بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔

عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! آپ نے مازندران کے عوام کے جہاد کی عظمتوں کی یاد ہماری اس جگہ پر اور ہمارے گھر میں از سر نو تازہ کر دی۔ واقعی انقلاب کے لئے ہر پہلو سے قربانیاں پیش کرنے اور بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے کے اعتبار سے ملک کے جو علاقے بہت ممتاز اور نمایاں ہیں ان میں سے ایک بلا شبہ مازندران کے عوام ہیں۔ شاید پورے مازندران میں، مغرب سے لیکر مشرق تک کوئی بھی شہر اور کوئی بھی قریہ ایسا نہیں ہوگا جہاں کوئی شہید اور 'جانباز' (دفاع وطن میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور) فرد نہ ہو۔

صوبہ مازندران کے شہیدوں کی قربانیوں کے تعلق سے ایک بڑا شیریں اور پرکشش نکتہ یہ ہے کہ انقلاب دشمنوں کے خلاف جنگ کے الگ الگ ادوار میں وہ پھیلے ہوئی ہیں۔ یعنی وہ مسلط کردہ جنگ، مقدس دفاع اور دفاع حرم جیسے ادوار میں سے کسی ایک دور تک محدود نہیں ہیں۔ انقلاب کے آغاز سے اگر آپ دیکھئے تو سب سے پہلے جو افراد صوبہ مازندران کے مشرقی علاقوں میں جاکر انقلاب مخالف عناصر سے لڑے مازندران کے شہروں کے افراد تھے۔ بعد میں دیگر افراد جاکر ان سے ملحق ہوئے۔  اس کے بعد جنگل کے قضیئے (2) میں اور پورے مازندران بالخصوص آمل کے معاملے میں جس شجاعت کا مظاہرہ کیا گیا اس میں، امام خمینی نے بھی اس مسئلے کے بارے میں اسٹینڈ لیا اور بات کی۔(3)  اس کے بعد مسلط کردہ جنگ میں، مقدس دفاع میں، جناب نے 'اسپیشل ڈویژن' کا ذکر کیا جو قابل غور ہے۔ اسپیشل کیوں؟ ہمارے پاس اتنے سارے ڈویژن تھے تو پھر 'اسپیشل ڈویژن' کا کیا مطلب ہے؟ یہ 'اسپیشل' اس لئے ہے کہ کسی بھی جنگ میں کسی فوجی دستے کے لئے جو بھی حالات پیش آ سکتے ہیں، یہ ڈویژن اس سب کے لئے تیار رہتا تھا۔ اس وقت جب میں اس چھاونی میں گیا جو جناب سردار قربانی (4) نے بنائی تھی، میرے خیال میں انہوں نے آدھا مازندران لے لیا تھا۔ ایک بیابان کو انہوں نے چھاونی میں بدل دیا تھا! ہم گاڑی سے چلتے جا رہے تھے اور چھاونی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بہت بڑی جگہ تھی۔ اس چھاونی میں ہر چیز موجود تھی۔ فوجی بھی تھے، تجربہ بھی تھا، دستاویزات بھی تھے، خاص افراد  تھے، انٹیلیجنس بھی تھی۔ مقدس دفاع کے بعد بھی سارے میدانوں میں مازندران کے افراد وارد ہوئے اور جہاں ضرورت پڑی انہوں نے شجاعت کے جوہر دکھائے اور قربانیاں دیں۔ یعنی مازندران کے شہدا ایسے ہیں۔ پھر حرم اہل بیت کے دفاع کا مرحلہ آیا اور خان طومان  وغیرہ کے معرکوں کی باری آئی۔ یہ جو مازندران کے شہدا میں تنوع ہے وہ اس صوبے کے طرز عمل کی ممتاز خصوصیات کا غماز ہے۔

ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب میں، فوج میں، پولیس میں اور دیگر گوناگوں اداروں میں یہاں کے افراد درخشاں ستاروں میں، بڑے کمانڈروں میں نظر آتے ہیں۔ فوج میں مثل نیاکی رحمۃ اللہ علیہ، یا شیرودی اور دیگر افراد جو تھے، سپاہ پاسداران انقلاب میں جیسے یہی افراد جن کا جناب نے نام لیا اور ان کے علاوہ دیگر افراد، رضاکار فورس بسیج میں، یا عوام الناس کے اندر، جیسے مثلا گیارہ بارہ سال کا بچہ بھی ہے۔ اس صوبے کے شہیدوں میں تنوع ہے۔ انسان ہر طرح کے افراد کو ان میں دیکھ سکتا ہے۔ ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہے۔ ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہئے۔

دو نکتے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک خود شہیدوں کے بارے میں ہے اور ایک اس کام کے تعلق سے ہے جو آپ شہدا کے لئے انجام دینے جا رہے ہیں۔ خود شہدا میری نظار میں ان کا وجود لا متناہی خزانہ ہے۔ یعنی یکے بعد دیگر جو نسلیں آئیں گی سب کو اس کا فائدہ ملے گا۔ اگر مثال کے طور پر شہید کشوری یا شیرودی یا دیگر بڑے شہیدوں کے حالات زندگی لوگوں کو معلوم ہوں، (تو اس سے انہیں فائدہ پہنچے گا) یہ کسی ایک دور تک محدود نہیں ہیں۔ شیرودی کی شہادت کے بعد میں شیرود گیا۔ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور بہت تھوڑے سے لوگ وہاں آباد ہیں۔ ایک گاؤں کے اندر سے ایک جوان نکلتا ہے اور ایسا انسان بن جاتا ہے۔ شاندار آپریشن انجام دیتا ہے۔ اسے پروموشن دیا جاتا ہے تو اپنے کمانڈر کو خط لکھتا ہے کہ میری گزارش ہے کہ میرا یہ پروموشن واپس لے لیا جائے۔ میں ان چیزوں کے لئے میدان جنگ میں نہیں آیا ہوں۔ میں تو امام خمینی کی بات سن کا آیا ہوں، فریضے کی بنا پر آیا ہوں، اسلام کی خاطر آیا ہوں۔ اس چیز کو زبان سے بیان کرنا آسان ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو تیار ہے کہ آسانی سے نام و نمود اور عہدہ و منصب سے انکار کر دے؟ مجھ جیسے عمامہ پوش افراد سے لیکر دیگر افراد تک۔ یہ ایک جوان ہے۔ شیرودی ایک جوان لڑکا ہی تو تھا، ایک نوجوان تھا۔ مازندران کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ جو معرفت و یقین و اخلاص کی اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ اس انداز سے فداکاری کا مظاہرہ کرتا ہے، اس انداز سے بات کرتا ہے۔ کسی بھی فوجی کے لئے چھے مہینے کا پروموشن بھی اہم ہوتا ہے۔ جناب آپ نے فلاں کام کیا تو آپ کو چھے مہینے کا پروموشن دیا جاتا ہے! یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مگر کوئی شخص ہے کہ جو عظیم کارنامہ انجام دینے کے باعث دو تین رینک کا پروموشن حاصل کرتا ہے، جو پروموشن اس شہید کو دیا گيا تھا وہ دو تین رینک اوپر کا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں چاہئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔

آج ہم ان چیزوں سے استفادہ کر سکتے ہیں، کل ہمارے پوتے اور نواسے اس سے بہرہ مند ہوں گے اور بعد کے ادوار میں دوسرے نوجوانوں کو اس کی اطلاع ہوگی تو وہ بھی استفادہ کریں گے۔ یعنی یہ لا متناہی خزانہ ہے۔ اسی طرح دوسرے افراد بھی تھے۔ بڑے عظیم شہدا تھے۔ مازندران میں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی۔ شہدا کلی طور پر لا متناہی خزانہ ہیں۔ ان کے حالات زندگی اور ان کی خصوصیات پر غور و خوض کیا جانا چاہئے۔ اہم نکات کو تلاش کیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے کی باری آئے گی جو میں ابھی آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔

آپ شہدا کی زندگی میں ملنے والے ان نکات پر کام کیجئے۔ بہت اہم ہے۔ بے شک جن اقدامات کا جناب نے ذکر کیا، بہت اچھے ہیں، ضروری کام ہیں۔ شہید کی تصویر کے ساتھ کوئی قالین بنایا جائے اور اسے اس شہید کے خانوادے کو دیا جائے یا شہید کے نام پر کسی سڑک کا نام رکھا جائے۔ لیکن آپ کے یہاں ساڑھے چودہ ہزار سڑکیں تو نہیں ہیں۔ پھر کیا کیجئےگا؟

ان شہدا میں ہر کسی کی زندگی کی کچھ رودادیں ہیں۔ یہ جو لوگ کہا کرتے ہیں کہ 'دنیا بہت چھوٹی ہے'۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ دنیا بہت بڑی ہے۔ کیونکہ دنیا میں آٹھ ارب انسان ہیں اور ہر انسان کے اندر اپنی پوری ایک دنیا ہے، اس کی اپنی رودادیں ہیں، اس کا ایک نظریہ ہے، ایک ہدف ہے۔ سب کے پاس ہیں۔ آپ کسی کے بھی پاس بیٹھئے اور وہ اپنے احوال بیان کرے، اپنی آرزوؤں کے بارے میں بتائے تو وہ ایک پوری دنیا ہے۔ ہر زندگی میں کچھ نکات ہوں گے۔ جو شخص شہید ہو گیا ہے اور شہادت کے درجے پر پہنچا ہے، قربانیاں دی ہیں، یہ سارے نکات بیان کئے جانے کے قابل ہیں۔ انہیں جمع کرنا چاہئے اور سامنے لانا چاہئے تاکہ یہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں۔ اس کا ایک طریقہ کتاب ہے، اچھی کتابیں۔

میری سفارش یہ ہے: جب آپ اعداد و شمار دیں یا آپ خود حساب کریں کہ ہم نے یہ کام انجام دئے ہیں، یہ مجھ جیسے افراد کے سامنے پیش کریں کہ ہم نے یہ کام کئے ہیں تو کتابوں کی تعداد گننے سے زیادہ کتاب پڑھنے والوں کی تعداد گننے پر توجہ دیجئے۔ کہ کتنے لوگوں نے یہ کتاب پڑھی ہے۔ کتنے افراد نے یہ کتاب دیکھی ہے، اس کا مطالعہ کیا ہے۔ کتنے لوگوں نے اس کتاب سے پوائنٹس نوٹ کئے ہیں۔ اس کا طریقہ کار نکالئے۔ جب آپ کوئی کتاب کسی شہید کے حالات زندگی کے بارے میں شائع کرتے ہیں تو یہ غور کیجئے کہ کس طریقے سے یہ کتاب زیادہ سے زیادہ قارئین خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کے بارے میں ان کی رائے معلوم کیجئے۔ اس کے بعد ان لوگوں سے رابطہ قائم کیجئے اور کتاب میں جس شخصیت کا ذکر ہے اس کی زندگی کے اہم نکات ان تک منتقل کرنے کی کوشش کیجئے۔ آپ کا بنیادی کام یہ ہے۔

البتہ یہ کام کتاب کے ذریعے ہو سکتا ہے، فلم کے ذریعے ہو سکتا ہے، سیریئل کے ذریعے ہو سکتا ہے، مصوری کے ذریعے ہو سکتا ہے، مجسمہ سازی کے ذریعے ہو سکتا ہے، کہانیاں لکھ کر ہو سکتا ہے۔ یہ سارے کام کیجئے، یہ کام ہونے چاہئے۔ یہ انجام پانا چاہئے۔

شہیدوں کے نام پر گوناگوں اجتماعات کا انعقاد مثال کے طور پر آپ کسی جگہ پر، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک بڑی عمارت ہو، مثلا کوئی مسجد ہو، الحمد للہ آپ کے پاس مساجد اور امامزادوں کے مقبروں کی کمی نہیں ہے۔ کسی مسجد یا امامزادے کے روضے کو لے لیجئے۔ ایک ہفتہ اس مسجد میں کوئی اجتماع ہو جائے کسی شہید کے نام پر، ایک معین نام پر۔ جو بھی آئے اس شہید کے بارے میں کچھ سنے، کچھ بیان کرے یا کچھ دیکھے۔ اگلے ہفتے یہی اجتماع اسی جگہ پر کسی دوسرے شہید کے نام پر ہو۔ ایسی صورت میں یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ آپ اس کام کے لئے کسی ایک جگہ کا انتخاب کریں اور ممکن ہے کہ ضرورت کے مطابق دس جگہیں منتخب کر لیں۔ چونکہ مازندران ایک طویل صوبہ ہے۔ یعنی اس کا طول اس کے عرض سے زیادہ ہے۔ مازندران کے مشرقی حصے میں، وسطی حصے میں، مغربی حصے میں۔ خود گلستان میں۔-گلستان بھی ایک لحاظ سے انہیں خصوصیات اور انہیں اوصاف کا حامل ہے- آپ اجتماعات رکھئے۔ یعنی شہیدوں کی اہم خصوصیات و اوصاف کا بیان و تعارف آپ کا بنیادی ہدف ہے، جسے آپ کو انجام دینا ہے۔ ورنہ ظاہر ہے کمرے کے طاق پر تصویر رکھ دی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ایک عام بات ہو جاتی ہے اور فراموش ہو جاتی ہے۔ 

شہیدوں کی یاد آپ کو زندہ رکھنا چاہئے، تازہ رکھنا چاہئے۔ یہ جو امام خمینی نے، واقعی اس شخص کی چشم بصیرت انسان کو ہر بار متحیر کر دیتی ہے، مجھے کوئی بھی شخص نظر نہیں آتا جو عام طور پر پیش آنے والے تمام مسائل کے بارے میں ایسی چشم بصیرت کا مالک ہو، کہا: "اسلام کو محرم و صفر نے زندہ رکھا، عاشورا نے زندہ رکھا۔" (5) کیوں؟ اس لئے کہ عاشورا لا فانی ہے، لا زوال ہے، شہید ہے نا! وہ بھی ایسا شہید اور ایسے شہدا! یہ زندہ ہے اور جب تک زندہ ہے سرچشمہ برکات ہے۔ موجودہ زندہ کی یہی خصوصیت ہوتی ہے۔ اس میں تحرک ہوتا ہے، سرگرم عمل رہتا ہے، برکات کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ حفاظت کرتا ہے، اس نے اسلام کی حفاظت کی، تشیع کی حفاظت کی، ولایت امیر المومنین کی حفاظت کی۔ 

الحمد للہ مازندران میں ان کاموں کے لئے میدان بھی ہموار ہے۔ یعنی مازندران کے عوام واقعی نیک راہ کے لئے آمادہ ہیں۔ طاغوتی شاہی دور میں ملک کے شمالی علاقوں میں، خواہ وہ مازندران ہو یا گیلان، دینداری ختم کرنے کے لئے جتنی سرمایہ کاری کی گئی شاید ملک میں کم ہی جگہوں پر ہوئی ہوگی۔ لیکن آپ پاتے ہیں کہ یہی عوام انقلاب کے بعد گیلان میں بھی اور مازندران میں بھی اسلام کے لئے لوگوں نے کیا کیا کر ڈالا؟! یہ بیک گراؤنڈ کو ظاہر کرتا ہے۔ مازندران میں اسلام جنگ اور شمشیر کے ذریعے نہیں پہنچایا گیا۔ خلفا کے زمانے میں آکر انہوں نے ایران کو فتح کیا اور ایران کو اسلام کی نعمت سے نوازا۔ ظاہر ہے یہ لشکر کشی کے ذریعے ہوا۔ لشکر چونکہ پہاڑوں کو عبور نہیں کر سکتا تھا اس لئے مازندران پہاڑ کی پشت پر باقی رہا اور وہاں نہیں پہنچ سکے۔ مازندران ان کی رسائی سے باہر رہا۔ پھر وہ زمانہ آیا کہ ائمہ کی اولادیں تقیہ کے عالم میں، بھوک کی حالت میں، خستہ حال، فرار ہوکر ان پہاڑوں سے پیدل گزریں اور مازندران پہنچیں۔ انہوں نے مازندران کے عوام کو مسلمان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مازندران شروع سے ہی شیعہ تھا۔ کیونکہ جن لوگوں نے وہاں جاکر لوگوں کو مسلمان کیا، وہ ائمہ علیہم السلام کے فرزند تھے۔ وہ بھی کتنی زحمتوں سے! اگر آپ تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو ںظر آئے گا کہ انہوں نے کتنی صعوبتوں کے ساتھ ان پہاڑوں کو عبور کیا۔ اللہ کے عبد صالح کا رتبہ رکھنے والے امام زادے اور ان کی زوجہ کے پاس نماز کا صرف ایک لباس ہے! نماز کا وقت ہوتا ہے تو پہلے ان میں سے ایک اس لباس میں نماز ادا کرتا ہے اور پھر وہ لباس دوسرے کو دے دیتا ہے کہ وہ نماز ادا کرے! یہ لوگ اس حالت میں ننگے پیر ان پہاڑوں پر چڑھے اور انہیں عبور کرکے مازندران پہنچے۔ مازندران اس طرح اسلام کی آغوش میں آیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب یمن میں علوی حکومت تشکیل پانے جا رہی تھی تو وہاں سے لوگوں نے آکر مازندران سے فوجیوں کی بھرتی کی۔ ائمہ نے یمن پر جو ہزار سال حکومت کی ہے تو ان کے ابتدائي مراحل مازندرانیوں کے ذریعے پورے ہوئے۔ مازندران کے جوان یمن گئے اور وہاں جاکر لڑے کہ وہاں اسلام کو اور تشیع کو مضبوط بنیاد ملے۔ 

خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو توفیق دے کہ آپ یہ عظیم کام انجام دے سکیں۔ آپ اپنی تقریروں میں میرا سلام مازندران کے عزیز عوام کو پہنچائيے۔ 

و السّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ

  1 اس ملاقات کے آغاز میں صوبہ مازندران میں نمایندہ ولی فقیہ، شہر ساری کے امام جمعہ اور سیمینار کی پالیسی ساز ٹیم کے سربراہ حجت الاسلام محمد باقر محمدی لائینی، صوبہ مازندران میں سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر اور سیمینار کے سکریٹری، بریگیڈیئر جنرل سیاوش مسلمی نے تقریر کی۔

2 انقلاب مخالف عناصر کے مسلحانہ حملوں کے جواب میں عوامی مزاحمت کی طرف اشارہ ہے۔ ایران کے کمیونسٹ گروہوں نے جغرافیائی جائزے کے بعد آمل کے جنگلات کو چھاپہ مار حملوں کے لئے موزوں پایا تو وہاں روپوش ہو گئے اور وہیں سے 25  جنوری 1982 کی شب انہوں نے اپنے حملے شروع کئے۔ وہ پہلے شہر میں داخل ہوئے اور جو بھی انہیں انقلابی اور 'حزب اللہی' محسوس ہوا اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد شہر کی اسلامی انقلاب کمیٹی پر حملہ کر دیا۔ آمل کے عوام فائرنگ کی آوازیں سن کر سڑکوں پر نکل پڑے اور جب انہیں پورا ماجرا پتہ چلا تو مقابلے کے لئے آمادہ ہو گئے اور 26 جنوری کی صبح سے شہر میں محاذ بنا لئے اور اپنے مقابلے سے کمیونسٹ فورسز کو منتشر کر دیا۔ عوامی مقابلہ اتنا شدید تھا کہ چھاپہ ماروں کا آپسی رابطہ ٹوٹ گیا اور غروب کے وقت تک ان کا قلع قمع کر دیا گيا۔ اس واقعے میں آمل کے با شرف عوام میں سے 40 افراد شہید ہو گئے۔ 

صحیفہ امام جلد 16 صفحہ 2 بیرونی ممالک جانے والی ٹیموں کے سربراہوں سے خطاب 30 جنوری 1982

4 بریگیڈیئر مرتضی قربانی مازندران کے کربلا 25 ڈویژن کے اس وقت کے کمانڈر

5 صحیفہ امام جلد 15 صفحہ 330 تہران کے واعظین کے درمیان تقریر مورخہ 26 اکتوبر 1980