پوری تاریخ میں سیکولر ہیومنزم کا بڑا دعوی، انسان کی عقلانی قوت پر بھروسہ کر کے انسانیت کے مسائل کے حل، علمی و سائنسی پیشرفت اور انسانی معاشروں کی سعادت و کامرانی کے لیے دینی قوانین کی عدم ضرورت کا رہا ہے۔ پچھلے کچھ سو برسوں میں پوری دنیا میں دانشوروں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے نام نہاد انسانی تعلیمات و افکار کی بنیاد پر متعدد آئيڈیل معاشروں کے خاکے کی ترسیم کی ہے اور ان تک رسائی کے لیے بہت سارے راستے بتائے ہیں۔ دنیا کی آج کی صورتحال پر ایک نظر ڈالنے سے اس بات میں کوئي شک نہیں رہ جاتا کہ مندرجہ ذیل دو باتیں صحیح ہیں:
سوال یہ ہے کہ دنیا میں یہ علمی و سائنسی پیشرفت انسانوں سے کیے گئے زمین پر اس بہشت کے وعدے کو عملی جامہ کیوں نہیں پہنا سکی؟ کیوں بعض ملکوں کی مادی ترقی کی قیمت بہت سی دوسری اقوام نے اپنی نابودی اور پسماندگي کے ذریعے چکائي ہے؟ کیوں خود ان جارح ملکوں کے اندر بھی طبقاتی فاصلہ اور غربت بہت زیادہ ہے؟
مغرب کے علمی اہداف اور دنیا کی موجودہ صورتحال کے درمیان تضاد کو بیان کرنے کے لیے شاید سب سے اچھی مثال غزہ کا مسئلہ ہو۔ مغرب میں یونیورسٹی نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ دینی تعلیمی مراکز کے برخلاف خود کو اقتدار سے الگ اور آزاد ظاہر کرے۔غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر تھوڑا بہت بھی اعتراض اس بات کے لیے کافی تھا کہ مغرب کی معروف یونیورسٹیاں ان پروفیسروں اور اسٹوڈنٹس کو نکال دیں یا سسپینڈ(1) کر دیں جنھوں نے کم ترین مطالبہ کیا تھا یعنی غزہ میں فائر بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس طرح کے کام واضح طور پر صیہونی حکومت اور غزہ پر اس کے حملے کے اہداف کی حمایت کے تناظر میں کیے گئے تھے۔
انسانی علوم کا ایک شعبہ یعنی قانون برسوں سے دنیا کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ علم عالمی میدان میں خود کو ان اقوام کا حامی بتاتا ہے جن پر حملے ہوتے ہیں۔ ہیگ کی عالمی عدالت، اقوام متحدہ اور اسی طرح کی دوسری عالمی تنظیمیں اور ادارے انہی قوانین کی تکمیل اور نفاذ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ غزہ میں صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو رکوانے میں ان اداروں کی نااہلی سے ان قوانین کی عدم افادیت اور محض دکھاوا ہونا ثابت ہو گیا ہے۔ ہیگ کی عالمی عدالت میں صیہونی حکومت کے خلاف ایک کیس کو نتیجے تک پہنچنے میں کئي مہینے لگ گئے اور اس کے باوجود نتیجہ انتہائي مایوس کن تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی امریکا کے لگاتار ویٹو نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کے سفاکانہ قتل عام کو رکوانے کی کوشش کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ پھر فائر بندی کی قرارداد منظور ہونے کے بعد بھی غزہ کے لوگوں پر صیہونی حکومت کے حملوں کو رکوانے کے لیے کوئي بھی عملی اقدام نہیں کیا گيا۔
علم کا ایک اور شعبہ، انجینیرنگ کا ہے جس نے قدرت کی طاقت کو کنٹرول کرنے اور اس کا اختیار انسان کے ہاتھ میں دینے کے لیے صدیوں سے کوشش کی ہے اور اس میدان میں مغرب کی پیشرفت کا کوئي بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اس شعبے سے متعلق علوم نے انسان کو لمبے لمبے فاصلے بہت تھوڑے وقت میں طے کرنے، آسمان میں اڑان بھرنے اور مختلف عناصر میں موجود توانائي سے فائدہ اٹھانے کی طاقت عطا کی ہے۔ مغرب بہت ہی کم وقت میں بڑے پیمانے پر امریکا اور یورپ کے ہتھیار صیہونی حکومت تک پہنچا دیتا ہے، لڑاکا طیاروں کے ذریعے غزہ کے محلّوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتا ہے اور خطرناک بموں کا استعمال کر کے گھروں، اسپتالوں اور اسکول کالجوں کو ایک لمحے میں تباہ کر دیتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے افراد کے ہاتھوں بنائے گئے بموں کے ذریعے غزہ کی یونیورسٹیوں پر کی گئي بمباری، شاید مغرب کے علم اور اس علم کے اہداف کے درمیان پائے جانے والے تضاد کی سب سے بولتی تصویر ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے 7 اپریل 2024 کو اسٹوڈنٹس سے ملاقات میں کہا: "اگر ہم یونیورسٹی کی تعریف کرنا چاہیں تو اس کی تعریف کا اصلی ستون علم ہے۔ یونیورسٹی کے تین اصل فرائض ہیں۔ اول یہ کہ عالم کی تربیت کرے، دوسرے یہ کہ علم کی پیداوار کرے اور تیسرے یہ کہ عالم کی تربیت اور علم کی پیداوار کو سمت عطا کرے۔ دنیا کی یونیورسٹیاں عالم کی تربیت کرتی ہیں، علم کی پیداوار بھی کرتی ہیں لیکن اس تیسرے فریضے میں لڑکھڑا جاتی ہیں۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے علم کی تربیت، علم کی پیداوار اور عالم کی تربیت کا پروڈکٹ دنیا کی صیہونی اور سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتا ہے۔"
مغرب میں دینی اخلاقیات کے دائرے سے علم کے مراکز کی دوری اس بات کا سبب بنی ہے کہ یہ مراکز پوری دنیا میں طاقت اور سرمائے کے مالکوں کا ہتھکنڈا بن جائيں۔ شاید غزہ اس راستے پر نظر ثانی کا ایک موقع ہو جس پر مغرب کی یونیورسٹی پچھلے چار سو سال سے چل رہی ہے۔