سوال: میٹا کمپنی نے حال ہی میں آیت اللہ خامنہ ای کے انسٹاگرام پیج کو دہشتگردی مخالف اور صیہونیت مخالف باتیں پوسٹ کیے جانے کے بعد بند کر دیا۔

جواب: جی ہاں۔

سوال: آپ کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہے؟

جواب: یہ ایک جنگ ہے، وہ انسٹاگرام اور فیس بک کے پیجز پر پابندی لگاتے ہیں کیونکہ آيت اللہ خامنہ ای کے انسٹاگرام سے وہ منطقی باتیں پوسٹ کی جاتی ہیں جو زیادہ تر حقیقت اور فلسطینی عوام کی اخلاقی حمایت پر مبنی ہوتی ہیں۔ حقائق کا یہ بیان صرف فلسطین کے موضوع سے متعلق نہیں ہے بلکہ تمام امور کے بارے میں ہوتا ہے۔ میں امام خمینی کے بیان کی یاد دہانی کرانا چاہوں گي جنھوں نے حتیٰ انقلاب سے پہلے ہی ہوشیار کر دیا تھا کہ فلسطین اور اسرائيل کا مسئلہ، موجودہ حالات پر منتج ہو سکتا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے (رمضان کے آخری جمعے کو) یوم قدس کا نام دیا تھا۔ بنابریں ایسے افراد بھی ہیں جو مسائل کے سلسلے میں اپنی اسٹریٹیجک سوچ کی وجہ سے اپنے زمانے سے کافی آگے ہوتے ہیں۔ میٹا جیسی کمپنیاں اپنے لحاظ سے ہر متبادل بات کو محدود کر دیتی ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا چینلز، پاور ہیں، اصطلاحی طور پر وہ ملکوں میں "چوتھا ستون" ہیں۔ اس وقت سوشل میڈیا چینلز، دوسرے اقدامات سے زیادہ فیصلہ کن ہیں۔ آپ ایک سوشل میڈیا چینل شروع کر کے، ایک ہائبرڈ وار شروع کرنے کے لیے بہت سارے افراد کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔

بنابریں جب وہ آپ کو خاموش کرنا چاہتے ہیں تو دو طریقوں سے یہ کام کرتے ہیں؛ نہ صرف یہ کہ آپ کا چینل اور رابطے کا راستہ بند کر دیتے ہیں بلکہ آپ کو بھی سینسر کر دیتے ہیں۔ تو جسے سینسر کر دیا گيا ہے وہ اب فیس بک، انسٹا گرام یا ٹویٹر پر سامنے نہیں آ سکتا۔ کسی شخص کو سینسر کرنے کے مختلف راستے ہیں، کبھی صرف اس کے انسٹاگرام پیج کو بند نہیں کرتے بلکہ اسے جڑ سے ہی خاموش کر دیتے ہیں۔ سینسر کی بدترین شکل یہ ہے کہ آپ پر غلط الزام لگاتے ہیں، مثال کے طور پر آپ پر یہودی مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہیں اور آپ الزام کے اس بوجھ کو ڈھونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میں آپ کو اس واقعے کی مثال دینا چاہتی ہوں جو خود میرے ساتھ ایران میں پیش آيا۔ تبریز میں اس شہر کے میئر کے ساتھ میری میٹنگ تھی اور ہم نے تعاون، اخوت، دونوں ملکوں کی دوستی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے بارے میں باتیں کیں۔ یہ ملاقات، ایران میں ہنگاموں کے دوران ہوئي تھی، میں نے وہاں کہا کہ یہ ایران کے خلاف ایک ہائبرڈ جنگ ہے۔ جانتے ہیں اس میٹنگ کے بارے میں لندن میں اسرائيل کے سرمائے سے کام کرنے والے ایران انٹرنیشنل چینل کی تحریف شدہ خبروں کا عنوان کیا تھا؟ میرے ملک میں جو خبر شائع ہوئي اس کی سرخي یہ تھی: "ایران میں ہماری سفیر، فیمینسٹ ریلیوں کی مذمت کرتی ہے" جبکہ میں نے نہ تو ریلیوں کے بارے میں بات کی تھی، نہ فیمینزم کے بارے میں بات کی تھی اور نہ ہی ایسی کسی دوسری چیز کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ بنابریں یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعے وہ آپ کے انسٹاگرام پیج یا رابطے کے دوسرے چینلز بند کیے بغیر آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ میں نے اس زمانے میں مشاہدہ کیا تھا کہ کس طرح میڈیا میرے موقف پر حملہ آور ہوا تھا جبکہ میں اس ہائبرڈ جنگ کو ہائي لائٹ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو ایران کے خلاف ہو رہی تھی۔ مغرب نہیں چاہتا تھا کہ ایران میں موجود حقائق سامنے آئیں بلکہ وہ چاہتا تھا کہ حجاب کے مسئلے کو سینٹر میں رکھے اور دوسری باتوں کو پنہاں کر دے۔ بنابریں اس چیز نے میرے لیے مشکل پیدا کر دی، میرے ملک سے مجھے فون کیا گيا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کینیڈا سے ارجنٹائن تک براعظم امریکا کی پارلیمانی خواتین کے نیٹ ورک کی سربراہ تھی اور مردانہ نظام کے خلاف قانون منظور کروانے کے سبب ایک جانی پہچانی شخصیت ہوں۔ ہم بولیویا میں بہت طاقتور ہیں کیونکہ ہمارے سیاسی نظام کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ پارلیمنٹ میں پچاس فیصد خواتین اور پچاس فیصد مرد ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں انصاف اور باری ہے۔ میں مجبور ہو گئي کہ جا کر وضاحت پیش کروں، میں تبریز کی میٹنگ کی ریکارڈنگ لے کر گئي اور ایرانی میڈیا کے لیے بیان جاری کیا۔ ایک مہینے پہلے عمار فلم فیسٹول نے بولیویا کے سامراج مخالف موقف کی وجہ سے اس ملک کی سفیر کی قدردانی کی لیکن ایران انٹرنیشنل نے اس خبر کو کیسے استعمال کیا؟ اس نے کہا کہ یہ انعام مجھے اس لیے دیا گيا کہ میں نے لازمی حجاب کی حمایت کی ہے جبکہ اس مسئلے کا اس موضوع سے کوئي تعلق ہی نہیں ہے۔

بولیویا کی سفیر پر یہ حملے، میڈیا پالیسی کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ اسرائيلی ذرائع ابلاغ اور حزب اختلاف کا میڈیا، البا، کیوبا، وینیزوئلا، نکاراگوا اور بولیویا کے بارے میں بات کرتا ہے لیکن کبھی بھی سفیروں کا نام نہیں لیتا مگر میں ہمیشہ میڈیا کے حملوں کا ہدف بنتی ہوں۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ میں اپنے تنقیدی نظریے اور سامراجی نظام اور صیہونیت سے مقابلے کے سبب ان حملوں کا نشانہ بن رہی ہوں اور اسی وجہ سے میڈیا آپ کی باتوں کو توڑ مروڑ کے پیش کرتا ہے۔ اس لیے یہ بات عجیب نہیں ہے کہ وہ آپ کے انسٹاگرام پیج کو بند کر دیتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی دوسری چیزوں کو بھی محدود کر رہے ہیں لیکن ہمیں خود کو قربانی کی پوزیشن میں نہیں لانا چاہیے، یہ وہ اصل بات ہے جو میں کہنا چاہتی ہوں۔ ہمیں اپنی پوری شناخت ہونی چاہیے، ہمیں کام کرنا چاہیے اور بھرپور جدت عمل کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مضبوط تعلقات کے ساتھ جو ہم نے اپنے حلیفوں کے ساتھ قائم کیے ہیں، مغرب کے حملوں اور ان کی ٹیکنالوجی کا جواب دینا چاہیے، کیونکہ یہاں پر ٹیکنالوجی سے خیانت کا مسئلہ بھی در پیش ہے۔ ان سب پر ہمیں کام کرنا چاہیے۔