اسلامی معاشرے کا نظام سنبھالنے اور اسلامی معاشرے کی پیشرفت کی ذمہ داری سبھی کے کندھوں پر ہے؛ عورت کے کندھے پر، مرد کے کندھے پر، ہر ایک پر اس کی اپنی صلاحیتوں کے حساب سے۔ اس میں کوئی بحث نہیں ہے کہ عورت گھر کے باہر کوئي ذمہ داری سنبھال سکتی ہے یا نہیں – وہ بالکل سنبھال سکتی ہے، اس میں کوئي شک نہیں ہے، اسلامی نظریہ بالکل بھی اس کی نفی نہیں کرتا – بلکہ بحث اس بات پر ہے کہ کیا عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گھر سے باہر کے ماحول میں اس کے لیے جتنی بھی سازگار، دلچسپ اور شیریں چیزوں کا تصور کیا جا سکتا ہے، ان کی خاطر گھر میں اپنے کردار کو قربان کر دے؟ ماں کے کردار کو؟ بیوی کے کردار کو؟ اسے یہ حق ہے یا نہیں؟ ہم اس کردار پر زور دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ علم، تعلیم، معلومات، تحقیق اور روحانیت کے لحاظ عورت جس سطح کی بھی ہو، وہ جو سب سے اہم کردار ادا کر سکتی ہے، وہ ایک ماں اور ایک بیوی کا کردار ہے، یہ اس کے تمام کاموں سے زیادہ اہم ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے عورت کے علاوہ کوئي دوسرا انجام دے ہی نہیں سکتا۔ 

امام خامنہ ای

4/7/2007