بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین ارواحنا لہ الفداء۔

سب سے پہلے تو ہم پروردگار عالم کے شکر گزار ہیں کہ کئي سال کی محرومیت کے بعد اس نے ایک بار پھر یہ توفیق عطا کی کہ ہم اس شہر کے عزیز عوام اور محترم زائرین کی خدمت میں، جو ملک کے مختلف علاقوں سے یہاں آئے ہیں، حاضر ہوں۔ یقینی طور پر یہ جگہ ہمارے عزیز اور وسیع و عریض ملک کی سب سے اچھی اور اعلی و ارفع جگہ ہے۔ میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس اہم مرکز میں، روحانی مرکز اور خدا کے فرشتوں کے نزول کی جگہ پر آپ عزیز، مومن اور پرجوش عوام، مقامی افراد اور زائرین سے ملاقات کر رہا ہوں۔

ان دو تین برسوں میں ایک عمومی وبا تھی جسے بحمد اللہ قابل توجہ حد تک، بڑی حد تک کنٹرول کر لیا گيا ہے۔ یہاں میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ ان سب لوگوں کا دل سے شکریہ ادا کروں جنھوں نے اس عمومی بلا اور وبا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ان محققوں کا جنھوں نے ملک کی مختلف لیباریٹریز میں اس منحوس وائرس کی شناخت کی اور اس کے لیے ویکسین تیار کی، ان افراد کا جنھوں نے ملک کے طبی مراکز میں اس ویکسین کا پروڈکشن کیا اور اسے بڑی تعداد میں تیار کیا، ان ڈاکٹروں اور نرسوں کا جنھوں نے اس ویکسین کو ہمارے لوگوں تک پہنچانے اور ویکسین انجیکٹ کرنے میں مدد کی اور کوشش کی یا اپنے مریضوں کی دیکھ بھال کی، ان افراد کا جنھوں نے رضا کارانہ طور پر ڈاکٹر اور نرس کے ساتھ مریضوں کی مدد کی، ان لوگوں کا جنھوں نے اس بیماری سے بچنے کے ضروری وسائل تیار کرنے میں مدد کی، تعاون کیا جیسے ویکسین اور دیگر ضروری وسائل، ان سب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہم دعا کریں کہ خداوند عالم اس بلا کو ان شاء اللہ ہماری عزیز قوم، مسلمان اقوام اور دنیا کے تمام لوگوں سے دور کر دے۔

اگر محترم بھائي اور بہنیں اس شور کو تھوڑا کم کریں تو میں وہ باتیں عرض کروں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار کی ہیں۔ ان آوازوں کو کم کرنے میں مدد کے لیے اب آپ لوگ بلند آواز میں ایک صلوات بھیجیں۔

میں نے آج کے لیے جو موضوع منتخب کیا ہے، وہ سال کے آغاز کی دعا سے لیا گيا ہے۔ سال کے آغاز کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: "یا مُحَوِّلَ الحَولِ وَ الاَحوالِ حَوِّل حالَنا اِلىٰ اَحسَنِ الحال"(2) میری آج کی بات تحوّل یعنی حالت کی تبدیلی، صورتحال کی تبدیلی کے بارے میں ہے۔ البتہ خدا سے دعا کرنی چاہیے لیکن خود بھی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی سے دعا، گڑگڑانا اور مانگنا اس وقت قبول ہوتا ہے جب انسان اس راستے پر قدم بڑھائے جو وہ خدا سے مانگ رہا ہے۔ اپنی بیماری کے لیے ہم دعا کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر کے پاس بھی جاتے ہیں اور خداوند عالم ہماری دعا قبول کرتا ہے۔ ہم تبدیلی خدا سے چاہتے ہیں لیکن ہمیں خود بھی کوشش کرنی چاہیے، ہماری کوشش اس بات کا سبب بنتی ہے کہ خداوند عالم اپنے لطف و کرم کو ہمارے شامل حال کرے اور اس دعا کو قبول کرے۔

میں نے اس سے پہلے کئي عمومی تقاریر میں معاشرے میں، نظام میں اور ملک میں تبدیلی کے بارے میں بات کی ہے، آج اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے ساتھ بات کروں گا، یہ اس بات کی اہمیت کا تقاضا ہے۔ دیکھیے بنیادی مسائل کو رائے عامہ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، رائے عامہ کو بنیادی ضرورتوں سے آگاہ ہونا چاہیے، اس طرح سے فکریں سرگرم ہوں گی۔ نئے نئے افکار، صاحب فکر جوان، ان اہم مسائل کے بارے میں جو رائے عامہ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، سرگرم ہو جاتے ہیں، انھیں ضروری سطح تک پہنچا دیتے ہیں، بنابریں اہم مسائل کو، جس میں یہی تبدیلی کا مسئلہ بھی شامل ہے، پیش کرتے ہیں۔ اگر رائے عامہ کسی سوچ کا خیر مقدم نہ کرے تو وہ سوچ، عمل اور عملی جامے تک نہیں پہنچے گي بلکہ فضا میں کچھ امواج کی صورت میں رہ جائے گي۔ کبھی انسان کچھ کہتا ہے اور پھر وہ چیز بھلا دی جاتی ہے یا کاغذ پر کچھ سطروں کی صورت میں باقی رہ جاتی ہے۔ بڑی خواہشات اور مطالبات کو عملی جامہ پہننے کے لیے، صاحب فکر افراد اور رائے عامہ کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ تو میں آج یہ مسئلہ پیش کر رہا ہوں اور بعض پہلوؤں سے اس پر گفتگو کروں گا لیکن اس بحث کو جاری رکھنا آپ کے ذمے ہے، آپ جوانوں کے ذمے ہے، آپ صاحبان فکر کے ذمے ہے، آپ یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ کے ذمے ہے، بیٹھیے اور اس مسئلے پر بحث کیجیے۔

اس سلسلے میں جو سب سے پہلی بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ تبدیلی سے ہماری مراد کی تشریح ہے۔ تبدیلی کا مطلب کیا ہے؟ تبدیلی کا مطلب ہے، تغیر اور بدل جانا۔ ہم کس چیز کو بدلنا چاہتے ہیں؟ سب سے اہم بات یہ ہے۔ اسلامی نظام کے دشمن بھی تبدیلی کی بات کرتے ہیں، وہ لوگ بھی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن ان کی تبدیلی، اس چیز کے بالکل برخلاف ہے، جو ہمارے مدنظر ہے۔ وہ اس تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور افسوس کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ ان کی پیروی یا نقل کرتے ہوئے وہی بات دوسرے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آئین میں تبدیلی یا اسلامی نظام کے ڈھانچے میں تبدیلی، یہ وہی اغیار کی بات ہے، وہی دشمنوں کی بات ہے لیکن ملک کے بعض افراد کبھی غفلت اور بے توجہی کی وجہ سے اور کبھی کچھ دوسرے محرکات کی وجہ سے اس بات کو دوہراتے ہیں۔ جو چیز دشمن چاہتا ہے اور اس نے اس کا نام تبدیلی رکھا ہے وہ اسلامی جمہوریہ کے تشخص کی تبدیلی ہے۔ اسلامی ایران کے دشمن، سامراج اور صیہونیت ہیں، یہ اسلامی جمہوریہ کے تشخص کے مخالف ہیں، اگر وہ کہتے ہیں تغیر، تبدیلی، ڈھانچے، انقلاب وغیرہ میں تبدیلی تو ان کا مقصود یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا تشخص بدل جائے۔ ان کا ہدف ان تمام چیزوں کو ختم کر دینا ہے جو لوگوں کو انقلاب اور اسلام کی یاد دلاتی ہیں، خالص اسلام اور انقلابی اسلام۔ وہ امام خمینی کا نام دوہرائے جانے کے خلاف ہیں، وہ امام خمینی کی تعلیمات پیش کیے جانے کے مخالف ہیں،  وہ گيارہ فروری (اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تاریخ) کے مخالف ہیں، وہ یوم قدس کے خلاف ہیں، اسلامی جمہوریہ میں انتخابات اور ان میں عوام کی بھرپور شرکت کے مخالف ہیں۔ وہ ہر اس چیز کے مخالف ہیں جس میں انقلابی اسلام اور اسلامی جمہوریہ کی علامت کا رنگ گہرا ہے، وہ ان چیزوں کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اگر وہ ڈھانچے میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں، تغیر کی بات کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہے کہ ان چیزوں کو ختم کر دیں جو اتفاق سے ہمارے ملک کے مضبوط پہلو ہیں، اسلامی جمہوریہ کے مضبوط پہلو ہیں۔ المختصر یہ کہ دشمن کا ہدف، اسلامی جمہوریہ کو، سامراج کی من پسند حکومت میں بدلنا ہے۔ وہ ایران میں یہ چاہتے ہیں کہ یہاں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئے جیسی سامراج چاہتا ہے۔ یا ایک آمرانہ حکومت جس میں ایک شخص جو ان کا مطیع ہو، وہ تخت پر بیٹھے یا ایک بظاہر مغربی ڈیموکریسی والی حکومت جو دراصل جھوٹی اور فریبی جمہوریت ہے، برسر اقتدار آئے لیکن ان کی مرضی کے مطابق کام کرے، ان کی مٹھی میں رہ کر ان کے اشاروں پر کام کرے، ان کے احکام کی تعمیل کرے، وہ یہ چاہتے ہیں۔ سامراج ایران میں ایک ایسی حکومت کا خواہاں ہے جسے وہ دھمکا سکے، لالچ دے سکے اور دھمکی اور لالچ کے ذریعے اپنی خواہشات کو پورا کر سکے، ملک کو لوٹ سکے، سیاسی یا معاشی تسلط حاصل کر سکے، وہ یہ چاہتے ہیں۔ دشمن جس تبدیلی کی بات کرتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے دشمن جس تغیر کی بات پیش کرتے ہیں، وہ اس طرح کی تبدیلی اور اس طرح کا تغیر ہے۔

جس چیز کو میں تغیر اور تبدیلی کے طور پر عرض کرتا ہوں وہ اس تبدیلی سے بالکل الگ ہے جسے دشمن اپنی زبان سے دوہراتا رہتا ہے۔ تبدیلی لفظ سے میں جس چیز کا ارادہ کرتا ہوں وہ نقائص والے حصوں اور پہلوؤں کی تبدیلی ہے چاہے وہ اسلامی نظام میں ہو یا ایرانی معاشرے میں ہو۔ ہمارے یہاں کچھ نقائص ہیں، کمزور حصے ہیں، کچھ کمزوریاں ہیں، ان کمزوریوں کی شناخت کرنی چاہیے، ان پہلوؤں کو معین کرنا چاہیے اور پھر ٹھوس ارادے کے ساتھ -میں عرض کروں گا کہ یہ کوئي آسان کام بھی نہیں ہے- کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے اور انھیں قوت میں بدل دینا چاہیے، اس کی کچھ مثالیں میں، بعد میں عرض کروں گا۔

البتہ یہ بڑا سخت اور دشوار کام ہے اور اس کے لیے قومی خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ اگر کسی قوم کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے، اپنی استعدادوں پر یقین ہے تو وہ تبدیلی کے اقدامات کرنے کی طاقت رکھتی ہے، جس قوم میں خود اعتمادی ہے وہ تبدیلی کے اقدامات کو بخوبی انجام دے سکتی ہے، اس قوم کے عہدیدار بھی تبدیلی کی بات کرنے کی ہمت کر سکتے ہیں اور تبدیلی کے لیے قدم اٹھا سکتے ہیں۔ تو بحمد اللہ ہماری قوم میں خود اعتمادی ہے، ہماری قوم کے پاس عزت نفس ہے، خود اعتمادی ہے، وہ خود مختاری کی خواہاں ہے، وہ بہادر ہے جس کی مثالیں آپ سبھی نے دیکھی ہیں اور میں بعد میں کچھ اور مثالیں پیش کروں گا۔ ہماری قوم نے مختلف میدانوں میں دکھایا ہے کہ اسے اپنے آپ پر اعتماد ہے، اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔

تو یہ ایک چیز ہوئي کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ تبدیلی آئے تو ہمیں قومی خود اعتمادی کی ضرورت ہے، یہ پہلی چیز۔ دوسری چیز یہ کہ ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم چوکنا نہیں رہیں گے، غافل رہیں گے تو ممکن ہے کہ تبدیلی کے نام پر، تغیر کے نام پر ہم اپنے مضبوط پہلوؤں کو ہی نقصان پہنچا بیٹھیں۔ اس کا ہم کبھی کبھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو نظام کے ہمدرد ہیں، اسلامی نظام اور انقلاب سے لگاؤ رکھتے ہیں لیکن کبھی کبھی غفلت کر جاتے ہیں، کوئي اچھا کام کرنے کے چکر میں، کوئي اصلاحی کام کرنے کے چکر میں بے توجہی کرتے ہوئے مضبوط پہلوؤں کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ اس بات پر توجہ رہنی چاہیے کہ مضبوط پہلوؤں کو نقصان نہ پہنچے۔ تو اس اہم نکتے کو بھی ذہن نشین رکھیے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مضبوط پہلوؤں کو چوٹ نہ پہنچے تو ہمیں ان کی شناخت کرنی ہوگي۔ ہمارے معاشرے کے مضبوط پہلو کیا ہیں؟ ہمیں ان کی صحیح طریقے سے شناخت کرنی ہوگي، غور کرنا ہوگا، پہچاننا ہوگا۔ میں ان میں سے کچھ کا ذکر کرتا ہوں۔ البتہ یہ بڑی طویل اور تفصیلی بحثیں ہیں، صاحب فکر افراد اور خاص طور پر آپ جوان بیٹھیے، سوچیے اور ان پر کام کیجیے۔ عزیز جوانو! مجھے آپ سے بہت زیادہ امید ہے۔(3) (بہت شکریہ، توجہ دیجیے!) آج میں ان مضبوط پہلو‎ؤں کے صرف ایک گوشے کے بارے میں اختصار سے عرض کروں گا، بقیہ آپ کے ذمے۔

ایرانی قوم اور ہمارے اسلامی معاشرے کے مضبوط پہلوؤں میں سے ایک سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے کا اندرونی ڈھانچہ مضبوط اور مستحکم ہے، اس کے بارے میں سوچیے، یہ بہت اہم ہے،  اسلامی نظام اور ایرانی قوم کے اندرونی ڈھانچے کا  استحکام۔ میں نے اس سے پہلے بھی ایک تقریر(4) میں اس سلسلے میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کی تھیں، آج ذرا وضاحت کے ساتھ عرض کروں گا۔ اسلامی نظام کے ڈھانچے کی یہ مضبوطی، اسلامی نظام کے ڈھانچے کی یہ طاقت، اسلامی نظام اور ایرانی قوم کا یہ اندرونی استحکام، ایمان کی وجہ سے ہے۔ ایران کے عوام، مومن ہیں، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو بظاہر ایسے نظر آتے ہیں کہ وہ بعض اسلامی احکام کی ٹھیک طرح سے پابندی نہیں کرتے ہوں گے، مگر ان کا قلبی ایمان ٹھیک ہے، وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، دین پر ایمان رکھتے ہیں، قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، ائمۂ طاہرین پر ایمان رکھتے ہیں، با ایمان لوگ ہیں۔ ایران کی قوم باایمان قوم ہے، عزت نفس والی قوم ہے، خود اعتمادی والی قوم ہے، یہ باتیں اس بات کا سبب بنی ہیں کہ ایرانی قوم اور اسلامی نظام کا اندرونی ڈھانچہ مستحکم ہو جائے۔ اس استحکام کو ہم کہاں سے پہچان سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں اور صحیح طریقے سے محسوس کر سکتے ہیں؟ اس استحکام کی نشانیاں کیا ہیں؟ میں ان میں سے دو تین علامتوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

پہلی علامت، کئي عشروں سے لگاتار جاری سلسلہ وار دشمنی پر ایرانی قوم کا غلبہ ہے۔ آپ کس ملک کو جانتے ہیں، کس انقلاب کو جانتے ہیں جو برسوں تک دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کے حملوں کے سامنے ڈٹا رہا ہو اور اس نے گھٹنے نہ ٹیکے ہوں؟ ایرانی قوم، دشمن کی سازشوں کی اس طویل زنجیر اور اس کے حربوں کے مقابلے میں مضبوطی سے کھڑے رہنے میں کامیاب رہی، بغاوت کے مقابلے میں، پابندیوں کے مقابلے میں، سیاسی دباؤ کے مقابلے میں، میڈیا کے حملوں کے مقابلے میں، ایرانوفوبیا اور انقلاب کے خلاف جو میڈیا حملے انھوں نے شروع کیے ہیں وہ عدیم المثال ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ سیکورٹی کی سازشوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کے علاوہ کون سی قوم ان کے مقابلے میں ڈٹ سکتی ہے یا ڈٹی رہی ہے؟ یہ اندرونی استحکام ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایرانی قوم کا بنیادی ڈھانچہ، ایک مضبوط ڈھانچہ ہے۔ سب کی آنکھوں کے سامنے کی ایک واضح مثال، ان حالیہ ہنگاموں میں ہے کہ اب سے کچھ مہینے پہلے ہنگامے کرائے گئے اور اس سازش میں سبھی (دشمن) شامل ہوئے، یہ اہم نکات ہیں۔ امریکا جیسے ملک کے صدر نے کھل کر ملک کے اندر ہونے والے ہنگاموں کی پشت پناہی کی۔ بعض یورپی ملکوں کے سربراہان نے بھی کھل کر ان ہنگاموں کی، جو ایرانی قوم کا ایک بہت چھوٹا حصہ تھا، بہت بہت بہت بہت کم، حمایت کی، صرف زبانی حمایت نہیں بلکہ اسلحہ جاتی حمایت کی، مالی حمایت کی، سیکورٹی سے متعلق حمایت کی۔ ان ہنگاموں کی طرح طرح سے مدد کی، مطلب یہ کہ درحقیقت انھوں نے خود کو اس بات کے لیے تیار کر لیا تھا کہ بزعم خود اسلامی جمہوریہ کو کم از کم کمزور تو کر ہی دیں۔ ہدف، اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنا تھا لیکن جو کچھ عملی میدان میں ہوا وہ اس چیز کے بالکل برخلاف تھا جو وہ چاہ رہے تھے۔ اسلامی جمہوریہ نے دکھا دیا کہ وہ مضبوط ہے، کمزور نہیں ہے۔ اس نے ایسے ہنگاموں اور ایسی عالمی سازش پر غلبہ حاصل کیا اور دنیا کو دکھا دیا کہ وہ مضبوط ہے۔ سنہ 1401 (ہجری شمسی) کی 22 بہمن (11 فروری سنہ 2023) پچھلے کچھ برسوں کی بائيس بہمن سے کہیں زیادہ پرجوش اور زیادہ تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی، یہ چیز ایرانی قوم کے اندرونی استحکام کو نمایاں کرتی ہے۔ تو ہم نے کہا کہ ایرانی قوم استحکام اور مضبوط ڈھانچے کی حامل ہے، یہ جو ہم نے کہا کہ بڑی سازشوں کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت، یہ اس کی ایک علامت ہے۔

ایک دوسری علامت، ایرانی قوم کی زبردست ترقی و پیشرفت ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ باتیں دوہرائي جائيں۔ دشمن ان باتوں کو دوہرائے جانے سے، ان باتوں کو بیان کیے جانے سے بہت سخت ناراض اور چراغ پا ہے لیکن یہ حقیقت ہے۔ ہم نے کافی ترقی و پیشرفت کی ہے جن میں سے بعض کی طرف میں صرف اشارہ کروں گا اور یہ ساری پیشرفت پابندیوں کے دوران ہوئي ہے، اقتصادی محاصرے کے دوران ہوئي ہے، اُس وقت تک کے شدید ترین معاشی دباؤ کے دوران ہوئي ہے، یہ بات خود امریکیوں نے کہی ہے۔ امریکیوں نے کہا کہ ہم نے ایران پر جو معاشی دباؤ ڈالا ہے، اس کی پوری تاریخ میں کوئي مثال نہیں ہے، وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں، اپنی تمام تر دروغگوئي کے باوجود، وہ یہ بات ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ عدیم المثال معاشی دباؤ تھا۔ ایسے حالات میں ایرانی قوم نے پیشرفت کی۔ سائنس کے میدان میں ترقی کی، ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، سائنس کے بعض میدانوں میں تو ایران، دنیا کے برتر ملکوں کی صف میں شامل ہو گيا، کہیں دنیا کے پانچ برتر ملکوں میں سے ایک، کہیں دنیا کے دس برتر ملکوں میں سے ایک اور کہیں دنیا کے تین برتر ملکوں میں سے ایک، دنیا کے دو سو ملکوں کے درمیان۔ سائنس کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری ترقی و پیشرفت ایسی ہے، نینو اور بایو ٹیکنالوجی میں، مختلف میدانوں میں، حفظان صحت کے شعبے میں، ایران کی پیشرفت دنیا کے بہت سے پیشرفتہ ممالک سے بھی بہتر رہی ہے۔ کورونا وائرس کے معاملے میں یہ بات نمایاں طور پر سامنے آئي۔ ایٹمی شعبے میں، ایرواسپیس کے شعبے میں، دفاعی میدان میں۔ دفاعی میدان میں ایران کی پیشرفت کی بات سبھی کرتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں تاکہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف کوئي حربہ تیار کر سکیں، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ایران دفاعی لحاظ سے، ہتھیاروں کے لحاظ سے آگے بڑھ گيا ہے۔ ہم نے بایو ٹیکنالوجی میں زبردست پیشرفت کی ہے، دنیا نے ہمیں خراج تحسین پیش کیا، دنیا کے سائنسدانوں نے ہمارے سائنسدانوں کو سراہا، ہمارے نوجوان سائنسدانوں کو سراہا۔

 انفراسٹرکچرل کاموں میں پیشرفت، سڑک کی تعمیر، ریلوے لائن بچھانا، ڈیم بنانا، پانی کی سپلائی، جیسے یہی غدیر نام کا پانی سپلائی کا پروجیکٹ جس کا افتتاح حال ہی میں ہوا۔(5) ریفائنریاں بنانے میں، اسپتال بنانے میں، اور ان میں سے زیادہ تر کا کام اسی گزشتہ ہجری شمسی سال میں ہوا، کسی حصے میں، جنوبی پارس گيس فیلڈ کے کسی حصے میں پورا کا پورا یعنی سو فیصدی کام ایرانیوں نے کیا ہے۔ ایسی ترقی اور پیشرفت ہوئي، کب؟ جب اتنی ساری پابندیاں ہیں، اتنا زیادہ معاشی دباؤ ہے۔ مائع گیس کے پروڈکشن میں پیشرفت، بہت اہم کاموں میں سے ایک تھی - جو ملک کے لیے ایک کشادگي لائے گي، ان شاء اللہ - یہ کام بھی حالیہ عرصے میں ہی ہوا ہے، اس سے پہلے بھی کافی بڑے بڑے کام انجام پائے ہیں۔ خارجہ تعلقات کے میدان میں پیشرفت! مغرب والوں نے دباؤ ڈالا کہ ایران کو الگ تھلگ کر دیں، امریکا اور یورپ والوں نے دباؤ ڈالا کہ ایران الگ تھلگ پڑ جائے۔ خارجہ پالیسی میں الگ تھلگ پڑنے کا مطلب ہے ملکوں سے تعلقات منقطع ہو جانا، جب دوسرے ممالک کسی ملک سے رابطہ نہ رکھیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ملک الگ تھلگ پڑ گيا، جو کچھ ہوا، اس کا نتیجہ بالکل الٹا تھا۔ جی ہاں، مغرب والوں سے ہمارا رشتہ کمزور ہوا، امریکا سے تو ہمارے تعلقات تھے ہی نہیں، یورپ سے بھی ہمارے تعلقات کمزور ہو گئے، لیکن ہم نے ایشیا سے اپنے تعلقات کو سو فیصدی زیادہ مضبوط کیا، ہم آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہم اہم ایشیائي ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی، معاشی، فنی اور علمی و سائنسی رابطے جاری رکھیں گے۔ ہم متعدد اہم معاہدوں کے رکن بنے ہیں۔ دشمن ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے، ایرانی قوم کی کوششیں اور صلاحیتیں اس بات کا موجب بنیں کہ ہم کئي اہم اور مؤثر علاقائي معاہدوں کے رکن بن جائيں۔ ہم الگ تھلگ تو نہیں ہوئے بلکہ اس کے برخلاف اور بھی نمایاں ہو گئے۔ علاقائي حکومتوں اور علاقائي اقوام کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے۔ افریقا اور لاطینی امریکا سے مضبوط رشتے، ہمارے یقینی پروگراموں کا حصہ ہیں اور ان شاء اللہ ہم اس پروگرام کو آگے بڑھائيں گے۔ البتہ ہم یورپ سے بھی خفا نہیں ہیں۔ جو بھی یورپی ملک اور یورپی حکومت، امریکی پالیسیوں کی اندھی تقلید نہیں کرتی، ہم اس کے ساتھ بھی کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یہ ساری ترقی و پیشرفت ہوئي ہے۔ یہ پیشرفت ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے مضبوط اور مستحکم بنیادی ڈھانچے کی علامت ہے۔ یہ ترقی و پیشرفت، ایمان کے سائے میں حاصل ہوئي ہے، قومی عزت کے احساس کے سائے میں، ملکی صلاحیتوں کی ضرورت کے احساس کے سائے میں، یعنی ہماری قوم اور ہمارے عہدیداروں نے محسوس کیا کہ انھیں ملکی صلاحیت کی ضرورت ہے، پہلے دوسروں پر انحصار تھا، غیر ملکیوں پر انحصار تھا، وہ سمجھ گئے کہ دوسروں پر بھروسے کا کوئي اعتبار نہیں ہے، کسی دن ہے، کسی دن نہیں ہے، ملکی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ جب ہم نے استقامتی معیشت کا اعلان کیا تو کہا کہ استقامتی معیشت اندر سے اگنے والی اور باہر کی طرف پھیلنے والی ہے۔(6) اندر سے اگنے والی ہے یعنی ملک کی اندرونی صلاحیت، استعداد اور توانائي، معیشت کے لئے استعمال ہونی چاہیے اور ساتھ ہی یہ باہر بھی پھیلنے والی ہے یعنی ہم تمام ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کے لیے تیار ہیں۔ اس چیز کو ہم نے محسوس کیا، ایرانی قوم نے بھی محسوس کیا، ہمارے جوانوں نے بھی محسوس کیا اور ہمارے عہدیداروں نے بھی محسوس کیا کہ انھیں اپنی ملکی اور داخلی صلاحیت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

بنابریں ہمارے مضبوط پہلو کافی ہیں، جن میں سے داخلی استحکام کی بات میں نے کی، ترقی و پیشرفت کی بھی بات کی، یہ چیزیں موجود ہیں۔ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں یہاں بات کرنے کا وقت اب نہیں ہے۔ یہ ہماری طاقت ہیں، انھیں نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ اسلامی نظام، جمہوری اسلامی ہے، نہ 'جمہوری' کو چوٹ پہنچنی چاہیے اور نہ 'اسلامی' کو نقصان پہنچنا چاہیے۔ یہ مضبوط پہلو ہیں۔ ہر تبدیلی میں ان مضبوط پہلوؤں پر بھروسہ کرنا چاہیے، ان میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے، مضبوط پہلو‎ؤں کو زیادہ نمایاں کرنا چاہیے، زیادہ فروغ دینا چاہیے لیکن ان کے ساتھ کچھ کمزور پہلو بھی ہیں۔ تغیر، کمزور پہلوؤ‎ں کی تبدیلی چاہتا ہے۔ میں کمزور پہلو‎ؤں کے بارے میں بھی اختصار سے بات کروں گا، دو تین باتیں عرض کروں گا۔

اگر ہمارے ملک میں چار پانچ اہم کمزور پہلو ہیں تو ان میں سرفہرست، ملک کی معیشت کا مسئلہ ہے۔ ملک کی معیشت یقینی طور پر ہمارے کمزور پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ البتہ بہت سی معاشی پالیسیاں، پہلے والوں کا ورثہ ہیں، پہلے والے یعنی انقلاب سے پہلے والے، کچھ انقلاب کے بعد کے بھی ہیں۔ ان میں سے بعض معاشی مسائل اور بنیادی معاشی انفراسٹرکچر کا تعلق انقلاب سے پہلے سے ہے، بعض کا تعلق انقلاب کے بعد سے ہے۔

شاید کہا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت کا سب سے اہم مسئلہ، اسے حکومت کے سپرد کر دیا جانا ہے۔ سنہ انیس سو اسی کے عشرے میں ہماری سب سے زیادہ توجہ اس بات پر تھی کہ ملک کی معیشت کی کنجی، حکومت کے حوالے کر دیں، اس نے ہماری معیشت کو نقصان پہنچایا۔ اس کا تعلق خود ہم سے ہے، یہ کام خود ہم نے کیا۔ شاید ہماری معیشت کا سب سے اہم کمزور پہلو، اس کا حد سے زیادہ حکومت کے ہاتھ میں ہونا ہے۔ جب لوگ، معاشی مینیجمنٹ اور اقتصادی سرگرمیوں سے دور کر دیے جاتے ہیں، بڑے کام، اہم کمپنیاں، ملک کے لیے دولت پیدا کرنے والے کام، حکومت کے اختیار میں آ جاتے ہیں اور معاشی شعبے میں سرگرم عوامی طبقات کے اختیار میں نہیں رہتے تو پھر وہی مشکلات سامنے آتی ہیں جن کا ہم آج اپنی معیشت میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہماری سب سے اہم مشکل، معیشت کا حکومتی ہونا ہے۔

دفعہ 44 کی معاشی پالیسیوں کو پیش کرنے اور نوٹیفکیشن جاری کرنے کے وقت ہم نے متعدد ماہرین کی مدد سے اس مسئلے پر بڑی محنت سے کام کیا، یعنی ماہرین نے کیا اور پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا گيا۔ ان پالیسیوں میں کہا گيا تھا کہ عوام کی ضرورت کے معاشی مینیجمنٹ اور کاموں کو عوام کے حوالے کیا جائے۔ البتہ کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں کام کرنے کے عوام خواہاں نہیں ہیں یا انھیں سرکاری اداروں کے ہی ہاتھ میں ہونا چاہیے، وہ تو الگ رہے، لیکن اہم معاشی شعبے عوام کے اختیار میں ہونے چاہیے۔ ہم نے بارہا یہ بات دوہرائي ہے کہ سرکاری ادارے، سرکاری کمپنیاں، نیم سرکاری کمپنیاں، پرائيویٹ سیکٹر کی کمپنیوں اور اداروں سے رقابت نہ کریں اور لوگوں کو پروڈکشن کرنے دیں۔ جب ہم نے کاموں کی ساری باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں دی تھی تو ہم نے اس نیت سے یہ کام کیا تھا کہ معاشی انصاف قائم ہوگا لیکن معاشی انصاف قائم نہیں ہوا۔ ہم غلط سوچ رہے تھے کہ اگر معیشت کی کنجی حکومت کے ہاتھ میں ہو تو معاشی انصاف وجود میں آئے گا، یہ غلطی تھی اور ایسا نہیں ہوا۔ حکومت، معاشی امور میں اپنا ہولڈ کم کرے، نگرانی بڑھائے، مداخلت کم کرے، نگرانی بڑھائے، دیکھ بھال کرے۔ ہماری معیشت کا ایک بڑا عیب، شاید سب سے بڑا عیب یہی ہے، یہ بات برسر اقتدار آنے والی متعدد حکومتوں سے تاکید کے ساتھ کہی گئي کہ عوام کے سپرد کیجیے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی تو غلط طریقے سے ہوا۔ عوام کے مفاد میں ان کے سپرد کرنے کے بجائے بعض موقعوں پر ان کو نقصان پہنچانے والے طریقے سے ان کے سپرد کیا گيا۔ یہ اس بات کا سبب بنا کہ یہ کام انجام نہ پائے۔ آج بھی محترم حکومت کو جو بنیادی کام کرنے چاہیے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ پوری طرح سے غور کر کے، دیکھ بھال کر کے، ضروری نگرانی کے ساتھ معاشی مینیجمنٹ کو خود عوام کے سپرد کرے۔

ہماری معیشت کا ایک اور اہم عیب، کچے تیل کی برآمدات پر انحصار ہے۔ ہم کچا تیل ایکسپورٹ کرتے ہیں جبکہ کچے تیل کا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جو ہمارے تیل کو امپورٹ کرتا ہے - جب یورپ والے ہمارے تیل کو خریدتے اور امپورٹ کرتے تھے - وہ تیل کے اس امپورٹ سے ہم سے زیادہ منافع کماتے تھے جبکہ تیل ہمارا تھا اور ہم نے اسے تیل کے کنووں سے باہر نکال کر اسے بیچا تھا۔ وہ جو ٹیکس لیتا تھا اور اسے جو فائدہ حاصل ہوتا تھا وہ تیل کے مالکوں سے زیادہ تھا، اس وقت بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں کچے تیل کی برآمدات پر اپنی معیشت کے انحصار کو ختم کر دینا چاہیے اور غیر پیٹرولیم کاموں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ بحمد اللہ جیسا کہ رپورٹوں میں ہے، نان پیٹرولیم ایکسپورٹ اور نان پیٹرولیم معاشی سرگرمیوں کی سمت میں کام شروع ہو چکا ہے اور اچھے کام انجام پا رہے ہیں۔

ہماری معیشت کا ایک مسئلہ، ڈالر پر انحصار ہے۔ بعض ملکوں نے، جن پر پابندیاں عائد تھیں، ڈالر پر سے اپنا انحصار ختم کر دیا اور ان کی حالت بہتر ہو گئي۔ اس وقت ہم کئي ایسے ملکوں کو جانتے ہیں -میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا- جو مغربی پابندیوں کا شکار بنے تھے اور سوئفٹ سے، جو مغرب کا ایک عالمی سسٹم ہے، ان کا رابطہ منقطع ہو گيا، انھوں نے ڈالر کو کنارے کر دیا اور مقامی کرنسی میں کاروبار کیا اور درآمد-برآمد کی، ان کی صورتحال بہتر ہو گئي، ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے۔

معیشت کے سلسلے میں جو چیزیں مجھے عرض کرنی چاہیے - یہ ہمارے بنیادی مسائل ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ رائے عامہ ان باتوں پر توجہ دے، رائے عامہ میں یہ باتیں منظور ہوں اور پھیل جائيں- ان میں سے ایک بڑا اہم مسئلہ، جس کی ہمیں ملک کی معیشت کی صورتحال کی بہتری کے لیے ضرورت ہے، تیزرفتار اور لگاتار پیشرفت ہے۔ ہماری معاشی پیشرفت کمزور تھی۔ ہم نے حکومتوں کو جو معاشی پالیسیاں پیش کی تھیں، ان میں آٹھ فیصد معاشی پیشرفت کا ٹارگٹ رکھا تھا جبکہ سنہ دو ہزار دس کے عشرے کے بہت سے برسوں میں ہماری معاشی پیشرفت صفر سے نیچے تھی۔ مجموعی طور پر بھی جب حکومتیں تبدیل ہوئيں اور دوسری حکومت نے امور اپنے ہاتھ میں لیے تب بھی، معاشی پیشرفت بہت کم تھی، میں درست اعداد و شمار پیش نہیں کرنا چاہ رہا ہوں، مثال کے طور پر تقریبا ایک فیصدی یا اس سے بھی کم۔ ہمیں تیزرفتار اور لگاتار معاشی پیشرفت کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہو کہ ایک سال پیشرفت ہو، اس کے بعد ہم پھر رک جائيں۔ یہ تیزرفتار اور لگاتار پیشرفت ہم کب حاصل کر سکتے ہیں؟ جب ہم عوام کی مدد اور ان کی رہنمائي سے پروڈکشن کو بڑھانے میں کامیاب ہوں گے۔ محترم سرکاری عہدیداران اور اسی طرح مجلس شورائے اسلامی میں عوامی نمائندگان، معیشت میں پروڈکشن انجام دینے والے کا کردار ادا کرنے کے لیے عوام کو ترغیب دلائيں گے اور ان کی رہنمائي کریں گے، پرائيویٹ سیکٹر کے لیے بھروسہ پیدا کریں گے کہ وہ سرمایہ کاری کرے، کام پیدا کرے، نجی شعبہ یہ کام کر سکتا ہے۔ سنہ 1401 ہجری شمسی میں، بہمن مہینے (فروری 2023) میں ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کے کچھ اہم افراد نے حقیر سے (امام خمینی) امامبارگاہ میں ملاقات کی تھی(7) ان میں سے بعض نے کچھ باتیں کیں، اہم نکات بیان کیے، کچھ حقائق بتائے اور جو نمونے انھوں نے وہاں دکھائے وہ حیرت انگيز ہیں۔ اس سے ایرانی قوم کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے پاس بے پناہ صلاحیتیں ہیں، ہم بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں۔ اگر معیشت کے مسئلے میں، قوم کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے تو لوگوں کی معیشت یقینی طو پر بہتر ہو جائے گي، افراط زر کی صورتحال یقینا بہتر ہو جائے گي۔ ہم نے سال کے نعرے میں افراط زر پر کنٹرول اور پیداوار میں فروغ کو رکھا ہے(8) "افراط زر پر کنٹرول اور پیداوار کا فروغ"۔ افراط زر پر کنٹرول، پیداوار میں فروغ پر منحصر ہے اور پیداوار میں فروغ، عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر لوگ قدم اٹھائيں، کمر کس لیں تو یہ کام ممکن ہے اور عملی جامہ پہن سکتا ہے۔

ہماری جو ایک اہم غلطی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے عوامی مشارکت کی راہوں کے بارے میں نہیں سوچا۔ میں یہیں پر محترم عہدیداروں، ماہرین اور ملک کے مستقبل سے علاقہ رکھنے والوں کو سفارش کرتا ہوں کہ وہ بیٹھیں اور معاشی مسائل میں عام لوگوں کی مشارکت کی راہیں تلاش کریں۔ جس میدان میں بھی عوام پہنچے، ہم نے اس میں پیشرفت حاصل کی۔ مقدس دفاع میں عوام شامل ہوئے، ہم فتحیاب رہے، ملک کے سیاسی مسائل میں جہاں بھی لوگ شامل ہوئے، وہاں ہم فاتح رہے، معاشی مسائل میں بھی ایسا ہی ہے۔ اگر لوگ ان میں شامل ہوں گے، عوام شامل ہوں گے تو اس میدان میں بھی ہم فتحیاب ہوں گے، کامیاب ہو جائیں گے، البتہ سوال یہ ہے کہ عوام کس طرح سے شامل ہوں؟ معاشی میدان میں عوام کے داخل ہونے کا روڈمیپ انھیں دکھانا چاہیے۔ میں نے پچھلے برسوں میں چھوٹی کمپنیاں بنانے اور چھوٹی کمپنیوں کی مدد کرنے پر زور دیا تھا، سفارش کی تھی(9) اس سلسلے میں کچھ ناکام تجربے بھی سامنے آئے، کچھ کام ایسے ہوئے جو مکمل اور ٹھوس کام نہیں تھے، مگر اس طرح کے کام ہونے چاہیے۔

ہمارے معاشی مسائل میں سے ایک، غیر ملکی تجارت میں بھرپور طریقے سے متحرک نہ ہونا ہے۔ ملک کے اندر پروڈکشن کی ہماری گنجائش زیادہ ہے، چاہے وہ زرعی میدان میں ہو یا صنعتی شعبے میں، دنیا کی منڈیاں بھی بہت وسیع ہیں۔ ہم اپنی غیر ملکی تجارت کو مزید وسعت دے سکتے ہیں، مزید بڑھا سکتے ہیں اور ان شاء اللہ وہ کام کر سکتے ہیں جس کا براہ راست عوام کی معیشت اور عوام کے دسترخوان سے ربط ہو، یہ اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ آج غیر ملکی تجارت میں ہم اتنا کام نہیں کر رہے ہیں جتنا کرنا چاہیے۔ ہمارے بعض طریقے غلط ہیں، انھیں بدلنے کے ضرورت ہے، ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تبدیلی کا ایک مقام، یہی غیر ملکی تجارت کا شعبہ ہے۔

نالج بیسڈ کمپنیوں کی مدد، جس پر میں نے تاکید کی تھی اور بحمد اللہ اس پر عمل بھی کیا گيا، البتہ اتنا کام نہیں ہوا جتنا ہم نے چاہا تھا لیکن بہرحال نالج بیسڈ کمپنیوں میں فروغ آيا۔ نالج بیسڈ کمپنیوں نے کافی کام کیا، ان کی کوششیں بھی بڑھیں اور ان کے پروڈکٹس میں بھی اضافہ ہوا، ساتھ ہی ان کی آمدنی بھی بڑھی، چھوٹی کمپنیاں بنانا، بڑے کارخانوں کو نالج بیسڈ کرنا، یہ ایسے مفید اقدامات ہیں جو اس تبدیلی میں معاون ہیں۔

ایک دوسرا شعبہ، جسے تبدیلی کی ضرورت ہے، جس پر مجلس شورائے اسلامی کے رکن عزیز بھائيوں اور بہنوں کو توجہ دینی چاہیے، قانون سازی کے شعبے میں تبدیلی ہے۔ قانون سازی کی جنرل پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے(10) ان پالیسیوں پر توجہ دی جانی چاہیے اور قانون سازی، جس شکل میں آج ہو رہی ہے، اس سے زیادہ کامل اور ٹھوس شکل میں انجام پانی چاہیے۔ ایک چیز جس پر مختلف حکومتوں میں، تقریبا ہر دور میں، حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلاف رہا ہے -اس وقت تو انتظامیہ اور مقننہ دونوں ہی مل کر کام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہیں- منجملہ موجودہ دور میں یہ شکوہ پایا جاتا ہے کہ کبھی پارلیمنٹ میں سالانہ بجٹ کے قانون میں حتمی اخراجات پاس ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے غیر حتمی ذرائع آمدنی کو مد نظر رکھا جاتا ہے، یہ چیز بجٹ میں خسارے پر منتج ہوتی ہے اور بجٹ کا خسارہ، جیسا کہ ہم نے کہا، معیشت کی بڑی بلاؤں میں سے ایک ہے، یہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ مختلف میدانوں میں کچھ دوسری کمیاں اور کمزوریاں بھی ہیں جن کے بارے میں ان شاء اللہ کسی اور موقع پر بات کریں گے۔

ملک میں تبدیلی کی جانب سفر کے مد مقابل -کہ تبدیلی کے اس سفر کا ہدف، مضبوط پہلوؤں کی تقویت اور کمزور پہلوؤں کو دور کرنا ہے- اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی پالیسی کام کرتی ہے، یہ لوگ تبدیلی کے اس پوائنٹ کے بالکل خلاف کوشش کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، اقدام  کر رہے ہیں اور ان کا ہدف، مضبوط پہلوؤں کو نقصان پہنچانا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی اشارہ کیا، ہمیں مجبورا انھیں عوام کو بتانا ہوگا، عوام کو معلوم ہونا چاہیے۔ جس وقت صدام نے مقدس دفاع کے دوران ہم پر حملہ کیا، اس وقت اس بات کو عوام تک پہنچایا گيا اور ہم نے عوام کو بتایا کہ ملک میں جنگ شروع ہو گئي ہے، یعنی رائے عامہ کو جنگ کے بڑے واقعے کے بارے میں بتایا گيا۔

البتہ آج اس ہائی برڈ جنگ میں، فوجی حملہ نہیں ہے، دشمن فوجی حملہ نہیں کرتا، کچھ دوسرے کام کرتا ہے، یہاں بھی لوگوں کے علم میں لانا ضروری ہے تاکہ انھیں پتہ چلے کہ دشمن کن راستوں سے اور کن پالیسیوں کے ساتھ آتا ہے اور لوگ پوری بصیرت اور علم کے ساتھ واقعات کو دیکھ سکیں۔ جب ہمارے عزیز عوام حالات سے آگاہ ہو جائيں گے تو جو بھی واقعہ اور حادثہ ہو، وہ پورے علم اور بصیرت کے ساتھ اس واقعے کو دیکھیں گے۔

جی ہاں! ہائی برڈ وار میں، فوجی حملہ نہیں ہوتا لیکن مذہبی اور سیاسی عقائد پر حملہ ہوتا ہے،  دشمن کا حملہ مذہبی اور سیاسی عقائد پر ہوتا ہے۔ یہ جو سورۂ اعوذ برب الناس میں کہا گيا ہے: "مِن شَرِّ الوَسواسِ الخَنّاسِ * اَلَّذی یُوَسوِسُ فی صُدورِ النّاسِ * مِنَ الجِنَّۃِ وَ النّاس"(11) اس میں خناس یہی پروپیگنڈا کرنے والے غیر ملکی اور ان کے ملکی پٹھو ہیں، یہ وسوسے ڈالتے ہیں، حقائق کو الٹا دکھاتے ہیں، ان کا مقصد قوم کے عزم کو کمزور کرنا ہے، ان کا مقصد امید کے چراغ بجھا دینا ہے، وہ جوانوں کے دل میں امید کے شعلے کو خاموش کر دینا چاہتے ہیں اور انھیں مایوس کر دینا چاہتے ہیں۔ مایوسی یعنی بند گلی، جب جوان پیشرفت کی طرف سے ناامید ہو گيا، مستقبل کی طرف سے مایوس ہو گيا تو وہ اپنے سامنے بند گلی دیکھنے لگتا ہے اور جو اپنے سامنے بند گلی محسوس کرتا ہو، اس سے صحیح کام کرنے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ وہ اختلاف پھیلانا چاہتے ہیں، وہ ملک میں دو بلاک بنا دینا چاہتے ہیں، وہ قومی طاقت کے حقیقی سافٹ ویئر کو قوم کے ہاتھوں سے لے لینا چاہتے ہیں، اسے بے اثر بنا دینا چاہتے ہیں، یہ سافٹ ويئر عوام کے ایمان، عوام کے دینی اقدار، عوام کے قومی اقدار اور ان کے عقیدوں سے عبارت ہے۔ اگرانھوں نے یہ کام کر لیا تو پھر وہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، اگر ان سے ہو سکا تو خانہ جنگي شروع کروائيں گے، البتہ وہ منہ کی کھا چکے ہیں اور آگے بھی ایسا ہی ہوگا۔

ہائی برڈ جنگ میں دشمن میڈیا کو استعمال کرتا ہے، ثقافتی عنصر سے فائدہ اٹھاتا ہے، سیکورٹی کے عنصر سے فائدہ اٹھاتا ہے، دراندازی کے حربے استعمال کرتا ہے، معاشی عنصر سے فائدہ اٹھاتا ہے، ان سبھی عناصر کو استعمال کرتا ہے تاکہ قوم کو محاصرے میں لے سکے، تاکہ قوم کو مایوس کر سکے، قوم کو اپنی طاقت کی طرف سے غافل کر سکے۔ دشمن کوشش کرتا ہے کہ قوم کو اطلاع رسانی کی راہوں سے دور کر دے۔ ہمارے پاس عوام تک اطلاعات اور معلومات پہنچانے کے وسائل ہیں، وہ ان کی طرف سے عوام کو بدگمانی میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے: "ریڈیو اور ٹی وی کی بات نہ سنو، ان کی خبریں جھوٹی ہیں، حکام اور عہدیداروں کی رپورٹوں پر توجہ نہ دو، ان کی رپورٹیں جھوٹی  ہیں، رہبر انقلاب کی باتیں نہ سنو، رہبر انقلاب کی باتیں گھسی پٹی ہیں۔" گھسی پٹی ہیں؟ برسوں سے دشمن محاذ گلا پھاڑ رہا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ کو گھٹنوں پر لانا چاہتے ہیں، اس کے مقابلے میں رہبر انقلاب کا کہنا ہے کہ تم کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ یہ گھسی پٹی بات نہیں، یہ استقامت ہے۔ خداوند عالم نے ہمیں حکم دیا ہے -پیغمبر کو دیا گيا حکم، سبھی کے لیے حکم ہے، ہمارے لیے حکم ہے- کہ "فَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک"(12) یہ استقامت ہے، یہ، حق بات کو دل میں باقی رکھنا، محفوظ رکھنا اور اس پر ڈٹے رہنا ہے، یہ گھسٹی پٹی بات نہیں ہے۔ بحمد اللہ عوام بیدار ہیں، لوگ ڈٹے ہوئے ہیں، عوام میدان میں ہیں، یہ بات ہمارے عزیز عوام برسوں سے ثابت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ایرانی قوم نے ان سبھی لوگوں کو جنھوں نے حالیہ ہنگاموں میں لوگوں کو ورغلایا یا ہنگاموں کی حمایت کی، تھپڑ رسید کیا اور اللہ کی مدد اور قوت سے آگے بھی ایرانی قوم اپنے دشمنوں کو تھپڑ رسید کرتی رہے گي۔

میں پورے تیقن سے اعلان کرتا ہوں کہ ایرانی قوم مضبوط ہے، ایرانی قوم پیشرفت کر رہی ہے، ایرانی قوم اپنے نقائص کو دور کر سکتی ہے، وہ تبدیلی لانے کی طاقت رکھتی ہے، وہ عیوب کو دور کر سکتی ہے، ایرانی قوم، مزاحمتی محاذ کی حمایت کرتی ہے۔ ہم مزاحمتی محاذ کی حمایت کا کھل کر اعلان کرتے ہیں اور یوکرین جنگ میں شمولیت کو کھل کر مسترد کرتے ہیں۔ انھوں نے جھوٹا دعوی کیا کہ ایران، یوکرین کی جنگ میں شریک ہے، ہرگز ایسا نہیں ہے، ہماری کوئي شرکت نہیں ہے۔ یوکرین کی جنگ دراصل امریکا نے مشرق کی سمت نیٹو کی توسیع کے لیے شروع کرائي، اس جنگ کی راہیں اصل میں امریکا نے ہموار کیں، اس وقت بھی یوکرین کی جنگ سے سب سے زیادہ منافع، سب سے زیادہ فائدہ امریکا حاصل کر رہا ہے۔ بے چارے یوکرین کے عوام مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور جنگ کا فائدہ امریکا کے ہتھیار بنانے والے کارخانے اٹھا رہے ہیں، اسی لیے وہ یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے تعاون نہیں کر رہے ہیں، امریکا ان کاموں میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جنھیں اس جنگ کے خاتمے کے لیے انجام پانا چاہیے، وہ ایسا نہیں ہونے دے رہا ہے، وہ یوکرین کی جنگ کے خاتمے کی بات سن کر ناراض ہو جاتے۔

خیر اپنی گفتگو کے آخر میں، اسلامی نظام کے بعض نقائص کی طرف میں نے اشارہ کیا، کچھ عیب خود ہم عوام میں بھی ہیں، جنھیں ہمیں دور کرنا چاہیے۔ ہم عوام کے درمیان بعض عیوب ہیں جو اتفاق سے معاشی مسائل سے متعلق ہیں، ان میں سے ایک اسراف اور فضول خرچی ہے۔ ہم اسراف کرتے ہیں، پانی کا اسراف کرتے ہیں، روٹی کا اسراف کرتے ہیں، بجلی کا اسراف کرتے ہیں، گیس کا اسراف کرتے ہیں، فضول خرچی کرتے ہیں۔ بعض ممالک کی، جن کی آبادی ہمارے ملک سے کئي گنا زیادہ ہے، گيس کی کھپت ہم سے کم ہے، ان کی پیٹرول کی کھپت ہم سے کم ہے۔ ہماری پیٹرول کی کھپت بہت زیادہ ہے، گيس کی کھپت زیادہ ہے، ہم فضول خرچی کرتے ہیں، پانی برباد کرتے ہیں، روٹی پھینک دیتے ہیں، یہ بہت بڑا عیب ہے، ہمیں اسے دور کرنا چاہیے۔ میں نے آج سے کئي سال پہلے، اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی تھی۔

ہم عوام کی ایک دوسری مشکل حد سے بڑھا ہوا اشرافیہ کلچر ہے۔ اسی وجہ سے شادیاں مشکل ہو گئي ہیں، شادی کی عمر میں نوجوان -چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی- شادی نہیں کر پا رہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ ماں باپ کو اپنے اقرباء اور رشتہ داروں کی بڑی فکر ہے، اس طرح کا مہر ہونا چاہیے، اس طرح لگژری چیزیں ہوں، اس طرح کا ریسیپشن ہو! شادی کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس اشرافیت کے کمپٹیشن سے باہر نکل آئيے، کچھ لوگوں نے لگژری زندگي کا کمپٹیشن شروع کر رکھا ہے، اپنے آپ کو اس کمپٹیشن سے باہر نکالیے۔ یہ ہمارا ایک عیب ہے۔

ہمارا ایک اور اہم عیب یہ ہے کہ ہم ملکی پیداوار کے سلسلے میں کٹّر نہیں ہیں، بہت سی چیزوں میں کٹر ہونا برا ہوتا ہے لیکن اس معاملے میں یہ اچھی چیز ہے۔ ہمیں اپنے ملکی پروڈکٹس کے سلسلے میں کٹر ہونا چاہیے۔ ایک چیز ہے جو ملک کے اندر بنی ہے، اسی جیسی غیر ملکی چیز بھی ہے -البتہ اس امپورٹر کو اس چیز کو درآمد نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن بہرحال اس نے امپورٹ کر دیا- کبھی اس ملکی پروڈکٹ کی کوالٹی، اس غیر ملکی چیز کی کوالٹی سے کم نہیں ہے، کبھی اس سے بہتر بھی ہوتی ہے لیکن ہم غیر ملکی چیز کی طرف جاتے ہیں، کیوں؟ آپ اس ایرانی مزدور کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ اس ملکی پروڈکٹ کو ایرانی مزدور نے بنایا ہے، اگر آپ اسے نہیں خریدیں گے تو وہ مزدور بے روزگار ہو جائے گا۔ آپ غیر ملکی پروڈکٹ خریدتے ہیں اور اسے ملکی پروڈکٹ پر ترجیح دیتے ہیں، یہ بہت بڑا عیب ہے اور ہم پر یہ اعتراض بجا ہے۔ یہ خود ہمارے عیوب ہیں۔ سارے عیوب صرف نظام اور ملک چلانے والے اداروں سے متعلق نہیں ہیں، کچھ عیوب ہم عوام کے بھی ہیں۔

کچھ جگہوں پر چشم پوشی کرنا اور معاف کرنا ضروری ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔ ایک معمولی سے اختلاف پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں، کیوں؟ ممکن ہے کہ دو لوگوں کے درمیان کسی مسئلے میں -مثال کے طور ایک سیاسی مسئلے میں- اختلاف ہو، ہوا کرے! ایک دوسرے سے جھگڑا کیوں کریں؟ کیوں ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں؟ سماج میں دو بلاک کیوں بن جائیں؟ چشم پوشی کرنی چاہیے۔ کچھ جگہوں پر چشم پوشی کرنی چاہیے، نظر انداز کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہمارے مسائل میں سے ایک ہے۔

ان سبھی لوگوں کو میری ایک اہم سفارش، جو لوگوں سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور میڈیا ان کے پاس ہے، چاہے وہ سائبر اسپیس ہو، سوشل میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو، یا ریڈیو اور ٹی وی ہو- یہ ہے کہ امید پیدا کریں۔ دشمن ہمارے نوجوانوں کو ناامید کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے جواب میں ہمیں امید پیدا کرنی چاہیے۔ ملک میں امید پیدا کرنے والے مسائل کم نہیں ہیں، یہی باتیں جو میں نے عرض کیں اور ان سے دسیوں گنا زیادہ باتیں ہیں جو سب کی سب امید کا باعث ہیں اور انسان کو پرامید کرتی ہیں۔ سبھی کی ذمہ داری ہے کہ وہ امید پیدا کریں، اس پر سنجیدگي سے عمل کریں۔

امید پیدا کرنا، خود کو فریب دینا نہیں ہے۔ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ امید پیدا کرنے کا مطلب کمزوریوں کو چھپانا ہے، اپنے آپ کو فریب دینا ہے! نہیں، کمزوریوں کو بھی بیان کیا جانا چاہیے، اس میں کوئي قباحت نہیں ہے۔ لیکن کمزوریاں بیان کرنے کے ساتھ ہی، امید بھی پیدا کی جانی چاہیے، روشن مستقبل اور روشن افق نظروں کے سامنے رکھا جائے اور دکھایا جائے۔ بحمد اللہ ہماری حالت، اچھی حالت ہے۔ ہمیں آج اس آيت کریمہ کو نظر میں رکھنا چاہیے: "وَ لا تَھِنوا"، کمزوری نہ دکھاؤ، "وَ لا تَحزَنوا"، غمگین نہ ہو، "وَ اَنتُمُ الاَعلَون"، تم ہی غالب و برتر ہو، "اِن کُنتُم مُؤمِنین"(13) تمھارا ایمان، تمھاری برتری کا سبب ہے، تمھارے غلبے کا سبب ہے۔ ہماری حالت کے بالکل برخلاف آج اس خطے میں ہمارے کٹر دشمن یعنی امریکی حکومت کی حالت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم خطے میں کیا کر رہے ہیں، ہماری پالیسی واضح ہے، ہمارا راستہ واضح ہے۔ امریکی چکرائے ہوئے اور سراسیمہ ہیں کہ خطے میں رکے رہیں یا باہر نکل جائيں، اگر وہ رکتے ہیں تو ان سے اقوام کی نفرت روز بروز بڑھتی جائے گي۔ امریکی، طاقت کے ساتھ اور ایکٹیو ملٹری فورس کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوئے، بیس سال افغانستان میں رہے، افغان قوم کو خود سے ناراض کیا، اس کی نظر میں نفرت انگیز بن گئے، وہاں سے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئے۔ اگر رکے رہیں تو نفرت انگیز ہیں، اگر باہر نکل جائيں تو وہ چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل جائيں گي جن کی طمع میں وہ یہاں آئے تھے، یہاں ان کی طمع والی چیزیں ہیں، شام میں امریکیوں کی طمع والی چیزیں ہیں، عراق میں ہیں، اس پورے خطے میں ہیں، اگر وہ انھیں چھوڑ کر چلے جائيں تو وہ چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل جائيں گي، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں، رکے رہیں یا چلے جائيں، وہ چکرائے ہوئے اور بوکھلائے ہوئے ہیں۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارا راستہ واضح ہے، ہمارے پاس بصیرت ہے، بحمد اللہ ہمارے قدم مضبوط اور جمے ہوئے ہیں جبکہ ہمارا دشمن کمزوری کا شکار ہے۔

اے پروردگار! روز بروز ان کامیابیوں میں اضافہ کر۔ اے پروردگار! ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی کو، جنھوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا، اپنے پیارے بندوں کے ساتھ محشور کر۔ اے پروردگار! ہمارے عزیز شہیدوں کو، جنھوں نے اس عظیم تحریک کو نتیجے تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی، اپنے پیغمبر کے ساتھ، صدر اسلام کے شہیدوں کے ساتھ محشور کر۔ اے پروردگار! اپنے ولی، اپنی حجت، حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب کو ہم سے راضی کر دے۔ ان کی دعا اور شفاعت کو ہمارے شامل حال کر دے، ہماری قوم کو ہمیشہ سربلند، عزیز اور باسعادت قرار دے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و‌ برکاتہ

 

(1) اس ملاقات کے آغاز میں آستان قدس رضوی (امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر) کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے کچھ باتیں بیان کیں۔

(2) زاد المعاد، صفحہ 328، اے سال اور  حالات کو بدلنے والے! اے دن اور رات کا نظام چلانے والے! ہمارے حال کو بہترین حال میں بدل دے۔

(3) حاضرین کے نعرے

(4) ماہرین اسمبلی کے اراکین سے ملاقات (23/2/2023)

(5) غدیر واٹر سپلائي پروجیکٹ، جس کا افتتاح 2/9/2022 کو ہوا، ملک میں آب رسانی کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے جو صوبۂ خوزستان کے مرکز، جنوب اور مغرب میں واقع 26 شہروں اور 1608 دیہاتوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔

(6) استقامتی معیشت کی جنرل پالیسیوں کا نوٹیفکیشن (18/2/2014)

(7) ملک کے کچھ صنعت کاروں، انٹرپرینیورز اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالکوں سے ملاقات (30/1/2023)

(8) نئے سال کے آغاز کی مناسبت سے نوروز کا پیغام (21/3/2023)

(9) امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر کے زائرین اور مقامی افراد کے اجتماع سے خطاب (20/3/2016)

(10) حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو قانون سازی کی جنرل پالیسیز کا نوٹیفکیشن (28/9/2019)

(11) سورۂ ناس، آيت4،5،6 ، (اے رسول!(ص) آپ کہہ دیجیے کہ میں لوگوں کے پروردگار سے پناہ لیتا ہوں بار بار وسوسہ ڈالنے بار بار پسپا ہونے والے کے شر سے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جِنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔)

(12) سورۂ ہود، آيت 112، (اے رسول(ص) جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں اور وہ لوگ بھی جنھوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں، وہ بھی یہی کریں۔)

(13) سورۂ آل عمران، آيت 139، (اے مسلمانو! کمزوری نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو، اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب و برتر ہوگے۔)