اس ملاقات میں انھوں نے اپنے خطاب کے دوران مختلف میدانوں میں ایرانی قوم کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لیے خوف پیدا کرنے اور نفسیاتی جنگ شروع کرنے کے ایران کے بدخواہوں کے ہتھکنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اپنی صلاحیتوں کی شناخت اور بدخواہوں کی توانائي کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے پرہیز کو اس ہتھکنڈے سے مقابلے کا راستہ بتایا اور کہا کہ شہیدوں نے اس نفسیاتی جنگ کے مقابلے میں اپنی فداکاری اور مجاہدت سے استقامت کا مظاہرہ کیا اور اس جنگ کو ناکام بنا دیا۔ رہبر انقلاب کا کہنا تھا کہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں میں بھی اس حقیقت کو نمایاں کرنا اور اسے زندہ رکھنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ایران اور ایران کی عزیز قوم کے خلاف نفسیاتی جنگ کا ایک اصل ستون، دشمنوں کی توانائيوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے اور انقلاب کی کامیابی کے وقت سے ہی انھوں نے مختلف طریقوں سے ہماری قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے امریکا، برطانیہ اور صیہونیوں سے ڈرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا بڑا کارنامہ قوم کے دل سے ڈر کو باہر نکالنا اور اس میں خود اعتمادی پیدا کرنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری قوم نے محسوس کیا کہ وہ اپنی طاقت اور اپنی توانائي پر بھروسہ کر کے بڑے بڑے کام کر سکتی ہے اور دشمن اتنا طاقتور ہے نہیں جتنا وہ دکھاتا ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے فوجی میدان میں نفسیاتی جنگ سے دشمن کا ہدف خوف پیدا کرنا اور پسپائي پر مجبور کرنا بتایا اور کہا کہ قرآن مجید کے الفاظ میں کسی بھی میدان میں، چاہے وہ فوجی میدان ہو یا سیاسی، تشہیراتی یا معاشی میدان ہوں، حکمت عملی کے بغیر پسپائي، غضب الہی کا موجب ہے۔
انھوں نے کمزوری اور الگ تھلگ پڑ جانے کے احساس اور دشمن کی خواہشات کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کو سیاسی میدان میں اس کی توانائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ آج چھوٹی بڑی اقوام والی جو بھی حکومتیں سامراجیوں کے مقابلے میں گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں اگر اپنی اقوام اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں اور دشمن کی توانائي کی اصلیت کو سمجھ جائيں تو وہ اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر سکتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ثقافتی میدان میں بھی دشمن کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا نتیجہ پچھڑے پن کا احساس، دشمن کی ثقافت پر فریفتہ ہونا اور اپنی ثقافت کی تحقیر بتایا۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کی بے حسی کا نتیجہ فریق مقابل کے طرز زندگی کو تسلیم کرنا، یہاں تک کہ غیر ملکی الفاظ اور اصطلاحوں کو استعمال کرنا ہے۔
انھوں نے شہیدوں اور مجاہدوں کو دشمن کی نفسیاتی جنگ کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے افراد بتایا اور کہا کہ ایسے جوانوں کی قدردانی ہونی چاہیے جو کسی بھی طرح کے خوف کے احساس اور دوسروں کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نفسیاتی جنگ کے خلاف ڈٹ گئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ حقیقت فن و ہنر کے پروڈکٹس اور خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں میں متجلی ہونی چاہیے اور اسے زندہ رکھا جانا چاہیے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہیدوں اور دفاع مقدس کے بارے میں کتاب اور فلم جیسے آرٹ اور کلچر کے پروڈکٹس تیار کیے جانے پر زور دیتے ہوئے اس کانفرنس کے منتظمین کی قدردانی کی اور کہا کہ ایک قوم کے جوانوں کی شہادت اور فداکاری، ملک کی پیشرفت کا ایک بڑا سہارا ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے اور اسے تحریف اور فراموشی سے بچایا جانا چاہیے۔