مصطفیٰ اکتوبر 1932 میں تہران کے ایک محلے میں پیدا ہوئے۔ سیکنڈری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اکیس سال کی عمر میں تہران یونیورسٹی میں الیکٹرو میکینک کے سبجیکٹ میں منتخب ہوئے اور انٹرنس کے امتحان میں پورے ملک میں ان کا پندرھواں رینک آيا تھا۔ پانچ سال بعد انھوں ٹیکساس اینڈ ایم یونیورسٹی کے لیے سرکاری اسکالرشپ ملی اور اس کے بعد وہ کیلی فورنیا کی برکلی یونیورسٹی سے بہترین رینک کے ساتھ الیکٹرانک اور پلاسما فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ جس پوزیشن میں وہ تھے، اسے حاصل کرنا بہت سے نوجوانوں کا خواب تھا لیکن مصطفیٰ نے، ان اقدار اور اصولوں کی راہ میں جہاد کو، جن کے صحیح ہونے پر وہ ایمان رکھتے تھے، ترجیح دی اور عیش و عشرت کی زندگي سے، جو ان کی امنگوں سے میل نہیں کھاتی تھی، نظریں پھیر لیں۔

ان کے وطن سے باہر جانے سے پہلے، ایران میں ابھی اسلامی انقلاب کامیاب نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ سیاسی خبروں پر نظر رکھتے تھے اور اس میدان میں سرگرم تھے۔ اسی جذبے کے ساتھ انھوں نے امریکا میں بھی اپنے کچھ دوستوں کے تعاون سے پہلی بار امریکا میں اسٹوڈنٹس کی اسلامی انجمن کی بنیاد رکھی اور وہ کیلی فورنیا میں ایرانی اسٹوڈنٹس کی انجمن کے بانیوں میں سے ایک سمجھے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہی سرگرمیاں اس بات کا سبب بنیں کہ اس وقت کی ایران کی شاہی حکومت نے ان کی اسکالرشپ منسوخ کر دی لیکن مصطفیٰ ایسے شخص نہیں تھے، جنھیں اس طرح کی حد بندیوں کے ذریعے روکا جا سکے۔ وہ ناسا میں ملازم ہو گئے کہ جو ایک زبردست آمدنی اور عزت والی نوکری تھی۔

مصطفیٰ بہت زیادہ لکھتے تھے۔ ان کی زندگي کے مختلف برسوں کی بہت سی تحریریں اب بھی ان کی یادگار کے طور پر باقی ہیں جو کئي جلد کتابوں میں چھپ چکی ہیں۔ وہ اپنی ایک مناجات میں خدا سے اس طرح بات کرتے ہیں: "اے خدائے بزرگ و برتر! مجھے علمی لحاظ سے سب سے برتر ہونا چاہیے تاکہ دشمن مجھے طعنے نہ دے سکیں، مجھے علم کو بہانہ بنا کر دوسروں کے سامنے فخر جتانے والے ان سنگدلوں پر یہ بات ثابت کرنی ہوگي کہ وہ میرے پیروں کی دھول بھی نہیں بن سکتے، مجھے ان سبھی کور دل مغروروں اور گھمنڈیوں کو گھٹنوں پر لانا ہوگا اور پھر میں خود دنیا کا سب سے خاکسار اور متواضع انسان ہوں گا۔"

ان کے لیے بیٹھے رہنے کا کوئي مطلب ہی نہیں تھا۔ حقیقت تک رسائی کے لیے کوشش اور جدوجہد سے ہی ان کی زندگي کو معنی حاصل ہوتے تھے، چاہے وہ وقت ہو جب انھوں نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کے اقوام متحدہ کی عمارت میں سامراجیت کے خلاف ہڑتال کی تھی اور فورسز نے انھوں طاقت کے زور پر گرفتار کر کے باہر نکال دیا تھا اور یہ بات مصطفیٰ چمران جیسے اعلی درجے کے بین الاقوامی محقق کو بہت بھاری پڑ سکتی تھی اور انھوں نے اس کی قیمت چکائی بھی تھی اور چاہے وہ وقت ہو جب انھوں نے گوریلا جنگ کی ٹریننگ کے لیے امریکا کو چھوڑ کر مصر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے بھائي ان کی ہڑتال کا ماجرا اس طرح بیان کرتے ہیں: "وہ ایک نمایاں اور مضبوط سائنٹسٹ تھے۔ انھوں نے ایک بار اقوام متحدہ کے نماز خانے یا عبادت خانے میں دھرنا دیا تھا جس کے بعد انھیں گرفتار کر لیا گيا اور ان کا سر سیڑھیوں سے ٹکراتا رہا۔ انھوں نے وہاں ایک ہفتے تک دھرنا دیا اور ہڑتال کی تھی اور وہیں سے مجھے ایک خط لکھا تھا اور مجھے یاد ہے کہ انھوں نے لکھا تاکہ میرا دم بھی، میرے قلم کے دم کی طرح نکلتا جا رہا ہے۔ (ان کے فاؤنٹن پین کی سیاہی ختم ہو گئي تھی اور انھوں نے اس میں تھوڑا سا پانی ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے روشنائی کا رنگ بہت کم ہو گيا تھا۔)"

مصر میں ان کی موجودگي پوری طرح سے خفیہ تھی اور اگرچہ انھوں نے وہاں دو سال تک انتہائي سخت فوجی ٹریننگ حاصل کی تھی لیکن کسی کو بھی ان کے اس ملک میں ہونے کی خبر نہیں تھی، یہاں تک کہ امریکا اور یورپ کے سب سے پیشرفتہ جاسوسی اور سیکورٹی سسٹموں کو بھی! وہ انور سادات کے دور صدارت تک وہاں رہے اور پھر دوبارہ امریکا لوٹ گئے لیکن وہ وہاں بھی زیادہ عرصے تک نہیں رہ سکے۔ انھوں نے ان دنوں کی اپنی حالت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "امریکا جیسا بڑا ملک، مجھے چھوٹا محسوس ہوتا تھا اور امریکا کی فضا میرے لیے چھوٹی پڑ رہی تھی، آسمان میرے لیے چھوٹا ہو گيا تھا، گھر کی چھت گویا مجھ پر بوجھ بن گئي تھی اور میں ان سامراجیوں اور ان سرمایہ داروں کے دوران سانس نہیں لے پا رہا تھا۔"

چونکہ ایران میں فوجی سرگرمیوں کے لیے ان کے لیے ماحول سازگار نہیں تھا اس لیے وہ اسرائيل سے جنگ اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کا ہدف لے کر لبنان پہنچے اور اس ملک کے جنوب میں، اسرائیل سے ملنے والی سرحد پر امام موسیٰ صدر کے ساتھ مل کر انھوں نے ایک یتیم خانے میں افرادی قوت کی ٹریننگ شروع کی۔ لبنان کے سخت حالات اور ہر چیز کی شدید قلت کی وجہ سے ڈاکٹر چمران کی اہلیہ نے امریکا واپس جانے کا فیصلہ کیا اور وہ چمران سے الگ ہو گئيں۔ لبنان میں ان کی سات سال کی موجودگي کا نتیجہ، اعلی شیعہ کونسل اور امل کے نام سے ایک تنظیم کی تشکیل تھی، 'افواج المقاومۃ اللبنانیۃ' یعنی لبنانی مزاحمتی گروہ، جنگي اور دفاعی ٹریننگ کے لیے بنائي گئي ایک تنظیم۔ لبنان میں ڈاکٹر چمران کا تعارف غادہ جابر نام کی ایک خاتون سے ہوا جو آگے چل کر ان کی شادی پر منتج ہوا۔ "مجھے یاد ہے کہ میں ایک سفر میں ان کے ساتھ تھی اور وہ دیہاتوں کا سفر تھا۔ گاڑی میں انھوں نے مجھے ایک تحفہ دیا۔ یہ میرے لیے ان کا پہلا تحفہ تھا۔ میں بہت خوش ہوئي اور میں نے وہیں پر اس پیکٹ کو کھول کر دیکھا۔ وہ ایک اسکارف تھا، بڑے بڑے پھولوں والا ایک لال اسکارف۔ میں حیرت زدہ رہ گئي لیکن ان کے ہونٹوں پر تبسم تھا۔ اس وقت سے میں نے اسکارف پہننا شروع کیا جو اب بھی باقی ہے۔" یہ واقعہ غادہ نے، اپنی شادی سے پہلے کے ایک سفر کے بارے میں بیان کیا ہے۔

سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ڈاکٹر مصطفیٰ چمران 23 کی ہجرت کے بعد آغوش وطن میں واپس لوٹے۔ وہ واپس لوٹے تھے کہ اپنے دسیوں برس کے تجربات کو اسلام اور ایران کی خدمت میں وقف کریں گے لیکن کچھ ہی عرصے بعد امام موسی صدر کے اغوا نے لبنان کے بکھر چکے حالات کو پھر سے صحیح کرنے کے لیے لبنان لوٹنے کی فکر میں ڈال دیا۔ انھوں نے اپنا بریف کیس اٹھایا اور امام خمینی کے پاس پہنچ گئے تاکہ ان سے اپنی ذمہ داری طے کروا لیں۔ امام خمینی کا جواب ایک جملے کا تھا: "نہیں، ایران میں رکو، اگر ایران ٹھیک ہو گيا تو پورا لبنان اور دوسری جگہیں ٹھیک ہو جائيں گي۔" اور وہ رک گئے۔

18 جولائي سنہ 1979 کی شب پاوہ کے شہر میں بہت سخت تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کوملہ کے اراکین اور انقلاب مخالف عناصر نے اس شہر کا محاصرہ کر لیا تھا، زیادہ تر پاسداروں کا قتل عام کر دیا گيا تھا اور پورا شہر اور اس کے میدانی اور پہاڑی علاقے دشمن کے ہاتھ میں آ گئے تھے۔ اس رات، کردستان صوبے کی نبض، پاوہ کے ہاتھ میں تھی، اگر یہ شہر ہاتھ سے نکل جاتا تو کردستان بھی ہاتھ سے نکل جاتا۔ چمران نے وائرلیس کے ذریعے پاوہ کی سیکورٹی فورس سے رابطہ کیا اور وزارت دفاع میں ایک خط تیار کروایا تاکہ وہاں کے سخت اور پیچیدہ حالات کو امام خمینی کے علم میں لے آئیں۔ امام خمینی نے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے حکم دیا کہ سبھی مسلح فورسز خود کو پاوہ پہنچائيں اور اس کے لیے انھیں اپنے کمانڈروں سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے پاوہ کی کمان مصطفیٰ کو دی۔ صبح تک خداوند عالم کے لطف و کرم اور چمران کی بے نظیر فوجی سوجھ بوجھ کی وجہ سے شہر، یقینی سقوط سے نجات پا گيا۔ اس شاندار کامیابی کے بعد انھیں وزیر دفاع کے عہدے پر منصوب کیا گيا اور اس کے بعد وہ تہران سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔

ایران پر صدام کے حملے کے بعد وہ ایران کے جنوبی شہروں کی طرف چلے گئے تاکہ قریب سے فورسز کو منظم کریں اور ان کی کمان سنبھالیں۔ انھوں نے وہیں پر اہواز کی گوریلا جنگ کا کمانڈ سینٹر قائم کیا۔ وہ عام جنگی کمانڈروں کے برخلاف ہمیشہ اپنے سپاہیوں کے آگے آگے رہتے تھے اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ دور سے اور کمانڈ روم سے حالات معلوم کریں اور اپنے احکام صادر کریں۔ یہاں تک کہ ایک آپریشن کے دوران ان کا پیر زخمی ہو گيا لیکن پھر وہ علاج کے لیے دارالحکومت تہران آنے پر تیار نہیں ہوئے اور کچھ دن آرام کرنے کے بعد چھڑی کے سہارے میدان میں واپس آ گئے۔ آخر کار 48 سال کی عمر میں صوبۂ خوزستان کے سوسنگرد شہر کے شمال مغرب میں واقع ایک گاؤں دہلاویہ کے جنگي علاقے کا دورہ کرتے ہوئے ایک گرینیڈ سے وہ زخمی ہو گئے اور علاج کے لیے لائے جاتے ہوئے شہید ہو گئے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای، ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کی شخصیت کو ایک مکمل نمونۂ عمل بتاتے ہوئے کہتے ہیں: "شہید چمران ایک آئيڈیل ہیں، شہید چمران حقیقی معنی میں ایک سائنٹسٹ اور دانشور تھے، وہ دانشور تھے، وہ پڑھے لکھے تھے، تعلیم یافتہ تھے لیکن ایک حقیقی مجاہد بھی تھے، ان کے لیے دنیا اور اس کے عہدے اہم نہیں تھے، روٹی اور نام ان کے لیے اہم نہیں تھے، کس کو کریڈٹ ملے گا، یہ ان کے لیے اہم نہیں تھا۔ وہ منصف مزاج تھے، بے جا تکلف نہیں کرتے تھے، بہادر تھے، سخت جان تھے۔ لطیف طبیعت اور شاعرانہ و عارفانہ نرم مزاجی کے ساتھ ہی وہ میدان جنگ میں ایک جی دار اور جری سپاہی تھے۔