سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک اثر انگيز ویڈیو میں جنوبی لبنان میں ایک شخص کو ایک ٹاور پر چڑھتے دیکھا جا سکتا ہے جو وہاں لہرائے گئے صیہونی حکومت کے پرچم کو نیچے اتار رہا ہے۔ جنوبی لبنان لوٹنے والے لوگوں کی ایک ہی مشترکہ آواز تھی: "یہ ہمارا گھر ہے۔"

جشن کے جوش و جذبے کے دوران ایک عالم دین نے، جنھوں نے حزب اللہ کا پرچم اٹھا رکھا تھا اور جن کی آنکھوں سے عزم و جوش مترشح تھا، کہا کہ یہ پرچم کبھی بھی ہمارے ہاتھ سے نہیں گرے گا، یہ پرچم کبھی بھی زمین پر نہیں گرا ہے اور مستقبل میں بھی کبھی بھی نہیں گرے گا۔ شہیدوں کے خون کی برکت سے، زخمیوں اور اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے لطف و کرم سے، قیدی بنائے گئے لوگوں کے لطف و کرم سے اور سبھی لوگوں کے لطف و کرم سے یہ پرچم ہمیشہ لہراتا رہے گا۔"

لیکن سرحد کے ٹھیک اس پار مقبوضہ علاقوں کے شمال میں، حالات میں کوئي فرق نہیں دکھائي دے رہا ہے۔ صیہونی سیٹلرز کی کالونیاں بدستور مکینوں کے انتظار میں ہیں۔ جنگ بندی کے باوجود صیہونی سیٹلرز سرحد کے قریب اپنے گھروں کو نہیں لوٹے ہیں۔ شمالی شہر شلومی کے میئر گابی نعمان اس واضح تضاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ہمارے شہر والے فی الحال، سرحدی علاقے سے دور ہی رہیں گے۔" خوف اور عدم اطمینان اب بھی ختم نہیں ہوا ہے، وہ خوف جو حزب اللہ نے ان کے دلوں پر طاری کر دیا ہے۔

صیہونی میڈیا نے اپنے گھروں کو لوٹتے ہوئے لبنانی عوام کی تصاویر کے بارے میں بڑے مایوسانہ اور ناقابل یقین انداز میں بات کی ہے۔ ایک میڈیا نے اپنے گھروں اور گاؤوں کو لوٹتے ہوئے لبنانی عوام کے مناظر دیکھنے کے بعد صیہونیوں کے غصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لبنانی اپنے اپنے گھروں کو ایسے عالم میں واپس لوٹ رہے ہیں کہ شمالی علاقوں کے لوگوں کے لیے اب بھی واپس لوٹنا ممکن نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر صیہونی یوزرس ایک تشویش ناک سوال پوچھ رہے ہیں: "اگر ہم نے انھیں کاری چوٹ پہنچائي ہے تو وہ کس طرح سے واپس لوٹ رہے ہیں جبکہ ہم نہیں لوٹ پا رہے؟"

دونوں طرف کی صورتحال میں یہ فرق، جنگ بندی کے حالیہ سمجھوتے کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے فوجی برتری کے دعوے کے باوجود کیوں ایسی شرطوں کو تسلیم کیا جن سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شمالی علاقوں میں آباد صیہونیوں کو منجدھار میں چھوڑ رہی ہے؟ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر تجزیہ نگار اور امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے سابق رکن ڈینس راس کا ماننا ہے کہ لبنان میں جنگ بندی، لبنان میں پھنس جانے کے صیہونی حکومت کے خوف کا نتیجہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طویل مدت تک ٹکراؤ ایک بندگلی پر منتج ہوتا جس میں فتح بھی حاصل نہیں ہوتی، جان و مال کا ضیاع بھی بہت زیادہ ہوتا اور اس سے نکلنے کی کوئي واضح اسٹریٹیجی بھی نہیں ہوتی۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے زمینی تبدیلیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ صیہونی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے جنگ بندی کے سمجھوتے کو تسلیم کرتے وقت دعویٰ کیا تھا کہ حزب اللہ کو دسیوں سال پیچھے دھکیل دیا گيا ہے اور اب یہ تحریک پہلے جیسی نہیں رہ گئي ہے تاہم زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ حزب اللہ کی میزائيلی صلاحیتوں نے دکھا دیا ہے کہ وہ جب بھی ارادہ کرے، مقبوضہ علاقوں کے اندر تک کسی بھی جگہ کو بڑی باریکی سے نشانہ بنا سکتی ہے اور اس چیز نے صیہونی حکومت کے سارے اندازوں کو فیل کر دیا ہے۔

صیہونی حکومت کے فوجی افسروں نے بہت ہی واضح تجزیے پیش کیے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق صیہونی حکومت کے فوجی انٹیلی جنس کے ادارے کے سربراہ تمیر ہیمن نے کہا ہے کہ حالیہ لڑائي میں فوج اپنے تمام اہداف کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ انھوں نے حزب اللہ کی مزاحمت اور سخت ترین حالات کے مطابق ڈھلنے کی حزب اللہ کے جانبازوں کی صلاحیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائيلی فوج کے خلاف شجاعانہ جنگ کے ذریعے حزب اللہ کے جانبازوں نے دکھا دیا کہ صرف جنگ کے میدان میں ہی طاقت و صلاحیت کا پتہ چلتا ہے۔

مقبوضہ علاقوں پر پڑنے والے معاشی اثرات بھی قابل توجہ رہے ہیں۔ حیفا میں، جو لبنان کی سرحد سے کافی دور ہے، اکتوبر 2024 میں کام کاج کی شرح نوّے فیصد کم ہو گئي۔ ایک صیہونی دکاندار نے کہا کہ لوگ سڑکوں پر نہیں نکلتے اور حیفا کی صورتحال تشویش ناک ہے۔ سیٹلرز میں پایا جانے والا خوف تل ابیب تک پہنچ چکا ہے اور اس کی وجہ جھڑپ والے علاقوں کا بڑھتا دائرہ ہے۔

حالیہ مہینوں میں مقبوضہ علاقوں میں کسی بھی جگہ کو نشانہ بنانے کی حزب اللہ کی توانائي نے صیہونی حکومت کی تشویش کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ اس بار ایک لاکھ لوگوں کے بجائے جو شمالی علاقوں سے بے گھر ہوئے، دسیوں لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے کا امکان پیش کیا جا رہا تھا۔ جنگ جاری رہنے سے یہ خطرہ بڑھ گيا تھا کہ پوری صیہونی حکومت میں کسی بھی جگہ حقیقت تحفظ کا احساس نہ رہے اور وسیع پیمانے پر الٹی ہجرت کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔

گزشتہ اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کونسلیٹ والے حصے پر صیہونی حکومت کے حملے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے سیکڑوں ڈرونز اور میزائيلوں کے ذریعے اپنی سرزمین سے مقبوضہ علاقوں پر حملہ کیا تھا۔ موساد سے جڑے ہوئے صحافی رونین برگمین نے اپنی ایک رپورٹ میں ایران کے کامیاب حملے کے بعد ایک باخبر صیہونی ذریعے کے حوالے سے صیہونی حکومت کی آشفتہ صورتحال کے بارے میں لکھا: "حکام کے درمیان جو باتیں ہو رہی ہیں اگر وہ میڈیا سے نشر ہو جائيں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائيل سے نکلنے کے لیے بن گوریون ائيرپورٹ پر ٹوٹ پڑیں گے۔"

یہ حقائق صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے فتح کے اعلان سے پوری طرح تضاد رکھتے ہیں۔ انھوں نے جنگ بندی کا سمجھوت ہپیش کرتے ہوئے پچھلے ایک سال میں صیہونی حکومت کے بے مثال کارناموں اور کامیابیوں کی تعریف کی تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 25 نومبر کو رضاکاروں سے ملاقات میں صیہونی حکومت کی شکست کی تشریح کرتے ہوئے کہا: "لوگوں کے گھروں پر بمباری فتح نہیں ہے، احمق یہ نہ سوچیں کہ چونکہ وہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کر رہے ہیں، چونکہ اسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں، چونکہ لوگوں کے اجتماعات پر بمباری کر رہے ہیں تو وہ فتحیاب ہو گئے، نہیں، دنیا میں کوئي بھی اسے فتح نہیں مانتا، یہ فتح نہیں ہے۔

شلومی شہر کے میئر نعمان نے صیہونیوں کے دلوں پر طاری خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہمیں دکھایا گيا، وہ اس بات کا گواہ ہے کہ جنگ کا اگلا مرحلہ درپیش ہے، چاہے ایک مہینے میں، دو مہینے میں یا دس سال میں۔ صیہونی میڈیا کی جانب سے کرائے جانے والے ایک سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ لبنان کی سرحد کے قریب صیہونی بستیوں میں رہنے والے 70 فیصد سیٹلرز، اپنے گھروں کو لوٹنا نہیں چاہتے۔

عدم تحفظ کے اس احساس کی جڑیں تشخص اور تعلق کے زیادہ گہرے مسائل سے جڑی ہوئي ہیں۔ سرحد کے ایک طرف لبنانی گھرانے اپنی آبائي سرزمینوں کی طرف لوٹ رہے تو دوسری طرف ایسے سیٹلرز ہیں جن کا اس سرزمین سے کوئي تعلق ہی نہیں ہے اور ان علاقوں کو طاقت کے بل پر فلسطینیوں سے چھینا اور غصب کیا گيا ہے۔

جب شلومی شہر کے میئر نعمان کہتے ہیں کہ فی الحال گھر واپسی کا کوئي پروگرام نہیں ہے تو لفظ "گھر" کا وزن مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ لبنانیوں کے لیے یہ ایک حق ہے جو گزشتہ نسلوں کا ورثہ ہے لیکن سیٹلرز کے لیے ایک ایسا مکان ہے جس میں اب ان کے لیے رہائش کا امکان نہیں رہ گیا ہے کیونکہ انھوں نے فلسطینیوں سے ان کی رہائش چھین لی ہے۔

یہ وہی مفہوم ہے جس کے بارے میں فلسطین کے مشہور مفکر اور دانشور ایڈورڈ سعید کہتے ہیں: "ہم ایسے لوگ ہیں جنھیں ان کی سرزمین سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ ہم اس سرزمین کے مقامی لوگ تھے جنھیں ایک یہودی حکومت کے قیام کے لیے باہر نکال دیا گيا۔ در حقیقت ہم قربانیوں کی  قربانی ہیں۔"