بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ کی خدمت میں خیر مقدم عرض کرتا ہوں، برادران و خواہران عزیز، قم کے عزیز عوام کے ساتھ دوبارہ بالمشافہ ملاقات میرے لیے بڑی شیریں اور عمدہ ہے۔ میں فراموش نہیں کر سکتا، یعنی اس امام بارگاہ میں قم کے عوام کی آمد ہمیشہ میرے ذہن میں رہتی ہے کہ کس طرح وہ اشتیاق کے ساتھ، خوشی کے ساتھ، جذباتی انداز میں اور مختلف امور میں بصیرت کے ساتھ آيا کرتے تھے۔ ہم دو تین برس سے اس ملاقات سے محروم تھے، بحمد اللہ اس سال ہم پھر آپ کی خدمت میں ہیں۔

9 جنوری 1978 کے واقعے کی سالگرہ ہر سال منائي جاتی ہے، منائي جانی چاہیے، اسے جاری رہنا چاہیے، مستقبل میں بھی یہ نورانی سلسلہ جاری رہنا چاہیے، کیوں؟ اس لیے کہ یہ واقعہ، معمولی نہیں بلکہ ایک بڑی تبدیلی کا آغاز تھا۔ تاریخ کے تغیر آفریں واقعات کو زندہ  رکھنا، سبھی کی ذمہ داری ہے۔ میں عرض کروں گا کہ بڑے تاریخی واقعات میں، یا تو ایک بیش قیمتی تجربہ ہوتا ہے یا فطرت میں کسی سنت الہی کی تشریح ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک اقوام کے لیے قابل غور اور تاریخی استفادے کے قابل ہے، اس لیے انھیں زندہ رکھا جانا چاہیے۔

ہم کیوں کہتے ہیں کہ قم کا 9 جنوری کا قیام، ایک تاریخی تغیر آفریں واقعہ ہے؟ اس لیے کہ یہ ایک بڑے جہاد کی شروعات ہے۔ یہیں سے پورے ملک میں ایک بڑا جہاد شروع ہوا جس کا ہدف وطن عزیز کو مغرب کے جبڑے سے نکالنا تھا، ایران کو جو مغرب کے کج اور گمراہ کلچر اور اس کے سیاسی و عسکری تسلط کے پیروں تلے روند دیا گيا تھا، باہر نکالنا تھا، اسے خودمختار بنانا تھا، اس کی تاریخی پہچان کو بحال کرنا تھا۔ ایران کا تاریخی تشخص، اسلامی ایران سے عبارت ہے۔ صدر اسلام سے لے کر آج تک، کیا آپ کسی ایسی قوم کو جانتے ہیں جس نے مختلف علوم کے میدان میں، فلسفے کے میدان میں، فقہ کے میدان میں، مختلف علوم میں، ایرانیوں جتنی اسلام کی خدمت کی ہو؟ آپ مرحوم شہید مطہری کی اس دلچسپ اور گرانقدر کتاب، اسلام اور ایران کی باہمی خدمات کا مطالعہ کیجیے۔ ایران کی یہ اسلامی پہچان کھو گئي تھی، اگر کوئي آتا اور تہران کی سڑکوں پر چہل قدمی کرتا – صرف تہران ہی نہیں، بہت سے دوسرے شہر میں بھی، یہاں تک کہ ہمارے شہر مشہد جیسی جگہوں پر بھی – تو اسے محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے، یہاں مسلمان زندگي گزارتے ہیں، ایران کو ایسا بنا دیا گيا تھا۔

یہ جہاد جو شروع ہوا – جس کے پہلے شعلے نے قم سے سر ابھارا تھا – اس لیے تھا کہ ایران کو اس صورتحال سے نجات دلائے، اسے اس کی اصلی پہچان، حقیقی تشخص، تاریخی تشخص اور افتخار آمیز تشخص تک واپس لوٹا دے۔ البتہ ممکن ہے کہ جو لوگ، اس وقت اس واقعے کے مرکز میں تھے، انھیں اس کام کی اہمیت کا اندازہ نہ رہا ہو، انھوں نے ذمہ داری محسوس کی – اسے میں عرض کروں گا – میدان کے بیچ میں آ گئے۔ شاید ان کی توجہ نہیں تھی –کم از کم سبھی کی توجہ تو نہیں تھی– کہ وہ کیا کام کر رہے ہیں، کتنا عظیم قدم اٹھا رہے ہیں، وہ نہیں جانتے تھے لیکن اگر ہم تاریخی واقعات کی تعریف کرنا چاہیں تو ہمیں ان کے ماضی اور مستقبل پر توجہ دیتے ہوئے، تعریف کرنی چاہیے۔ قم کا واقعہ، کس چیز کی وجہ سے وجود میں آیا اور اس کے کیا کیا نتائج برآمد ہوئے، یہ چیز واقعے کی اہمیت اور اس واقعے کی قدروقیمت کو نمایاں کرتی ہے۔ تو یہ قم کا 9 جنوری کا واقعہ ہے۔

واقعہ، بہت بڑا ہے، اسے زندہ رہنا چاہیے، اس واقعے کو تاریخ کے حافظے سے نہ تو محو ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کا رنگ پھیکا پڑنا چاہیے۔ البتہ باطل محاذ کی اسٹریٹیجی، ایام اللہ پر پردہ ڈالنا یا اس طرح کے واقعات کی اہمیت کو کم کرنا ہے۔ باطل محاذ کی کوشش یہ ہے کہ اس طرح کے دن، اس طرح کے واقعات زندہ نہ رہیں اور اجالا نہ بکھیریں۔ باطل محاذ کی نظر میں ان ایام کو زیادہ تر چھپا دیا جاتا ہے یا ان کا انکار کر دیا جاتا ہے، بات انکار کی حد تک بھی پہنچ جاتی ہے! 11 فروری کے واقعے کو چھپایا جاتا ہے، 4 نومبر، 9 جنوری اور 30 دسمبر، 18 فروری – تبریز کا واقعہ – شہید قاسم سلیمانی کے جلوس جنازہ کا دن اور شہید محسن حججی کے جلوس جنازہ کا دن، یہ سب ایام اللہ ہیں، وہ ان سب کو چھپانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ہر واقعہ ایک مشعل کی طرح ہے جسے باطل محاذ کی رائے میں بجھا دینا چاہیے۔ باطل محاذ، جو آپ کے مقابلے میں، اس قوم کے مقابلے میں، اس انقلاب کے مقابلے میں کھڑا ہے، ان مشعلوں کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ان کا گلا گھونٹ دے، ان مشعلوں کو بجھا دے۔ یہ پوری طرح سے قرآن مجید کے برخلاف ہے۔ قرآن ہمیں اس طرح کے واقعات کو یاد رکھنے اور ان کا ذکر کرنے کا حکم دیتا ہے: وَ اذکُر فِی الکِتابِ مَریَمَ اِذِ انتَبَذَت مِن اھلِھا مَکاناً شَرقیّا(1) حضرت مریم کا اہم واقعہ طاق نسیاں کی زینت نہ بنے، اسے تاریخ میں باقی رہنا چاہیے۔ وَ اذکُر فِی الکِتابِ اِبراھیم(2) وَ اذکُر فِی الکِتابِ موسیٰ(3) وَ اذکُر عَبدَنا اَیّوب(4) وَ اذکُر عَبدَنا داودَ ذَا الاَید(5) وَ اذکُر اَخا عادٍ اِذ اَنذَرَ قَومَہُ بِالاَحقاف(6) قرآن میں ایسے شاید دسیوں یا اس سے بھی زیادہ مواقع کا ذکر ہے: وَ اذکُر، وَ اذکُر۔ بعض جگہوں پر جہاں وہ چھپاتے تھے تو خدا کے پیغمبر کو ذمہ داری دی جاتی تھی کہ وہ ان کی زبان سے یہ بات نکلوائيں۔ وَاسئَلھُم عَنِ القَریَۃِ الَّتی کانَت حاضِرَۃَ البَحر(7) تم سنیچر کے روز کے واقعے کو چھپا رہے ہو؟ ان سے اس دھوکے بازی کے معاملے کے بارے میں پوچھیے جو وہ خدا کے ساتھ کرنا چاہتے تھے، خدا کو فریب دینا چاہتے تھے اور خداوند عالم نے تمھیں بندروں اور سؤوروں میں تبدیل کر دیا۔ تم چاہتے ہو کہ ہم بھول جائیں اور ہم نہ جان پائيں؟ وَاسئَلھُم عَنِ القَریَۃِ الَّتی کانَت حاضِرَۃَ البَحر، ان سے پوچھیے اور جواب طلب کیجیے، یہ قرآن کی منطق ہے۔

تو یہ واقعات، جیسا کہ میں نے عرض کیا، ایک تاریخی تجربے کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں، کہ اگر تم نے اللہ کے ساتھ مکر و حیلہ کرنا چاہا تو وَ اللہُ خَیرُ الماکِرین‌(8) خداوند متعال تم سے زیادہ مکر کر سکتا ہے: اِنَّھُم یَکیدونَ کَیدًا * وَ اَکیدُ کَیدًا(9) ٹھیک ہے، اب جب تم خدا کے میدان میں اتر رہے ہو تو خدا مالک الملک ہے، یہ ایک تجربہ ہے جو انسان کی تاریخی زندگي میں سامنے آيا ہے۔ اس زمانے میں زندگي گزارنے والے مجھ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے، یہ سمجھ میں آنا چاہیے، اصحاب سبت (سنیچر والے لوگوں) کے ساتھ جو تجربہ پیش آيا، مجھے معلوم ہونا چاہیے اور مجھے وہ کام نہیں کرنا چاہیے جو انھوں نے کیا تھا۔ یا ان واقعات میں ایک سنت الہی نہاں ہوتی ہے۔ جب کچھ لوگ قیامت کا انکار کر دیتے ہیں تو اصحاب کہف کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ خداوند عالم کچھ لوگوں کو تین سو سے زیادہ برس تک سلا دیتا ہے، پھر انھیں جگاتا ہے اور بتاتا ہے کہ دیکھو اس طرح ہوتا ہے۔ یا دوسرے بہت سے واقعات جو قرآن مجید میں ہیں۔ قرآن مجید میں غوروفکر، ہمیں ان میں سے بہت سے حقائق تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہماری زندگي کے اس دور میں ہمارے راستے کا چراغ بن سکتی ہیں۔ ہماری ایک شروعات ہے اور ایک اختتام ہے، اس مدت میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے، کام کرنا چاہیے۔ اتفاق سے ہمارا زمانہ حساس اور اہم ہے۔ یہ زمانہ، جس میں ہم اور آپ زندگي گزار رہے ہیں، خاص طور پر آپ نوجوانوں کو اسے بہت اہمیت دینی چاہیے، یہ حساس اور اہم زمانہ ہے۔ ان الہی سنّتوں سے جتنا زیادہ ہو سکے فائدہ اٹھائيے۔ تو واقعے کی اہمیت یہ ہے۔

خود 9 جنوری کے واقعے میں بہت سے سبق ہیں۔ قم کے عزیز عوام سے (ملاقات میں) جو میری گفتگو رہی ہے ان میں، میں نے ان میں سے بعض واقعات کے بارے میں کچھ اشارے کیے ہیں لیکن اگر کوئي اس واقعے پر ایک گہری اور جامع نظر ڈالے تو وہ سمجھ جائے گا کہ یہ بڑا ہی عجیب واقعہ ہے، ایسا واقعہ ہے، جس میں بہت سے سبق ہیں۔ معاملہ اس طرح شروع ہوتا ہے – یہ باتیں تو آپ جانتے ہی ہیں، یہ باتیں تو سبھی جانتے ہیں - خود دربار یعنی طاغوتی (شاہی) حکومت کے سب سے اعلی سطح کے حکم سے یعنی وسطی اور نچلی سطح کے افراد کے حکم سے نہیں، بلکہ سب سے اعلی سطح کے حکم سے امام خمینی کے خلاف، جو جلاوطنی کی زندگي گزار رہے تھے اور نجف میں تھے اور کچھ ہی عرصے پہلے ان کے فرزند شہید ہوئے تھے، دنیا سے رخصت ہوئے، ایک اہانت آمیز مقالہ شائع کیا گیا۔ امام خمینی کے محترم اور معزز فرزند الحاج مصطفی خمینی کے گزر جانے پر لوگ امام خمینی سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کر رہے تھے - ان لوگوں نے سوچا کہ کچھ کرنا چاہئے۔ لیکن حماقت کر دی اور اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے لیے مشکل پیدا کر دی اور ایک مقالہ شائع کروا دیا۔ فَاَتاھُمُ اللہُ مِن حَیثُ لَم یحتَسِبوا(10) انھیں ایسی جگہ سے تھپڑ پڑا، جس جگہ کے بارے میں انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔

خیر تو مقالہ شائع ہو گيا۔ عام طور پر دو بجے دن میں یہ اخبار شائع ہوتا تھا اور تہران سے قم پہنچنے میں مثال کے طور پر دو گھنٹے لگتے تھے۔ یہ کب کی بات ہے؟ 7 جنوری کی۔ جیسے ہی یہ اخبار قم پہنچا اور لوگوں نے اس مقالے کو دیکھا تو کچھ لوگ باہر نکل آئے، مطلب واقعے کی شروعات 7 جنوری سے ہوئي۔ لوگوں نے فورا ردعمل دکھایا، سڑکوں پر نکل آئے، کچھ لوگوں نے اس اخبار کی کاپیاں نذر آتش کیں، نفرت کا اظہار کیا، یہ 7 جنوری کی بات ہے۔ 8 جنوری کو دینی طلبہ کی باری ہے۔ انھوں نے اپنی کلاسیں بند کر دیں، سڑکوں پر نکل آئے اور اجتماعی طور پر مراجع کرام کے گھروں کی طرف بڑھے۔ رات تک طلبہ کا احتجاج جاری رہا اور اس ایک دن میں کئي بار شاہی حکومت کے فوجیوں اور کارندوں سے ان کی جھڑپ ہوئي۔ 9 جنوری، واقعے کا اصلی دن ہے، لوگ میدان میں آ گئے، جوان آ گئے، کاروباری آ گئے، عام لوگ آ گئے، سبھی آ گئے۔ طاغوتی حکومت، لوگوں کی سرکوبی کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھی، وہ لوگ بھی میدان میں آ گئے، کچھ لوگوں کو شہید کیا، کچھ کو زخمی کیا، کچھ کو زدوکوب کیا، آخرکار اس دن کا واقعہ کچھ لوگوں کے شہید ہونے وغیرہ پر ختم ہوا لیکن اصل میں وہ واقعہ ختم نہیں ہوا، شروع ہوا، یہ شروعات تھی۔ اصل واقعہ میں نے آپ کو بتا دیا۔

اس کام سے قم، انقلاب کا سرخیل بن گيا۔ قم کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے انقلاب کا پہلا لہراتا ہوا عملی پرچم اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے۔ البتہ تحریک کے آغاز میں بھی - تحریک سنہ 62 میں شروع ہوئي، اس تاريخ سے پندرہ سال پہلے - قم والے دوسروں سے آگے تھے لیکن اس وقت ابھی مسئلہ اتنا پختہ اور نتیجہ خیز نہیں ہوا تھا لیکن یہاں پر انقلاب کی شروعات میں اور انقلاب کی بڑی پیش قدمی میں قم والے علمبردار بن گئے، سب سے آگے آگے رہے، اس لیے کہ وہ مومن تھے، اس لیے کہ وہ خدا کے لیے میدان میں آئے تھے۔ اگر خدا کے لیے نہ ہو تو انسان کس طرح گولی کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگا؟ کیا اللہ تعالی کے وجود کی حقیقت اور خداوند متعال کے حق پر عقیدے کے بغیر کوئي اس طرح اتنے بڑے خطرے میں خود کو ڈال سکتا ہے؟ چونکہ وہ مومن تھے، چونکہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے اس لیے اللہ نے ان کے کام میں برکت عطا کی۔ یہ کام ایک دن، دو دن، تین دن میں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، شروع ہوا اور بظاہر ختم ہو گيا لیکن ختم ہوا نہیں، اس نے پورے ملک میں شعلے بھڑکا دیے، پہلے تبریز میں اور پھر دوسری جگہوں پر۔

اس واقعے میں کچھ نکات پائے جاتے ہیں جن میں سے تین چار نکات میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ہمارے لیے سبق ہیں۔ دیکھیے، ہم ایک عجیب زمانے میں زندگي گزار رہے ہیں، اب کوئي بالکل صحیح صحیح تو اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن واقعی یہ مبالغہ نہیں ہوگا کہ اگر ہم کہیں کہ ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ، ان شروعاتی دنوں کی نسبت آج سیکڑوں گنا زیادہ پیشرفتہ، مضبوط، آگاہ، بابصیرت ہے اور امور پر کنٹرول رکھتی ہے۔ آج دنیا کے حالات بھی، ان دنوں سے بہت زیادہ الگ ہیں، دنیا میں عجیب حالات حکم فرما ہیں، کچھ چیزیں جو ناقابل یقین تھیں، آج وہ عملی جامہ پہن رہی ہیں، مغربی دنیا میں، مشرقی دنیا میں، دنیا کے مشرقی کونے میں، دنیا کے مغربی کونے میں، شمالی نصف کرہ ارض میں، جنوبی نصف کرہ ارض میں، ہر جگہ۔ دنیا میں کچھ عجیب ہی حالات ہیں، آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس دن کے ان تجربات سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے، یہ تجربات بوسیدہ نہیں ہوتے۔

پہلا نکتہ، تیزی سے کام کرنا ہے۔ قم کے عوام نے بہت جلدی ذمہ داری محسوس کر لی۔ کبھی ہماری مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہم ذمہ داری کو جلدی سمجھ نہیں پاتے، کوئي آئے، بیٹھے، ہم سے بات کرے، دلیل پیش کرے اور ایسی ہی دوسری باتیں، وقت گزر جاتا ہے۔ ذمہ داری سمجھنے میں قم کے عوام کا تیزی سے کام کرنا، ایک اہم تجربہ ہے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ اس طرح کی حرکت ہو رہی ہے تو وہ سمجھ گئے کہ انھیں کیا کرنا ہے، وہ میدان میں آ گئے، دکاندار آ گيا، بازار میں کام کرنے والا آ گیا، دینی طالب علم آ گيا، علماء و فضلاء آ گئے، اعلی دینی تعلیمی مراکز کی اہم شخصیات میدان میں آ گئيں، عام لوگ میدان میں آ گئے، ان لوگوں نے بڑی تیزی سے اپنی ذمہ داری محسوس کر لی۔

دوسرا نکتہ، قم کے لوگوں نے اس کام کے خطروں کو - وہ ان خطروں کو جانتے اور پہچانتے تھے - دل و جان سے قبول کیا اور ان کا سامنا کیا۔ یہ بات واضح ہے کہ جب آپ طاغوتی حکومت جیسی کسی حکومت میں، جو انتہائي ظالم، بے رحم اور سنگدل ہو، سڑک پر آئيں گے تو اس میں خطرہ ہے۔ اس حکومت کی سنگدلی ہم نے دیکھی تھی اور عوام نے دیکھی تھی، 5 جون کے واقعے میں دیکھی تھی، بعد کے واقعات میں دیکھی تھی۔ اسی قم میں 22 مارچ 1963 کے مدرسۂ فیضیہ کے واقعے کے علاوہ بھی اسی مدرسے میں 1975 میں ایک دوسرا بڑا اور اہم واقعہ رونما ہوا تھا۔(11) لوگوں نے یہ سب دیکھا تھا، ایسا نہیں تھا کہ وہ ان چیزوں کی طرف سے غافل تھے، وہ خطروں کو جانتے تھے لیکن انھوں نے خطروں کو دل و جان سے قبول کیا، میدان میں آ گئے۔ بغیر رسک لیے اور بغیر جان جوکھم میں ڈالے، بڑے کام شروع نہیں کیے جا سکتے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ انھوں نے بروقت قدم اٹھایا۔ دیکھیے! میں نے مختلف موقعوں پر بارہا یہ بات عرض کی ہے کہ ایک پروڈکشن لائن میں ممکن ہے کہ بیس مزدور ایک لائن میں کھڑے ہوں، یہ صنعتی پروڈکٹ، اس لائن پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ان میں سے ہر مزدور کو اپنا ایک خاص کام کرنا ہے، کوئي ہتھوڑا مارے گا، کوئي کسی پیچ کو گھمائے گا، کوئي کسی چیز کو رکھے گا، کوئي کسی چیز کو اٹھائے گا، انھیں ہر کام اس کے خاص لمحے میں کرنا ہوگا۔ اگر وہ پروڈکٹ - آپ ان بیس مزدوروں میں سے ایک ہیں جو پروڈکٹ لائن کے پیچھے کھڑے ہیں - آپ کے سامنے سے گزر گيا اور آپ نے دس سیکنڈ بعد وہ کام کرنا چاہا تو وہ کام تو ختم ہو گيا۔ اسی لمحے میں انجام دینا چاہیے۔ توابین، امام حسین علیہ السلام کے پاکیزہ خون کے انتقام کے لیے آ کر لڑے، مارے  گئے، سبھی مارے گئے لیکن تاریخ میں ان کی ستائش نہیں کی جاتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ دیر میں کھڑے ہوئے۔ اگر آپ اپنا خون امام حسین کی راہ میں بہانا چاہتے تھے تو پہلی محرم کو، دوسری محرم کو کیوں نہیں آئے کہ کم از کم کچھ تو کرتے؟ وہاں کھڑے ہو کر آپ دیکھ رہے ہیں، جب امام حسین شہید ہو جاتے ہیں تب آپ تڑپ جاتے ہیں اور پھر میدان میں آتے ہیں! کام کو وقت پر انجام نہ دینے کا نتیجہ یہ ہے۔ کام کو بروقت انجام دینا چاہیے۔

عقل اور شریعت نے ہمارے کندھوں پر جو ذمہ داری رکھی ہے اس کے سلسلے میں ہمیں غفلت نہیں کرنی چاہیے، بلاتاخیر میدان میں آ جانا چاہیے۔ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ پھر اس کام کی اہمیت کے حساب سے خطروں کا سامنا کرنا چاہیے۔ بہرحال ہر واقعے میں، انسان کو ہر رسک نہیں لینا چاہیے، کچھ واقعات ہوتے ہیں جن کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی کہ انسان اپنی جان جوکھم میں ڈالے۔ واقعے کی اہمیت کی نسبت سے ہی، میدان میں آنے کے خطروں کا سامنا کرنا چاہیے۔ مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب ہم ان ذمہ داریوں میں خلل ڈال دیتے ہیں: فورا ذمہ داری محسوس نہیں کرتے، بروقت میدان میں نہیں آتے، خطروں کو دل و جان سے قبول نہیں کرتے، ٹال مٹول کرتے ہیں! ایسا ہوتا ہے۔

اگر ہم نے ان شرطوں پر عمل کیا تو پیشرفت یقینی ہے، اس میں بالکل شک نہ کیجیے۔ اس کی مثال مقدس دفاع کا زمانہ ہے۔ میں کئي بار کہہ چکا ہوں، ایک بار پھر سفارش کروں گا کہ مقدس دفاع یا دفاع حرم کے شہیدوں کے اہل خانہ کی زندگي کے حالات پڑھیے، دیکھیے انھوں نے کتنی سختیاں برداشت کی ہیں۔ یہ نوجوان، اپنی پیاری زوجہ اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی بیٹی یا بیٹے کو چھوڑ دیتا ہے اور ذمہ داری اور فریضہ ادا کرنے چلا جاتا ہے۔ مقدس دفاع میں ہزاروں لوگ اس طرح گئے، میدان میں پہنچ گئے، تو نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صدام جیسا کوئي پاگل بے پناہ وسائل کے ساتھ میدان میں آ جاتا ہے، امریکا اس کی مدد کرتا ہے، یورپ اس کی مدد کرتا ہے، نیٹو اس کی مدد کرتا ہے، سوویت یونین اس کی مدد کرتا ہے بنیاد پرست عرب ممالک اس کی مدد میں پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں، لیکن وہ ایران کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا اور ذلت کے ساتھ شکست کھا کر پسپا ہو جاتا ہے۔ جب ہمارے پاس میدان میں، مقدس دفاع کے زمانے کے جوانوں کی طرح کے جوان ہیں جو اللہ پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور امام خمینی جیسا انسان ان کے ہاتھوں اور بازوؤں کو بوسہ دیتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پیشرفت یقینی ہے۔ جی ہاں! جنگ احزاب تھی اور اس جنگ احزاب میں ایران فاتح رہا۔ یعنی دنیا کی تمام طاقتوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا تاکہ ایران کے ٹکڑے کر سکیں، خوزستان کو الگ کر سکیں، فلاں جگہ کو الگ کر سکیں لیکن وہ ملک کی ایک انچ زمین کو بھی الگ نہیں کر سکے، کیا یہ معمولی بات ہے؟ کیا یہ چھوٹی فتح ہے؟ جب ہم آگے بڑھتے ہیں، ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، میدان میں آتے ہیں تو نتیجہ یہی تو ہوتا ہے؟ یہ ہمارا تجربہ ہے۔

قم کے 9 جنوری کے اس واقعے میں ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ طاغوتی حکومت نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام، اس عظیم شخصیت سے اتنا زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں، کیوں اتنی جرئت کی اور یہ کام انجام دیا؟ اس لیے کہ اسے امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی۔ وَ اتَّخَذوا مِن دونِ اللہِ آلِھۃً لَعَلَّھُم یُنصَرون* لا یَستَطیعونَ نَصرَھُم وَ ھُم لَھُم جُندٌ مُحضَرون(12) اسے کارٹر کی پشت پناہی حاصل ہے۔ قم کے اس واقعے سے کچھ دن پہلے کارٹر نے یہاں شاہ سے ملاقات کی تھی(13) دونوں نے مے نوشی کی اور کارٹر نے نشے کے عالم میں شاہ کی تعریف کی، زمین و آسمان کے قلابے ملائے۔ کہا کہ یہ امن کا جزیرہ ہے وغیرہ وغیرہ، تو شاہ کو کارٹر کا سہارا تھا۔ جب اس طرح کے غلط سہارے ہوتے ہیں تو نتیجہ یہی ہے، وہ اس کے کام نہیں آتا، لا یَستَطیعونَ نَصرَھُم، جو لوگ کفر کی طاقت پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں - دیکھیے میں یہ نہیں کہتا کہ کفر کی طاقت سے رابطہ نہ رکھیں، نہیں! ہمارے بھی کفر کی طاقت سے روابط ہیں – لیکن اگر خدا کے علاوہ کسی بھی طاقت آس لگا کر بیٹھ گئے تو اس کا نتیجہ یہی ہے۔ یہ اُس طرف کی بات ہے۔

اِس طرف لوگ طاغوتی حکومت سے لڑ رہے تھے لیکن درحقیقت وہ امریکا سے لڑ رہے تھے، دراصل کارٹر سے لڑ رہے تھے۔ اس وقت کے ایران میں امریکا کی موجودگي ایک عجیب و غریب چیز ہے۔ میرے خیال میں آپ عزیز نوجوانوں کو، جو یہاں تشریف رکھتے ہیں اور آپ نے ان دنوں کو نہیں دیکھا ہے اور شاید آپ میں سے بعض نے کتابوں میں پڑھا ہوگا جبکہ زیادہ تر نے کتابوں میں بھی نہیں پڑھا ہوگا، افسوس کہ ہمارے بچے کم مطالعہ کرتے ہیں، پتہ نہیں ہوگا کہ امریکا کا اثرورسوخ کتنا تھا، امریکا ملک کے تمام حالات اور امور پر حاوی تھا۔

دیکھیے، سنہ 1965 میں - 9 جنوری کے واقعے سے تیرہ سال پہلے اور انقلاب کی کامیابی سے چودہ سال پہلے - امام خمینی کو قم سے جلاوطن کر دیا گيا، کیوں انھیں جلاوطن کیا گيا؟ امام خمینی نے ایک تقریر کی تھی، اس تقریر میں امام خمینی نے کیا کہہ دیا تھا؟ انھوں نے اس تقریر میں کیپیچولیشن یعنی ایران میں امریکیوں کو ملنے والے قانونی استثنی کے بارے میں بات کی تھی، امریکیوں پر یلغار کی تھی۔ اس تقریر میں انھوں نے کہا تھا – ان کی بات کا مفہوم یہ ہے – کہ اگر ایران کا شاہ، سڑک پر ایک امریکی کتے کو کچل دے تو اس پر مقدمہ چلایا جائے گا لیکن اگر ایک امریکی باورچی، سڑک پر ایران کے شاہ کو کچل دے تو کسی کو اس پر مقدمہ چلانے کا حق نہیں ہے! کیپیچولیشن یہ ہے۔ امام خمینی نے اس پر تنقید کی تھی۔ انھوں نے اداروں کو پھٹکارا تھا۔ امام خمینی کو ان باتوں کے لیے جلاوطن کر دیا گيا! ان کی جلاوطنی تیرہ سال تک جاری رہی لیکن در حقیقت انھیں تاعمر جلاوطن کیا گيا تھا، ان کی نظر میں یہ جلاوطنی، عمر بھر کی تھی۔ بحمد اللہ انقلاب کامیاب ہوا اور امام خمینی تیرہ سال بعد وطن واپس لوٹے۔ آپ دیکھیے کہ اس ملک میں امریکا کا اثر و رسوخ اس حد تک تھا۔ تو عوام اس طرح کے اثر و رسوخ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، ملک میں اس طرح کا اثر و رسوخ رکھنے والے طاقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

قم کے اس واقعے کے سلسلے میں، میں ایک اور نکتہ عرض کروں کہ چاہے اس واقعے میں اور چاہے اس واقعے کے نتیجے میں سامنے آنے والے واقعات میں، بہت زیادہ دعوی کرنے والے اور عوامی مقبولیت نہ رکھنے والے افراد، گروہ اور دھڑے، اثر و رسوخ حاصل نہیں کر سکے، یہ بہت اہم بات ہے۔ یہاں آئینی تحریک کی طرح نہیں ہوا، آئینی تحریک علماء نے شروع کی تھی، آمریت کے خاتمے کے لیے شروع کی تھی، اس تحریک میں کچھ نامناسب اور غلط لوگ بھی شامل ہو گئے، انھوں نے اس کا راستہ برطانوی سفارتخانے کی طرف موڑ دیا۔ اس مطالبے کے لیے، جو عام لوگوں کا تھا، برطانوی سفارتخانہ ذریعہ بن گيا۔ جب غلط لوگ کسی تحریک میں داخل ہو جاتے ہیں تو یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ قم کی تحریک میں، ایسا نہیں ہوا، اس تحریک کے ساتھ چلنے والے دھڑے میں ایسا نہیں ہوا۔ سبھی، یہاں تک کہ جو لوگ مخالف تھے، وہ بھی مرعوب ہو گئے، عوام سے، اس عظیم تحریک سے، امام خمینی کی دہاڑ سے مرعوب ہو گئے۔ انسان نجف میں دینی درس کی نشست میں بیٹھے اور اس طرح دہاڑے کہ پوری دنیا لرز جائے! ہم نے امام خمینی کو کماحقہ نہیں پہچانا، ان کی شخصیت کو صحیح طرح سے نہیں پہچانا۔ یہ وہ تحریک تھی جس میں اغیار شامل نہیں ہو سکے، وہ اس سے مرعوب ہو گئے۔ یہاں تک کہ جو لوگ مخالف تھے – ایران میں کمیونسٹ بھی تھے، دوسرے لوگ بھی تھے جن کے دل اس تحریک کے ساتھ نہیں تھے – نہ ان میں اتنی ہمت ہوتی تھی کہ وہ مخالفت کریں اور نہ ہی اس تحریک میں شامل ہونے کی ہمت ہوتی تھی کیونکہ عوام کی تحریک، ایک عظیم تحریک تھی۔ یہ چیزیں جو میں عرض کر رہا ہوں، یہ میرے ذاتی تجربات کا حصہ ہیں، جو میں نے قریب سے دیکھا ہے اور جو کچھ میں جانتا ہوں، اسے آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں۔

تو وہ کیوں اس تحریک میں اثر و رسوخ پیدا نہیں کر سکے؟ خود یہ بات بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ کیوں دوسرے دھڑے اس میں داخل نہیں ہو سکے، خلل نہیں ڈال سکے، اثر و رسوخ پیدا نہیں کر سکے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس تحریک کے سرکردہ لوگ، اس تحریک کی قیادت کرنے والے افراد، دینی شخصیات تھیں، مذہبی شخصیات پوری ہمت اور جرات کے ساتھ میدان میں آ گئي تھیں۔ تمام شہروں میں – تہران میں، قم میں، دوسری جگہوں پر، ہمارے مشہد میں بھی – بڑے بڑے علماء، اہم مذہبی شخصیات، میدان میں آ گئيں اور وہ پرچم بن گئيں۔ مختلف شہروں میں ہم نے انھیں دیکھا۔ کچھ علماء، جنھیں ادھر ادھر جلاوطن کر دیا گيا تھا، جس جگہ وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، اس جگہ کو اپنے ساتھ کر لیا، اپنی باتوں سے انھوں نے سبھی کے دلوں کو اپنی طرف موڑ دیا۔

تو اسلامی انقلاب اور یہ عظیم تحریک، جو قم سے شروع ہوئي، ایران کو امریکا کے تباہ کن اور خونریز پنجوں سے نجات دلانے میں کامیاب ہوئي۔ صحیح ہے کہ یہ تحریک، شاہ مخالف، دربار مخالف اور گمراہ اور خبیث پٹھو حکومت کے خلاف تھی اور بحمد اللہ اس نے، اس کا تختہ بھی پلٹ دیا لیکن اس نے درحقیقت ایران کو، امریکا کے حلق سے باہر کھینچ لیا۔ یہ بات کہنے کے پیچھے میرا ایک مقصد ہے۔ ایران کو امریکا کے چنگل سے باہر نکال لیا اور یہی بات، ایران سے امریکا کی دشمنی کی وجہ بنی۔ دیکھیے یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں واقعہ اس بات کا سبب بنا کہ امریکی ہمارے دشمن بن جائیں، غلط ہے! بعض لوگ چالیس سال بعد بھی کہتے ہیں کہ کیوں امریکیوں کو اپنا دشمن بناتے ہو؟ ہم اسے اپنا دشمن بنا رہے ہیں؟! وہ چالیس سال سے دشمنی کر رہا ہے، ہمارے خون کا پیاسا ہے! آپ کہتے ہیں، ہم امریکا کو اپنا دشمن بنا رہے ہیں!

امریکیوں نے پہلے ہی دن سے دشمنی شروع کر دی تھی۔ ایک دستاویز حال میں شائع ہوئي ہے – جسے مجھے لا کر دیا گيا ہے، بظاہر کچھ ہی ہفتے پہلے – امریکا کے ایک معتبر اور مؤقر ادارے نے، جو اہم دستاویزات کو غالبا تیس چالیس سال بعد شائع کرتا ہے، ایک دستاویز شائع کی ہے جس میں کہا گيا ہے کہ دسمبر 1979 میں یعنی ہمارے انقلاب کی کامیابی کے تقریبا دس مہینے بعد – انقلاب فروری 1979 میں کامیاب ہوا تھا – یہ دسمبر کی بات ہے، تقریبا دس مہینے بعد کارٹر نے سی آئي اے کو ایک حکم دیا تھا۔ وہ حکم یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کرو۔ یہ اس وقت کی بات ہے، یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائي دنوں کی، امریکی صدر سی آئي اے کو،– شاید اس نے کوئي آشفتہ خواب دیکھا ہوگا - اسلامی جمہوریہ ایران کو سرنگوں کرنے کا حکم دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس وسیلے اور حربے سے اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کرو۔

امریکی صدر نے اس کے لیے جو پہلا نکتہ بتایا تھا، وہ پروپیگنڈا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈا کرو۔ کیا آپ کو یہ پالیسی جانی پہچانی نہیں لگتی؟ اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈا، دنیا میں پروپیگنڈا، رائے عامہ میں پروپیگنڈا، ملک کے اندر پروپیگنڈا۔ یہ وہ کام تھا جو اُس وقت ان لوگوں نے شروع کیا، پروپیگنڈا۔ البتہ صرف پروپیگنڈا ہی نہیں تھا، پابندی بھی تھی، جاسوسی بھی تھی، دراندازی بھی تھی، فوجی بغاوت کے لیے راہ ہموار کرنا بھی تھا، یہ چیزیں بھی تھیں لیکن امریکی صدر نے سب سے پہلے پروپیگنڈے کا نام لیا۔ یہ آج تک جاری ہے، سنہ 1979 سے لے کر آج تک، تینتالیس سال ہو گئے ہیں کہ امریکا کی یہ پالیسی جاری رہے، اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کرنے کے ٹارگٹ کی پالیسی۔ کس چیز کے ذریعے؟ پابندی کے ذریعے، اثر و رسوخ کے ذریعے، زیادہ سے زیادہ دباؤ کے ذریعے، ایران مخالف اتحادوں کی تشکیل، ایران دشمنی، اسلام دشمنی اور شیعہ دشمنی جیسے اقدامات کے ذریعے اور ان میں سرفہرست، پروپیگنڈے کے ذریعے۔ اس وقت تینتالیس سال ہو چکے ہیں کہ امریکی یہ کام کر رہے ہیں اور آج تک یہ کام ہو رہا ہے۔

البتہ یہ بھی واضح ہے کہ دشمن اپنے منحوس ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ان برسوں کی اسلامی جمہوریہ کہاں اور مضبوط جڑوں کے ساتھ آج کی اسلامی جمہوریہ کہاں جس کی جڑیں نہ صرف ملک میں بلکہ علاقے تک میں پھیلی ہوئي ہیں! آج خدا کے فضل و کرم اور اس کی مدد سے اسلامی جمہوریہ کا جو استحکام ہے، اس کا، اُس زمانے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان لوگوں نے ہمیں نقصان پہنچایا، ان کاموں سے ہماری رفتار دھیمی پڑی، ہم اس سے کہیں آگے ہو سکتے تھے۔ انھوں نے جرائم کیے۔ آٹھ سال ہم پر جنگ مسلط رکھی، یہ جرم ہے۔ ایک ملک جو آٹھ سال تک اپنی تمام فورسز کو اپنے دفاع میں لگائے رکھے، یہ فورسز، تعمیرات میں استعمال ہو سکتی تھیں، ملک کو آگے بڑھا سکتی تھیں، غربت کو جڑ سے ختم کر سکتی تھیں۔ صرف مسلط کردہ جنگ نہیں ہے، دباؤ ہے، پابندی ہے، یہ سب مؤثر ہیں، یہ سب مؤثر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ خباثتیں کیں تاکہ اسلامی جمہوریہ کی رفتار کو کند کر سکیں۔

تو کیا ہم رفتار کی اس کندی کی تلافی کر سکتے ہیں؟ جی ہاں! میرا ماننا ہے کہ ہم تلافی کر سکتے ہیں۔ ہمیں زیادہ کام کرنا ہوگا، بہتر طریقے سے مینجمنٹ کرنا ہوگا، انتھک مجاہدت کرنی ہوگي، اس کا راستہ یہ ہے۔ ہم تلافی کر سکتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ خداوند عالم کی توفیق سے بعض میدانوں میں یہی کام ہوئے ہیں۔ یہ کام علمی و سائنسی شعبوں میں ہوئے ہیں، دفاعی شعبوں میں ہوئے ہیں، پیداوار کے بہت سے میدانوں میں ہوئے ہیں اور انجام پانے والے ان کاموں کی تفصیل بڑی لمبی ہے۔ جہادی کام کی برکت سے، کام کرنے والوں کے ایمان اور عقیدے کی برکت سے، دن رات کام کرنے کی برکت سے بڑے بڑے کام انجام پائے ہیں۔ تمام شعبوں اور تمام میدانوں میں یہ کام ہونا چاہیے، ہم کر سکتے ہیں۔

یہیں پر میں حالیہ ہنگاموں کے بارے میں ایک اشارہ کرتا چلوں۔ حالیہ ہنگاموں اور بلوؤں میں بھی غیر ملکی دشمن کا ہاتھ پوری طرح عیاں تھا جس کا کچھ لوگوں نے انکار کیا۔ جیسے ہی ہم کہتے ہیں 'غیر ملکی دشمن' تو کسی دھڑے کو، کسی شخص کو، کسی گروہ کو یا کسی حکومت کو زمیں بوس کرنے کے لیے وہ فورا ہی اس کا انکار کر دیتے ہیں، یعنی وہ کہتے ہیں کہ جی نہیں، آپ کی غلطفہمی ہے لیکن نہیں، غیر ملکیوں کا ہاتھ واضح تھا، عیاں تھا۔ امریکی، یورپ والے، مختلف یورپی ممالک کسی نہ کسی طرح اس معاملے میں شامل تھے، چھپ کر نہیں، کھل کر اور واضح طور پر۔ پتہ چل گيا کہ کون لوگ اس معاملے میں شامل ہیں، حالیہ ہنگاموں میں بھی ایسا ہی تھا۔ ان  چیزوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے کام کا بھی سب سے اہم حصہ پروپیگنڈا تھا، یہاں بھی دشمن کے کام کا سب سے اہم حصہ، پروپیگنڈا تھا۔ مِن شَرِّ الوَسواسِ الخَنّاسِ * اَلَّذی یُوَسوِسُ فی صُدورِ النّاسِ * مِنَ الجِنَّۃِ وَ النّاس(14) وسوسہ صرف جنوں کا نہیں ہوتا، انسان بھی وسوسہ ڈالتے ہیں۔ آپ نے سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کو، مغربی، عرب اور اسرائيلی میڈیا سمیت غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو دیکھا ہی۔ بنابریں یہاں بھی پہلا کردار، پروپیگنڈے کا تھا۔

خیر، کچھ لوگ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے اور غیر ملکی، اپنے پروپیگنڈوں میں یہی ظاہر کر رہے تھے کہ یہ ہنگامے جن میں کچھ لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، کسی جگہ شیشے توڑ دیتے ہیں، کہیں کوڑے دان کو آگ لگا دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ، یہ لوگ ملک میں موجود خامیوں کے مخالف ہیں، انتظامی کمزوریاں، معاشی کمزوریاں اور دوسری کمزوریاں! بالکل نہیں! میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ بات اس کے بالکل برخلاف ہے۔ یہ ہمارے مضبوط کاموں کو تباہ کر دینا چاہتے تھے۔ ہماری سیکورٹی کو، سیکورٹی جو ہمارے ملک کا ایک مضبوط پہلو ہے۔ تعلیم کو، ہم افتخار کرتے ہیں کہ علمی و سائنسی لحاظ سے ہم نے اتنی پیشرفت کی ہے، تو تعلیم کہاں ہوتی ہے؟ تعلیمی مراکز میں، علمی مراکز میں اور تحقیقی مراکز میں ہی نا؟ ان لوگوں نے ان مراکز کو ٹارگٹ بنایا کہ انھیں بند کر دیں تاکہ علم حاصل نہ کیا جا سکے۔ سیکورٹی نہ رہے، علم کا حصول نہ رہے، ملکی پیداوار میں پیشرفت نہ ہو۔ ہم نے پچھلے دو تین برسوں کی طرح اس سال کی ابتدا میں،  'پیداوار' کو اس سال کا نعرہ قرار دیا، ایک خاص روش کے ذریعے اور ایک خاص نظریے کے ساتھ۔ اس سال پروڈکشن میں کافی بہتری آئي، ابھی کچھ مہینے پہلے، اسی امام بارگاہ میں کچھ لوگ آئے تھے، وہ ملاقات ٹی وی پر بھی نشر ہوئي، انھوں نے بتایا کہ وہ ملک کے اندر پیداوار کے بڑے کام کر رہے ہیں جس کی ماضی میں کوئي مثال نہیں ہے۔(15) یہیں پر کھڑے ہو کر انھوں نے تفصیل بتائي، جو نشر بھی ہوئي۔ یہ لوگ ان  چیزوں کو روکنا چاہتے ہیں، ان چیزوں کو بند کروانا چاہتے تھے۔ یا سیاحت کے شعبے کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے، حکومت کی ایک پالیسی سیاحت کے فروغ کی ہے، سیاحت آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ ہے، یہ صنعت بڑھ رہی تھی، شروع ہی ہوئي تھی کہ وہ اسے بھی روکنا چاہ رہے تھے۔ یہ لوگ ہمارے مضبوط کاموں کو روکنا چاہتے تھے ورنہ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے یہاں معاشی مسائل ہیں، لوگوں کی معاشی مشکلات ہیں، اس میں شک نہیں، تو کیا معاشی مشکلات، کوڑے دان کو جلانے سے دور ہو جائيں گي؟ کیا سڑکوں پر آنے اور ہنگامہ مچانے سے دور ہو جائيں گي؟ یہ لوگ کمزور پہلوؤں کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے، یہ، مضبوط کاموں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ تو بلاشبہ یہ غداری تھی اور ذمہ دار ادارے غداری سے سنجیدگي اور منصفانہ طریقے سے نمٹتے ہیں اور نمٹنا چاہیے۔ آخر میں، میں دو باتیں اختصار سے عرض کرنا چاہتا ہوں:

ایک، حقائق سامنے لانے کے جہاد کا مسئلہ، جسے میں نے بارہا دوہرایا ہے، ایک بار پھر دوہرا رہا ہوں۔ دشمن کی سازشوں میں سرفہرست، پروپیگنڈا ہے، پروپیگنڈے کا علاج تشریح اور حقائق کو سامنے لانا ہے، مختلف زبانوں سے، مختلف الفاظ کے ذریعے، مختلف جدت طرازیوں کے ساتھ حقیقت کی تشریح۔ اس جوان اور نوجوان پر وسوسہ جو اثر ڈالتا ہے، اسے کون سی چیز محو کر سکتی ہے؟ ڈنڈا تو نہیں کر سکتا، اس وسوسے کو تشریح دور کر سکتی ہے۔ یہ پہلی بات، تشریح اور وضاحت کے جہاد پر سنجیدگي سے کام کرنا چاہیے۔ سبھی کو، اعلی دینی تعلیمی مراکز میں، یونیورسٹیوں میں، خاص طور پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، اخبارات و جرائد میں، جس جگہ بھی آپ موجود ہیں اور آپ کے اطراف میں کچھ لوگ ہیں اور آپ ان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، وہاں تشریح کا جہاد کرنا چاہیے، صحیح تشریح اور وضاحت۔

دوسرے یہ کہ بڑے اہداف کے لیے بڑے کاموں کی ضرورت ہے۔ بڑے کام انجام پانے چاہیے، گہری تبدیلیاں لانے والے کام انجام پانے چاہیے۔ میرے خیال میں ایسے کام انجام پا سکتے ہیں۔ مومن عہدیدار موجود ہیں، محنتی اور جدوجہد کرنے والے عہدیدار موجود ہیں، تبدیلیاں لانے والے کام انجام پا سکتے ہیں۔ خود انقلاب، سب سے بڑا تغیر تھا۔ انقلاب کی تمہید کے کاموں سے ہر ایک، تغیر لانے والا کام تھا۔ یہی کام تھے جنھوں نے ہمیں ان سخت راہوں سے پار کرایا۔ اس کے بعد بھی، چاہے معیشت کا میدان ہو، ثقافت کا شعبہ ہو، سیکورٹی کا شعبہ ہو، علم و سائنس کا میدان ہو یا دوسرے مختلف میدان ہوں، ان سبھی میں تغیر لانے والے اور بڑے کام ضروری ہیں۔ میرے خیال میں یہ کام ممکن ہے: کام کرنے والے لوگ موجود ہیں، عہدیدار بھی موجود ہیں، بحمد اللہ ملک میں اچھے نوجوان ہیں۔ پورے ملک کی انہی یونیورسٹیوں میں اور بہت سے اعلی دینی تعلیمی مراکز میں، مختلف لوگوں کے درمیان اور مختلف طبقوں میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو کام کر سکتے ہیں، جدت طرازی والے کام، نئے نئے کام اور تبدیلی لانے والے کام۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو اور ہمیں، اپنے فرائض ادا کرنے میں کامیاب کرے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) سورۂ مریم، آیت 16، اور اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجیے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہوکر ایک مشرقی مکان میں گئیں۔

(2) سورۂ مریم، آیت 41، اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے ...

(3) سورۂ مریم، آیت 51، اور اس کتاب میں موسی کا ذکر کیجیے ...

(4) سورۂ ص، آیت 41، اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کیجیے ...

(5) سورۂ ص، آیت 17، اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کیجیے جو قوت والے تھے۔

(6) سورۂ احقاف، آیت 21، اور قومِ عاد کے بھائی (ہود) کا ذکر کیجیے جب انھوں نے اپنی قوم کو مقامِ احقاف (ریت کے ٹیلوں والی بستی) میں ڈرایا تھا۔

(7) سورۂ اعراف، آیت 163، ان سے اس بستی کے لوگوں کا حال پوچھیے جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔

(8) سورۂ آل عمران، آیت 54

(9) سورۂ طارق، آیت 15-16، بےشک وہ (کافر لوگ) کچھ چالیں چل رہے ہیں اور میں بھی (ان کے خلاف) ایک چال چل رہا ہوں۔

(10) سورۂ حشر، آيت 2، تو اللہ (کا قہر) ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو خیال بھی نہیں تھا۔

(11) 6 جون 1975 کو قم کے معروف دینی مدرسے، مدرسۂ فیضیہ میں دینی طلبہ اور شاہی حکومت کے کارندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ۔

(12) سورۂ یسین، آیت 74-75، اور کیا انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور خدا بنا لیے ہیں کہ شاید ان کی مدد کی جائے گی حالانکہ وہ ان کی (کچھ بھی) مدد نہیں کر سکتے (بلکہ) وہ (کفار) ان (بتوں) کی حفاظت اور ان کے (دفاع) کے لیے حاضر باش لشکر ہیں۔

(13) 31 دسمبر 1977

(14) سورۂ ناس، آیت 4،5،6، بار بار وسوسہ ڈالنے بار بار پسپا ہونے والے کے شر سے، جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، خواہ وہ جِنوں میں سے ہوں یا انسانوں میں سے۔

(15) مینوفیکچررز اور معاشی سرگرمیاں انجام دینے والوں سے ملاقات میں خطاب، 30 جنوری 2022