بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو! آپ سب کا خیر مقدم ہے، خاص طور پر شہداء کے محترم اہل خانہ کا، اور بالخصوص شہداء کی ماؤں کا اور ان گرانقدر خاتون(2) کا جو چار شہداء کی ماں ہیں۔ جناب منصوری صاحب(3) کے تو برسوں سے دیدار نہیں ہوئے تھے، میں انھیں ان کے طالب علمی کے زمانے سے جانتا ہوں، جب یہ (شاہی حکومت کے خلاف) جدوجہد میں مصروف تھے۔

کاشان ایک نمایاں شہر ہے۔ ہمارے زمانے میں جو کچھ ہوا ہے اس سے قطع نظر، جس کی طرف میں اشارہ کروں گا، پوری تاریخ میں بھی کاشان واقعی بہت نمایاں رہا ہے۔ یہ شہر، عالم پرور ہے، شاعر پرور ہے، فقیہ پرور ہے، ریاضی داں پرور ہے، مجاہد پرور ہے، فن پرور ہے۔ یہاں بڑی نمایاں شخصیات پیدا ہوئي ہیں اور یہ ایک عجیب منفرد شہر ہے۔ یہی قالین جو کاشان میں بُنا جاتا ہے، ہنری لحاظ سے ایک بہت عظیم اور گرانقدر فن کا نمونہ ہے، ہم اپنے قدموں کے نیچے پڑے ہوئے اور معمولی سمجھے جانے والے ان فنون کی قدر نہیں کرتے۔ کاشان سے ایسی کئی نامور شخصیات منصۂ ظہور پر آئي ہیں جنھیں آپ لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں اور وہ مشہور ہیں اور ان کے نام تاریخ میں ہر جگہ درج ہیں۔

ہمارے وقت سے قریب کے زمانے یعنی قریب قریب ہمارے ہم عصر زمانے میں ایسی ہستیاں ہیں جنھوں نے سامراج کے خلاف جدوجہد کی، یہ چیز داخلی حکومت کے خلاف جدوجہد سے الگ ہے، جن میں آیت اللہ کاشانی کے والد بزرگوار مرحوم آقا سید مصطفیٰ کاشانی بھی شامل ہیں جو نجف کے بزرگ علماء میں سے ایک تھے۔ جب دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر انگریز آئے اور درحقیقت خطے کو کچھ یورپی ملکوں نے اپنے درمیان تقسیم کر لیا تھا اور ایران کی طرف آئے تو یہ علماء مرحوم آقا سید محمد کاظم یزدی کے فتوے کی بنا پر نجف سے اہواز کے علاقے میں اور جنوبی عراق، مغربی ایران اور جنوب مغربی ایران کے علاقے میں آئے اور انھوں نے دو بدو جنگ کی، مرحوم آقا سید مصطفیٰ کاشانی نے بھی اور ان کے بیٹے مرحوم آقا سید ابوالقاسم کاشانی نے بھی جو ہمارے درمیان آیت اللہ کاشانی کے نام سے معروف ہیں، جدوجہد کی، پھر ان کی جدوجہد جاری رہی۔ یہ اہم بات ہے کہ ایک انسان، ایک اہم شخصیت کا حامل انسان اپنی زندگي کو منہ زوری، ظلم اور جارحیت کے خلاف جدوجہد کے لیے وقف کر دے، یہ ایک قوم کے لیے بہت اہم اور گرانقدر ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے۔ کچھ لوگ بعض سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے مرحوم آیت اللہ کاشانی پر اعتراض کرتے ہیں، وہ اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہیں کہ یہ مرد وہ ہے جس نے دسیوں سال تک پوری شجاعت کے ساتھ انگریزوں سے لوہا لیا۔

رضا شاہ کے زمانے میں جب ساری سانسیں سینوں میں محبوس تھیں، مرحوم کاشانی نے جدوجہد کی، انھوں نے اس وقت جدوجہد کی۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے، ایک بار ہمارے ساتھ ایک خصوصی نشست میں کہا تھا کہ میں نے کسی کو بھی آقائے کاشانی جتنا بہادر نہیں دیکھا۔ غور کیجیے! یہ بات کون کہہ رہا ہے؟ امام خمینی، جو خود شجاعت و بہادری کے مظہر ہیں۔ یہ بات میں نے براہ راست خود ان سے سنی ہے، درمیان میں کوئي راوی نہیں ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے کسی کو بھی آقائے کاشانی جتنا بہادر نہیں دیکھا۔ اس کے بعد انھوں نے مرحوم آقائے کاشانی کی شجاعت کے تین واقعات نقل کیے جنھیں میں (وقت کی کمی کی وجہ سے) نقل نہیں کر رہا ہوں۔ تو وہ اس طرح کے تھے۔ اس تاریخی مقام پر، ہم وہاں گئے ہیں، وہ قید خانہ ہم نے دیکھا ہے جہاں آقائے کاشانی کو رکھا گيا تھا۔ وہ کوٹھری، جس میں آقائے کاشانی کو کچھ مدت کے لیے قید رکھا گيا تھا، ہم نے دیکھی ہے۔ وہاں ایک واقعہ بھی بتایا گيا کہ اس کوٹھری میں، جس میں صحیح طریقے سے بیٹھنا بھی دشوار تھا، حکومتی کارندہ ان کے پاس جاتا ہے اور انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ آقائے کاشانی اسے ایک ایسا جواب دیتے ہیں جو اس مرد کی جرئت، شجاعت، بے باکی اور مضبوط دل کی انتہا کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور اس راہ میں موجود دوسرے لوگ بھی اسی طرح کے تھے، نمایاں شخصیات۔

کاشان واقعی مختلف پہلوؤں سے نمایاں ہے، ان میں سے ایک جدوجہد کا مسئلہ ہے، ایک علم و ہنر کا مسئلہ ہے، ایک اہلبیت علیہم السلام سے توسل کا مسئلہ ہے، ہماری جوانی میں کاشان کی مجلسیں مشہور تھیں، جہاں بھی کاشان کے لوگ ہوتے ہیں وہ توسل اور مجالس عزا پر پوری توجہ دیتے ہیں اور اسی طرح کی دوسری باتیں۔

خیر، مقدس دفاع کے بہت اہم امتحان اور اس کے بعد بعض دیگر واقعات میں اہل کاشان نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اپنے اچھے ماضی کی  تجدید کی اور دکھایا کہ اس علاقے میں ایک مسلسل تاریخی فطرت اور مزاج ہے جو ماضی میں بھی اور آج بھی ان خصوصیات کے ساتھ انسانوں کی پرورش کرتا ہے۔ اسی لیے آپ کے یہاں نمایاں شہداء ہیں، درخشاں ماضی والے شہداء ہیں، جدوجہد کے بالکل ابتدائي دور کے شہید ہیں اور یہ چیز ایران کے دوسرے شہروں میں کم ہی دکھائي دیتی ہے۔ آپ کے یہاں میدان جنگ کے شہید ہیں، آپ کا غیر معمولی اور بے نظیر سپورٹ سسٹم ہے جو واقعی انسان کو متاثر کر دیتا ہے۔ فرض کیجیے کہ کچھ خواتین بیٹھ کر ایک قیمتی قالین بُنتی ہیں اور پھر اسے لا کر دفاع وطن کے محاذ کے لئے پیش کر دیتی ہیں، میں نے کہیں پر پڑھا ہے کہ جن لوگوں نے اس قالین کو اسے لانے والی خاتون سے لیا تھا، کہا تھا کہ ہم اسے اس کی اصل قیمت پر نہیں بیچ سکتے بلکہ ہمیں اسے اس کی معنوی قیمت پر بیچنا ہوگا۔ وہ جا کر اس قالین کو بہت مہنگے داموں بیچتے ہیں اور صرف اس ایک قالین سے کئي ڈویژنوں کی غیر معمولی سپورٹ ہوتی ہے! اسی طرح کے دوسرے بہت سے کام انجام پائے ہیں۔ تو ان سب سے کاشان کے عوام کی قدروقیمت کی عکاسی ہوتی ہے۔

آپ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں، یہ باتیں جو ان صاحب نے بیان کیں، سبھی اچھے اور ضروری کام ہیں، ہنری کام، کتابیں لکھنا، ڈائری لکھنا اور جو دوسری چیزیں ہیں، یہ سبھی ضروری کام ہیں، اچھے کام ہیں۔

میں نے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں کے منتظمین سے ملاقات میں کچھ سفارشیں کی ہیں جنھیں یا تو آپ نے سنا ہے یا آپ انھیں سن سکتے ہیں، میں انھیں دوہرانا نہیں چاہتا۔ میں صرف ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ان شہیدوں کا ہنر صرف یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی جان ہتھیلی پر لیے میدان جنگ میں پہنچ گئے تھے، خطرے کے موقع پر بہت سے لوگ، البتہ نمایاں لوگ، یہ کام کرتے ہیں۔ جب دین پر، ملک پر، قوم پر یا کسی ملک کی عزت پر کوئي خطرہ منڈلانے لگتا ہے تو کچھ لوگ اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس خطرے سے جنگ کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ یہاں ایک بات اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اس کام کے ساتھ کچھ عادتیں اور رویے دیکھتا ہے جو قابل تشریح ہیں، یعنی وہ رویے اقوام تک پہنچانے کے لائق ہیں۔ مثال کے طور پر ایثار، یہ جوان جو محاذ پر گيا ہے اس کے پاس فرض کیجیے کوئي گرانقدر چیز ہے، اس کے ساتھی کو اس کی ضرورت ہے، وہ بغیر کچھ سوچے ہوئے وہ چیز اپنے ساتھی کو دے دیتا ہے، ایثار سے کام لیتا ہے۔ عبادت، ایک نوجوان لڑکا جو ابھی ابھی بالغ ہوا ہے اور ابھی اس کے نامۂ اعمال میں زیادہ گناہ بھی نہیں ہیں، پروردگار عالم کے سامنے اس قدر روتا اور گڑگڑاتا ہے، اتنا توسل کرتا ہے، اتنی توبہ کرتا ہے، اتنا استغفار کرتا ہے کہ انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے، مطلب یہ کہ ہم جیسی عمر کے لوگوں میں اس طرح کی حالت پیدا ہونا، اس طرح سے استغاثہ کرنا، خدا کی طرف اس طرح سے توجہ کرنا بہت مشکل ہے، بلکہ اس نوجوان کے صاف اور پاکیزہ دل سے جو کچھ نکلتا ہے وہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ یا فرض کیجیے کہ یہ لوگ اسلامی جمہوریہ کے مقدس نظام کے نعروں کا جو احترام کرتے تھے، جیسا کہ ان صاحب نے بتایا کہ وہ شہید اپنی بچی کو نصیحت کر رہے تھے کہ وہ بچے کو جو پہلی چیز سکھائے وہ انقلاب سے متعلق، اسلام سے متعلق کوئي نعرہ ہو۔

ان چیزوں کو باقی رکھنا چاہیے، ان چیزوں کو درج کرنا چاہیے، ان چیزوں کو دکھانا چاہیے۔ یہ چیز کسی گلی یا سڑک کا نام شہید کے نام پر رکھنے سے حاصل نہیں ہوگي۔ یہ چیز ایک ہنری کام سے ممکن ہوگي، یہ جذبے اور یہ اخلاقی خصوصیات صرف ہنری کاموں سے ہی دوسروں تک منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ آپ کسی فلم میں یا مثال کے طور پر کسی اچھے شعر میں یا اچھی پینٹنگ میں ایثار دکھا سکتے ہیں، پروردگار عالم کے سامنے ایثار دکھا سکتے ہیں، پروردگار عالم کے سامنے خشوع دکھا سکتے ہیں، ایک مجاہد کے خشوع کو دکھا سکتے ہیں، یا اس کی غیرت کو دکھا سکتے ہیں۔ یہ چیزیں کسی قوم کے کام آتی ہیں۔ یہ چیزیں ایک قوم کی مستقل اور حتمی ضرورت ہے۔ ہم منبروں سے لوگوں کو بتاتے ہیں، تقویٰ و پرہیزگاری کے بارے میں بتاتے ہیں، توسل، توبہ اور استغفار کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن یہ باتیں ہیں، یہ زبان سے کہنا ہے، کہنے اور عمل کرنے میں بہت فرق ہے۔ وہ عمل کرتا ہے، آپ وہ عمل لوگوں کو دکھائيے، بتائيے کہ وہ عمل میں اس طرح آگے بڑھا تھا، اس کا رویہ اس طرح کا تھا۔

ایک چیز جو میری نظر میں بہت اہم ہے اور جسے عمل میں، ہنری کام میں دکھایا جانا چاہیے، وہ یہی صبر ہے جس کا مظاہرہ شہیدوں کی ماؤں نے کیا ہے۔ یہ کوئي مذاق نہیں ہے کہ کوئي ایک نوجوان کی، ایک بیٹے کی پرورش کرے، خون دل کے ساتھ، بڑی زحمتوں کے ساتھ اسے پروان چڑھائے، جوانی تک پہنچائے اور پھر اسے راہ خدا میں دے دے، ایک دو، تین، چار بیٹے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو زبان سے تو بہت آسانی سے کہی جا سکتی ہیں لیکن عمل میں، حقیقت میں ناقابل بیان ہیں، واقعی ناقابل بیان ہیں اور اس کی اہمیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ تاہم اس خاتون کے صبر کو دکھایا جا سکتا ہے، اس خاتون کے شکر کو دکھایا جا سکتا ہے، اس نے اس اہم اور بڑے واقعے پر جس تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، اسے دکھایا جا سکتا ہے، یہ چیزیں سبق بن جاتی ہیں۔یہ چیزیں آپ کو دکھانی چاہیے۔ انھیں کس طرح دکھایا جا سکتا ہے؟ صرف آرٹ کے ذریعے۔

بحمد اللہ آپ کاشان والے، ہنرمندوں کے لحاظ سے بھی مستغنی ہیں، آپ کے یہاں ایسے فنکار موجود ہیں جو اہم کام کر سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ آپ یہ کام کیجیے اور آگے بڑھیے۔ کاشان کے عزیز عوام تک مجھ حقیر کا سلام پہنچائيے۔ ہم نے کاشان کو قدیم ایام سے ہمیشہ، چاہے اس کے علماء کی وجہ سے، چاہے اس کے شہیدوں کی وجہ سے، چاہے اس کے ہنری کاموں کی وجہ سے ایک نمایاں خطے کے طور پر جانا ہے اور دیکھا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ لوگ ہمیشہ سرخرو رہیں گے اور خداوند عالم کے قریب آپ کا بلند مقام ہوگا۔

و السّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں کاشان میں ولی فقیہ کے نمائندے، اس شہر کے امام جمعہ اور اس کانفرنس کے صدر حجت الاسلام و المسلمین سید سعید حسینی اور کاشان میں بسیج کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری کرنل کریم اکبری قمصری نے کچھ باتیں بیان کیں۔
  2. شہیدان محسن، جواد، علی اصغر اور محمد رضا بارفروش کی والدہ، محترمہ کبریٰ حسین زادہ
  3. سپاہ پاسداران کے پہلے کمانڈر جناب جواد منصوری