بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین والصّلواۃ والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّیۃ اللہ فی الارضین۔
ہمارا آج کا یہ جلسہ بہت شیریں اور مفید رہا۔ اس جلسے کا ایک حصہ انجام دیے گئے کاموں ، پیش کی جانے والی ایجادات اور کامیابیوں کا ہے جو امید افزا ہے۔ میری نظر میں، مایوسی کی اس فضا میں ہمیں یہ باتیں سننے کی ضرورت ہے جو ہمارے دشمن خاص اغراض ومقاصد کے ساتھ، ملک کے مخصوص ماحول میں، جیسے نوجوانوں کے درمیان اور یونیورسٹیوں کی فضاؤں میں، پیدا کر رہے ہیں، ان حالات میں یہ باتیں اور رپورٹیں، آگے بڑھنے اور پیشرفت کے حوالے سے امید افزا اور حیات بخش ہیں، اور دوسرا حصہ گلے شکووں کا ہے جو آپ جیسے لوگوں سے ہم نے مسلسل سنے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ گلے شکووں کو سنیں اور انہیں دور کریں۔
پہلے حصے کے تعلق سے، یعنی جو خوش آیند خبریں دی گئيں اور پیشرفت کی جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس کے تعلق سے میری نظر میں ابلاغیاتی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جن پیشرفتوں کی آپ نے یہاں رپورٹ پیش کی ہے اور ہم نے سنی ہے، کیا ان سے ہمارے نوجوان واقف ہیں؟ ہمارے، یونیورسٹیوں کے طلبا واقف ہیں؟ جو لوگ ملک میں کچھ کرنا چاہتے ہیں، موثر بننا چاہتے ہیں اور اپنے اندر اس کی توانائی محسوس کرتے ہیں، کیا وہ اس بات سے واقف ہیں کہ چند برس قبل فلاں چھوٹے سے شہر میں ایک چھوٹا سا کارخانہ قائم کیا گیا اور مختصر مدت میں اس نے اتنی پیشرفت کی کہ دسیوں برابر ہو گیا۔ کیا لوگ یہ جانتے ہیں؟ جو پیشرفت ہوئی ہے اور جو امنگیں پوری ہوئی ہیں، ان کو دکھانے (ان سے لوگوں کو روشناس کرانے) کے حوالے سے ہم کوتاہی کر رہے ہیں، اس سلسلے میں تشہیراتی کام ضروری ہے۔ یہ ایک الگ باب ہے، ہمیں اس بارے میں غوروفکر اور مباحثہ کرنے کی ضرورت ہے سوچنے کی ضرورت ہے۔ گلے شکووں کے بارے میں بھی میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
آج کی یہ ملاقات، آپ سے ہماری پانچویں ملاقات ہے جو ان چند برسوں میں ہم نے سرمایہ کاروں اور روزگار پیدا کرنے والوں سے کی ہیں۔ 2019 میں ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا پھر 2020، 2022، 2024 اور اب 2025 میں یہ ملاقات ہو رہی ہے۔ آپ میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جو گزشتہ جلسوں میں بھی شریک تھے۔
2018 میں جب پابندیاں اوج پر تھیں اور پابندیوں نیز دباؤ وغیرہ کی دھمکیاں بڑھ گئي تھیں، ہم نے یہ جلسہ تشکیل دیا تا کہ جن لوگوں نے کمر ہمت باندھی ہے اور پیداوار و پیشرفت کا بیڑا اٹھایا ہے، ان کا شکریہ ادا کریں اور ان سے کہیں کہ آپ اقتصادی جنگ کی فرنٹ لائن کے کمانڈر ہیں۔ 2018 میں ہم نے یہ نام دیا اور جو رفقا اس جلسے میں تھے ان سے ہم نے کہا کہ آپ اقتصادی جنگ کی فرنٹ لائن کے کمانڈر ہیں۔(2) آج ہماری اہم ترین جنگ، اقتصادی جنگ ہے۔ ہم نے کہا کہ پیداوار اور ترقی پر توجہ دی جائے۔ ہر سال اس جلسے میں ہم نے دیکھا، ہمیں معلوم ہوا، صرف رپورٹ نہیں ملی بلکہ ہم مطلع ہوئے کہ نجی شعبے کی خلاقیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ شعبہ قوی تر ہوا ہے۔ پہلے ہمیں نجی شعبے کو میدان میں لانے کی فکر تھی، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نجی شعبے نے میدان میں تجربات حاصل کئے ہیں، ان کے پیش نظر زیادہ ذوق و شوق کے ساتھ پیداوار اور سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں ہم نے پیشرفت کی ہے۔
گزشتہ روز میں نے نمائش دیکھی۔ البتہ اس نمائش میں جو کچھ رکھا اور دکھایا گیا، وہ ملک میں پائے جانے والے حقائق (حقیقی ترقی) کا ایک چھوٹا سا حصہ تھا، لیکن اسی نمائش نے جو میں نے کل دیکھی، دکھا دیا کہ زیادہ پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود جو آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں، نجی شعبہ اتنا توانا ہے کہ اس نے یہ پیشرفت کی۔ اس نمائش نے پیشرفت کی نشاندھی کی، آگے بڑھنے کی نشاندھی کی۔ ہم خداوند عالم کی ان نعمتوں کی قدر کیوں نہیں کرتے؟ ملک آگے بڑھ رہا ہے، پیشرفت کر رہا ہے۔ اقتصادی میدان میں نجی شعبہ ملک میں پیشرفت اور ترقی کی علامت ہے۔ اگر ہم سائںس اور ریسرچ کے میدان کو دیکھیں تو وہاں یہی حقیقت نظر آئے گی۔ ہم ملک کے مختلف شعبوں میں یہ پشرفتیں دیکھ رہے ہيں۔ البتہ کمیاں، نقائص اور مشکلات کم نہیں ہیں لیکن ان کا تعلق خود ہم سے ہے۔ یہاں وزیر حضرات موجود ہیں، جناب ڈاکٹر عارف (3) بھی موجود ہیں۔ جو ہمارے ذمہ ہے وہ میں کہوں گا۔
جو ملک پابندیوں سے دوچار ہے اس کو اسی نہج پر چلنا چاہئے اور اسی کو اس کے کاموں کی بنیاد ہونا چاہئے۔ آج دنیا میں چند ممالک ہیں جو بڑی طاقتوں کی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پابندی ان کے (پابندی لگانے والوں کے) نقطہ نگاہ سے، جن چیزوں کی انھوں نے پابندی لگائی ہے، وہ مناسب اور صحیح شکل میں ان کے اختیار میں ہے۔ لیکن جس ملک پر پابندی لگائی جائے اس کا فرض یہ ہے کہ اپنی اندرونی صلاحیتوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے اور ان سے فائدہ اٹھائے۔ میری تجویز یہ ہے کہ آئيں اور یہ نمائش دیکھیں۔ گزشتہ ادوار ميں بھی ہم نے یہ درخواست کی تھی کہ حکام نے اگر نہیں دیکھی ہے تو آئیں اور دیکھیں۔ مختلف اداروں کے سربراہان آئيں، یہ نمائش دیکھیں۔ گزشتہ برس بھی میں نے یہ درخواست کی تھی ، شہید صدر جناب رئیسی رحمت اللہ علیہ، ایک دو دن کے بعد آئے اور انھوں نے یہ نمائش دیکھی اور جتنا وقت میں نے اس نمائش میں گزارا تھا، اس سے زیادہ شاید دو گنا وقت انھوں نے یہاں گزارا اور مجھ سے زیادہ خوش ہوئے۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کے حکام، تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ اور عدلیہ) کے سربراہان میں بھی یہی کیفیت پیدا ہوگی۔
ایک بہت اچھی بات جو نمائش میں بھی نظر آئی اور آج کی باتوں میں بھی اس کا اعادہ ہوا اور مجھے اس سے ہٹ کے بھی اس کی اطلاع ملی تھی اور مجھے معلوم تھی، وہ یہ ہے کہ بعض معاملات میں جو کم نہیں ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ نجی شعبے کے سرمایہ کار کے لئے اپنی ذاتی آمدنی سے زیادہ ملک کی پیشرفت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ بات ہم نے آج کی گفتگو میں بھی سنی ہے۔ آمدنی اور ذاتی زندگی میں پیشرفت بھی ان کے مد نظر ہے، لیکن اس سے زیادہ اور کئی گنا ملک کی پیشرفت پیش نظر ہے کہ ملک ان مشکلات سے نکل سکے۔
میری گزارشات کا بنیادی نکتہ یہ ہے۔ آج بھی ہم اسی نکتے کی تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کی مجریہ، وہ سسٹم جو فیصلے کرتا ہے، نجی شعبے کی مدد کرے۔ یہ ضروری ہے۔ اس کی مدد کرنی چاہئے۔ اہم ترین مدد یہ ہے کہ ان کے راستے سے رکاوٹیں ہٹا دے، رکاوٹیں دور کرے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض معاملات میں حکومتی اور نگراں ادارے، اسپیڈ بریکر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی کمپنی کی پیشرفت اور ترقی ميں مدد کرنے کے بجائے، رکاوٹیں کھڑی کرتے ہيں جو اس کی پیشرفت میں خلل ڈالتی ہے۔
ایک مسئلہ، یہی درآمدات کا مسئلہ ہے جس کا بعض حضرات نے ذکر کیا ہے۔ جناب ڈاکٹر عارف، صنعت، معدنیات اور تجارت کے وزیر محترم (4) محترم وزیروں سے بات کریں۔ شرمندگی ہوتی ہے کہ انہیں حضرات میں سے ایک نے بتایا ہے کہ (مشابہ اشیا کی) درآمدات مالی لحاظ سے، کارخانے میں تیار ہونے والی مصنوعات سے تقریبا چالیس فیصد زیادہ ہے۔ یہ ایرانی محنت کشوں، ایرانی کارخانوں اور ایرانی سرمایہ کاروں کے لئے رقیب ہے۔ واقعی شرمندگی ہوتی ہے! جب ایرانی مصنوعات ملک کی مشکل برطرف کر سکتی ہیں تو ہم اس بات کی اجازت کیوں دیں کہ ایرانی سرمایہ کار کی کمر توڑ دینے کی قیمت پر غیر ملکی سرمایہ کار فائدہ اٹھائيں اور آگے بڑھیں؟ یہ ملک کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس کو دیکھا جائے۔ میں جس بات کی تاکید کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ حکومتی ادارے مدد کریں، رکاوٹیں دور کریں۔ بعض اوقات قانون رکاوٹ بنتا ہے۔ قانون کی اصلاح کریں۔ بعض حکومتی ضوابط رکاوٹ بنتے ہیں، انہيں تبدیل کریں۔ البتہ میں یہ نہيں کہوں گا کہ غلط کام کرنے والوں کے ساتھ نرمی کی جائے۔ بعض لوگ ہیں جو سرمایہ کار کی حیثیت سے، روزگار پیدا کرنے کے نام پر، میدان میں آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ سرمایہ کار نہیں ہوتے، بلکہ وہ غلط فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جس کو ترجیحی زرمبادلہ وغیرہ کے معاملے میں دیکھا گیا ہے، بہت زیادہ غلط فائدہ اٹھایا گیا۔ میں ان معاملات میں چشم پوشی کی بات نہیں کرتا۔ نگرانی بڑھائی جائے لیکن مدد بھی بڑھائی جائے۔ جو واقعی صحیح کام کر رہے ہیں ان کی مدد کی جائے، ان کے راستے سے رکاوٹیں دور کی جائيں۔
رکاوٹیں دور کرنے کے جملہ مصادیق ميں سے ایک آئین کی دفعہ 44 کے تحت بیان کی گئی کلی پالیسیوں پر عمل درآمد ہے۔ جب ہم نے چند برس قبل، دفعہ 44 کے تحت کلی پالیسیوں کا اعلان کیا(5) تو سبھی نے یعنی سبھی حکام اور جاننے والے مطلع افراد نے جو ہم سے رابطے میں تھے، (اس کی) تائید کی۔ بعض نے اخبارات و جرائد میں بعض نے ( الیکٹرانک) میڈیا میں تائید کی اور بعض نے خود ہم سے کہا کہ یہ ملک کی اقتصادی مشکلات کی راہ حل ہے، اس سے گرہیں کھلیں گی۔ لیکن افسوس کہ متعلقہ حکام نے ان پالیسیوں پر عمل نہیں کیا۔ اب بھی اس مشکل سے دوچار ہیں۔ دفعہ 44 کی پالیسیوں پر عمل ہونا چاہئے۔ میری نظر میں 2020 کے عشرے میں ہماری اقتصادی تنزلی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ وجوہات مختلف تھیں۔ ان ميں سے ایک یہی تھی کہ ان پالیسیوں پر عمل نہیں کیا گيا۔ ہم مسلسل تاکید کیا کرتے تھے لیکن توجہ نہیں کی گئی۔
آٹھ فیصد اقتصادی شرح نمو کے تعلق سے، الحمد للہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض ماہرین نے اس سلسلے میں متعدد ورکنگ گروپس بناکر چند ماہ اس پر کام کیا ہے، گنجائشوں کا پتہ لگایا ہے، توانائیوں کی نشاندہی کی ہے، سرمایہ کاری کے منصوبے پیش کئے ہیں اور مشکلات کی راہ حل کا احصاء کیا ہے۔ حکومتی ذمہ داران سنجیدگی کے ساتھ پیروی کریں۔ یہ کام ہوئے ہیں، ورکنگ گروپس نے کام کئے ہیں، کوشش کی ہے، مشکلات کی راہ ڈھونڈی ہے، لیکن ان کا نفاذ اور ان پر عمل حکام کا کام ہے تا کہ ان شاء اللہ آٹھ فیصد اقتصادی شرح نمو کا ہدف حاصل ہو سکے۔ یہ نہ کہیں کہ نہیں ہو سکتا۔ اس کو کسی نہ ہونے والے امر پر منحصر نہ کریں کہ اس کے لئے اتنی غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے! ظاہر ہے کہ (اس نقطہ نگاہ سے) یہ عملی نہیں ہوگا۔ جن لوگوں نے اس مسئلے پر کام کیا ہے انھوں نے اس آٹھ فیصد شرح نمو کو کسی محال امر پر منحصر نہیں کیا ہے۔ انھوں نے جو تجویز پیش کی ہے، وہ ایسے امور ہیں جو ملک کے اندر انجام دیے جا سکتے ہیں، (لیکن) اس کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔ حکومت کو مد کرنی چاہئے۔ میری نظر میں یہ کام پوری طرح ممکن ہے۔ البتہ آٹھ فیصد اقتصادی شرح نمو معجزہ نہیں کرے گا اور ایک سال میں کچھ نہیں ہوگا، یہ شرح نمو جاری رہے اور اس کے نتائج اور حاصل ہونے والی فوائد منصفانہ انداز میں تقسیم ہوں تاکہ ملک کی حالت میں تبدیلی آئے اور عوام کو نظر آئے کہ یہ کام ہوا ہے۔
جو گنجائشیں اور امکانات ہمارے پاس ہیں، ان میں سے ایک یہی بریکس جیسی تنظیموں میں ہماری رکنیت ہے(6) اس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ملک کے سفارتی شعبے کے حکام کی فعالیت کی ضرورت ہے کہ وہ میدان ميں آئيں اور مدد کریں۔ یہ ملک کے لئے بہت بڑا موقع ہے۔ خاص طور پر بریکس مالیاتی ٹرانزیکشن سسٹم اور اس کے ذریعے رکن ملکوں کے درمیان جو مالیاتی لین دین مد نظر رکھا گیا ہے، اگر وہ عملی ہو تو بیشک بہت بڑی مدد ہوگی۔ آج ہماری ایک سب سے بڑی مشکل ڈالر سے وابستگی ہے۔ یہ بات ان ملکوں نے سمجھ لی ہے۔ لیکن اس مالیاتی فنڈ کے بعض اراکین اپنے سیاسی رجحانات کی وجہ سے عملی میدان میں قدم رکھنے کی جرائت نہیں کر رہے ہیں۔ سفارتی فعالیت کی ضرورت ہے۔ انہیں تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کام انجام پائے۔
ملک کے اندر محترم جناب صدر مملکت (7) نے کہا ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں گے۔ میں بھی اس کی تائید کرتا ہوں کہ کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو، تجاتی معاملات سے ڈالر حذف کریں۔ یہ بڑا کام ہے۔ اہم کام ہے۔ اقتصادی کارزار میں یہ بہت ہی ٹھوس اور فیصلہ کن اقدام ہے۔ البتہ اس کا ردعمل سامنے آئے گا، لیکن آپ کے ہاتھ زیادہ قوی ہیں، اگر کر سکیں تو یہ کام کریں اور مرکزی بینک متبادل زرمبادلہ کے لئے راستے کھولے۔
نجی شعبے کے مسائل کے بارے میں میرے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ کچھ باتیں میں نے گزشتہ برس کہی تھیں۔ ان کی تکرار نہیں کرنا چاہتا۔ اہم بات یہی ہے کہ حکومتی ادارے نجی شعبے کی مدد کریں۔ نجی شعبے کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ حکومتی مدد اس کی پشت پناہ ہے۔ اس کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ رکاوٹیں نہیں ڈالی جائیں گی اور اس کا کام آسانی کے ساتھ جاری رہے گا۔ کل اس نمائش میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ گزشتہ سال میں نے آپ کو بتایا تھا کہ فلاں کام کے لائسنس کا کام تین سال سے لٹکا ہوا ہے۔ انھوں نے گزشتہ برس مجھ سے یہ بات کہی اور میں نے دوسرے دن آج کی طرح، اپنی تقریر میں اس کو بیان کیا اور کہا کہ تین سال کیوں لگاتے ہیں، جو کام دس دن میں حد اکثر ایک مہینے میں ہو سکتا ہے، اس کو تین سال سے کیوں لٹکا رکھا ہے۔ اس مسئلے کو حل کریں ۔ کل انھوں نے مجھ سے کہا کہ پارسال تین سال ہوئے تھے، اس سال چار سال ہو گئے ! یعنی گزشتہ ایک برس ميں بھی کام نہیں کیا۔ اس مسئلے کو حل ہونا چاہئے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے واقعی شرمندگی ہوئی ہے۔ ان کاموں کو حل کریں۔ باتیں بہت ہیں۔ میں بات کرتا ہوں، بولتا ہوں، تاکید کرتا ہوں (لیکن) عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان الذین آمنوا وعملوا الصّالحات(8 ) ایمان ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے۔ اس کا تعلق آخرت، دنیا، دین، شرع اور شریعت سے ہے۔ (لیکن) زندگی کے کاموں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ حقیقت پر یقین ضروری ہے (یعنی) یہ کہ آپ اس بات پر یقین رکھیں کہ نجی شعبے کی مدد کرنی چاہئے۔ یہ ضروری ہے اور اس یقین کے بغیر کام آگے نہیں بڑھے گا۔ لیکن یہ یقین کافی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی عمل کی بھی ضرورت ہے۔ ایمان اور عمل صالح۔ آج اس جلسے کے حوالے سے یہ، میری کچھ گزارشات تھیں۔ غزہ کے بارے میں بھی مختصر عرض کروں گا۔ میں نے کہا کہ استقامت زندہ ہے اور زندہ رہے گی (9) غزہ کامیاب ہوا۔ استقامت نے دکھا دیا کہ زںدہ رہے گی۔ دنیا کے سامنے جو ہوا اور جو ہو رہا ہے، وہ افسانے کی طرح ہے۔ واقعی اگر ہم تاریخ میں پڑھتے، تو شک کرتے، یقین نہ کرتے کہ امریکا جیسی طاقت کی جنگی مشینری صیہونی حکومت جیسی ظالم اور خونخوار حکومت کی مدد کرے، یہ حکومت اتنی سفاک اور بے رحم ہو کہ ایک برس اور چند ماہ میں پندرہ ہزار بچوں کے قتل عام سے دریغ نہ کرے اور وہ طاقت انسانی اور بشری مسائل سے اس حد تک بے اعتنا ہو کہ اس سفاک حکومت کو ان بچوں کے گھروں اور ان اسپتالوں کو مسمار کرنے کے لئے بنکر بسٹر بم بھی دے دے۔ اگر یہ باتیں تاریخ میں ہوتیں تو بیشک ہمیں یقین نہ آتا، کہتے کہ اس میں کہیں کچھ غلط ہے۔
آج یہ ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوا۔ یعنی امریکا نے اپنے سبھی وسائل صیہونی حکومت کے اختیار میں دے دیے، اگر نہ دیے ہوتے تو شروع کے ہفتوں میں ہی یہ حکومت گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ہوتی۔ ایک سال اور تین ماہ کے دوران ان سے جتنے جرائم کا ارتکاب ہو سکا، وہ انھوں نے کیا۔ اسپتال، مساجد، کلیسا، مکانات، بازار اور لوگوں کے پناہ لینے کے مراکز، جہاں تک ان کا ہاتھ پہنچ سکا، کہاں؟ ایک چھوٹی سی سرمین غزہ میں۔غزہ جیسے چھوٹے سے علاقے میں! جو جرم بھی ان سے ہو سکا، اس کا ارتکاب کیا۔ ہدف بھی معین کیا۔ صیہونی حکومت کے اس سربراہ نے، اس کمبخت روسیاہ (10) نے کہا کہ ہم حماس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اس کو ختم ہو جانا چاہئے۔ حتی انھوں نے جنگ کے بعد غزہ کے امور اپنے ہاتھ میں لینے کا منصوبہ بھی تیار کیا تھا! اس حد تک انہیں یقین تھا۔ اب وہی ظالم اور سفاک حکومت اسی حماس کے ساتھ جس کو ختم کر دینا چاہتی تھی، مذاکرات کی میز پر بیٹھی اور جںگ بندی کے لئے اس کی شرائط کو اس نے قبول کیا۔ یعنی جو ہوا ہے وہ یہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ استقامت زندہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ "وَ لَو قاتَلَکُمُ الَّذینَ کَفَروا لَوَلَّوُا الاَدبارَ ثُمَّ لا یَجِدونَ وَلِیّاً وَ لا نَصیرا " (11) اس کا تعلق صرف اس زمانے سے نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد کہا جاتا ہے" سنۃ اللہ الَّتی قَد خَلَت مِن قَبلُ وَ لَن تَجِدَ لِسُنّۃ اللہ تَبدیلاً"۔(12) یہ سنت الہی ہے۔ ان کو کامیاب ہونا ہی تھا اور ہوئے۔ جہاں بھی خدا کے اچھے بندے استقامت کریں گے وہاں کامیابی یقینی ہے۔
خیالوں کی دنیا میں رہنے والے اس وہمی نے اعلان کیا کہ ایران کمزور ہو گیا ہے۔ مستقبل بتائے گا کہ کون کمزور ہوا ہے۔ صدام نے بھی اسی خام خیالی کے ساتھ ایران پر حملہ شروع کیا تھا کہ ایران کمزور ہو گیا ہے۔ ریگن نے بھی اسی خیال خام کے ساتھ کہ ایران کمزور ہو گیا ہے صدامی حکومت کی اس طرح مدد کی۔ وہ اور اس کے جیسے خیال خام میں مبتلا دسیوں وہمی واصل جہنم ہو گئے اور اسلامی جمہوریہ روز افزوں ترقی کی راہ پر گامزن رہی۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ فضل الہی سے یہی تجربہ پھر دوہرایا جائے گا۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ اس جلسے کے شروع میں نجی شعبے کے اقتصادی میدان میں سرگرم بعض لوگوں نے اپنے نظریات بیان کئے
2۔ رجوع کریں، 19-11- 2019 کو ایران کے پیداواری شعبے سے وابستہ افراد، روزگار فراہم کرنے والوں اور اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کے اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے۔
3۔ نائب صدر اول، جناب ڈاکٹر محمد رضا عارف
4۔ صنعت، معدنیات اور تجارت کے وزیر جناب سید محمد اتابک
5- بائیس مئی 2005 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ 44 کے تحت کلی پالیسیوں کا اعلان
6۔ برکس(BRICS) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کے رکن وہ ممالک ہیں جو دنیا کی نئی اقتصادی طاقت شمار ہوتے ہیں۔
7۔ جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان
8۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 277 " جولوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے۔"
9۔ آٹھ جنوری 2025 کو قم کے عوام کے اجتماع سے خطاب
10۔ بنیامن نیتن یاہو (صیہونی وزیر اعظم)
11۔ سورہ فتح، آیت 22۔ " اور اگر کچھ لوگ جو کافر ہو گئے وہ تم سے جنگ کے لئے اٹھیں تو یقینا پیٹھ دکھائيں گے اور ان کا کوئی ناصر ومددگار نہيں ہوگا۔
12۔ سورہ فتح آیت نمبر 23