بسم اللہ الرّحمن الرّحیم.

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ حضرت احمد ابن موسی شاہچراغ کے حرم اقدس میں پیش آنے والا تلخ اور ساتھ ہی پرشکوہ واقعہ، تاریخ میں باقی رہ جانے والا واقعہ ہے۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اس میں بڑے گہرے معانی نہاں ہیں اور دوسرے یہ لافانی ہے، ایسا واقعہ نہیں ہے کہ اتنی جلدی، ایران کی تاريخ سے بھلا دیا جائے۔ خود حضرت احمد ابن  موسی کو بھی شہید کیا گيا۔ ان کے برادر گرامی یعنی حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کو بھی شہید کیا گيا۔ انھیں اس لیے شہید کیا گيا کہ ان کا نام و نشان مٹ جائے، وہ فراموش کر دیے جائيں، لیکن کیا ایسا ہوا؟ کیا امام رضا کو بھلا دیا گيا؟ کیا شاہچراغ کی یاد مٹ گئي؟ دشمن کی ہر ممکن کوشش کے بعد بھی ان کی یاد، ان سے عقیدت، ان کا مقام، ان کے لیے رحمت الہی کی عظمت روز بروز زیادہ آشکار ہوتی جائے گي۔

البتہ گھر والوں کو اپنوں کا داغ دیکھنا پڑا، یہ بات ہم بخوبی سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے عزیزوں، اپنی اولاد، یہاں تک کہ اپنے بچوں، ماں، باپ تک کو کھویا ہے، اس میں کوئي شک نہیں ہے۔ لوگ داغ اٹھاتے ہیں، دل رنجیدہ ہوتے ہیں، ہمارے دل کو بھی تکلیف پہنچی، اس واقعے سے ہمارا دل بھی بہت رنجیدہ ہوا لیکن اس کھونے کے مقابلے میں ایک عظمت پائي جاتی ہے اور وہ ہے ان کے سلسلے میں اور آپ کے سلسلے میں اللہ کا لطف و کرم جو ان کے پسماندگان ہیں۔ آپ کے سلسلے میں خدا کے اس لطف و کرم کی عظمت میں، خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے: اُولئِکَ عَلَیھِم صَلَواتٌ مِن رَبِّھِم(1) اُولئِکَ کا مطلب آپ ہی لوگ ہیں، عَلَیھِم صَلَواتٌ مِن رَبِّھِم، خدا آپ پر، شہیدوں کے پسماندگان پر، شہیدوں کا داغ اٹھانے والوں پر درود و صلوات بھیجتا ہے۔ خود شہیدوں کا درجہ تو اعلی ہے ہی۔

اس معاملے میں دشمن کی خباثت، ملک کے بہت سے دہشت گردانہ واقعات سے الگ ہے۔ کبھی کسی فوجی یونٹ پر حملہ کرتے ہیں، کبھی کسی سیاسی حلقے پر وار کرتے ہیں، وہ ایک الگ بات ہے، مگر کبھی کچھ زائرین کو قتل کر دیتے ہیں جن کا نہ سیاست سے کوئي تعلق ہے اور نہ وہ جگہ لڑائي اور جنگ کی ہے، وہ جگہ زیارت کی ہے، خدا سے راز و نیاز کرنے کی ہے۔ تہران سے، ہمدان سے، گیلان سے، خود شیراز سے، کہگیلویہ و بویر احمد سے، مختلف جگہوں سے لوگ وہاں گئے ہیں زیارت کے لیے، عقیدت کے اظہار کے لیے، حوائج طلب کرنے، اللہ سے تنہائی میں باتیں کرنے، اولیائے خدا سے راز و نیاز کرنے اور ان پر یہ ظلم ہو گيا۔ اس معاملے میں دشمن بہت رسوا ہوا ہے۔ یہ دشمن کون ہے؟ جس نے اس جرم کا ارتکاب کیا، صرف وہی دشمن ہے؟ وہ تو، واضح ہے کہ دشمن ہے، مجرم ہے، غدار ہے، جرم کرنے والا ہے، لیکن صرف وہی نہیں ہے، کچھ لوگ اس کے پس پشت ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'داعش' ہاں صحیح ہے، لیکن داعش کو کس نے وجود عطا کیا؟ اس خطرناک موجود کو کس نے پیدا کیا؟ امریکا نے کھل کر کہا کہ ہم نے داعش کو وجود عطا کیا؟ اس نے واضح الفاظ میں یہ کہا – ابھی نہیں، بلکہ سات آٹھ سال پہلے امریکیوں نے کہا کہ ہم نے داعش کو پیدا کیا – وہ گنہگار ہیں، وہی جو اس وقت انسانی حقوق کا پرچم ہاتھ میں اٹھائے ہوئے ہیں۔ خدا کی لعنت ہو ان جھوٹی زبانوں پر، ان کالے اور بے رحم دلوں پر! وہ اِس طرح کام کرتے ہیں، اُس طرح باتیں کرتے ہیں، انسانی حقوق کے بارے میں، خواتین کے حقوق کے بارے میں، مختلف انسانی مسائل کے بارے میں، ان کی بات یہ ہے، مگر عمل وہ ہے، یعنی سو فیصدی منافق! اور منافق، کافر ہے اور کافر خدا کا دشمن ہے، عدواللہ ہے، یہ کافر بھی ہیں اور منافق بھی ہیں اور دشمن خدا بھی ہیں۔ یہ، شاہچراغ کے اس معاملے میں ذلیل ہو گئے۔

اس واقعے کو بھلانے نہیں دینا چاہیے۔ البتہ یہ بھلایا نہیں جا سکے گا لیکن ہمارے ثقافتی اداروں کو، میڈیا سے متعلق اداروں کو، فن و ہنر سے متعلق ہمارے افراد کو، اس واقعے کو، واقعۂ عاشورا کی طرح، مختلف تاریخی واقعات کی طرح باقی رکھنا چاہیے، اس کی عظمت کو باقی رکھنا چاہیے، بیان کرنا چاہیے تاکہ مستقبل کے لوگ اسے سمجھ سکیں۔ اس مسئلے میں ہم پیچھے ہیں، میڈیا، تشہیر اور حقائق کی تصویر کشی کے معاملے میں ہم پیچھے ہیں۔ ہمارے بہت سے نوجوان، بیس سال پہلے کے واقعات کے بارے میں نہیں جانتے، منافقین کے واقعات کے بارے میں نہیں جانتے۔ اسی شیراز میں، ماہ مبارک رمضان میں، افطار کے وقت منافقین اس شریف اور بزرگ منش ڈاکٹر کے گھر میں گھسے اور انھیں گولیوں سے بھون دیا۔(2) شیراز میں، ماہ رمضان میں! بعد میں، میں اس گھر میں گيا تھا۔ افسوس کہ ہماری نئي نسل ان میں سے بہت سی باتوں کو نہیں جانتی، ہم نے ان معاملوں میں تساہلی کی ہے، ہمارے فنکاروں کو کام کرنا چاہیے۔ یہاں پر موجود آپ جوانوں میں سے جو بھی فن و ہنر، میڈیا اور تحریر کے شعبوں سے جڑا ہوا ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارے حقیقی فرائض میں شامل ہے۔

بہرحال میں ایک بار پھر آپ کی خدمت میں جو ان شہدائے گرامی کے معزز پسماندگان ہیں، تعزیت پیش کرتا ہوں، تعزیت بھی اور تہنیت بھی، یہ تہنیت کا بھی مقام ہے۔ ان شہیدوں کو اعلی مقام حاصل ہوا ہے، چھوٹے بڑے سبھی کو – ان میں بچے تھے، بڑے تھے، جوان تھے، عورتیں تھیں، مرد تھے، شہری تھے، دیہی علاقوں کے تھے – سبھی اعلی درجوں تک پہنچے، یہ واقعی تہنیت اور مبارکباد کا مقام ہے، البتہ میں تعزیت بھی پیش کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ، خداوند عالم آپ سبھی کو صبر اور اجر عطا کرے۔

***

(1) سورۂ بقرہ، آیت 157، یہی وہ (خوش نصیب) ہیں، جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے درود (خاص عنایتیں اور نوازشیں) ہیں۔

(2) 31 جولائي 1981 کو منافقین (دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق) کے دہشت گرد گروہ نے صوبۂ فارس میں جمہوری اسلامی پارٹی کے مرکزی اراکین کو قتل کرنے کے ارادے سے، افطار کے کچھ ہی منٹ بعد ڈاکٹر محمد حسن طاہری کے گھر پر حملہ کیا۔ اس سے پہلے والی رات کو ڈاکٹر طاہری کے کلینک پر منافقین کے حملے کے پیش نظر، مذکورہ پارٹی کی کونسل کے اراکین کی میٹنگ کسی دوسری جگہ رکھ دی گئي تھی اور گھر میں صرف ڈاکٹر طاہری کے اہل خانہ اور کچھ رشتہ دار موجود تھے۔ اس حملے میں ان کے چار گھر والے شہید اور تین بری طرح زخمی ہو گئے۔