بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
معزز و محترم طلبا و افاضل کے اس اجتماع میں موجودگی میرے لئے بہت شیریں اور لذت بخش ہے۔ میری ہمیشہ ایک آرزو یہ رہی ہے کہ دینی مدرسے میں، طلبا و افاضل کے درمیان دلوں پر حکمرانی کرنے والے دینی مراکزاور دینی مدارس میں سانس لوں اور زندگی گزاروں۔ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت میں تھا اور آپ نے مجھے دوسرے دور صدارت کا حکم دیا تو میں نے عرض کیا کہ جناب میں پہلا دور صدارت ختم ہونے کے بعد جاکے قم میں رہنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا میرا بھی دل چاہتا ہے کہ قم جاؤں لیکن نہیں ہو سکتا۔ یہ آرزو ہے کہ آپ کے درمیان رہوں، آپ کے ساتھ رہوں، آپ کے ساتھ کام کروں۔ آپ برادران و خواہران عزیز بہترین قابل اعتماد طبقات میں سے ہیں جن کے ساتھ انسان بہت سکون کے ساتھ کام کر سکتا ہے، سعی و کوشش کر سکتا ہے۔
جو باتیں جناب آقائے اعرافی نے بیان کی ہیں، وہ بہت اچھی ہیں۔ یہاں آنے سے پہلے، اس راہداری میں نمائش جیسا اہتمام کیا گیا تھا جن میں کاموں اور فعالیتوں کا ذکر کیا گیا تھا، اس سے بھی مجھے بہت خوشی ہوئي۔ یہاں دینی مدارس کے فرائض کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اور اس نمائش میں جو تصویر کشی کی گئي، اس کی یہ بندہ حقیر سو فیصد حمایت کرتا ہے۔
دینی مدارس اور دینی مدارس سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ مختلف پہلوؤں سے بات کی جا سکتی ہے۔ آج گفتگو کے لئے میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے، وہ تبلیغ کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں مجھے جو اطلاعات ملتی ہیں ان سے، مجھے تبلیغ کے تعلق سے کئي لحاظ سے تشویش ہے! جی ہاں، یہ سبھی سرگرمیاں جن کا ذکر ہوا، بیان کی گئيں اور ان کی رپورٹ پیش کی گئی، حقیقت پر مبنی ہیں، صحیح ہیں، میں جانتا ہوں۔ لیکن ہماری ضرورت ان سے زیادہ ہے! اس وسیع اور گھنی آبادی کے ملک میں تبلیغ کی اتنی گنجائش ہے کہ جتنا کام ہو رہا ہے، ہم اس سے کئی گنا زیادہ کام کریں تب بھی میرے خیال میں یہ ضرورت پوری نہیں ہوگی۔ ہمیں تبلیغ کی بھی ضرورت ہے، موعظہ کی بھی ضرورت ہے اور تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ہماری تبلیغ تحقیق پر استوار نہ ہو تو غیر موثر اور بے فائدہ ہوگی۔ اپنی گزارشات کے آخر میں، میں اس تعلق سے کچھ عرض کروں گا۔ آج کے لئے میں نے تبلیغ کے تعلق سے کچھ باتیں تیار کی ہیں جنہیں آپ عزیزان گرامی کی خدمت میں عرض کروں گا۔
آج دینی مدارس میں جو فکر پائي جاتی ہے اس میں تبلیغ دوسرے درجے پر ہے۔ پہلے مرتبے میں دوسری باتیں جیسے علمی مقام و مرتبہ وغیرہ آتا ہے اور تبلیغ کا دوسرا درجہ ہے۔ ہمیں اس نقطہ نگاہ سے آگے بڑھنا چاہئے۔ تبلیغ پہلے درجے میں ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس لئے کہ ہم دین کا ہدف کیا سمجھتے ہیں؟ دین خدا ہم انسانوں کے ساتھ کیا کرنے آیا ہے؟ ایک آخری ہدف ہے کہ ہمیں خلافت الہی کے راستے پر اور انسان کامل تک پہنچنے کے راستے پر ڈالے اور بلندیوں پر لے جائے، اب جتنی ہمارے اندر ظرفیت ہو، یہ دین کا آ خری ہدف ہے۔ درمیانی اور ابتدائي اہداف بھی ہیں۔ مثلا قیام عدل: لیقوم النّاس بالقسط ۔(2) یا اسلامی نظام کی تشکیل: وَ ما اَرسَلنا مِن رَسولٍ اِلّا لِیُطاعَ بِاِذنِ اللَه۔(3) مرکز اطاعات دین ہے۔ یعنی اسلامی نظام کی تشکیل دین کے اہداف میں شامل ہے۔ یہ درمیانی ہدف ہے۔ یا نیکیوں کا رواج پانا، نیکیوں کا پھیلنا اور برائیوں کا خاتمہ، پاکیزہ باتوں اور عمل صالح کی ترویج: اِلَیهِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصَّالِحُ یَرفَعُه.(4) یہ اہداف دین ہیں۔ ان میں سے جس کو بھی آپ مد نظر رکھیں، اس تک پہنچنے کا وسیلہ تبلیغ ہے۔ بغیر تبلیغ کے ممکن نہیں ہے۔ اب استثنائي طور پر کسی فرد کو کوئي خدائی اشارہ ہو جائے یا اس کے دل میں نور پہنچ جائے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ استثنائي بات ہے۔ لیکن لوگوں کے لئے ان اہداف اور ایسے ہی دیگر اہداف کے ساتھ دین خدا بغیر تبلیغ کے نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا تبلیغ کا پہلا درجہ ہے، پہلا مرتبہ ہے۔ بنابریں آپ قرآن میں دیکھتے ہیں کہ تبلیغ پر زور دیا گیا ہے۔
میں نے اسی بات کے پیش نظر قرآنی فہرستوں پر نظر ڈالی۔ لفظ 'بلاغ' یا 'بلاغ مبین' قرآن میں بارہ تیرہ جگہ آیا ہے۔ 'بلاغ مبین' یعنی ایسا پہنچانا کہ کسی شبہے کی گنجائش نہ رہے : وَ ما عَلَینا اِلَّا البَلاغُ المُبین۔(5) شبہے کی گنجائش نہیں رہنی چاہئے۔ بلاغ یعنی پہنچانا، سماعتوں اور دلوں تک پیغام پہنچانا، اس کو قرآن میں بارہا دوہرایا گیا ہے۔ بارہ تیرہ بار تکرار ہوا ہے۔ پیغمبروں کی زبان سے اس کی تکرار کی گئي ہے: ما عَلَینا اِلَّا البَلاغُ المُبین۔ خدا کی طرف سے پیغمبر کو مخاطب کرکے اس کی تکرار کی گئي ہے: فَاِنَّما عَلَیکَ البَلاغ۔ (6) اسی بلاغ سے «اَلَّذینَ یُبَلِّغُونَ رِسالاتِ اللَهِ وَ یَخشَونَهُ وَ لا یَخشَونَ اَحَداً اِلَّا اللَه» (7) (بھی ہے)- جس آیت کی محترم قاری صاحب نے تلاوت کی ہے اور اس سلسلے میں متعدد دیگر آیات بھی ہیں: اُبَلِّغُکُم رِسالاتِ رَبِّی،(8) بَلِّغ ما اُنزِلَ اِلَیکَ مِن رَبِّک.(9)
بلاغ کے مترادف اور ہم معنی الفاظ بھی قرآن میں بہت ہیں: تبلیغ 'دعوت دینا' قرآن میں اس کی کتنی بار تکرار ہوئی ہے۔: اُدعُ اِلی سَبیلِ رَبِّکَ بِالحِکمَةِ وَ المَوعِظَةِ الحَسَنَة۔(10) اِستَجیبُوا لِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ اِذا دَعاکُم لِما یُحییکُم، (11) اسی طرح ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں لفظ 'دعوت' ہے۔ 'انذار' اور'تبشیر' ڈرانے اور بشارت دینے کے الفاظ بھی ہیں۔ یہ سب دعوت کے معنی میں ہے۔ یہ سب تبلیغ ہے۔ آپ دیکھیں کہ قران کریم میں کتنی زیادہ جگہوں پر تبلیغ پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم پیغمبروں کو تبلیغ کا ذمہ دار بتاتا ہے۔ پیغمبروں کے ورثا کے بارے میں کیا ہے؟ اِنَّ العُلَماءَ وَرَثَةُ الاَنبیاء۔(12) آپ بھی تو انبیا کے وارث ہیں۔ آپ کے فریضے کی بنیاد اور اساس تبلیغ ہے۔ آپ کو تبلیغ کرنا ہے۔ خدا کے پیغام کو سماعتوں اور دلوں تک پہنچائيں۔ کس کی سماعت اور دل تک؟ پوری بنی نوع بشر (کی سماعتوں اور دلوں تک) البتہ بعض ترجیحات بھی ہیں۔ فطری طور پر آپ کے اپنے معاشرے کو زیادہ ترجیح حاصل ہے۔ بعض جگہوں کو زیادہ ترجیح حاصل ہے اور بعض جگہوں کو کم ترجیح حاصل ہے، لیکن سب تک پہنچنا چاہئے۔ ہم تبلیغ کی اہمیت کو اس طرح دیکھتے ہیں۔
اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ دینی مدارس میں شروع سے ہی، ایک ہزار سال پہلے سے، تبلیغ کی روایت موجود رہی ہے۔ میں اس سلسلے میں زیادہ تحقیق اور(کتابوں سے) رجوع نہ کر سکا- یعنی رجوع کرنے کا وقت نہ نکال سکا- جتنا میرے ذہن میں تھا، شیخ صدوق کے زمانے سے، یہ شیخ صدوق (رضوان اللہ علیہ) کی متعدد کتابیں، سب تبلیغ ہیں۔ امالی تبلیغ ہے، خصال تبلیغ ہے، عیون اخبار الرّضا تبلیغ ہے۔ یہ سب تبلیغات ہیں۔ صرف تبلیغ مذہب نہیں ہے تبلیغ اخلاق بھی ہے، تبلیغ دین ہے، تبلیغ توحید ہے۔ وہی کچھ جو ہمیں انجام دینا چاہئے۔ مختلف شہروں میں سوالوں کے جواب میں، شیخ مفید (رضوان اللہ علیہ) کے جومختلف رسالے ہیں، - یہ رسالے چند سال قبل، شیخ مفیدکانفرنس(13) کے موقع پر چھپ چکے ہیں- یہ سب تبلیغ ہیں۔ شیخ طوسی نے اپنی اس عمیق اور محنت طلب فقہ کے ساتھ امالی بھی دی ہے۔ امالی شیخ طوسی تبلیغ ہے، امالی سید مرتضی تبلیغ ہے- میں نے عرض کیا کہ مجھے وقت نہیں ملا کہ زیادہ رجوع کرتا اور دیکھتا – آپ کے پاس زیادہ وقت ہے اور زیادہ حوصلہ ہے (رجوع کر سکتے ہيں) – کہ بعد کی صدیوں میں دینی مدارس میں تبلیغ کس طرح انجام پاتی تھی۔ لیکن حالیہ صدیوں میں، مجلسی (رضوان اللہ علیہ)- مجلسی بہت عظیم ہستی ہیں۔ انہیں کم نہ سمجھیں، بہت عظیم ہستی ہیں- انھوں نے بحار الانوار اور حدیث، بیان حدیث وغیرہ کے موضوعات پر دیگر متعدد کتابوں کے ساتھ ہی، حق الیقین اور حیات القلوب جیسی فارسی کی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ یہ کس لئے ہے؟ تبلیغ ہے اور کیا۔ نراقی مرحوم نے بھی فارسی میں کتاب لکھی ہے، بعد میں بھی یہ روش رہی ہے۔ مثال کے طور تفسیر منہج الصادقین (14) اور ایسی ہی دیگر فارسی کتابیں ہیں۔ فارسی میں کس کے لئے لکھی گئيں؟ فارسی علما و افاضل وغیر کے لئے نہیں ہے۔ یہ عوام کے لئے تبلیغ ہے۔ یعنی علما تبلیغ کی روایت کو اہمیت دیا کرتے تھے۔ اب یہ منبر سے کی جانے والی تبلیغ کب سے ہے، مجھے وقت نہیں مل سکا ( کہ دیکھتا)۔ دل چاہتا تھا کہ اگر ممکن ہو تو رجوع کروں، لیکن یہی نویں اور دسویں صدی میں ملا حسین کاشفی سبزواری یا مثال کے طور پر دسویں صدی میں واعظ قزوینی- جو بڑے شاعر بھی ہیں – میرے ذہن میں یہ ہے کہ یہ اہل منبر بھی تھے۔ جاتے تھے تقریریں کیا کرتے تھے۔ منبر سے تبلیغ کی یہ روایت اس وقت سے ہی ہے۔ صاحب روضۃ الشہدا ملا حسین کاشفی ہیں، ہم مجلسوں میں جو مصائب پڑھتے ہیں وہ در حقیقت انہیں کی کتاب سے ماخوذ ہیں اور اسی طرح بعد کے بڑے علما ہیں جیسے شیخ جعفر شوستری ( اہل منبر تھے) شیخ جعفر شوستری وعظ کے لئے مشہور ہیں، عالم ہیں، بڑے فقیہ ہیں لیکن اہل منبر تھے۔ البتہ یہ شیخ جعفر کاشف الغطا نہیں تھے، (وہ اور تھے) یا مرحوم حاج آقا رضا ہمدانی واعظ، بڑے عالم تھے- انہیں غلطی سے صاحب مصباح الفقیہ حاج آقا رضا ہمدانی نہ سمجھیں۔ وہ کوئی اور تھے- صاحب ہدیۃ النملہ الی رئيس الملّۃ، واعظ تھے۔ خود ہمارے زمانے میں فلسفی مرحوم میرزا ابوالحسن قزوینی تھے۔ امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) نے جوانی میں ان سے فلسفہ پڑھا تھا، بڑے عالم تھے۔ انہیں میں نے خود دیکھا تھا۔ اسی تہران کی مسجد جامع کے ایک شبستان میں نماز پڑھتے تھے، منبر سے تقریریں کیا کرتے تھے اور لوگ ان کی تقریریں سنا کرتے تھے۔ یہ لوگ منبر سے تقریر کو اپنے لئے کسر شان نہیں سمجھتے تھے۔ خود ہمارے مشہد میں، مرحوم حاج میرزا حسین سبزواری اور مرحوم جاج آقا حسن قمی منبر سے تقریریں کیا کرتے تھے۔ یعنی تبلیغ کی روایت چاہے، تحریر کی شکل میں ہو، یا منبر سے تقریر کی صورت میں یا شاعری کے ذریعے، دینی مدارس میں رائج رہی ہے۔ اس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ دینی مدرسے کی اہم ترجیح تبلیغ ہے۔ ہر دور میں اسی طرح تھا۔ لیکن خاص طور پر ہمارے دور میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس لئے کہ ہمارے دور میں ایک بات ایسی ہوئی ہے جو صدر اسلام سے اب تک کی ایک ہزار سال کی تاریخ میں نہیں ہوئی تھی۔ اور وہ اسلامی حکومت ہے۔ ملک کا انتظام چلانے کے لئے اسلامی شکل میں سیاسی نظام کی تشکیل اس سے پہلے نہیں ہوئي تھی۔ جب یہ صورتحال ہو تو فطری طور پر اسلام سے دشمنی میں بھی شدت آئے گی۔ اس وقت آپ جانتے ہیں، دیکھ رہے ہیں اور مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ دشمنی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ ہمارے لئے معمول کی بات بن چکی ہے کہ بہت سی انواع و اقسام کی دشمنیاں ہمیں نظر نہیں آتیں۔ بنابریں ہمارے دور میں تبلیغ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ اسلامی نظام میں، نظام کی اساس اور بنیاد عوام ہیں اور ان کا ایمان ہے اور اگر عوام کا ایمان نہ ہو تو نظام بھی باقی نہیں رہے گا- فرمایا نظام کی حفاظت 'اوجب واجبات' (سب سے بڑے واجبات) میں سے ہے۔(15) بعض اوقات انسان محسوس کرتا ہے کہ 'اوجب واجبات' ہے۔ تو عوام کے ایمان کا تحفظ واجب ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے تبلیغ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ دوسرے اس لحاظ سے کہ یہ علمی دگرگونی (16) اور تبدیلی کا دور ہے۔ آج پیغام پھیلانے کے انواع و اقسام کے طریقے موجود ہیں جن کے بارے میں ماضی میں سوچا بھی نہیں جاتا تھا۔ ٹیلیویژن اور سیٹیلائٹ چینلوں سے لے کر انٹرنیٹ اور 'پوسٹ انٹرنیٹ' وسائل تک۔ یہ جو نئي چیزیں ایجاد ہوئي ہیں، آرٹیفیشیل انٹیلیجنس وغیرہ۔ مزید نئي ایجادات آنے والی ہیں۔
تو ان حالات میں اور اس صورتحال میں جب دشمن کے ہاتھ میں ایسی تیز دھار (17) اور خوں آشام برہنہ شمشیریں موجود ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ یہاں تبلیغ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ آج مخالفین اور د شمنوں کے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں طرح کے وسائل میں تبدیلی اور جدت آ چکی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، سافٹ ویئر نے پیغام کو قابل یقین بنانے کے طریقے ایجاد کر دیے ہیں – یہ چیزیں جن سے ماضی میں کوئي واقف نہیں تھا – سائنسی سپورٹ اور نفسیاتی حربوں سے رائج ہو گئي ہیں۔ یہ سافٹ ویئر کے وسائل ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ اس طرح بات کرتے ہیں، ایسی فلم بناتے ہیں، ایسی منظر کشی کرتے ہیں اور اخباروں میں ایسی سرخی لگاتے ہیں کہ جو دیکھتا ہے اس کے صحیح ہونے میں شک نہیں کرتا۔ جبکہ سو فیصد غلط ہوتی ہے۔ آج ہمیں ان کا سامنا ہے۔ اگر ان چیزوں سے غفلت کی، اگر دینی مدارس نے تبلیغ کی اہمیت، تبلیغ کی حساسیت، اور تبلیغ کے فریضے کے سنگین تر ہو جانے کی طرف سے غفلت کی تو ایسے نقصان سے دوچار ہوں گے جس کی تلافی آسانی سے ممکن نہیں ہوگی۔ محال نہیں کہہ رہا ہوں لیکن آسانی سے ممکن نہیں ہے اور ہم 'ثقافتی استحالے' کا شکار ہو جائيں گے۔ اگر لا سمح اللہ (18) ثقافتی استحالہ ہو گیا تو اس کو ٹھیک کرنا اور اس کی تلافی آسان نہیں ہوگی۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بعض چیزوں کے بارے میں مسلسل فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایسا ہو گیا تو اسلام پر ایسا وار لگے گا کہ جس کا اثر برسوں تک باقی رہے گا(19) بات یہ ہے۔ اگر ہم نے غفلت کی تو یہ ہوگا۔ اگر غفلت کی تو بڑے گناہوں کو برا سمجھنا لوگ چھوڑ دیں گے۔ گناہان کبیرہ کو قبیح نہیں سمجھا جائے گا بلکہ وہ معمول کی باتیں بن جائيں گے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مغرب میں یہ ہو گیا ہے۔ مغرب میں قدم بہ قدم اس راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے ہاں ایسے الفاظ اور اصطلاحات رائج ہیں کہ جن کو دوہرانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ یعنی انسان کی گفتگو اور زبان کی شان اس سے بالاتر ہے کہ ان باتوں کو دوہرایا جائے ۔ لیکن ہے۔ اگر تبلیغ کو ہم نے اہمیت نہ دی تو یہ ہمارے معاشرے کو بھی دامنگیر ہوگا۔
یہ باتیں جو میں نے عرض کیں اور یہ سوچ جو پیش کی یہ مسلمات میں سے ہیں، ان میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اب آج کی بحث کو اور زیادہ مفید بنانے کے لئے میں نے چند نکات نوٹ کئے ہیں جنہیں عرض کروں گا۔
تبلیغ میں پہلا نکتہ سامعین کی شناخت ہے۔ اگر صحیح تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مخاطب کو پہچانیں۔ میں مثال کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ اج معلومات عامہ کی سطح - نوجوانوں میں بھی اور دوسروں میں بھی_ ماضی سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ واقعی قابل موازنہ نہیں ہے۔ میری تقریبا پوری تبلیغی عمر- ساٹھ برس سے کچھ زائد- نوجوانوں میں گزری ہے۔ نوجوانی میں مشہد میں میرے جلسے ہوا کرتے تھے جن میں نوجوان، یونیورسٹی طلبا اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے (دیگر افراد) آیا کرتے تھے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا ( آیا کرتے تھے) اس زمانے میں بھی ان کی فکر بہت اچھی تھی۔ نوجوانوں کی فکر اچھی تھی لیکن آج سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ فکر کی سطح اوپر جا چکی ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھے بغیر تبلیغ بے اثر ہوگی ۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ سامنے والا کس فکری مرحلے میں ہے تاکہ ہم اپنی بات، اپنا مدعا، اس کی شکل و صورت اور انداز اس کی ضرورت کے مطابق تیار کر سکیں۔ اس کے بغیر( تبلیغ) مفید نہیں ہوگی۔ ہمارے نوجوانوں کی فکری سطح، ہمارے نوجوانوں اور مخاطبین کی فکری سطح بلند ہو چکی ہے، اس کے ساتھ ہی ایک مصیبت بھی ہے کہ ابلاغیاتی وسائل کی کثرت اور سائبراسپیس کی دنیا میں گونجنے والی آوازوں کی اس گوناگونی اور اس آشفتہ بازاری میں، ایک آواز کنارے لگ گئی ہے اور وہ نسلی اور خاندانی اصولوں کا پیشکش ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بہت کچھ سکھا دیتے تھے۔ ہمارے عوام میں بہت سے لوگوں، شاید ان کی اکثریت کی دینی اطلاعات، دینی معلومات والدین سے ان تک پہنچتی تھیں۔ یہ آواز آج کمزور ہو گئي ہے۔ ذرائع ابلاغ کی اس کثرت میں یہ آواز دب گئی ہے۔ یہ مخاطبین کے بارے میں ایک بات ہے۔ ایک تو مخاطبین کے پاس بہت باتیں ہیں، انواع و اقسام کی باتیں ان کے ذہن میں آتی ہیں اور دوسرے اس طرف بھی مشکل ہے۔
ماضی میں ہم نوجوانوں کو نصیحت کرتے تھے اور انہیں برے لوگوں کی سنگت سے خبردار کیا کرتے تھے، برے ساتھی سے( روکتے تھے) آج برا ساتھی ان کی جیب میں ہے۔ برے ساتھی کا پیج ان کی آنکھوں کے سامنے ہے، اس میں سب کچھ ہے۔ اس مخاطب کو پہچانیں۔ اگر ہماری تبلیغی باتیں، ہمارا تبلیغی طریقہ، ہمارے مخاطبین کی آج کی صورتحال اور حالت کے مطابق نہ ہو تو ہم ناکام رہیں گے۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس آیہ شریفہ «وَ ما اَرسَلنا مِن رَسولٍ اِلّا بِلِسانِ قَومِه»(20) کا ایک مصداق اور مقصد یہی ہو۔ یہ بات کہ اگر ترکی زبان والوں کے درمیان کوئي پیغمبر بھیجیں تو اس کی زبان ترکی ہونی چاہئے، یہ تو بدیہی بات ہے۔ اس کے بغیرتو کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ «ما اَرسَلنا مِن رَسولٍ اِلّا بِلِسانِ قَومِه» کا مطلب یہ ہو کہ وہ قوم کے ذہنی اور فکری ڈھانچے کے مطابق بولے اور بات کرے اور بیان کرے۔ یہ پہلا نکتہ۔ تو پہلا نکتہ ہوا مخاطب کی شناخت۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ تبلیغ صرف شبہات کا جواب نہیں ہے، دفاعی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم بیٹھ کے یہ دیکھیں کہ کیا شبہ پایا جاتا ہے، شبہے کی روک تھام کریں، یا اس شبہے کا جواب دیں۔ ہاں، یہ کام واجب ہے، ضروری ہے لیکن صرف یہی نہیں ہے۔ سامنے والے کی ایک فکری بنیاد ہے۔ اس پر حملہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سامنے والے کے پاس کہنےکے لئے کچھ ہے، سوچ ہے، لا جک ہے، اس لاجک کی بنیاد غلط ہے ۔ ہمیں ان باتوں کو پہچاننا ہے۔ تبلیغ میں حملے کی آماجگاہ بننے والا مورچہ ہوتا ہے۔ اگر حملے کا یہ مورچہ حقیقی معنوں میں موجود ہو تو میدان کی شناخت ضروری ہے۔ یعنی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب آپ نوجوانوں کے اذہان میں موجود شبہات کی کثرت سے روبرو ہوں گے تو آپ کا حریف کون ہوگا۔ ہمارا حریف کون ہے؟ فرض کریں کہ ایڈیٹوریل لکھنے والے کسی قلمکار نے، کسی اخبار کے کالم نویس نے یا کسی خاتون ٹویٹر یوزر نے کسی چینل پر کچھ کہا ہے۔ تو ہمیں کس کا سامنا ہے؟ یہ کون ہے؟ کیا وہ خود یہ کام کر رہی ہے؟ قوی امکان ہے کہ ایسا نہ ہو، قوی امکان ہے کہ پردے کے پیچھے کوئی اور ہو یہ پردے کے پیچھے کون ہے؟ اس کو پہچانیں۔
دیکھیں ایک دن اس ملک میں – البتہ ان دنوں آپ «لَم یَکُن شَیئاً مَذکورا»(21) تھے۔(22) پچاس ساٹھ برس پہلے کی بات ہے – تودہ پارٹی والے سرگرم تھے۔ تشہیراتی کام وغیرہ کرتے تھے۔ بظاہر یہ ہوتا تھا کہ یہ تودہ پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان ہے، کسی مولوی یا غیر نوجوان کے پاس مثال کے طور پر میرے پاس آیا اور اپنی بات میرے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہے۔ بظاہر یہ بات تھی لیکن باطن میں یہ بات نہیں تھی۔ اصل ماجرا یہ نہیں تھا۔ باطن قضیہ یہ تھا کہ تودہ پارٹی "سوویت یونین" کے وسیع فکری اور سیاسی نظام سے وابستہ تھی۔ تودہ پارٹی والوں کو فکری خوراک وہاں سے ملتی تھی۔ وہیں سے ان کی مادی مدد بھی ہوتی تھی اور فکری خوراک بھی ملتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو مارکسزم کا سامنا ہے۔ لہذا یہاں ہمارے دور کے ذہین مفکرین جیسے مرحوم علامہ طباطبائي، ان کا جواب دینے میں نہیں الجھے۔ مارکسزم کا جواب دیا۔ یہ روش ریئلزم مارکسزم کی فکری بنیادوں کا جواب ہے۔ حریف کی فکری بنیادوں کا پتہ لگاکر ان کو ہدف بنائيں۔ شہید مطہری (رحمت اللہ علیہ) بہت سے کام اسی طرح کے ہیں۔ یعنی میدان کو پہچانیں اور پتہ لگائيں کہ ہمارا حریف کون ہے؟
آج ہم دیکھتے ہیں کہ مارکسزم کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن ایک اور میدان میں ایک اور حریف ہمارے مقابلے پر ہے۔ آج یہ مقابلہ ہے۔ یہ مقابلہ دو محاذوں کے درمیان ہے۔ اگر ان دنوں محاذوں کو اچھی طرح پہچان لیں توتشخیص دے سکتے ہیں کہ جس نے ہمارے سامنے سر اٹھایا ہے، وہ خود مختار ہے یا مقابل محاذ سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں محاذ کیا ہیں؟ ایک محاذ اسلامی نظام کا محاذ ہے، جس کے بارے میں، میں بعد میں کچھ باتیں عرض کروں گا- ایک محاذ جھوٹا محاذ ہے جس نے خود کو لبرل ڈیموکریسی کا نام دیا ہے۔ جبکہ نہ یہ لبرل ہے اور نہ ہی ڈیموکریٹک ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کا جھوٹا دعوی کرتا ہے۔ اگر تم لبرل ہو تو تم نے استعمار کیوں کیا؟ قدیم روایتی استعمار اور جدید استعمار اور جدید ترین استعمار پوسٹ ماڈرن کالونیلزم۔ تم کیسے لبرل ہو، کیسے آزادی پسند ہو اور کیسے آزاد فکر ہو کہ ہندوستان جیسے کروڑوں کی آبادی کے ملک کا برسوں تک، سو برس سے زائد عرصے تک استعمار کرتے ہو، اس کو اپنے تسلط میں رکھتے ہو، اس کی ساری دولت و ثروت نکال لے جاتے ہو، اس کو غریب بنا دیتے ہو؟ یہ نہرو کے الفاظ ہیں۔ نہرو ہندوستان کے مجاہدین آزادی میں تھے جو بعد میں وزیر اعظم بنے، لکھتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیں کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان کیا تھا اوران کے آنے کے بعد کیا ہو گیا۔ تم لبرل ہو؟ یہ لبرلزم ہے؟ اسی طرح فرانسیسیوں نے سو سال سے زیادہ عرصے تک الجزائر میں جرائم کا ارتکاب کیا، لوگوں کا قتل کیا۔ کتنے لوگوں کا قتل عام ہوا، یہ لکھا ہے معلوم ہے لیکن مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا ہے۔ الجزائر میں چند برس میں ہزاروں، شاید دسیوں ہزار کا قتل عام ہوا ہے۔ تیونس میں بھی اسی طرح اور شمالی افریقا کے بعض دیگر مقامات پر بھی جرائم کا ارتکاب کیا۔ یہ ڈیموکریٹک بھی نہیں ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ اس لئے کہ ( اسی نام سے) بعض جگہوں پر حکومتیں مسلط کرتے ہیں۔ ڈیموکریسی کے طرفدار نہیں ہیں۔ جو ڈیموکریسی ان کی مطیع نہ ہو، اس کے سو فیصد مخالف ہیں ۔ یہ ایک محاذ ہے۔
دیکھئے کوئي یہ نہ کہے کہ یہ گزری ہوئي باتیں ہیں۔ ہاں ہندوستان کے معاملے کو سو برس گزر گئے۔ الجزائر کے قضیے کو ساٹھ ستر برس گزر گئے، لیکن جنہوں نے الجزائر میں اور ہندوستان میں یہ سب کچھ کیا ان کی خو اور سرشت آج بھی وہی ہے۔ آج بھی وہ اس کے لئے تیار ہیں کہ ایک بے سہارا اور بے یار و مددگار یوکرینی قوم کو آگے جھونک دیں تاکہ امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جیب بھر سکے۔ اصل معاملہ یہ ہے۔ یوکرین کا اصل معاملہ یہ ہے: وہ جنگ کرے، مارا جائے تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے تاکہ یورپ والے اسلحہ خریدنے ہر مجبور ہوں۔ اسلحہ بنائيں، اسلحہ دیں اور کمپنیوں کی جیب بھرے۔ یہ وہی ہیں۔ شام کا تیل چوری کرنے پر آمادہ ہیں اور چوری کر رہے ہیں۔ لوگوں کے تصور میں چور چھوٹا اور حقیر آدمی ہوتا ہے۔ امریکا جیسی ایک حکومت شام کا تیل چوری کر رہی ہے، بہت سکون سے، سب کی آنکھوں کے سامنے۔ یہ وہی ہیں، بالکل نہیں بدلے ہیں۔ یہ ایک محاذ۔
اس کے مقابلے میں ایک نظام ہے جو اسلام پر استوار ہے، اسلام سے ماخوذ ہے، سامراج کا مخالف ہے، استعمار کا مخالف ہے، مختلف اقوام کے مفادات میں مداخلت کا مخالف ہے۔ یہ مخالفت پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں محاذ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جس میں اس نظام کی بنیادوں پر سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے۔ یہ کون کرتا ہے؟ جب ہم تحقیق کرتے ہیں، پتہ لگاتے ہیں – اور پتہ لگانے کے وسائل الحمد للہ ہمارے پاس ہیں – تو سمجھ جاتے ہیں کہ اس کی جڑیں کہاں ہیں۔ لیکن جس کے پاس یہ وسائل نہیں ہیں وہ جب دیکھتا ہے تو اس کو بھی سمجھنا چاہئے کہ جس نے انقلاب کے خلاف مقالہ لکھا ہے وہ بیرون ملک پناہ گزین ہے یا ملک کے اندر موجود ہے، تو کہیں یہ جال تو نہیں ہے۔ فریق حکومتی مشینری ہے۔ لڑائی تمدن کی ہے۔ یہ عالمی لڑائي ہے۔ مقابلے یہ ہیں۔ البتہ سب کچھ یہی نہیں ہے۔ اس بین الاقوامی مقابلے میں دوسرے کام بھی کرتے ہیں۔ اس تقابل میں نقصان کو کم کرنے کے لئے، کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں ڈپلومیسی جیسے کام کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اصولوں کی حفاظت کے ساتھ اس میں کوئي حرج نہیں ہے، ہونی چاہئے، لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا سامنا کس سے ہے، ہم کس کے مقابلے پر ہیں۔ اس کے بغیر صحیح تبلیغ نہیں ہو سکتی۔
البتہ آج مغرب ہمیشہ سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے امریکا کو بڑے شیطان کے لقب سے نوازا ہے۔ (23) حقیقت یہی ہے۔ امریکا میں شر پسندی اور شیطانی حرکتوں کا مجموعہ ہے، اسی کو تبلیغی حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ دفاعی پوزیشن میں نہ رہیں، اس کا ایک موقع یہی ہے۔ آج امریکیوں کی شرپسندی اور شیطانی سرشت سیاست میں ہے، اقوام سے پیش آنے کے ان کے طریقے میں ہے خود اپنی قوم سے پیش آنے کے طریقے میں بھی ہے۔ نسل پرستی اور طبقاتی اختلاف میں ہے۔ جنسی مسائل میں ہے، بے رحمی میں ہے۔ یہ سب کمزور پہلو ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں بے رحمانہ روش (اپناتے ہیں۔) اکیس بائيس سال پہلے جب امریکی عراق میں داخل ہوئے، اس کے بعض مناظر ٹیلیویژن پر دیکھے گئے ہیں، تو وہاں لوگوں کے ساتھ وہ کام کیا جس کا تصور کرکے بھی انسان کانپ جاتا ہے۔ عراق کے لوگوں کے ساتھ، بات بے رحم صدام کی نہیں تھی۔ تو پہلا نکتہ مخاطب کی شناخت ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دفاعی پوزیشن میں نہ پھنسیں۔ اسی پر انحصار نہ کریں۔ البتہ دفاع ضروری ہے، واجب ہے لیکن موقف یلغار والا (ہونا چاہئے) یہ سب آپ کے حملوں کی آماجگاہ بن سکتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ عالمی معاملات کو پہچانیں، دنیا کی سیاست کی حالت اور محاذوں کو جانیں اور پھر حقائق بیان کریں ۔ صحیح دیکھیں اور صحیح بیان کریں۔ یہ دوسرا نکتہ۔
براداران و خواہران عزیز! تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تبلیغ میں جہادی جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سبھی کاموں میں جہادی جذبہ ہو تو کام میں زیادہ پیشرفت ہوتی ہے لیکن جہادی جذبے کے بغیر تبلیغ ضروری روح سے عاری ہے۔ اگر جہادی جذبہ نہ ہو تو پہلی بات یہ ہے کہ بعض اوقات انسان میدان کو سمجھنے میں غلطی کرتا ہے اور غلط دیکھتا ہے اور دوسرے بعض اوقات غلط روش پر عمل کرتا ہے۔ جب جہادی حالت ہو تو، عام طور پر صحیح دیکھتا ہے اور ہمیشہ اچھا کام کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ جب ہم جہادی جذبے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ علمی اور اخلاقی توانائیاں وغیرہ ضروری نہیں ہیں۔ کیوں نہیں۔ یہ اپنی جگہ پر واجب ہیں لیکن جہادی جذبہ بھی ضروری ہے۔ یہ جہادی جذبہ اس آیہ شریفہ کے مد نظر ہے : وَ لا یَطَؤُنَ مَوطِئاً یَغیظُ الکُفّارَ وَ لا یَنالونَ مِن عَدُوٍّ نَیلاً اِلّا کُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صالِح۔(24) جو کام کفار کو غصے میں مبتلا کرے وہ عمل صالح ہے۔ . «یَنالونَ مِنه» یعنی وار لگانا۔ «نالَ» دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب «مِن» کے ساتھ ہو لا یَنالونَ مِن عَدُوٍّ نَیلا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس پر کوئی وار نہیں لگاتا اِلّا کُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صالِح، لیکن یہ کہ اس کے لئے عمل صالح لکھا جاتا ہے۔ یہ بہترین جہاد ہے۔ علما کو بیچ میدان میں ہونا چاہئے۔ انہیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جہادی عمل کی خاصیت یہ ہے۔ گوشے میں بیٹھنا، کبھی کوئي اشارہ کر دینا، کوئی نصیحت کر دینا، کوئی پیغام دے دینا جو عیسائي علما کرتے ہیں، کافی نہیں ہے۔ البتہ عیسائي علما بھی کئی طرح کے ہیں ۔ بعض کلیسا میں محبوس تھے، یعنی انھوں نے خود کو محبوس کرلیا، بعض اس کے برعکس استعمار کا ہراول دستہ بن گئے۔ لاطینی امریکا اور افریقا وغیرہ میں، سامراجیوں اور ان کے فوجیوں سے پہلے، پادری پہنچے، لوگوں کو اس کے لئے تیار کیا کہ وہ آئيں اور انہیں تباہ کر دیں ۔ بعض اس طرح آئے۔ لیکن اسلام میں علما، جهاد لِلّه اور باللہ اور فی اللہ کے بیچ میدان میں ہوتے ہیں اور مایوس نہیں ہوتے۔ جب مجاہدت کا یہ عنصر علمی نقطہ نگاہ کے ساتھ اور علمی کاموں کے ساتھ ہو تو تبلیغ کی تاثیر یقینی ہے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔
اس کے بعد کا نکتہ نوجوانوں اور نوجوان نسل پر خصوص توجہ ہے۔ ملک کا مستقبل یہی تشکیل دیں گے۔ البتہ دیگر طبقات سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ اہل فکر طبقہ، صاحبان فکر، اہل نظر حضرات، علما، سائنسدانوں، فنکاروں، قلمکاروں اور شعرا۔ ان سب کے لئے فکری خوراک فراہم ہونا چاہئے، تیاری ہونی چاہئے۔ چند برس قبل ملک کے سنیما سے متعلق بہت سے افراد شاید پچاس ساٹھ لوگ یہاں آئے، اس حسینیہ کے بالائي حصے میں مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ (25) انہوں نے باتیں کیں اور شکوے کئے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم بعض اوقات ان سے زیادہ توقع رکھتے ہیں۔ ہم نے کب انہیں ضروری اصول بتائے کہ ان سے گلہ کریں کہ ان اصولوں کے مطابق فلم کیوں نہیں بنائي؟ ہمیں چاہئے کہ انہیں ضروری مواد فراہم کریں۔ ایک کام یہ بھی ہے۔ یہ صحیح ہے۔ یعنی تبلیغ میں مختلف شعبوں میں، صاحبان فکر، فنکاروں، صاحبان قلم بولنے والوں پر توجہ دی جائے لیکن سب سے اہم نوجوان طبقہ ہے۔ ملک کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے، ان کے اختیار میں ہے۔ ان کا ایمان محکم ہونا چاہئے، ان کا ذہن شبہات سے پاک ہونا چاہئے۔
نوجوانوں کو دین پر عمل کے لئے ترغیب دلانے کے وسائل بہت اہم ہیں۔ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں کہ جنہیں حسینی جذبہ، انقلاب حسینی اور حسین کی محبت صحیح راستے پر لے جاتی ہے، مجاہدت کے راستے پر ڈالتی ہے، لیکن عبادی امور میں وہ کمزور ہیں۔ عبادی اعمال بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ نماز خیر العمل ہے۔ سبھی اعمال سے بالاتر ہے۔ فلاح ہے، خیر العمل ہے ۔ مثال کے طور پر، فرض کریں بعض اوقات نماز کی طرف سے غفلت کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ ہیں۔ جو چیز ان نوجوانوں کو عبادتوں کی طرف مائل کرے وہ ان انجمنوں کی پرکشش خصوصیت ہے ۔ یہ اہم ہے۔ مساجد کو آباد کرنا، مساجد کو زںدہ رکھنا، واجب کاموں میں سے ہے۔ البتہ ملک کی سطح پر آبادی کے لحاظ سے ہمارے پاس مساجد کم ہیں لیکن جو ہیں ان میں سے بعض یا شاید بہت سی مساجد آباد نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کے وقت کھولتے ہیں، نماز وہاں پڑھی جاتی ہے پھر مسجد کے دروازے بند کردیتے ہیں! لیکن انجمنیں اچھی ہیں۔ انجمن ان چیزوں میں ہے جو نوجوانوں میں شوق پیدا کرتی ہیں۔
موعظہ سے غفلت نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے شروع میں بھی عرض کیا۔ ہم سب کو موعظہ کی ضرورت ہے۔ سب، سبھی بلا استثنا، موعظہ کے حاجتمند ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم بعض چیزیں جانتے ہیں لیکن سننے کا جو اثر ہوتا ہے وہ جاننے کا نہیں ہوتا۔ موعظہ سننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ موعظہ حسنہ۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے مفید اور کارگر ہونے کے لحاظ سے عرض کیں۔
آخری نکتہ- میری نظر میں یہ آخری نکتہ کئی لحاظ سے اہم نکات میں سے ہے- یہ ہے کہ ہم یہ جو چاہتے ہیں انہیں کس طرح عمل میں لا سکتے ہیں۔ میں نے کہا۔ آپ خود بھی شاید جو کچھ میں نے کہا ہے، اس سے دوگنا زیادہ جانتے تھے، میں نے بھی کہہ دیا۔ ان کو عمل میں کیسے لایا جائے؟ اہم یہ ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تبلیغات بہت اچھی طرح انجام پا رہی ہیں۔ تحریری شکل میں بھی اور منبروں سے تقاریر کی شکل میں بھی۔ اچھی تبلیغات انجام پا رہی ہیں لیکن جتنی ہونی چاہئے اس سے کم ہے۔ مقدار کے لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ گنجائش کے برابر یا جتنی ضرورت ہے اس کے نزدیک پہنچنے کے لئے، ان خصوصیات کے ساتھ مبلغین کے لئے، دینی علوم کے عظیم مراکز کی ضرورت ہے۔ دینی تعلیم کے مدارس میں، صرف اسی مقصد کے لئے مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے: مبلغین کی ٹریننگ کے لئے ۔ اس کے ساتھ ہی فکری، تحقیقی اورعلمی بنیادیں بھی مضبوط ہونی چاہئے۔ یعنی یہ جو ہم کہتے ہیں کہ "ہم تبلیغ پر زور دیتے ہیں" اس کو اس بات کا بہانہ نہیں ہونا چاہئے کہ کچھ لوگ یہ کہنے لگيں کہ تو پھر 'کفایہ کتاب' نہ پڑھیں، درس خارج میں نہ جائيں۔ نہیں یہ علمی بنیادیں ضروری ہیں، لیکن قضیے کے اس پہلو پر توجہ بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہمیں ایک بنیادی مرکز کی ضرورت ہے۔ پہلے مرتبے میں، مرکز حوزہ علمیہ قم ہے ۔ جب قم میں یہ کام ہو جائے اور تجربہ حاصل ہو جائے، تو پھر پورے ملک کے دینی تعلیم کے دیگر مراکز میں بھی اس کو دوہرایا جا سکتا ہے۔ ایسے مرکز کی تشکیل جس کو موجودہ زمانے کے تبلیغی مواد کی تیاری کی ذمہ داری سونپی جائے۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جنہیں آج کے دور میں منبر سے بیان کرنا مناسب ہے۔ ممکن ہے کہ کل اس کی تاثیر ختم ہو جائے، بے فائدہ ہو جائے۔ پارسال کہا ہوتا تو مناسب تھا، اس سال (نہیں) یعنی دنیا اس طرح آگے بڑھ رہی ہے اور حوادث اس طرح پے در پے رونما ہو رہے ہیں۔ تبلیغی مواد کو آج کی ضرورت کے مطابق تیار کرنا چاہئے۔ اس کے لئے کتاب و سنت کے منابع اتنے عمیق اور مفاہیم سے پر ہیں کہ کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ قرآن کریم سے اتنا استفادہ کر سکتے ہیں نئے اور جدید مضامین اور قرآن و حدیث پر مبنی باتیں اتنی زیادہ حاصل کر سکتے ہیں کہ جو اس پورے میدان کو بھر دیں گی۔ تو اس عظیم مرکز کی ایک ذمہ داری مواد کی فراہمی ہے۔
دوسری ذمہ داری، موثر تبلیغی روشوں کی تنظیم ہے۔ ہمارے تبلیغی طریقے محدود ہیں۔ زیادہ موثر طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔ ان طریقوں کو اس مرکز میں تیار اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں مغرب والے ہم سے آگے ہیں ۔ ان کے پاس ننے نئے طریقے اور پیغامات کو موثر بنانے کی روشیں ہیں۔ ہم اس میدان میں پیچھے ہیں۔ نئے طریقے تیار اور منظم کرنا ضروری ہے۔ حقیقی معنی میں فن خطابت کی تعلیم دیں۔ یہ دوسری ذمہ داری ہے۔
اس کے بعد مبلغین کی ٹریننگ ہے۔ اس مرکز میں حقیقی معنی میں مبلغ تیار کئے جانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہم مجتہد تیار کرتے ہیں، مبلغ بھی تیار کریں۔ الحمد للہ قم میں ذمہ دارحضرات نے نئي فقہی تحریک شروع کی ہے۔ فقہ معاصر پر تحقیق کر رہے ہیں، فقہی لحاظ سے آج کے مسائل پر کام کر رہے ہیں، یہ بہت اہم ہے، اس کو جاری رہنا چاہئے۔ اسی طرح ہمیں مبلغ بھی تیار کرنا چاہئے۔ ایسے مبلغین جو موثر واقع ہوں، ہر جگہ پھیل سکیں اور ان کی تعداد کافی ہونی چاہئے۔ بعض جگہوں اور علاقوں کا انسان کو پتہ ہوتا ہے – یعنی مجھے پتہ ہے - کہ یہ عوام کے درمیان فعال عالم دین کے وجود سے محروم ہیں۔ ایک دو جگہ بھی نہیں ہے بلکہ ایسی جگہیں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کے مرکز میں، خود تہران میں اس طرح کی جگہیں ہیں جہاں معلّم کی کمی ہے، مبلغ کی کمی ہے، روحانی پیغام پہنچانے والوں کی کمی ہے۔ یہ مرکز اس کمی کو دور کرے۔ بنابریں جو کام ضرور ہونا چاہئے اور بنیادی کاموں میں سے ہے، اور آج آپ شروع کریں گے تو پانچ سال بعد نتیجہ سامنے آئے گآ، وہ یہ ہے کہ اس طرح کا ایک مرکز قائم کیا جائے جو ان ذمہ داریوں پر کام کرے جو کہی گئي ہیں۔ بہت خوش ہوں کہ آپ کا دیدار ہوا۔ شہیدوں اور روح مطہر امام (خمینی) پر سلام
والسّلام علیکم و رحمة الله
1) اس ملاقات میں پہلے ملک کے دینی تعلیمی مراکز کے سربراہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے کچھ باتیں بیان کیں۔
2) سورہ حدید، آیت نمبر 25 "۔۔۔۔ تاکہ لوگ انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔۔۔۔ "
3) سورہ نساء آیت نمبر 64 " اور میں نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ توفیق الہی سے اس کی پیروی کریں۔۔۔۔ "
4) سورہ فاطر، آیت نمبر 10 "۔۔۔۔۔ اس کی پاکیزہ باتیں اوپر جاتی ہیں، اور اس کا اچھا کام اس کو بلندی عطا کرتا ہے۔۔۔ "
5) سورہ یس، آیت نمبر 17 " اور آشکارا پیغام پہنچانے کے علاوہ ہمارا اور کوئی فریضہ نہیں ہے"
6) منجملہ، سورہ آل عمران، آیت نمبر 20 "۔۔۔۔ تمھارے ذمہ صرف پیغام پہنچانا ہے۔۔۔۔ "
7) سورہ احزاب، آیت نمبر 39 " جو لوگ خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں، اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔۔۔ "
8) منجملہ سورہ اعراف، آیت نمبر 62" ہم اپنے پروردگار کا پیغام تم تک پہنچا رہے ہیں۔۔۔"
9) سورہ مائدہ آیت نمبر 67"۔۔۔ جوکچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے، اس کو پہنچا دیں۔۔۔"
10) سورہ نحل آیت نمبر 125" حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعے اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائيں۔۔۔"
11) سورہ انفال آیت نمبر 24 "۔۔۔ جب خدا اور پیغمبر تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں حیات بخشتی ہے، تو ان کی دعوت پر لبیک کہو۔۔۔"
12) امالی شیخ صدوق ص 60
13) شیخ مفید علیہ الرحمہ کی وفات کی ہزار سالہ برسی کی مناسبت سے "ہزارہ شیخ مفید عالمی کانفرنس " 17سے 19 اپریل 1993 تک قم میں منعقد ہوئي۔
14) رجوع کریں : ہزارہ شیيخ مفید عالمی کانفرنس کے لئے پیغام سے 17-4-1993
15) منجملہ صحیفہ امام ج 19 ص 146، اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر ایرانی عوام کے نام پیغام 11-2-1984
16) رہبر معظم نے لفظ " تطور" استعمال فرمایا ہے جس کے معنی ڈیولپمنٹ اور دگرگونی ہیں
17) رہبر معظم نے لفظ" اختہ " کا استعمال فرمایا ہے یعنی نیام سے نکلی ہوئی ننگی تلوار
18) خدانخواستہ
19) منجملہ صحیفہ امام ج 17 ص 383۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے خطاب 21-3-1983
20) سورہ ابراہیم آیت نمبر 4 " اور ہم نے ہر قوم میں اسی کی زبان کا پیغمبر بھیجا ہے۔۔۔"
21) اور کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھی ( قرآن کریم، سورہ دہر سے ماخوذ
22) حاضرین کی ہنسی
23) منجملہ صحیفہ امام ج 16 ص 154 اسلامی جمہوری نظام کے یوم تاسیس پر ایرانی قوم کے نام پیغام 1-4-1982
24) سورہ توبہ آیت نمبر 120
25) رجوع کریں فلم اور ٹیلیویژن کے ہدایت کاروں سے ملاقات میں خطاب 13-6- 2006