انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ میٹا کمپنی صرف فلسطین کے مسئلے میں ہی نہیں بلکہ تمام مسائل میں حقائق پوسٹ کیے جانے پر پابندی لگا رہی ہے کہا کہ وہ لوگ انسٹاگرام اور فیس بک کے پیجز بند کر دیتے ہیں کیونکہ آیت اللہ خامنہ ای کے انسٹاگرام پیج پر وہ باتیں پوسٹ ہوتی ہیں جو زیادہ تر حقائق اور فلسطینی عوام کی اخلاقی حمایت پر مبنی ہوتی ہیں۔
ایران میں بولیویا کی سفیر نے کہا کہ کبھی کبھی ایک انسان کو خاموش اور سینسر کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ اس کے انسٹاگرام پیج کو بند کر دیا جاتا ہے بلکہ اس پر بے بنیاد الزام لگانے جیسی سینسر کی بدترین شکل سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے، جیسے اس پر یہودی مخالف ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور وہ اس الزام کو اپنے کندھوں پر ڈھونے پر مجبور ہوتا ہے۔ محترمہ رومینا پیرز نے اسی طرح مغربی میڈیا کی جانب سے خبروں میں تحریف اور سینسر کی ایک بنیادی وجہ، سامراجی نظام اور صیہونیت کے خلاف کام کرنا بتایا۔
انھوں نے رہبر انقلاب اسلامی کے سوشل میڈیا پیجز کو بند کرنے جیسے اقدامات کے مقابلے کے بارے میں کہا کہ ہمیں خود کو قربانی کی پوزیشن میں نہیں لانا چاہیے اور یہی وہ اصل بات ہے جو میں کہنا چاہتی ہوں۔ ہمیں اپنی صحیح شناخت ہونی چاہیے، ہمیں عمل کرنا چاہیے اور پوری طرح جدت عمل سے کام لینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ استوار کیے گئے مضبوط تعلقات کے ذریعے مغرب کے حملوں اور ان کی ٹیکنالوجی کا جواب دینا چاہیے۔
ایران میں بولیویا کی سفیر نے ملکوں کے فورتھ کالم کی حیثیت سے میڈیا اور سوشل میڈیا چینلز کے اثرات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میٹا جیسی کمپنیاں ہر گفتگو اور متبادل بات چیت کو محدود کر دیتی ہیں کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا چینلز، دوسرے تمام اقدامات سے زیادہ فیصلہ کن ہیں۔ آپ ایک سوشل میڈیا چینل کے ذریعے بہت سے افراد کو ایک ہائبرڈ وار شروع کرنے کے لیے اکٹھا کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 8 فروری 2024 کو میٹا کمپنی نے آيت اللہ خامنہ ای کے فارسی انسٹاگرام اور اسی طرح انگریزی انسٹاگرام اور فیس بک پیجز کو بند کر دیا۔ ان پیجز کے پچاس لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے۔ ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے اسی مناسبت سے ایران میں بولیویا کی سفیر محترمہ رومینا پیرز سے ایک انٹرویو میں میٹا کمپنی کے اس اقدام کی وجوہات کا جائزہ لیا ہے۔