بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

میں ان سبھی خواہران و براداران عزیز کا خیر مقدم کرتا ہوں جو قم سے تشریف لائے ہیں۔ آپ نے اپنے نورانی قلوب اور اپنے عزیز شہیدوں کی یادیں تازہ کرکے اس پرخلوص اجتماع سے اس حسینیے کی فضا منور اور معطر کر دی ہے۔ 9 جنوری کی مناسبت کے علاوہ جو بہت اہم ہے اور اس کے بارے میں، میں کچھ عرض کروں گا، قم کے مومن، شجاع اور فعال عوام سے ملاقات ہمارے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ میری دعا ہے کہ خداوند عالم ان عزیزعوام کو ہمیشہ اپنے الطاف اور تفضلات کے سائے میں محفوظ اور کامیاب رکھے۔
   1978 کی 9 جنوری کے واقعات کی یاد، دو لحاظ سے ضروری اور لازم ہے۔  اول یہ کہ 9 جنوری 1978 ہمارے ملک کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ یعنی اگر کوئی ہمارے ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے یہ تاریخ جس کی مناسبت سے آپ یہاں جمع ہوئے ہیں چونکہ اس قیام نے ملک میں ایک عظیم تحریک شروع کی اور یہ تحریک انقلاب عظیم پر منتج ہوئی جس نے دنیا کو ہلا دیا اور اس کا سیاسی نقشہ تبدیل کر دیا بنابریں یہ، ایک اہم موڑ ہے۔ 9 جنوری 1978 کی یاد منانا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہمیں اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ بنابریں آپ کا یہ سالانہ اجتماع چاہے یہاں ہو یا قم میں، ضروری اوراہم ہے اور ان شاء اللہ موثر ہے۔ میں نے اس دن کی یاد کے دوسرے پہلو یعنی قیام 9 جنوری کے درس اور عبرتوں کے تعلق سے چند باتیں نوٹ کی ہیں جو آپ کے سامنے عرض کروں گا۔

 ایک بات یہ ہے کہ امریکی حکومت اور عالمی سامراج کس طرح کے ایران کو پسند کرتے تھے۔ آج جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک سے باہر اور ملک کے اندر گوشہ وکنار میں کچھ لوگ، کچھ باتیں کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ امریکا کس طرح کے ایران کو پسند کرتا ہے، کس طرح کا ایران اس کی آرزو ہے اور وہ کیسا ایران چاہتا ہے۔ اس کو قم کے اسی قیام سے مربوط مسائل سے سمجھا جا سکتا ہے۔  

9 جنوری 1978 سے چند روز قبل (1) اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر تہران میں تھے۔ ایک سرکاری تقریب میں انھوں نے محمد رضا (شاہ ایران) کی مبالغہ آمیز تعریف شروع کر دی اور کہا کہ ان کی وجہ سے ایران آج جزیرہ ثبات ہے۔ یعنی امریکی صدر کی نظر میں 1978 کا ایران پسندیدہ ایران تھا۔ 1978 کا ایران، کیسا ایران تھا؟ میں اس کی تین چار خصوصیات بیان کرتا ہوں۔

خارجہ پالیسی میں پوری طرح امریکا کا مطیع تھا۔ اس وقت امریکا کے پچاس ہزار سے زیادہ فوجی مشیر ایران میں، ایرانی فوج، انٹیلیجنس اور دیگر اداروں میں موجود تھے اور ایران کے پیسے سے، ایران کے خزانے سے تنخواہ پاتے تھے اور جیسا کہ تحقیق کی گئی ہے، جو پیسہ یہ امریکی مشیر لیتے تھے، وہ ایران کی تعلیم و تربیت کے شعبے کے بجٹ سے زیادہ تھا۔ یہ ایک نمونہ ہے۔ امریکا کے لئے اس حکومت کی پسندیدہ خارجہ پالیسی یہ تھی کہ مطیع مطلق رہے اور امریکا نیز صیہونی حکومت کے مفادات پورے کرے۔ اب خدا کی مرضی سے انقلاب آ گیا، ورنہ اگر انقلاب نہ آیا ہوتا تو چند سال کے اندر ملک کی سبھی زرخیز زمینیں، جیسے قزوین کی زمین تھی جو صیہونیوں کے قبضے میں تھی، ان کے قبضے میں چلی جاتیں۔ یہ قزوین کا میدانی علاقہ صیہونیوں کو دے دیا گیا تھا۔ یہ تھی خارجہ پالیسی۔                      
داخلہ پالیسی: اس حکومت کی داخلہ پالیسی ملک کے اندر ہر تحریک کی سرکوبی پر مبنی تھی، سخت ترین آمریت۔ وہ سبھی تنظیمیں جو ان دنوں، اس نظام، شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کی بات کرتی تھیں، حکومت کے دباؤ اور سرکوبی کے ذریعے کنارے لگادی گئی تھیں، ملی محاذ سے لے کر جو ایک سیاسی گروہ تھا اور سیاسی میدان میں کام کرتا تھا، تحریک آزادی تک۔ یہاں سے لے کر "فدائین خلق" کے چھاپہ ماروں تک جو کمیونسٹ تھے، مسلح تھے اور جنگلوں میں رہتے تھے، سب کو کچل دیا گیا تھا۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی تابع تحریک کے علاوہ جو ایک دینی تحریک تھی اور پورے ملک میں سرگرم تھی، 76-1975 اور اس کے بعد انقلاب کی کامیابی تک ملک میں ایسی کوئی تنظیم اور تحریک نہیں تھی جو کچھ بول سکتی اور احتجاج کر سکتی، سب کچل دی گئی تھیں۔ یہ داخلہ پالیسی تھی۔ 

ملک کی معیشت: اس وقت ملک کی آبادی تین کروڑ پچاس لاکھ تھی۔ روزآنہ  تقریبا ساٹھ لاکھ بیرل تیل بیچتے تھے۔ رقم پر توجہ ہے! آج ہم پندرہ لاکھ بیرل تیل بیچتے ہیں تو فخر سے بتاتے ہیں۔ ہماری حکومتیں اس پر فخر کرتی ہیں۔ اس زمانے میں تقریبا ساٹھ لاکھ بیرل بیچتے تھے، برآمد کرتے تھے، ملک کے اندر پیسے آتے تھے اور ایک خاص طبقے کی جیب میں چلے جاتے تھے۔ ملک میں طبقاتی خلیج ہولناک شکل میں تھی جینی انڈیکس (Gini index)، جس کو ماہرین اقتصاد جانتے ہیں کہ طبقاتی خلیج کا انڈیکس ہے، اس دور میں 51 فیصد تھا، یعنی اعلی ترین سطح پر تھا! طبقاتی خلیج کا یہ عالم تھا۔ ملک کے غریب طبقات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ملک کی دولت ملک پر خرچ نہیں ہو رہی تھی، عوام پر خرچ نہیں ہو رہی تھی ترقیاتی کاموں پر خرچ نہیں ہو رہی تھی، سڑکوں کی تعمیر پر خرچ نہیں ہو رہی تھی۔ عوام کا معیار زندگی بہت نیچے تھا۔ یہ ملک کی اقتصادی حالت تھی۔  
 سائنس و ٹیکنالوجی: ملک سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں تھا۔ پسماندہ ملکوں میں بھی آخری صف میں تھا۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہماری حالت یہ تھی۔  

 ثقافتی لحاظ سے، بدعنوانی اور پستی پھیل چکی تھی، اخلاقی، دینی اور مذہبی اقدار سے دوری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا تھا، مغربی تہذیب اور  بے حیائی بڑھ رہی تھی حتی یورپی ملکوں سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ ان دنوں ہمارے اخبارات میں خود ان کے لوگوں کا تجزیہ تھا کہ خواتین کے لباس، حجاب اور شرم و حیا کی حالت یورپی ملکوں سے بدتر تھی! یہ ثقافتی حالت تھی۔      

 یہ تھا اس وقت کا ایران۔ وہ سیاست، وہ داخلہ پالیسی، وہ خارجہ پالیسی، وہ معیشت وہ سائنس و ٹیکنالوجی اور وہ ثقافت۔ یہ ایران امریکی صدر کو پسند تھا، وہ اس کی تعریف کرتے تھے، ایران کو اس حالت تک پہنچانے پر محمد رضا (شاہ ایران) کی اتنی تعریف کرتے تھے کہ حتی خود ان کے لوگ، ان کے ارد گرد رہنے والے لوگ کہتے تھے کہ ان کی باتیں مبالغہ آمیز تھیں، لیکن(امریکی صدر نے) یہ مبالغہ کیا۔ اس لئے کہ وہ ایسے ایران کو پسند کرتے تھے۔ وہ ایسے ہی ایران کی آرزو کرتے تھے۔ آج بھی وہ ہمارے ملک کے لئے یہی آرزو کرتے ہیں، کارٹر یہ آرزو اپنے ساتھ قبر میں لے گئے، یہ بھی یہ آروز اپنے ساتھ قبر میں لے جائيں گے۔
آٹھ جنوری کے واقعے کا دوسرا سبق: امریکی حکومت کی اندازوں کی غلطی۔ جولوگ امریکا کے ظاہری روپ کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اپنی قوم کی معنوی عظمت کو فراموش کر دیتے ہیں، خود کو فراموش کر دیتے ہیں اور امریکی زرق وبرق میں کھو جاتے ہیں، وہ "امریکی اندازوں کی غلطی" پر توجہ دیں: 30 دسمبر 1977 کو کارٹر یہاں آئے، تعریف کی اور کہا کہ یہ "جزیرہ ثبات" ہے اور اسی طرح کی دوسری باتیں کیں اور 9 جنوری کو یعنی نو دن بعد یہ واقعہ رونما ہوا۔ یہ ان کی اندازوں کی غلطی تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے اور اس طرح اندازوں کی غلطی کرتے تھے۔ قم کے عوام نے ایرانی قوم کی نمائندگی میں قیام کیا۔ قم کے عوام اس جذبے کے ساتھ میدان میں آئے جو پورے ملک میں پایا جاتا تھا۔ بعد میں ثابت کر دیا گیا اور سب نے دیکھا۔ اس دن قم کے عوام آگے آئے، قیام کیا اور دنیا کو دکھا دیا۔

اسلامی انقلاب سامراج کے اہم ترین مورچے (امریکی اس وقت ایران کو اپنا اہم ترین مورچہ سمجھتے تھے) سے برآمد ہو۔ یہ امریکا کی اندازوں کی غلطی ہے۔ انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وَ ظَنُّوا انّھم مانِعَتھم حُصونھم مِنَ اللہ  فَاَتاھم اللہ مِن حَیثُ لَم یَحتَسِبوا (2) حضرت موسی کی طرح۔ موسوی تحریک، فرعون کے گھر سے ، فرعون کے محل سے شروع ہوئی اور قصر فرعون نیز فرعونیوں کی نابودی پر منتج ہوئی۔ یہاں پہلوی دور کا ایران، امریکی مفادات کا مستحکم قلعہ تھا۔ اسی قلعے کے اندر سے انقلاب اٹھا اور امریکی نہیں سمجھ سکے۔ امریکی دھوکہ کھا گئے، امریکی سوئے رہ گئے، امریکی خواب غفلت میں پڑے رہ گئے، یہ ان کی اندازوں کی غلطی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک، ان چند عشروں کے دوران، اکثر مسائل میں امریکیوں نے غلطی کی ہے۔ میری یہ باتیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو امریکی پالیسیوں سے مرعوب ہیں: مرعوب نہ ہوں۔

 ان چالیس سے زائد برسوں کے دوران، امریکیوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جو پالیسیاں اپنائی ہیں، ان میں زیادہ تر غلطی کی ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے پابندی لگائی۔ یہ پابندی کس لئے لگائی؟ پابندی اسی لئے تو لگائی نا کہ ایران کی معیشت بیٹھ جائے۔ ہم نے اسی پابندی کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں زیادہ ترقی کی۔ اسی پابندی کے دوران، علاقے میں ہمارا اثرونفوذ زیادہ بڑھا۔ اسی پابندی کے دور میں ہم نے مختلف میدانوں میں اپنے نوجوانوں کی کارکردگی کا مشاہدہ کیا۔ امریکیوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ امریکا نے ایران کو مفلوج کر دینا چاہا، نہ کر سکا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ پابندی سے ملک کو نقصان پہنچا۔ ایسا نہیں تھا کہ نقصان نہ پہنچا ہو، نقصان پہنچا۔ ان شاء اللہ ایرانی قوم ایک دن ان نقصانات کا بھی حساب لے گی۔

میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ قم والوں کی تحریک کا دوسرا درس یہ ہے کہ مغربی سامراج کی اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں اس جگہ دراڑ پڑی جس کو وہ زیادہ محکم سمجھ رہا تھا۔ (اسلامی انقلاب نے) مغربی حصار کو متزلزل کر دیا، وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار جس کو پروپیگنڈوں، پیسوں، رشوت اور انواع و اقسام کے جرائم سے تیار کیا تھا (وہ متزلزل ہو گئی)۔ البتہ یہ دیوار اب بھی باقی ہے اور اس کو ختم ہونا چاہئے۔ اس میں پہلی دراڑ اسلامی انقلاب نے ڈالی۔ یہ آپ کے قم کے قیام کا دوسرا درس ہے۔
 تیسرا درس یہ ہے کہ جب ہم قم کے واقعات پر ںظر ڈالتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہمیں خود کو، اپنے افکار کو اور رائے عامہ کو، دشمن کے پروپیگنڈوں سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ یہ 9 جنوری کے قیام کے جملہ دروس میں شامل ہے۔ جیسا کہ ان دنوں، قم والوں کی فکر محفوظ ہو گئی تھی۔ کیسے؟ انھوں نے مضامین شائع کئے، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پر الزام لگایا، بد زبانی کی، ان کا مقصد کیا تھا؟ ہر چیز پر ان کا تسلط تھا، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے ہزاروں طرفدار ان کے عقوبت خانوں میں تھے، جیلوں میں تھے، جلاوطن تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ کسی قوم پر صرف ظاہری وسائل کے ذریعے غلبہ نہیں حاصل کیا جا سکتا بلکہ افکار کو تسخیر کرنے کے ذرائع سے کام لینا بھی ضروری ہے۔ وہ ذرائع کیا ہیں؟ پروپیگنڈہ، (غلط) توجیہ کرنا، بیان کرنا۔ یہ جو میں بیان کرنے پر زیادہ زور دیتا ہوں، اس کی وجہ یہی ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی طرف سے مایوسی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ امام کے کئی ہزار طرفدار یہاں جیلوں میں بند تھے، جلاوطن کر دیئے گئے تھے، انہیں مارا پیٹا جاتا تھا، ایذائيں دی جا رہی تھیں، لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ وہ اس ذوالفقار کو توڑ دینا چاہتے تھے جو جوار حرم امیر المومنین سے دلوں میں ولولہ پیدا کر رہی تھی اور یہ عظیم تحریک وجود میں لا رہی تھی، یعنی ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی زبان مبارک کو خاموش کر دینا چاہتے تھے۔ وہ یہاں سرکوبی کا بازار گرم کئے ہوئے تھے، امام(خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا ایک پیغام ایک بیان آتا تھا اور افسردہ دلوں میں دوبارہ امید زندہ ہو جاتی تھی، لوگوں میں دوبارہ جان آ جاتی تھی اور جدوجہد کا میدان زیادہ گرم ہو جاتا تھا۔ قم والوں کے قیام نے ان کی سازش کو نقش بر آب کر دیا۔   

 اگر 9 جنوری (1978) کوآپ قم والوں نے یہ قیام نہ کیا ہوتا تو مضامین شائع کرنے اور توہین کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ پہلے ایک شکل میں اور بعد میں پیچیدہ شکلوں میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت سے علمائے کرام اور علمائے کرام سے دین تک پہنچتا اور جاری رہتا۔ قم والوں نے ان کی اس حرکت کو روک دیا اور یہ نہیں ہونے دیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج بھی امریکیوں نے اچھی طرح سمجھ لیا  ہے کہ وہ اسلحے وغیرہ سے اپنا کام آگے نہیں بڑھا سکتے۔ آپ دیکھئے کہ غزہ میں اتنے لوگوں کو مار دیا، ٹینک آئے، توپیں آئیں، بم گرائے، مشین گنوں سے کام لیا، مائیکرو ڈرون استعمال کئے، بعض ہستیوں کو شہید کیا لیکن تحریک کو ختم نہ کر سکے۔ لبنان ميں سید حسن نصر اللہ جیسے، حزب اللہ کے رہنماؤں کو شہید کیا، لیکن حزب اللہ کو ختم نہ کر سکے۔ ختم نہیں کر سکتے۔ نہیں کر سکیں گے۔ لہذا (سوچا کہ) سافٹ وار کے وسائل سے کام لینا چاہئے، پروپیگنڈوں سے کام لینا چاہئے۔ یہ میرے لئے اور آپ ایرانی عوام کے لئے ایک اہم اور نمایاں بات ہے۔ سافٹ وار کے وسائل سے کام لینا یعنی جھوٹ، دروغ گوئی اور عام لوگوں کی فکر اور تصور سے حقائق کو چھپانے کی کوشش کرنا۔ آپ طاقتور ہو رہے ہیں، دشمن پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ آپ کمزور ہو رہے ہیں۔ وہ خود کمزور ہو رہا ہے لیکن پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ طاقتور ہو رہا ہے۔ آپ دھمکیوں کے مقابلے میں ثابت قدم ہیں، وہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ دھمکیوں سے آپ کو ختم کر دے گا۔  پروپیگنڈہ مہم یہ ہے۔ کچھ لوگ اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔     
آج ہمارے تشہیراتی اداروں کے لئے، ثقافتی اداروں کے لئے، ہمارے تبلیغی مراکز کے لئے، ہماری وزارت ثقافت و ہدایت کے لئے، ہمارے ریڈیو ٹی وی کے لئے اور سوشل میڈیا کے میدان میں کام کرنے والوں کے لئے اہم کام یہ ہے کہ دشمن کے طاقتور ہونے کا بھرم ختم کر دیں، توڑ دیں۔ عام لوگوں پر دشمن کے پروپیگنڈوں کا اثر نہ ہونے دیں۔ یہ وہ کام ہے جو ان دنوں قمیوں نے کیا۔ انھوں نے دشمن کے ان حربوں کو ناکام بنا دیا۔ اس کا بھرم ختم کر دیا۔ وہ کام کیا کہ دشمن اپنی چالیں جاری نہ رکھ سکے۔ یہ تیسرا سبق۔

9 جنوری کے قیام کے جو درس ہیں، ان سے استفادے کے تعلق سے ایک بات یہ بھی عرض کر دوں کہ سامراجی ماہیت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ آج کا امریکا اس دور کے امریکا سے مختلف ہے۔ آج کی صیہونی حکومت اس دور کی صیہونی حکومت سے مختلف ہے۔ جی نہیں، یہ وہی ہیں۔ ان کی روش بدل گئی ہے اور اس کے وسائل تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس دور میں وہ مقالے اور مضامین  شائع کرکے یہ کام کرتے تھے آج ان کے (افکار کو منحرف کرنے کے) یہ وسائل ہزار گنا زیادہ متنوع، وسیع اور قوی تر ہو گئے ہیں۔ ہمیں بھی اس دور سے، ہزار گنا زیادہ ہوشیار رہنے اور ہزار گناہ زیادہ توجہ اور دقت نطر سے کام لینے اور (ان کے ان حربوں سے) خود کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ خود کو محفوظ بنائیں، دشمن کی باتوں پر یقین نہ کریں۔ پورا قضیہ یہ ہے کہ دشمن کی بات پر یقین نہ کریں۔ اگر دیکھیں کہ دشمن کے پروپیگنڈے میں کوئی بات ایسی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مقصد آپ کو متاثر کرنا ہے تو اس بات کو مسترد کر دیں۔ جان لیں کہ جھوٹ بول رہا ہے، جان لیں کہ جھوٹ بول رہا ہے! اگر کسی بات میں دشمن کے فریب کی علامتیں دیکھیں تو بے دریغ اس کو مسترد کریں۔ عید نوروز آتی ہے تو امریکی صدر ایرانی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہے! یہ مبارکباد سچی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ فریب ہے، بہت بڑا جھوٹ ہے۔ وہ دسیوں لاکھ ایرانی عوام کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ غزہ کے معاملے میں ملاحظہ فرمائيں کہ ایک طرف دشمن کو پیسے دے رہے ہیں، اسلحے دے رہے ہیں اور دوسری طرف بعض اوقات یہ کہتے کہ بہتر ہے کہ یہ کام نہ ہو۔ دشمن کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہئے۔ یہ 9 جنوری کے قیام کے دروس کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔   

دو تین دوسری باتیں بھی عرض کروں گا۔ ایک یہ بات ہے کہ براداران وخواہران عزیز ملاحظہ فرمائيں! ایران، آپ کا ملک، دنیا میں ایک اسٹریٹیجک چوٹی کی حیثیت رکھتا ہے، قدرتی ذخائر کے لحاظ سے بھی، انسانی وسائل کے لحاظ سے بھی، جغرافیائی پوزیشن کے لحاظ سے بھی، سیاسی  حیثیت سے بھی۔ ان تمام پہلووں سے بہت اہم ملک ہے۔ اس کو یہ حیثیت خدا نے عطا فرمائی ہے، یہ اللہ کا کام ہے۔ اس کے عوام، اس کی افرادی قوت، دنیا کے اوسط سے آگے ہے۔ اس کے قدرتی وسائل، دنیا کے اوسط سے زیادہ ہیں۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن دنیا کے بہت سے ملکوں سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی جیوپولیٹیکل حیثیت بھی  ممتاز ہے۔ یہ دنیائے اسلام کے وسط میں، قلب عالم اسلام میں واقع ہے۔ یہ ملک، یہ اس کے عظیم اسٹریٹیجک ذخائر، انیس سوچالیس کے عشرے کے اوسط سے زیادہ ہیں، یعنی تقریبا اسّی برس قبل دولت وثروت کا یہ مرکز یعنی آپ کا ایران، دسیوں سال امریکا کے قبضے میں تھا، امریکا کے اختیار میں تھا، امریکا کے ہاتھ میں تھا۔ آپ کا انقلاب آیا اور اس نے ایران کو امریکا کے ہاتھ سے نکال لیا۔ امریکا کے اوقات تلخ ہونے کی وجہ یہی ناقابل فراموش واقعہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امریکا کے معاملے میں آپ نہ مذاکرات کرنے پر تیار ہیں، نہ رابطہ برقرار کرنے پر تیار ہیں تو یورپی ملکوں سے روابط کیوں رکھتے ہیں؟ وہ بھی تو امریکا کی ہی طرح ہیں۔ (ان میں اور امریکا میں) فرق کیا ہے؟  جس طرح ان کے سفارت خانے ہیں اس کا (سفارت خانہ) بھی ہو۔ جی نہیں،( ان کے درمیان) فرق ہے۔ فرق یہ ہے کہ امریکا نے یہاں قبضہ کر رکھا تھا۔ یہ اس کے ہاتھ سے اور اس کے قبضے سے نکال لیا گیا۔ اس ملک اور انقلاب کے لئے اس کا کینہ، اونٹ کے کینے کی طرح ہے (جو کبھی ختم نہیں ہوتا) وہ آسانی سے اس سے دست بردار نہیں ہوگا۔ یہ بھی یورپی ملکوں سے فرق ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ یورپی ملک بھی ایرانی قوم کا دوست نہیں ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں، جانتے ہیں لیکن اس میں اور اس میں بہت فرق ہے۔ اسلامی انقلاب آنے سے امریکا ایک بڑی دولت سے، ایک وسیع سیاسی اور اقتصادی ثروت سے محروم ہو گیا، اس کے بعد  گزشتہ چالیس سے زائد برسوں میں اس نے اسلامی انقلاب ختم کرکے ایران کو دوبارہ اپنے چنگل میں لینے کے لئے کتنا خرچ کیا ہے لیکن ناکام رہا۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے اس کا کینہ کسی بھی دوسرے ملک کے کینے سے مختلف ہے۔ بہت مختلف ہے۔ ہم امریکا اور دیگر مغربی ملکوں میں جو فرق کے قائل ہیں، اس کی وجہ یہ ہے۔ ایران میں امریکا کو شکست ہوئی ہے اور وہ اس شکست کی تلافی کی فکر میں ہے، اس لئے ہر طرح کی دشمنی کر رہا ہے۔ یہ پہلی بات ہے۔  

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے سبھی ملکوں، منجملہ ایران کے حکام سے مجوعی طور پر سامراج اور اس میں سرفہرست امریکی حکومت یہ چاہتی  ہے کہ جب وہ مختلف مسائل پر فکر کریں، منصوبہ بندی کریں، پلاننگ کریں تو امریکی مفاد بھی مد نظر رکھیں، امریکا کا لحاظ کریں، یہ اس کا مطالبہ ہے۔ ہمارا ان سے (امریکی حکام سے) براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہے، لیکن مختلف طریقوں سے وہ ہمارے حکام کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان طولانی برسوں کے دوران ہم نے اس کے متعدد نمونے دیکھے ہیں کہ کچھ لوگ آتے ہیں، ثالثی کرتے ہیں کہ اس اقتصادی مسئلے میں، اس ثقافتی مسئلے میں، خارجہ پالیسی کے اس مسئلے میں آپ جو یہ کام کرنا چاہتے ہیں، اس میں تبدیلی لائيں، اس کو اس طرح انجام دیں کہ امریکا کو بھی فائدہ ہو۔ یہ امریکا کا ایک مطالبہ ہے! میں کہتا ہوں کہ یہ جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔ اگر ہمارے حکام ہر دور حکومت میں، امریکیوں کی یہ بے جا توقع پوری کریں، تو عوامی حکمرانی اور جمہوریت کو خطرے میں ڈالیں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عوام نے ہمیں ووٹ دیا، ہمیں اقتدار میں لائے تاکہ ہم ان کے مفاد میں کام کریں نہ کہ امریکی مفاد کو مد نظر رکھیں۔   

 جو لوگ اقتصادی مسائل میں، گرانی  کے مسئلے میں، پیداوار کے مسئلے میں، زرمبادلہ کے مسئلے میں، ثقافتی مسائل میں اور حجاب وغیرہ کے مسائل میں فیصلہ کرتے ہیں، وہ توجہ رکھیں کہ امریکا کے مطالبات، امریکی موقف، اور صیہونیوں کے موقف کو مد نظر نہ رکھیں، ملکی مفادات مد نظر رکھیں، اسلامی جمہوریہ کے مفادات کا خیال رکھیں۔ خوش قسمتی سے صیہونی حکومت کے بارے میں ہمارے محترم صدر جمہوریہ کے شجاعانہ اور صریحی  موقف نے عوام کا دل خوش کر دیا، عوام کو خوش کر دیا۔  انھوں نے صیہونی حکومت کے بارے میں بھی اور امریکا کے اقدامات، امریکا (کی جانب سے صیہونی حکومت کی) پشت پناہی کے بارے میں بھی ٹھوس موقف اختیار کیا۔ یہ بہت اچھا ہے۔ خیال رکھیں، ملک کے حکام اس سلسلے میں دھیان رکھیں، ان کے مطالبات کے سامنے نہ جھکیں جو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے سخت ترین دشمن ہیں اور ایران کو ختم کر دینا چاہتے اور اس کی تباہی ان کی آرزو ہے۔  

ایک اور مسئلہ امید کا ہے۔ امید۔ ہمیں ہدایت الہی سے امید رکھنا چاہئے۔ ہمیں نصرت الہی کی امید رکھنا چاہئے۔ اس قوت سے امید رکھنا چاہئے جو خدا نے اقوام کو عطا کی ہے۔ اس کے برعکس دشمن چاہتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے دلوں سے امید ختتم کر دے۔ وہ سبھی لوگ جو تشہیراتی میدان میں کام کرتے ہیں، بول سکتے ہیں، اچھا بولتے ہیں، ان کا اولین اور اہم ترین ہدف یہ ہونا چاہئے کہ دلوں میں امید کو زندہ کریں۔ مایوسی کے الفاظ زبان پر نہ لائیں۔ یہ وہ کام ہے جس پر امام (خمینی رح) بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ اسی 9 جنوری کے قضیے میں، یہ واقعہ جو 9 جنوری کو رونما ہوا، قم کے عوام نے قیام کیا، قیام کی سرکوبی کی گئی، عوام شہید اور زخمی ہوئے، سڑکیں خون سے رنگین ہو گئيں۔ یہ 9 جنوری کو ہوا۔ اس کے بعد 21 جنوری کو یعنی بارہ دن بعد نجف سے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا پیغام آیا۔ امام کے پیغام میں یہ عبارت موجود ہے جو میں نے نوٹ کی ہے کہ " میں ملت ایران کو اس بیداری اور ہوشیاری پر، اس دلیرانہ اور محکم  جوش وجذبے پر کامیابی کی نوید دیتا ہوں"( 3) قم کی سڑکوں پر لوگوں کی سرکوبی کی گئی، کون کامیابی کا تصور کرتا تھا؟ امام فرماتے ہیں کہ "میں آپ کو کامیابی کی نوید دیتا ہوں!" امام بشارت دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے اس کام سے، اپنے اس اقدام سے، پورے ایران کو تہہ و بالا کر دیا، عالمی سیاست تبدیل کر دی، یہ امام کی کامیابی کی بشارت ہے۔

اس وقت کس کو یقین تھا کہ یہ تحریک اس منزل پر پہنچ جائے گی کہ اس کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ جیسی ایک صف شکن طاقت کھڑی ہو جائے گی جو مغرب کے سبھی خباثت آلود اہداف کو درہم برہم کر دے گی، اس کے سامنے روکاوٹ بن جائے گی، اس کی بہت سی جارحیتوں کو روک دے گی، اس کی بہت سی پالیسیوں کو ناکام بنادے گی۔ کون یقین کر رہا تھا؟ اس زمانے میں کس کو یقین تھا کہ وہ دن بھی آئے گا جب مغربی ملکوں مییں حتی خود واشنگٹن میں امریکی پرچم نذرآتش کیا جائے گا؟ کون سوچ سکتا تھا؟ اس دن امام نے فرمایا کہ میں آپ کو کامیابی کی بشارت دیتا ہوں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں چراغ امید گل نہیں ہونے دینا چاہئے۔

آج اسی اقتصادی مسئلے میں کہ ہمیں اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے، جو لوگ ماہر ہیں، جو واقف ہیں، مہارت رکھتے ہیں، وہ افق کو امید بخش دیکھتے ہیں۔ جب فرض کریں کہ ملک میں معاشی ترقی کو آٹھ فیصد تک لے جانے کی بات کی جاتی ہے تو کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ممکن نہیں ہے۔ اقتصادی میدان میں سرگرم افراد کے سیمینار میں، جس میں صدر جمہوریہ بھی گئے تھے، اقتصادی میدان میں کام کرنے والوں نے کہا اور ثابت کیا اور صدر نے ان کی بات دوہرائی اور کہا کہ ہم غیر ملکی مدد کے بغیر ملک کی معاشی ترقی آٹھ فیصد تک لے جا سکتے ہیں۔ بنابریں ہمیں سبھی شعبوں میں امید رکھنا چاہئے۔ البتہ بغیر سعی و کوشش کے امید بے معنی ہے۔ امید رکھیں اور کوشش کریں۔ امید رکھیں اور پیشرفت کے لئے ضروری اقدام بھی کریں۔ امید رکھیں اور یہ سمجھیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں، ہمارا ہدف کیا ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے کس طرح آگے بڑھیں۔ امید کا مطلب یہ ہے۔

آخری بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختلف واقعات کو چاہے ہمارے ملک کے ہوں، یا علاقے کے جیسے شام کے، اس بات کا موجب نہیں ہونا چاہئے کہ مسئلہ فلسطین پر ہماری توجہ کم ہو جائے۔ استقامت کی اصل بنیاد، خباثت آلود صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامت ہے۔ یہ استقامت ہے۔ استقامت زندہ ہے۔ اس کو زندہ رہنا چاہئے۔ روز بروز قوی تر ہونا چاہئے۔ ہم تحریک استقامت کی حمایت جاری رکھیں۔ غزہ میں، غرب اردن میں ، لبنان میں اور یمن میں، ہر جگہ جہاں بھی لوگ صیہونی حکومت کے خباثب آلود اقدامات کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور استقامت سے کام لیں، ہمیں وہاں ان کی تحریک استقامت کی حمایت کرنی ہے۔  

والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ   
 1۔ 30 دسمبر 1977 کو جمی کارٹر کا دورہ تہران

 2۔ سورہ حشر، آیت نمبر 2 "۔۔۔۔۔ ان کا گمان تھا کہ ان کے قلعے، ان تک خدا کے پہنچنے  میں رکاوٹ بن جائیں گے لیکن خدا اس جگہ سے ان تک پہنچا جس کا انہیں تصور بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔"

 3۔ صحیفہ امام جلد 3 صفحہ 316 قم کے 9 جنوری کے قیام پر ایرانی قوم کے نام امام خمینی کا پیغام اور کامیابی کی نوید 21-1-1978