بسم اللہ الرحمن الرحیم

 خوش آمدید۔ آپ کی زیارت سے بڑی خوشی ہورہی ہے۔ میرا دل ہمیشہ آپ لوگوں میں ہی لگا رہتا ہے۔ اگر ممکن ہوتا کہ اس سے پہلے آپ سے ملاقات، گفتگو اور تبادلہ خیال ہو، تو یقین جانیں ضرور ہوتا لیکن مصروفیات زیادہ ہیں اس لئے کبھی کبھی اسی طرح آپ سے ملاقات ہوجاتی ہے۔

  پاسداران انقلاب کے زمینی شعبے کے سربراہ برادر عزیز جناب آقائے ایزدی نے بہت اچھی اور حوصلہ افزا باتیں کی ہیں۔مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ الحمد للہ سپاہ پاسداران انقلاب  کے زمینی شعبہ اپنی لازمی شکل میں آگیا ہے۔اچھی استعداد پیدا کی ہے اور بنیادی ارکان کے انتخاب میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔یہ بات اچھی نہ ہوتی کہ ہمارے پاس سپاہ کا لشکر تو ہوتا لیکن اس میں پاسداران کا بنیادی  عملہ دس پانچ اور کبھی اس سے بھی کم ہوتا۔ اب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے  فوجی ڈیویزنوں میں  جو حد مد نظر رکھی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ پاسداران ہیں، یہ بنیادی بات ہے۔حق یہی ہے۔ یہی ہونا چاہئے کیونکہ فورس کا استحکام پاسداران انقلاب اصلی اور بنیادی اراکین پر ہی منحصر ہے۔بقیہ افراد جو اس میں ہیں چاہے وہ عوامی رضاکار فورس بسیج کے ارکان ہوں یا وہ افراد ہوں جو  لازمی فوجی سروس کے  دوران آپ کے ساتھ منسلک کئے گئے ہیں، آپ انہیں منظم کرتے ہیں، ٹریننگ دیتے ہیں، ان سے کام لیتے ہیں۔ سپاہ پاسداران کے اصلی اراکین کو خاص طورپر جنگی دستوں میں نمایاں رہنا چاہئے۔ البتہ سپورٹ کے یونٹ اور بقیہ دستے بھی اہم ہیں لیکن آپریشنل دستے ایسے ہیں جہاں پاسداران انقلاب کے اصلی اراکین کو زیادہ نمایاں ہونا چاہئے۔

اب جوکام آپ کو اس کے بعد کرنے ہیں۔

   سب سے پہلا مسئلہ ٹریننگ کا ہے۔سپاہ پاسداران کے اندر پوری دقت کے ساتھ مکمل ٹریننگ ہونی چاہئے۔ ٹریننگ کے یہ ادوار، چھوٹے بڑے افسروں سے لے کر سپاہ پاسداران کے تمام عملے کے لئے ہونے چاہئیں۔اس میں افسروں کی ٹریننگ، چھوٹے افسروں کی ٹریننگ، خصوصی مہارتوں کی ٹریننگ، کمانڈ اینڈ کنٹرول کی ٹریننگ سب کچھ شامل ہونا چاہئے۔ہر ایک اپنی حد کے اندر، جو اس کے لئے مناسب ہے، ضروری تربیت کے ادوار پورے کرے۔یہ کورس اور ادوار، تاریخ کے فوجی اور علمی تجربات کا نچوڑ ہیں۔وہ چیزیں ہیں جن کا علم ضروری ہے۔جیسے علم کے دیگر شعبے ہیں، جیسے ‌فزکس ہے، ہیومن سائنس ہے، کیمسٹری ہے، میکانک ہے، دیگر علوم ہیں جن میں دنیا نے پیشرفت کی ہے اور تجربات حاصل کئے ہیں،  جنہیں ہم بڑے شوق و ذوق کے ساتھ  ان کے مفید ہونے کا اقرار کرتے ہوئے حاصل کرتے ہیں، یہ بھی اسی طرح ہیں انہیں بھی حاصل کرنا چاہئے۔ آپ تو مکتبی، انقلابی اچھے جذبات کے مالک سپاہی ہیں  اور اپنی مخصوص  خصوصیات رکھتے ہیں، جو اب تک دنیا کی کسی بھی فوج میں نہیں رہی ہے، اس کو بھی حاصل کریں تاکہ واقعی دنیا کی تمام فوجوں میں آپ کو  ممتاز پوزیشن حاصل ہو۔

  جو لوگ اب اس فوج میں بھرتی ہوں، ان کے لئے ٹریننگ اور تربیت کے مخصوص دورے مد نظر رکھیں۔یعنی جو چھوٹے افسر ہوں گے، انہیں اس کی خاص ٹریننگ دی جائے، جوافسر ہوں گے، ان کے لئے افسری کی ٹریننگ اور تربیت ہو۔لیکن جو عملہ اس وقت موجود ہے اس کی بھی ٹریننگ ضروری ہے۔ یہ افراد بھی ٹریننگ اور تربیت کے یہ ادوار کم مدت میں ہی صحیح پورے کریں۔ زمینی فوج میں ٹریننگ پر تاکید کریں۔

   دوسری بات یہ ہے کہ دستوں کو ہمیشہ آپریشنل حالت میں رکھیں۔سپاہ پاسداران کے زمینی دستے جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایسے ہیں کہ ان کا حجم کم ہے لیکن قابل توسیع ہیں۔ قابل توسیع ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی ان کی قوت زیادہ اور کیفیت اعلی ہے۔ورنہ اگر کیفیت اعلی نہ ہو تو آپ کی ایک بریگیڈ کا کمانڈر ضرورت پڑنے پر ڈیویزن کی کمان کیسے سنبھالے گا؟ ایک بریگيڈ کی کمان کا عملہ ایک ڈیویزن کی کمان کے عملے میں کیسے تبدیل ہوگا اور ڈیویزن کو کیسے کمان کرے گا؟ بنابریں ایک بٹالین کمان کے عملے کے لحاظ سے سو فیصد کارآمد، فعال، سوجھ بوجھ اور بصیرت کی مالک اور قابل بھروسہ ہے اور ضرورت پڑنے پر فوری طورپر ایک بریگیڈ --- تین بٹالین --- میں تبدیل ہوسکتی ہے۔بنابریں آپ کی مستقل بریگیڈوں اور ڈیویزنوں کی کمان کے عملے کی کیفیت کا مطلب اس کا  اعلی کیفیت  اور آپریشنل حالت میں ہونا ہے۔

   اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ اعلی کیفیت اور آپریشنل حالت ہمیشہ باقی رہے تو مشقوں اور ضروری آپریشنل مشقوں سے کبھی بھی غفلت نہ برتیں۔سپاہ پاسداران کے سپاہیوں کو مستقل طورپر باری باری سے مشقیں انجام دینی چاہئیں۔بٹالین کی سطح کی مشقیں، بریگیڈ کی سطح کی مشقیں، ڈیویزن کی سطح کی مشقیں، ان پر مستقل عمل کریں۔اس کے لئے کمانڈروں کی مستقل موجودگی کی ضرورت ہے۔یہی وہ تیسرا نکتہ ہے جو میں عرض کرنا چاہتاہوں۔

   تیسرا نکتہ کمانڈروں کی موجودگی ہے۔کمانڈر کو چاہئے کہ اپنے زیرکمان دستے اور یونٹ کو اپنے فرزندوں اور خاندان کے ان افراد کی طرح سمجھے جو اس کی سرپرستی میں ہیں۔آپ کے لئے بہترین اور  پسندیدہ ترین جگہ وہ دستہ اور یونٹ ہونا چاہئے جو آپ کے زیر کمان ہے۔آپ کہیں بھی ہوں، اپنے دستے اور یونٹ کے پاس پہنچ جائیں۔ دستے اور یونٹ سے آپ کی غیر حاضری، بالکل استثنائی بات ہونی چاہئے۔ اگرفرض کریں ہم کسی کو کاروائیوں کے علاقے میں، آپریشنل یونٹوں کی تعیناتی کے مراکز کا معائنہ کرنے کے لئے بھیجیں تو واپس آکر یہ رپورٹ دیں کہ ڈیویزن کے کمانڈر، قائم مقام کمانڈر، اور اس کے معاونین موجود تھے۔یا بریگیڈ جہاں تعینات تھی، بریگیڈ کا کمانڈر، ڈپٹی کمانڈر اور اس کے معاونین وہاں موجود تھے۔ یہ رپورٹ نہ دیں کہ ہم فلاں جگہ گئے اور پانچ چھے یا دس یونٹوں کا معائنہ کیا ان میں  ساٹھ، یا ستر فیصد کمانڈر یا  ان کے معاونین غیر حاضر تھے اور بعض جگہوں پر دونوں غیر حاضر تھے۔یہ بات ہرگز نہیں ہونی چاہئے تاکہ آپ ہر وقت چوکس اور آپریشنل حالت میں رہیں۔

   البتہ ایک نکتہ ہے جس پر الحمد للہ سپاہ پاسداران نے شروع سے ہی عمل کیا ہے، وہ ہر سطح پر کمانڈر کی موجودگی ہے۔خیال رکھیں کہ یہ خصوصیت آپ سے سلب نہ ہو۔یہ درجہ جو بہت اہم ہے، آپ کو آپ کے عملے سے، نچلی ترین سطح کے لوگوں سے الگ نہ کرے۔ جو بات ہم نے بعض  دیگر افواج میں دیکھی ہے لیکن الحمد للہ سپاہ پاسداران میں ہرگز نہیں رہی، امید ہے کہ کبھی نہیں ہوگی۔

   سپاہ پاسداران میں سب ایک ہی طرح کی وردی میں کسی علامت اور نشان کے بغیر رہتے تھے۔یونٹ کے کمانڈر اور بنالین یا دستے کے معمولی رکن میں ظاہری وضع قطع کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ یہ نہیں پہچانا جاسکتا تھا کہ کون کمانڈر ہے اور کون معمولی رکن ہے۔ اس سے فطری طورپر ایک قسم کی یگانگت اور خلوص پیدا ہوتا تھا جو بہت بڑا حسن تھا لیکن درجے کا حسن اسے بڑا ہے۔یعنی اس درجہ بندی پر کبھی سوالیہ نشان نہیں لگتا۔لیکن آپ دونوں باتیں ایک ساتھ رکھیں۔ یعنی یہ درجے بندی بھی ہو، وہ نچلی سطح برادر آپ کا احترام کریں، آپ کو سلام کریں، لیکن اسی کے ساتھ آپ کا رویہ اسی طرح برادرانہ رہے جس طرح ہمیشہ رہا ہے، اورآپ ان کے درمیان رہیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب کی پیشرفت کا راز یہ تھا کہ سپاہ پاسداران کا کمانڈر کبھی محاذ کی فرنٹ لائن پر بھی پہنچ جاتا تھا۔ البتہ ہم عام طورپر اس کے مخالف تھے لیکن خطرہ نہ ہونے کی صورت میں یہ بات ہمیشہ رہنی چاہئے۔یعنی کمانڈر حضرات مختلف سطح کے دستوں میں جائیں۔انہیں آپ کی موجودگی کا احساس ہونا چاہئے۔یہ موجودگی بہت غیرمعمولی اہمیت بہت زیادہ مثبت تاثیر  رکھتی ہے۔

  اس سلسلے میں آخری نکتہ، قواعدو ضوابط پر مکمل عمل درآمد ہے۔ منشور قواعد و ضوابط کی ہر شق کا مکمل نفاذ ہونا چاہئے۔اس میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے۔چونکہ سپاہ پاسدارن میں منشور پر عمل درآمد کا رواج نہیں رہا ہے۔ لوگ اسی ابتدائی، معمولی دینی اور انقلابی تربیت کے مطابق ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ یہ بات کسی غیر فوجی ادارے کے لئے بری نہیں ہے۔لیکن کسی فوجی ادارے کے لئے یہ چیز ممکن نہیں ہے۔منشور پرعمل ضروری ہے۔ اس پر موبمو عمل ہونا چاہئے۔

   سپاہ پاسداران کے بارے میں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یقینا جنگ کے دوران، جنگ کا موثر اور فیصلہ کن عنصر سپاہ پاسداران تھی اور شروع سے آخر تک جو فتوحات ہم نے حاصل کیں ان میں سے اکثر سپاہ کے نام کے ساتھ تھیں  صرف سپاہ سے تعلق رکھتی تھیں یا ان میں سپاہ کا کردار بنیادی اور اہم تھا۔یہ کس لئے تھا؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب آپ سب کے لئے واضح ہے اگر چہ ممکن ہے کہ ہماری آئندہ نسل کے لئے اس کا جواب واضح نہ ہو۔لیکن یہی جواب اس عظیم جدو جہد کے میدان میں کامیابی کا راز ہے جس میں ہم اب بھی مصروف ہیں۔ واقعی ان کامیابیوں اور پیشرفتوں کی وجہ کیا تھی؟ جواب ایک جملے میں ہے۔انقلابی تدین  سے پیدا ہونے والی فداکاری۔ انقلابی جذبے سے عاری تدین گوشہ نشینی اور عدم فعالیت سے ‎ساز گار ہوتی ہے۔لیکن انقلابی جذبے کے ساتھ تدین جو وہی خالص، اصلی صحیح اور قرآنی تدین ہے، ایسی کیفیت اور جذبے  کے ہمراہ ہوتا  ہے کہ جس میں فداکاری، ایثار، خلاقیت، رکاوٹوں سے نہ گھبرانے کی حالت، خود اعتمادی اور خدا پر توکل و اعتماد مطلق ہوتا ہے۔  

    یہی جذبہ اس بات کا باعث ہوا کہ متعدد واقعات میں آپ تعداد میں کم ہونے کے باوجود کثیر گروہوں پر غالب آئے۔ اس کی حفاظت کریں۔خیال رکھیں کہ یہ جذبہ ہم سے سلب نہ ہو۔ اگر خدا نخواستہ سلب یا کمزور ہوگیا تو انقلابی قوت بے معنی ہوجائے گی  اوروہ تاریخی انقلابی اقدام جس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اپنا مفہوم کھوبیٹھےگااور اور پھر انجام نہیں پائے گا۔اس کے لئے مستقل دینی تربیت کی ضرورت ہے۔علمائے کرام جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، ولی فقیہ کا نمائندہ دفتر اور  عقیدتی وسیاسی شعبے اس  تعلیم و  تربیت کے مراکز ہیں مگر بنیاد سپاہ پاسداران کے ایک ایک فرد اور کمانڈروں کا عزم و ارادہ ہے۔

بھائیو! ہمیں خدا کے ساتھ ہونا چاہئے تاکہ خدا ہماری مدد کرے۔ " من کان للہ کان اللہ لہ " (1) اگر ہم خدا کے لئے رہے، اس کے لئے ارادہ کیا، فیصلہ کیا قدم بڑھایا تو خدا وند عالم اپنا ارادہ ہماری پیشرفت کی سمت میں قرار دے گا پھر عالم کے تمام قوا‏عدوضوابط ہمارے حق میں ہوں گے۔اس کے بغیر ہم بھی دنیا کے دوسرے لوگوں کے گروہ کی طرح ہوں گے۔جب کوئی انسان خدا کے لئے نہ ہو اور اس کے لئے کام نہ کرے تو اس کا کوئی بھی نام ہو، ایرانی ہو یا کسی اور جگہ کا ہو، اس کا نام مسلمان ہو یا غیر مسلمان ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر کوئی بالفرض اسلام پر اعتقاد بھی رکھتا ہواور  تھوڑا بہت عمل بھی کرتا ہوتو بھی اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس کو یہ اسلامی عزت بھی حاصل ہو؟ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ صدیاں بیت گئيں اور اسلامی عزت ہمارے ساتھ نہیں تھی۔

آج بھی مسلمین جن کا نام مسلمان ہے، نہایت ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اوپر کفار مسلط ہیں۔امریکا ان کے اوپر مسلط ہے۔مغرب کے بے ضمیر اور بے وفا ماہرین ان کے اوپر مسلط ہیں۔اگر اسلام کا نام ہی کافی ہو تو نام کے تمام مسلمانوں کو عزت والا ہونا چاہئے تھا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نہیں ہیں۔وہ چیز جو کسی انسان یا کسی جماعت کو عزت عطا کرتی ہے، وہ حقیقی اسلام ہے۔یعنی خدا کے سامنے تسلیم ہونا۔" الاسلام ہو التسلیم " (2) دین بھی یہی ہے۔دین وہی تسلیم ہونا ہے۔" الدین عند اللہ الاسلام " (3) دین خدا کے سامنے تسلیم ہونا ہے۔ "و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ" (4) آپ کا دین خدا کے سامنے تسلیم، ہونا چاہئے۔ہمارے بزرگوں، ہماے چھوٹوں، ہمارے عمامے والوں، ہمارے فوجیوں، ہمارے معاشرے کے عام لوگوں، بالخصوص ہمارے ہمارے ذمہ دار عہدیداروں کو واقعی خدا کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے اور ان کے فیصلوں میں ان کے ذاتی اغراض مقاصد اور خواہشات کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔

انسان یونہی فطری طور پر تو فرشتہ نہیں بن جاتا۔ برگزیدہ لوگوں پر نہیں لیکن عام لوگوں پر ان کی خواہشات اورشہوات کا بہر حال اثر ہوتا ہے۔لیکن اہم یہ ہے کہ یہ خواہشات و شہوات اس کی زندگی کی راہ و روش پر اثر انداز نہ ہوں خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں کسی جماعت یا پورے اسلامی معاشرے کی قسمت وابستہ ہو۔ ان جگہوں پر خدا کے سامنے تسلیم ہونا چاہئے۔ اپنے ارادے پر خدا کے ارادے اپنی خواہش پر خدا کی مرضی اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد پر اہداف الہی کو مقدم رکھنا چاہئے۔اگر ایسا ہو تو وہ عزت جو خدا وند عالم نے آپ کو ایرانی عوام اور مسلمین کو عطا کی ہے، اور ان بارہ تیرہ برسوں میں اپ دنیا کی اقوام کے لئے نمونہ بن گئے، "کنتم خیر امۃ اخرجت للناس"(5) کے مصداق بن گئے، آپ کے دشمنوں نے بھی اس کا اعتراف کیا اورآپ نے کافی پیشرفت کی، یہ عزت باقی  رہے گی۔

بھائیو! ہم واقعی ابھی ابتدائے راہ میں ہیں۔ ان بارہ برسوں کی مجاہدت اور اس سے پہلے جو کچھ انجام پایا ہے، اس نے ہمیں راستے پر ڈال دیا ہے۔اب ہمیں یہ راستہ طے کرنا ہے۔یہ نہ سمجھیں کہ منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ کہاں پہنچے ہیں؟ کہاں وہ مطلوبہ اسلامی معاشرہ اور کہاں وہ جو آج ہمارے پاس ہے؟ کہاں وہ مطلوبہ اسلامی قیادت اور کہاں وہ جو آج ہمارے پاس ہے؟ کہاں وہ اصلاح شدہ اسلام کے مطلوبہ انسان اور کہاں وہ جو آج ہمارے معاشرے میں ہیں؟ اگرچہ ہمارے معاشرے میں اعلی اور برگزیدہ انسان بہت ہیں اور واقعی ہمارے بہت سے افراد جو جنگ کے دوران امتحان میں کامیاب رہے، صدر اسلام کے بہت سے مسلمانوں سے بھی زیادہ برگزیدہ اور اہم ہیں۔لیکن یہ راستہ طےکرنا ہے۔اسلام ہم سے یہ چاہتا ہے۔

   اس معاشرے کو سمندر کی طرح عظیم اور بے کراں ہونا چاہئے تاکہ پوری دنیا کی اصلاح کرسکے۔اگر پانی میں گہرائی کم ہو تو تھوڑے سے لوگوں کے نہانے کے بعد گندا ہوجائے گا۔اس سمندر کو عظیم گہرا، اور آب زلال سے اس طرح چھلکتا ہوا ہونا چاہئے کہ اگر پوری دنیائے کفر بھی اس میں ڈال دی جائے تو بھی  دنیا پاک ہوجائے اور اس کا پانی آلودہ نہ ہو۔ ہمیں اس طرح ہونا چاہئے۔

"کنتم خیر امۃ للناس" یعنی کیا؟ ہمارے معاشرے سے رابطے میں دنیا کی اصلاح اور پیشرفت ہونی چاہئے مگر اس معاشرے کو آلودہ نہیں ہونا چاہئے۔ہمیں اس منزل تک پہنچنا ہے۔ ہم کہاں اور یہ مطلوبہ حالت کہاں ؟ کیا ہم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے ؟ ہمیں پہنچنا چاہئے۔ کیا اب تک کوتاہی ہوئی ہے؟  نہیں ' اب تک بہت اچھے اقدامات ہوئے ہیں لیکن راستہ طولانی اور دشوار ہے۔ہم سب کو چاہئے کہ اپنی تربیت کریں۔ ہم سب کو چاہئے کہ خود پاک و صاف بنائیں، اپنا تزکیہ کریں۔ ہم سب کو خدا کے لئے کام اور کوشش کرنی چاہئے اور اپنے اندر نورانیت پیدا کرنی چاہئے تاکہ آگے بڑ ھ سکیں۔آپ سپاہ پاسداران کے براداران کا چاہئے کہ اپنے اہم فرائض کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔

   ہمارے دشمنوں کو دشمنیاں بھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ البتہ آج جو لوگ سیاسی امور کا تحلیل و تجزیہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مغربی سرحدوں پر جنگ کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ سیاسی تجزیے اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔لیکن دنیا میں سیاسی تجزیے کب سو فیصد صحیح ثابت ہوئے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ یہ بھی صحیح ہوگا؟ ابتک جو حوادث رونما ہوئے وہ سیاسی تجزیوں کے مطابق کب رہے؟ کیا خلیج فارس کے حالیہ حوادث سیاسی تجزیوں کے مطابق رونما ہوئے اور آگے بڑھے ہیں؟ نہیں! اس قسم کے کسی حادثے کے رونما ہونے میں ہزاروں انسانی اور غیر انسانی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ انسان کو ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔

   جس بات میں مجھے کوئی شک نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم چا  ہیں تو  اس انقلاب اور اس نظام کو اسلامی باقی رکھ سکتے ہیں اور  آئندہ سوسال تک سپر طاقتوں کی دشمنی اور اس کا قلع قمع کرنے کا ان کا ارادہ، اس کو کوئی نقصان نہیں  پہنچاسکتا۔  البتہ آج سپر طاقتیں اپنی سابقہ شکل میں موجود نہیں ہیں۔مگر دنیا کی زور زبردستی کرنے والی طاقتیں،ان میں سرفہرست امریکا اور دیگرچھوٹے تسلط پسند موجود ہیں، یعنی دنیا کے تسلط پسند اور طاغوتی طاقتیں اسلامی جمہوریہ سے ذرا سی بھی آشتی نہیں کریں گی۔ سیاسی روابط، رفت و آمد، اور لین دین ہے۔یہ ان کی دنیاوی اور فوری  ضرورت ہے۔ لیکن ان کی دراز مدت ضرورت یہ ہے کہ معنویت کا یہ مرکز جس نے تمام برائیوں اور مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے، نہ رہے۔ اس کا نہ رہنا دو طرح سے ہوسکتا ہے؛ یا پروپیگنڈوں اور انواع و اقسام کی تدابیر سے کیفیت کے لحاظ سے اس میں تبدیلی لائیں اور اگر یہ نہ کرسکیں تو اس کو مٹادیں۔

ان حالات میں ہمارا فریضہ کیا ہے؟ ہمارا فریضہ یہ ہے کہ کیفیت و معنویت کے لحاظ سے اس کو ختم کرنے کی کوششوں کے مقابلے کے لئے تیار رہیں اور یہ کام نہ ہونے دیں۔ انقلاب کو اندر سے کھوکھلا نہ ہونے دیں۔ یعنی معنوی بنیادوں کے لحاظ سے لوگوں کو صحیح و سالم اور مستحکم رکھیں۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ خود کو دوسری تدبیر کے مقابلے کے لئے بھی تیار رہیں۔یعنی فوجی لحاظ سے بھی تیار رہیں  اور اپنے  کار آمد نیز مفید فوجیوں کو ہمیشہ فعال رکھیں۔ان دونوں کے لئے ضروری ہے کہ سپاہ پاسداران اپنے اوپر مستقل نگرانی رکھے، اس دارے کو مستحکم کرے اور اس کی کیفیت روز بروز بہتر اور اعلی تر کرے۔

   میرے خیال میں پاسداران انقلاب کے برادران کا فریضہ بہت سنگین ہے۔ زمینی شعبے کو،دستوں اور یونٹوں کے  کمانڈ اور کنٹرول کی سطح سے لے کر  -- جو آپ براداران ہیں --- دستوں کی نچلی ترین سطح تک، اور سپاہ کی اعلی فوجی ہائی کمان، سب کو ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔البتہ اس کام میں بنیادی اور اصلی  مدد ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے اراکین کا فریضہ ہے اور آپ کے عزم و ارادے اورسنجیدگی کی مدد بھی درکار ہے۔بہرحال تربیت، مشقوں، ظاہری آمادگی، تنظیمی اور فوجی تیاری اور اسی کے ساتھ باطنی تیاری سب ایک ساتھ ضروری ہے۔ خود کو ہمیشہ تیار رکھیں۔میری نظر میں آج یہ ہمارا فریضہ ہے۔

   انشاء اللہ خداوندعالم آپ کی مدد کرے گا، توفیق عنایت کرے گا اور آپ کی زحمت کا آپ کو صلہ دے گا۔ہم ان تمام کوششوں اور مجاہدتوں کا صلہ دینے پر قادر نہیں ہیں۔کوشش کریں کہ فرائض کی انجام دہی میں تعاون رہے۔باہمی رفاقت آپ کے فرائض کا جز ہے۔مختلف سطح پر اور تمام متعلقہ افراد اور شعبوں میں ضروری تعاون رہے۔ممکن ہے کبھی کسی معاملے میں ناہماہنگی ہو۔ ایسی صورت میں نا ہماہنگی کے سبھی فریق کوشش کریں کہ انشاء اللہ  یہ نا ہماہنگی دور ہو تاکہ امور زیادہ تیزی کے ساتھ بہتر انداز میں انجام پائیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- بحارالانورا ج 82 ص 319

2- بحارالانوار ج 65 ص 309

3- آل عمران ؛ 19

4- آل عمران ؛ 85

5- آل عمران ؛ 110