوام کی استقامت اور کامیابی سے جو نتیجہ نکالا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ دباؤ سے مقابلے کی واحد راہ، ڈٹ جانا اور مزاحمت کرنا ہے اور ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران اور وینیزوئلا کی حکومت کے درمیان تعاون اور رابطوں کو پہلے سے زیادہ مستحکم اور قریبی بنایا جانا چاہیے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران اور وینیزوئلا کے درمیان بیس سالہ تعاون کے دستاویز پر دستخط کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: طویل المیعاد تعاون کا لازمہ، سمجھوتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے انھیں منزل تک پہنچانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران اور وینیزوئلا کے قریبی اور گہرے تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دونوں ملکوں کے، کسی بھی ملک کے ساتھ اس طرح کے قریبی تعلقات نہیں ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ خطرے کے موقعوں پر رسک لیتا ہے اور اپنے دوستوں کا ہاتھ تھامتا ہے۔
انھوں نے اسی طرح جناب مادورو کے صیہونزم مخالف موقف کو سراہتے ہوئے کہا: صیہونی حکومت کے خلاف کچھ عرصہ پہلے آپ نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ بالکل درست اور شجاعانہ موقف تھا۔
اس ملاقات میں، جس میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی بھی موجود تھے، وینیزوئلا کے صدر نکولس مادورو نے امریکا کے ساتھ وینیزوئلا کی قوم کے سخت مقابلے میں ایران کی حمایت کی قدردانی کی اور کہا: جب وینیزوئلا کے حالات بہت سخت تھے اور کوئي بھی ملک مدد نہیں کر رہا تھا، اس وقت آپ مدد کے لیے پہنچے اور آپ نے ان حالات سے نکلنے میں ہماری مدد کی۔
انھوں نے حالیہ برسوں میں اپنے ملک کے سخت معاشی حالات کی تشریح کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ آپ نے فرمایا، امریکیوں نے ایک تدریجی اور کثیر جہتی جنگ ہمارے ملک کے خلاف شروع کی تھی لیکن ہم استقامت اور پابندیوں سے حاصل ہونے والے مواقع سے استفادہ کر کے، امریکا کے حملے کا ہمہ گیر مقابلہ کرنے میں کامیاب رہے اور اب وینیزوئلا کے حالات، پچھلے کئي برس کی نسبت بہتر ہیں۔
صدر مادورو نے اسی طرح تہران میں اپنے مذاکرات اور تعاون کے دستاویز پر دستخط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم مختلف میدانوں خاص کر سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران کے ساتھ تعاون کے لیے ایک واضح روڈ میپ تیار کر رہے ہیں۔
وینیزوئلا کے صدر نے اسی طرح اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان کا ملک، مسئلۂ فلسطین کو ایک مقدس انسانی موضوع سمجھتا ہے، کہا: اسی عقیدے کی وجہ سے صیہونی حکومت، موساد کے ذریعے وینیزوئلا کے خلاف لگاتار سازشیں کر رہی ہے۔