انھوں نے اس ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی اور غزہ کی فتح کو، مزاحمت کے زندہ ہونے اور زندہ رہنے کی پیشگوئي کے عملی جامہ پہننے کی کھلی نشانی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ دنیا کی نظروں کے سامنے ہو رہا ہے وہ ایک افسانے کی طرح ہے کہ انسانی اقدار کی پروا نہ کرنے والی امریکا جیسی ایک بڑی جنگي مشین اپنے بنکر بلسٹر بم ظالم اور خونخوار صیہونی حکومت کو دے اور وہ سفاک و بے رحم حکومت پندرہ ہزار بچوں پر ان کے گھروں اور اسپتالوں میں بمباری کرے لیکن اپنے اہداف حاصل نہ کر سکے۔

رہبر انقلاب نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اگر امریکی وسائل نہ ہوتے تو صیہونی حکومت ابتدائي کچھ ہفتوں میں ہی گھٹنے ٹیک چکی ہوتی، کہا کہ صیہونی حکومت نے اس ایک سال اور کچھ مہینے کے عرصے میں جہاں تک ممکن تھا جرائم کا ارتکاب کیا، غزہ کے چھوٹے سے علاقے میں گھروں، اسپتالوں، مسجدوں اور گرجا گھروں پر بمباری کی لیکن آخرکار وہ نہ صرف یہ کہ اس ہدف کو، جسے اس کے روسیاہ اور بدبخت سربراہ نے طے کیا تھا، یعنی حماس کی نابودی اور مزاحمت سے عاری غزہ کا مینیجمنٹ، حاصل نہ کر سکی بلکہ وہ اسی حماس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور جنگ بندی کے لیے اس کی شرطوں کو ماننے پر مجبور ہو گئي۔انھوں نے غزہ کے معاملے میں مزاحمت کی شادابی اور فتحیابی کو، استقامت کی صورت میں فتح عطا کرنے کی الہی سنت کے عملی جامہ پہننے کا مصداق بتایا اور کہا کہ جہاں بھی خدا کے اچھے بندوں کی جانب سے مزاحمت و استقامت ہوگي، وہاں فتح یقینی ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے ایران کے کمزور ہو جانے کے خیالی پلاؤ پکانے والے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل بتائے گا کہ کون کمزور ہوا ہے، جس طرح سے کہ صدام نے بھی ایران کے کمزور ہو جانے کے خیالی پلاؤ کے ساتھ حملہ شروع کیا تھا اور ریگن نے بھی اسی خیال کے ساتھ اس کی بھرپور مدد کی تھی لیکن آخرکار وہ دونوں اور خیالی پلاؤ پکانے والے دسیوں دیگر لوگ جہنم رسید ہو گئے جبکہ اسلامی جمہوریہ روز بروز ترقی و پیشرفت کرتی رہی، اللہ کے فضل و کرم سے یہ تجربہ دوہرایا جائے گا۔انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں بریکس جیسی تنظیموں میں رکنیت کو اہم بتایا اور اس بڑے موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے ملک کی سفارت کاری کے ذمہ داروں کے سرگرم ہو جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ برکس کا معاشی و مالیاتی نظام کہ جو رکن ملکوں کے درمیان آپسی کرنسی میں لین دین کو ممکن بناتا ہے، ایک اہم گنجائش ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تجارتی لین دین سے جہاں تک ممکن ہو ڈالر کو ختم کیے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ یہ کام، جسے انجام دینے کے لیے صدر محترم بھی کوشاں ہیں، معاشی کارزار میں بہت اہم اور بڑا کام، بہت ٹھوس اور فیصلہ کن قدم ہے اور رزرو بینک کو، دوسری کرنسیوں کے لیے دروازے کھول دینے چاہیے، البتہ اس پر ردعمل بھی سامنے آئیں گے لیکن یہ کام ملک کے ہاتھوں کو زیادہ مضبوط بنائے گا۔انھوں نے نجی سیکٹر کی توانائيوں اور کارناموں کو منظر عام پر لانے کی غرض سے منعقد ہونے والی "پیشرفت کے علمبردار" نامی نمائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نمائش، ملک کے حقائق کے ایک چھوٹے سے حصے کو دکھاتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتاتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر نے دباؤ، پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود قابل قبول حد تک پیشرفت کی ہے اور ملک آگے کی طرف بڑھ ہے اور ہمیں اللہ کی اس بڑی نعمت کی قدردانی کرنی چاہیے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے دشمنوں کی جانب سے مایوسی اور ناامیدی کا ماحول بنانے کی کوششوں کے پیش نظر معاشی شعبے میں سرگرم افراد کی رپورٹوں کو پیشرفت اور حیات کا سبب بتایا اور کہا کہ افسوس کہ میڈیا کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے جوان، طلباء اور دوسرے طبقے ان اچھی خبروں اور حاصل کی گئي پیشرفتوں سے مطّلع نہیں ہیں اور اس کام کے ذمہ داروں کو اس سلسلے میں میڈیا پر ایک اہم کام کی منصوبہ بندی کر کے اسے پیش کرنا چاہیے۔انھوں نے حالیہ برسوں میں معاشی سرگرمیاں انجام دینے والوں کے ساتھ پانچ ملاقاتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سنہ 2019 میں پابندیوں اور دھمکیوں کے اوج پر مینوفیکچررز اور صنعت کاروں کو معاشی جنگ میں فرنٹ لائن کے کمانڈروں کا نام دیا تھا اور پیداوار میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا اور بعد کے برسوں کی نشستوں میں پتہ چلا کہ نجی شعبہ پیداوار میں اضافے کے عمل میں پوری طاقت اور خلاقیت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس سال بھی پتہ چلا کہ معاشی شعبے میں سرگرم افراد اپنے زمینی تجربات کے ساتھ پیداوار اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔

رہبر انقلاب نے انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کی جانب سے "پیشرفت کے علمبردار" نامی نمائش کے معائنے کو مفید اور ضروری بتایا اور کہا کہ گزشتہ سال بھی شہید رئیسی اس نمائش کا معائنہ کرنے کے بعد بہت خوش اور پرامید ہوئے تھے۔رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے ملک کے 13 مینوفیکچررز اور نجی شعبے میں سرگرم افراد نے بعض پیشرفتوں اور مشکلات کا ذکر کیا اور کچھ تجاویز پیش کیں۔