انھوں نے اس موقع پر اپنے خطاب میں چودھویں صدارتی الیکشن کے انعقاد کو ایک اہم امتحان میں قوم کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ شہید صدر کی موت سے پیدا ہونے والے غمگين ماحول کے باوجود الیکشن امن و سکون کے ماحول میں پوری شفافیت کے ساتھ اور منتخب صدر کے ساتھ دیگر امیدواروں کی قابل داد رقابت اور اچھے رویے کے ساتھ انجام پایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک میں مقابلہ آرائي اور شفافیت کے ساتھ جمہوریت کو ماضی کی افسوس ناک صورتحال کے مقابلے میں قوم کے قیام اور انقلاب کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے ہی ٹھوس طریقے سے ملک کا انتظام چلانے میں عوام کی موجودگی، شرکت اور بھرپور کردار کو ایک بے مثال امر کے طور پر مضبوطی سے قائم کیا۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں غزہ کو ایک عالمی مسئلہ بتایا اور کہا کہ کبھی فلسطین صرف عالم اسلام کے ملکوں کا مسئلہ تھا لیکن آج وہ ایک عمومی اور عالمی مسئلہ ہے جو امریکی کانگریس، اقوام متحدہ، اولمپک اور تمام میدانوں کے اندر پہنچ چکا ہے۔
انھوں نے غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ایک مجرم، قاتل اور دہشت گرد گینگ بتایا اور کہا کہ یہ حکومت نہیں ہے بلکہ اس نے ایک مجرم گينگ کا سب سے کریہہ چہرہ دنیا کو دکھایا ہے اور جرائم کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ میں نومولود بچوں، چھوٹے بچوں، اسپتالوں کے مریضوں اور عورتوں کی بڑی تعداد کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں کے بڑے بڑے بم ان لوگوں پر گرائے جا رہے ہیں جنھوں نے ایک گولی تک نہیں چلائي ہے۔
انھوں نے مزاحمتی فورسز کی لگاتار بڑھتی طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی، امریکا اور بعض خیانت کار حکومتوں کی تمام تر مدد کے باوجود مزاحمتی فورس کو ہرا نہیں سکے ہیں اور حماس کے مکمل خاتمے کا ان کا اعلان شدہ ہدف ناکام رہا ہے اور حماس، جہاد (اسلامی) اور مزاحمت پوری طاقت سے ڈٹی ہوئي ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے ایک صیہونی مجرم کی باتیں سننے کے لیے بیٹھنے کے امریکی کانگریس کے دو روز پہلے کے اقدام کو ایک بہت بڑی رسوائي بتایا اور کہا کہ دنیا کو غزہ کے مسئلے کے بارے میں سنجیدہ فیصلہ کرنا چاہیے اور حکومتوں، قوموں اور سیاسی و فکری شخصیات کو مختلف میدانوں میں کام کرنا چاہیے۔
انھوں نے مختلف موضوعات خاص طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں حکومت کے پوری طرح سے فعال ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ عالمی واقعات بالخصوص علاقائي واقعات اور سیاسی یہاں تک کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسے سائنسی و علمی مسائل میں معذرت خواہانہ نہیں فعال، مورثر اور جارحانہ رخ اختیار کیجئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ دنیا اور خطے کے واقعات سے غفلت صحیح نہیں ہے اور ہر واقعے کے سلسلے میں ملک کے موقف کو کھل کر اور متانت کے ساتھ بیان کیجیے تاکہ دنیا اسلامی ایران کے موقف کو جان سکے۔
انھوں نے شہید وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جنھوں نے ایک اچھے سفارتکار اور مذاکرات کار کی حیثیت سے مفید کام اور کوششیں کیں، کہا کہ یہ کام اور کوششیں جاری رہنی چاہیے۔
انھوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے استحکام کے لیے سنجیدہ کوششوں کو ضروری بتایا اور کہا کہ خارجہ پالیسی کی ایک دوسری ترجیح، افریقی اور ایشیائي ملکوں کے ساتھ تعلقات میں فروغ ہے جو ایران کے سفارتکاری کے دائرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے خارجہ پالیسی کی ایک اور ترجیح کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کی قدر کرنی چاہیے اور ان سے تعلقات مضبوط بنانے چاہیے جنھوں نے ان برسوں میں دباؤ کے مقابلے میں ایران کی حمایت کی اور ڈپلومیسی اور معاشی میدان میں اس کی مدد کی۔
انھوں نے اس سلسلے میں کہا کہ ہم نے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں یورپی ملکوں کا نام نہیں لیا تو یہ مخالفت اور دشمنی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ پابندیوں اور تیل جیسے معاملوں میں ان کا رویہ ایران کے ساتھ اچھا نہیں رہا ہے۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ اگر ان کا یہ برا رویہ نہ ہو تو ان کے ساتھ تعلقات بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہیں البتہ کچھ ممالک ہیں جن کی ایذا رسانیوں اور ان کے دشمنانہ رویے کو ہم فراموش نہیں کریں گے۔