آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ قم کے مومن اور انقلابی عوام کی سرکردگي میں پورے ملک میں جو عظیم تحریک شروع ہوئي وہ ڈکٹیٹر حکومت کی سرنگونی، مغرب کے چنگل سے ایران کی رہائي اور ملک کے تاریخی و اسلامی تشخص کے احیاء کا ہدف لیے ہوئے تھی کیونکہ پہلوی دور حکومت میں ایران، امریکیوں کے غلط کلچر اور ان کے سیاسی و عسکری تسلط کے جنگل میں جکڑا ہوا تھا۔
انھوں نے اپنے خطاب میں ملک میں ہوئے حالیہ ہنگاموں کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ ان واقعات میں یورپ اور امریکا سمیت غیر ملکی دشمن کا ہاتھ واضح طور پر دکھائی دیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ان ہنگاموں اور بلووں میں دشمن کا سب سے اہم حربہ، سائبر اسپیس، سوشل میڈیا اور مغربی، عرب اور اسرائيلی میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کرنا اور لوگوں کو ورغلانا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ کچھ لوگ یہ ظاہر کر رہے تھے کہ ہنگاموں میں شامل ہونے والے لوگ ملک کی انتظامی اور معاشی مشکلات کے مخالف ہیں جبکہ اس کے بالکل برخلاف ان کا اصلی مقصد کمزوریوں کو دور کرنا نہیں بلکہ ان کا ہدف ملک کے مضبوط پروگراموں کو تباہ کرنا تھا۔
انھوں نے اس مسئلے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سیکورٹی جیسے مضبوط شعبے کو ٹارگٹ کرنا، علمی اور تعلیمی مراکز کو بند کر کے ملک کی سائنسی پیشرفت کو روکنا، ملک کی داخلی پیداوار میں خلل ڈالنا وغیرہ ایسے اہم اقدامات ہیں جو دشمن انجام دینا چاہتا تھا۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 'تشریح کے جہاد' کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کی سازشوں میں سر فہرست، پروپیگنڈا ہے جس کا علاج، مختلف زبانوں سے اور جدت طرازی کے ساتھ حقائق کو صحیح طریقے سے بیان کرنا ہے کیونکہ بچوں اور جوانوں کے ذہن پر اثر ڈالنے والے پروپیگنڈوں کے وسوسوں کو دور کرنے کا راستہ ڈنڈا نہیں بلکہ حقائق کو بیان اور واضح کرنا ہے۔
انھوں نے اسی طرح اپنے خطاب میں، اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امریکا کے چنگل سے ایران کی نجات کو، اسلامی نظام سے دشمنی کی اصلی وجہ قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی جانب سے اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کرنے کے حکم سے متعلق امریکا کے ایک بڑے ادارے کی جانب سے خفیہ دستاویز کی اشاعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس دستاویز کے مطابق کارٹر نے سی آئي اے کو حکم دیا تھا کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کرے اور اس کے لیے انھوں نے جس پہلی اسٹریٹیجی کا ذکر کیا تھا، وہ پروپیگنڈے کے حربے سے فائدہ اٹھانا ہے۔"
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکا پچھلے 43 سال سے لگاتار دھمکی، پابندی، جاسوسی، دراندازی، زیادہ سے زیادہ دباؤ، ایران مخالف اتحادوں کی تشکیل، ایران دشمنی، اسلام دشمنی اور شیعہ دشمنی جیسے اقدامات کے ذریعے اسلامی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے اور ان میں سرفہرست پروپیگنڈے کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کو زیادہ نقصان پہنچاتا رہا ہے۔
انھوں نے پہلوی دربار کے حکم پر امام خمینی کے سلسلے میں اہانت آمیز مقالے کی اشاعت کے دن ہی یعنی 7 جنوری 1978 کو قم کے مومن عوام کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آنے کا ذکر کیا اور کہا: یہ عوامی اقدام، 8 جنوری کو بھی جاری رہا اور 9 جنوری کو ایک ہمہ گیر قیام میں تبدیل ہو گيا اور قم نے، قابل فخر قم نے انقلاب کا پہلا پرچم لہرایا اور ملک میں ایک نورانی راستہ کھول دیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے طاغوتی حکومت کے امریکا پر انحصار کو امام خمینی کے خلاف اہانت آمیز مقالے کی اشاعت کی حماقت اور گستاخی کی وجہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ 9 جنوری سے کچھ دن پہلے کارٹر نے تہران میں مدہوشی کے عالم میں ایران کو امن و ثبات کا جزیرہ بتایا تھا لیکن امریکی حمایت کا کوئي فائدہ نہیں ہوا کیونکہ قرآن مجید کے بقول، کفر کی طاقت پر انحصار کا نتیجہ، شکست کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
انھوں نے پہلوی دربار میں امریکا کے حد سے زیادہ اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، طاغوت کے خلاف عوام کی جدوجہد کو براہ راست امریکا سے لڑائي بتایا اور کہا: 1964 میں امام خمینی کی جلاوطنی کا سبب، ان کی جانب سے کیپیچولیشن کے قانون پر اعتراض تھا جو ایران میں کسی بھی طرح کا جرم کرنے پر امریکیوں کو قانونی استثنی فراہم کرتا تھا اور ایرانی عوام نے اس طرح کے اثر و نفوذ کے خلاف قیام کیا اور ایران کو نجات دلائي جو ہمارے خلاف امریکا کی دشمنی کی بنیادی وجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں، 'ایام اللہ' اور تاریخی واقعات کی اہمیت کو کم کرنے کی باطل محاذ کی اسٹریٹیجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید کے برخلاف، جو سبھی کو ایام اللہ اور بڑے واقعات کو یاد رکھنے اور ان کا ذکر کرتے رہنے کی دعوت دیتا ہے، باطل محاذ چاہتا ہے کہ اس طرح کے ایام کی جانب سے ہدایت کا سلسلہ بند کر دے اور 11 فروری، 18 فروری، 9 جنوری اور 30 دسمبر، شہید قاسم سلیمانی کے جلوس جنازہ اور شہید محسن حججی کے جلوس جنازہ جیسے دنوں کی اہمیت کم کرنے یا ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش، اس کی مثالیں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق ذمہ داری کا فوری احساس، سنگدل اور خونخوار طاغوتی حکومت کے مقابلے میں جان جوکھم میں ڈالنا، بروقت اور بغیر کسی شک میں پڑے حرکت میں آ جانا قم کے عوام کے 9 جنوری کے قیام کی کچھ خصوصیات تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس اقدام اور تحریک میں یہ خصوصیات ہوں گي وہ یقینی طور پر اپنے مطلوبہ اہداف کو حاصل کرے گي۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مقدس دفاع کو ایرانی قوم کی جانب سے ذمہ داری کے احساس، بروقت اٹھ کھڑے ہونے اور خطروں سے نہ ڈرنے کے نتیجے کا درخشاں نمونہ بتایا اور کہا: بے عقل صدام نے امریکا، سوویت یونین، نیٹو اور رجعت پسند ممالک کی پشت پناہی اور بے تحاشا وسائل کے ساتھ ایران کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ کر دیا لیکن اس جنگ احزاب میں ایران فاتح رہا اور وہ ایران کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے اور ملک کی ایک انچ زمین بھی، اس سے علیحدہ نہیں ہوئي۔