سنہ 1945 کے موسم گرما میں جب دوسری عالمی جنگ نازی جرمنی کی شکست کے بعد مغربی محاذ پر ختم ہو چکی تھی، متفقین کا آخری مورچہ یعنی جاپانی سلطنت کے پاس بھی، جو اپنی زیادہ تر فوجی اور دفاعی توانائي کھو چکی تھی، عملی طور پر شکست کو تسلیم کرنے اور متحدہ طاقتوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے علاوہ کوئي چارہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود امریکی حکومت نے جنگ کے فوری خاتمے اور امن کے قیام کے بہانے ایک جنون آمیز کارروائي کرتے ہوئے صرف تین دن کے فاصلے سے 6 اور 9 اگست کو جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر ان شہروں کے دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ بے قصور لوگوں کا قتل عام کر دیا۔ یہ بات پوری طرح واضح تھی کہ اس غیر انسانی اور مجرمانہ کارروائي سے امریکا کا واحد ہدف خوفناک ایٹمی ہتھیار کے سائے میں دنیا بالخصوص اپنے دیرینہ حریف سوویت یونین کے سامنے اپنی ایسی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا جس کا کوئي جواب نہ ہو۔

البتہ طاقت کا یہ مظاہرہ، اخلاقی و انسانی دعووں کی آڑ میں کیا گيا۔ اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے حکم دیا تھا کہ جیسے ہی ملک کی فوجی تجربہ گاہوں میں ایٹم بم تیار ہو، اسے فوراً استعمال کیا جائے۔ وہ اپنے اس کام کا جواز پیش کرنے یعنی ایٹمی بمباری کا حکم دینے کے مسئلے میں اس حد تک آگے بڑھ گئے تھے کہ انہوں نے کہا تھا: "دنیا یاد رکھے گي کہ دنیا کا پہلا ایٹم بم، ہیروشیما پر بمباری کے لیے استعمال کیا گيا کہ جو ایک فوجی اڈا تھا۔" ٹرومین نے کہا تھا: "یہ کام اس لیے کیا گيا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پہلے حملے میں کم سے کم عام شہری مارے جائيں۔" بعد میں ٹرومین کے اس دعوے کی امریکا کے بہت سے مصنفین اور فوجیوں نے دھجیاں اڑا دیں اور خود امریکا کے بہت سے باخبر لوگوں نے اس جھوٹ کی قلعی کھول دی۔ مثال کے طور پر ایک مصنف مارک ویبر نے، جن کا مقالہ "ہیروشیما اور ناگاساکی کی ایٹمی بمباری"(1) نامی کتاب میں شائع ہوا، ٹرومین کی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ بالکل بکواس بات تھی۔ در حقیقت اس بمباری میں مارے جانے والے سبھی عام شہری تھے اور امریکا کی اسٹریٹیجک بمباری کے جائزے نے جو سنہ 1946 میں شائع ہوا، سرکاری رپورٹ میں لکھا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کو زیادہ گنجان آبادی کی وجہ سے ٹارگٹ کے طور پر منتخب کیا گيا تھا۔ اگر ایٹمی بمباری اس لیے کی گئي کہ وہ جاپان کے لیڈران کو نئے ہتھیار کی ہولناک اور تباہ کن طاقت سے متاثر کر دے تو یہ کام ایک دور افتادہ فوجی چھاؤنی پر بمباری کر کے بھی کیا جا سکتا تھا۔ ایک بڑے شہر کو تباہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر کسی طرح ہیروشیما کے دھماکے کا جواز فراہم کر بھی دیا جائے تو ناگاساکی کی بمباری کا بچاؤ بالکل نہیں کیا جا سکتا۔" اسی طرح امریکی فوج کے ایک کمانڈر ڈگلس میک آرتھر نے مرنے سے پہلے ایسے بے شمار دلائل پیش کیے جو ثابت کرتے تھے کہ جاپان پر ایٹمی بمباری بالکل غیر ضروری تھی۔ انھوں نے کہا: "میرے افراد ایک زبان ہو کر کہہ رہے تھے کہ جاپان بکھر رہا ہے اور ہتھیار ڈال رہا ہے۔"جرمنی اور جاپان پر بمباری کرنے والی فورسز کے کمانڈر جنرل کرٹس لیمے نے بھی، جو بعد میں فضائیہ کے چیف آف اسٹاف بھی بنے، اختصار کے ساتھ لکھا: "ایٹمی بمباری نے جنگ کے خاتمے میں کوئي مدد نہیں کی۔"

البتہ انسانی و اخلاقی حقوق کے نام پر انسانیت کے خلاف جرائم کی امریکا کی سیاہ فائل، جاپان پر ایٹمی بمباری کر کے ہی بند نہیں ہوئی۔ پچھلے 80 برس میں انسانی حقوق کے دفاع کے نام پر امن کے بہانے جنگ اور انسانوں کے خلاف جرم، اس سفاک حکومت کی خارجہ پالیسی کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ فوجی مداخلت اور دنیا کے مختلف علاقوں میں دسیوں چھوٹی بڑی لڑائياں شروع کروانا، آزادی کے دفاع اور کمیونزم کے نفوذ سے مقابلے کے نعرے کے ساتھ جزیرہ نمائے کوریا اور ویتنام میں دسیوں لاکھ لوگوں کا قتل عام، افغانستان، لیبیا اور عراق میں دہشت گردی، آمرانہ نظام اور عام تباہی کے ہتھیاروں سے مقابلے اور جمہوریت کے قیام کے بہانے حملہ، امن اور انسانی حقوق کے دفاع کی آڑ میں عالمی سامراج کے جرائم کی فہرست کے صرف کچھ حصے ہیں۔

اسی سلسلے کی اگلی کڑی امریکا کی جانب سے اس چیز کا بے شرمی سے جواز پیش کرنا ہے جو آج غزہ میں ہو رہا ہے۔ اسرائيل کی طفل کش حکومت کی آنکھ بند کر کے بے چون و چرا پشتپناہی، اس حکومت کے لیے روزانہ تباہ کن ہتھیاروں اور بھاری بموں کی ترسیل، جن کا استعمال، رہائشی علاقوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، فلسطینی بچوں اور عورتوں کے قتل عام کی، اپنے دفاع کے صیہونیوں کے نام نہاد حق کے سائے میں حمایت فلسطین کی مظلوم قوم کے قتل عام میں امریکا کی براہ راست شمولیت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ تاریخ کا تلخ ترین طنز یہ ہے کہ غزہ کے قریب 40 ہزار لوگوں کے قتل عام، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں، اس علاقے کے زیادہ تر حصوں کی تباہی اور غزہ کے  بیس لاکھ نہتے لوگوں کو بے گھر بنانے اور بھوک اور پیاس سے ان کے تدریجی قتل عام کے بعد بھی بڑی ڈھٹائي اور بے شرمی سے اس بات پر بضد ہیں کہ صیہونی حکومت نے انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے سلسلے میں امریکا کی ریڈ لائن کو کراس نہیں کیا ہے! اسرائيلی حکومت، عام شہریوں کی جان کی حفاظت کی پابند ہے! غزہ میں مارے جانے والے زیادہ تر حماس کے جنگجو ہیں! اور اسی طرح کے گھناؤنے اور نفرت انگیز جھوٹ جو صیہونی حکومت کے جرائم کا جواز پیش کرنے کے لیے مغربی میڈیا میں مسلسل دوہرائے جاتے ہیں۔ آج فلسطین کی مظلوم قوم کے خون میں امریکا کے ہاتھ، اگر غاصب اسرائيل سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے جتنے تو ڈوبے ہوئے ہی ہیں۔

اس طرح کے جرائم کے مقابلے میں امریکا اور عالمی اداروں کے رویے اور نعروں میں یہ دوغلاپن، بہت پہلے ہی دنیا بھر کی اقوام خاص طور پر مسلم اقوام کے لیے واضح ہو چکا ہے اور اس نے ان کے سامنے ایک روشن راستہ کھول دیا ہے۔ یہ راستہ مسلمانوں کو عملی میدان میں سیاسی و معاشی مقابلے اور فکری میدان میں میڈیا اور ذہنی پہلو سے مقابلے کی دعوت دیتا ہے۔ امریکا اور اس کے حواریوں کی غلط بیانیوں سے بیزاری کا اعلان اور ان کے جھوٹے بیانوں کو الگ تھلگ کر دینا، وہ راستہ تھا جو رہبر انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ کے سامنے کھولا ہے:

"ایک فریضہ پایا جاتا ہے، ان لوگوں کی مخالفت کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا جو اس ظلم، اس سنگین تاریخی ستم، اس نسل کشی، انسان کشی اور جرائم کے ارتکاب میں اس بے شرمی و بے حیائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ واقعی انسان ان کی اس بے حیائی پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ یہ معصوم شہریوں کے قتل عام کا جواز، دلیل اور منطق پیش کرتے ہیں، یہ اتنے بے شرم ہیں! معصوم بچوں کے قتل، معصوم و مظلوم نونہالوں کے قتل کا جواز پیش کرتے ہیں، اس قدر بے شرم ہیں یہ لوگ! جو لوگ یہ جرائم انجام دے رہے ہیں، یہ تو گنہگار ہیں ہی، یہ جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن صرف یہی لوگ نہیں ہیں۔ آج جو بھی صیہونیوں کی حمایت کر رہا ہے، چاہے وہ امریکا اور برطانیہ وغیرہ جیسے سامراجی ممالک کے حکام ہوں یا اقوام متحدہ وغیرہ جیسے عالمی ادارے جو کسی نہ کسی طرح، چاہے خاموشی اختیار کر کے یا اپنے غیر منصفانہ بیانوں اور تبصروں کے ذریعے اُن کی حمایت کر رہے ہیں، وہ بھی اس مسئلے میں شریک جرم ہے۔ تمام عالم اسلام، سبھی مسلم حکومتوں اور ساری مسلم اقوام کا فرض ہے کہ ان کی مخالفت کریں، ان کامقابلہ کریں، ان سے اپنی بیزاری کا اعلان کریں، ان سے اعلان نفرت کریں، اس موقف پر ان کی سرزنش کریں، یہ عمومی فریضہ ہے۔ انھیں الگ تھلگ کر دیں، اگر ممکن ہو تو اقتصادی روش استعمال کریں، سیاسی سطح پر کارروائی کریں، یہ امت مسلمہ کا فرض ہے۔" (2014/07/28)

امریکا کی پوری تاریخ انسان پر ظلم اور ان کے خلاف جرائم سے بھری ہوئي ہے۔ اس سرزمین کے مقامی افراد اور اصل مالکوں کے قتل عام سے لے کر، جو یورپی مہاجروں کے لالچ کی بھینٹ چڑھے، سیاہ فاموں کو غلام بنانے اور ان کے قتل عام تک، خودمختار ملکوں پر براہ راست لشکر کشی سے لے کر قومی اور قانونی حکومتوں کی سرنگونی کے لیے بغاوت کی سازش تیار کرنے تک، اپنی پٹھو آمر حکومت کو حمایت اور عوامی تحریکوں کی سرکوبی سے لے کر فلسطینی عوام کی سرزمین پر غاصبانہ قبضے اور فلسطینیوں کے قتل عام کی اسرائیل کی سرکاری دہشت گردی کی پشتپناہی تک اور ایک جملے میں ہیروشیما سے لے کر غزہ تک سارے کے سارے جرائم کا امن، انسان دوستی، انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے خوبصورت الفاظ کے ذریعے سامراج کی پٹھو تشہیراتی مشینری اور میڈیا کے توسط سے بے شرمی کی انتہا تک جواز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اب وقت آ گيا ہے کہ مسلمان عوام اور دنیا بھر کے لوگ، امریکا جیسے ملکوں کے نعروں کا نہیں بلکہ ان کے رویے کا تجزیہ کر کے ان کے بارے میں فیصلہ کریں اور ان کے ساتھ اپنے تعاون پر نظر ثانی ڈالیں۔

تحریر: محسن باقری پور