نیتن یاہو نے غزہ کی جنگ کے لیے تین اصلی اہداف کا اعلان کیا تھا: حماس کا خاتمہ، قیدیوں کی رہائي اور صیہونی حکومت کے لیے ایک پائيدار امن کا قیام۔ صیہونی حکومت کے ایک برس سے زیادہ عرصے تک بے تحاشا حملوں کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ حماس کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ وہ علاقائي معاملات میں ایک زیادہ مضبوط فریق میں تبدیل ہو گئي کیونکہ غزہ کے لوگوں کی استقامت، مزاحمت اور صبر کے سہارے اب وہ دنیا میں حریت پسند تحریکوں میں سرفہرست ہے۔ اسرائيل فوجی کارروائيوں کے ذریعے قیدیوں کو رہا نہیں کروا سکا اور آخرکار وہ جنگ بندی اور ڈیل پر مجبور ہو گيا۔ امن و امان بھی مقبوضہ علاقوں میں کسی بھی صورت میں بحال نہیں ہوا ہے بلکہ مزاحمت کی کارروائيوں اور میزائل حملوں کے خوف نے پہلے سے کہیں زیادہ صیہونیوں کو وحشت زدہ کر رکھا ہے۔
مجرم صیہونی حکومت ہمیشہ خطے میں اپنی فوجی برتری کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی تھی لیکن اس جنگ نے دکھا دیا کہ یہ ڈیٹرنس حماس جیسے چھوٹے گروہ کے مقابلے میں بھی ٹک نہیں سکتی۔ صیہونی حکومت کے لگاتار اور بے تحاشا حملے مزاحمت کو روک نہ سکے اور سوا سال تک چلنے والی جنگ کے بعد بھی مزاحمتی فورسز میں فوجی کارروائيوں کی صلاحیت باقی ہے۔ اس شکست کی تلافی میں غاصب حکومت کی ناکامی سے پتہ چلتا ہے کہ اب خطے کا کوئي بھی ملک، اس حکومت کی فوجی طاقت سے ہراساں نہیں ہے۔
غزہ میں اسرائيل کے بے حساب جرائم کی وجہ سے عالمی سطح پر مخالفت اور اعتراض شروع ہو گيا۔ عام لوگوں کے قتل عام کی تصاویر اور ویڈیوز نے صیہونی حکومت کو ایک جنگي مجرم حکومت کے طور پر کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان جرائم نے ہولوکاسٹ کی تاریخی حیثیت پر بھی سوال کھڑے کر دیے کیونکہ وہ حکومت جو خود کو ایک تاریخی نسل کشی کی قربانی بتاتی ہے، اس وقت آشکارا طور پر غزہ میں ایک دوسری نسل کشی کر رہی ہے۔ اس تضاد نے، اسرائیل کی عالمی حمایت میں بہت زیادہ کمی کر دی ہے۔
جنگ شروع ہونے کے بعد عالمی عدالتوں میں صیہونی حکام کے خلاف متعدد کیسیز فائل ہوئے۔ کئي ملکوں نے صیہونی کمانڈروں اور حکام کے خلاف عالمی سطح پر گرفتاری وارنٹ جاری کیے جانے کا مطالبہ کیا۔ اس وجہ سے بہت سے صیہونی عہدیداران، مختلف ملکوں کا سفر کرنے سے گھبرانے لگے ہیں کیونکہ انھیں گرفتاری کا خطرہ ہے۔ یہ چیز دنیا کے مختلف ملکوں کا سفر کرنے والے مجرم صیہونی فوج کے سپاہیوں کے بھی سامنے آئی اور یہ اسرائيل کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست ہے۔
اس جنگ میں اسرائيل کی سب سے بڑی شکستوں میں سے ایک، قیدیوں کی رہائي میں ناکامی تھی۔ یہ حکومت، جاسوسی اور انٹیلی جینس کے سب سے پیشرفتہ آلات رکھنے اور اس سلسل میں امریکی خفیہ تنظیموں کی جانب سے مکمل تعاون کے باوجود، قیدیوں کو رکھے جانے کے صحیح مقامات کا پتہ نہیں لگا سکی اور ان کی رہائي کے لیے جنگ بندی کرنے پر مجبور ہو گئي۔ اس شکست نے اسرائيل کے انٹیلی جینس پاور کی قلعی کھول دی اور بتا دیا کہ مزاحمت کی گوریلا ٹیکٹکس کے سامنے وہ پوری طرح لاچار ہے۔
مزاحمت اور معیشت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ایسے دو عناصر ہیں جنھیں سمجھنے سے مغرب قاصر ہے اور اسی لیے مزاحمت کرنے والی قوموں کے خلاف وہ ہمیشہ اس چیز کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ اسرائيل اور اس کے حامی سمجھ رہے تھے کہ غزہ کے لوگوں کے شدید اقتصادی محاصرے اور ان پر دباؤ بڑھا کر وہ انھیں مزاحمت سے دور کر سکتے ہیں اور یہ پالیسی وہ برسوں سے مزاحمتی محاذ سے تعلق رکھنے والے سبھی ملکوں کے خلاف اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن غزہ میں اس پالیسی کا نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ غزہ کے لوگ، گھٹنے ٹیکنے کے بجائے مزاحمت کی طرف زیادہ مائل ہو گئے۔ آج فلسطین کے لوگوں کے درمیان مزاحمت، پہلے سے کہیں زیادہ مقبول اور ہر دلعزیز ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاشی دباؤ بڑھانے کی اسرائيل کی اسٹریٹیجی پوری طرح سے شکست کھا چکی ہے۔
اس سے پہلے فلسطین کا مسئلہ زیادہ تر ایک علاقائی اور عالم اسلام سے متعلق مسئلے کے طور پر پہچانا جاتا تھا لیکن حالیہ جنگ نے اسے ایک عالمی مسئلے میں تبدیل کر دیا۔ ایشیا سے لے کر یورپ تک پوری دنیا کے کروڑوں لوگ سڑکوں پر آئے اور انھوں نے اسرائيل کے جرائم کے خلاف احتجاج کیا۔ آج فلسطین ایک انسانی مسئلہ ہے اور اب اس کی حمایت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے۔
اسرائیل اور امریکا نے مغربی ایشیا کے لیے "ڈیل آف دی سینچری" اور "آئي میک کوریڈور" جیسے طویل المدت منصوبے تیار کر رکھے تھے جن کے ذریعے وہ خطے میں صیہونی حکومت کے وجود کو مستحکم بنانے اور علاقائي ممالک کو اس حکومت کے ساتھ وسیع تعلقات قائم کرنے کے لیے مجبور کرنا چاہتے تھے تاہم غزہ کی جنگ نے ان میں سے بہت سے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ اس وقت اسرائيل کو عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بجائے عالم اسلام میں خاص طور پر اقوام کی سطح پر بہت زیادہ نفرت کا سامنا ہے۔
اس جنگ کا ایک اہم پیغام، عالمی سامراج سے مقابلے کے واحد کامیاب آئيڈیل کے طور پر اسلام کا متعارف ہونا تھا۔ ایسے عالم میں جب عرب دنیا حتیٰ مغرب تک میں بہت سے سیاسی دھڑے، صیہونزم کے سامنے جھک چکے ہیں، اسلامی مزاحمتی گروہوں نے دکھا دیا کہ ایمان پر بھروسہ کر کے اور اپنی فورسز کے سہارے از سر تا پا مسلح کسی دشمن سے بھی لوہا لیا جا سکتا ہے۔ یہ چیز پوری دنیا میں بہت سی حریت پسند تحریکوں کے لیے نمونۂ عمل بن گئي ہے۔
امریکا اور یورپ کی جانب سے اسرائيل کے جرائم کی آنکھ بند کرکے حمایت کئے جانے سے مغرب کے دوہرے معیارات پہلے سے زیادہ بے نقاب ہو گئے۔ اس جنگ نے دکھا دیا کہ مغرب کی جانب سے لگائے جانے والے انسانی حقوق کے نعرے، سامراج کے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ایک حربے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ دنیا کے بہت سے لوگ خاص کر مغربی ممالک کے لوگ، اپنی حکومتوں کی پالیسیوں پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہ چیز عالمی نظام کی ساکھ پر ایک کاری ضرب تھی۔
جنگ کے دوران مختلف مغربی ذرائع نے حماس کی جانب سے نئے مجاہدوں کی بھرتی کی رفتار میں تیزی آنے کی خبر دی۔ اسرائيل کی تمام شکستوں کے علاوہ، غزہ کی جنگ کا ایک دوسرا اہم نتیجہ یہ ہے کہ فلسطینی مجاہدین کی ایک نئي نسل پیدا ہو چکی ہے جو اپنی سرزمین پر صیہونی حکومت کی جانب سے کی جانے والی نسل کشی کی شاہد ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس کی ٹریننگ مزاحمت کے مرکز میں ہوئي ہے اور یہ وہیں پروان چڑھی ہے۔ فلسطینی مجاہدین کی نئی نسل اپنے سے پہلے والی نسلوں سے زیادہ طاقتور، زیادہ آگاہ اور زیادہ مزاحمت کرنے والی ہوگي اور یہ اسرائيل کے مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
صیہونی حکومت نے جنگ کے دوران مزاحمت کے کمانڈروں کو قتل کر کے اور ان کے نام میڈیا میں جاری کر کے بھاری پروپیگنڈے کے ذریعے براہ راست جنگ کے میدان میں اپنی شکست کو چھپانے اور ان کمانڈروں کے قتل کو مزاحمت کا خاتمہ ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے اپنے انہی پروپیگنڈوں کے دوران یہ بھی دکھا دیا کہ مزاحمت کے بڑے کمانڈر جنگ کے محاذوں پر دوسرے تمام مجاہدین کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑ رہے تھے۔ مزاحمت کے کمانڈر، صیہونی حکومت کی طرف سے اپنی فتح کے ثبوت کے طور پر جاری ہونے والی ان تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے سامراج سے مقابلے کی تاریخ کے ایک لازوال افسانوی کردار میں تبدیل ہو گئے اور مزاحمت کی آئندہ نسلوں کے لیے آئيڈیل بن گئے۔
صیہونی حکومت جنگ بندی اور اپنے قیدیوں کو واپس لینے کے معاہدے کے دوران اپنی جیلوں سے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہو گئي۔ ان میں سے زیادہ تر قیدی، حماس کے رکن نہیں تھے اور پچھلے برسوں کے دوران مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے دشمن کے ہاتھوں قید کیے گئے تھے۔ ان کے گھر والے برسوں سے ان کی واپسی کے منتظر تھے۔ حماس کے ذریعے ان قیدیوں کی رہائي، تمام فلسطینی علاقوں میں حماس اور مزاحمت کی مقبولیت میں زبردست اضافے کا سبب بنی۔ یاد رہے کہ یحییٰ سنوار جیسے فلسطینی مزاحمت کے بہت سے بڑے بڑے کمانڈر کبھی قیدیوں کے اسی طرح کے تبادلے میں خود صیہونیوں کے ہاتھوں رہا ہوئے تھے۔
صیہونی حکومت نے غزہ کی جنگ کے دوران مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد پوری منصوبہ بندی کے ساتھ غزہ پٹی خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں کے گھروں اور بنیادی تنصیبات کو تباہ کیا چنانچہ غزہ میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ اس حکومت نے غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ گھروں کو پوری طرح سے یا جزوی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ غزہ کے گھروں کو وسیع پیمانے پر تباہ کرنے میں صیہونی حکومت کا سب سے اہم ہدف، شمالی غزہ میں زندگی کی بحالی کو روکنا اور غزہ کے مستقبل کے لیے صیہونیوں کے مذموم اہداف کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ دوسری جانب فائر بندی کے معاہدے میں مزاحمت کی سب سے اہم شرطوں میں سے ایک، جنگ بندی کے پہلے ہی مرحلے میں شمالی غزہ میں رہنے والوں کی واپسی تھی اور ایسا ہی ہوا اور شمالی غزہ کے رہنے والوں نے اپنے گھروں کو واپسی کے وقت مزاحمت کی حمایت کا کھل کر اعلان کیا اور تاریخ رقم کر دی۔
تاہم صیہونی حکومت کے شمال کے حالات بالکل مختلف ہیں اور حزب اللہ سے ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کو دو ماہ ہو جانے کے باوجود مقبوضہ شمالی علاقوں میں رہنے والے صیہونی ابھی تک اپنے گھروں کو نہیں لوٹے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ کبھی شمال نہیں لوٹیں گے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ جنوبی لبنان میں مزاحمتی عوام نے ایسے بہت سے علاقوں کو، جنھیں صیہونیوں کی وعدہ خلافی کے سبب خالی نہیں کیا گيا تھا، بڑی تعداد میں ان علاقوں میں پہنچ کر انھیں صیہونیوں سے خالی کروا لیا اور اس طرح ایک بار پھر پوری دنیا کی نظروں کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرنے والی صیہونی فوج کو ذلیل کرتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں جا کر رہنے لگے۔
جنگ میں فتح، تباہی سے کہیں بڑھ کر
جنگ میں فتح، صرف مرنے والوں کی تعداد اور تباہی کی وسعت سے تولی نہیں جاتی۔ اصل بات یہ ہے کہ کس فریق نے اپنے اہداف حاصل کیے ہیں۔ غزہ کی جنگ میں اسرائيل اپنے تمام تر جرائم اور غزہ میں کی جانے والی بھاری تباہی کے باوجود، اپنا ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ تاریخ شاہد ہے کہ کوئي بھی ملک یا حکومت جنگي جرائم کے ذریعے، پائیدار فتح حاصل نہیں کر سکی ہے۔ جنگي مجرم، بہرحال تاریخ میں بدنام ہوں گے اور یہ وہی انجام ہے جو صیہونی حکومت کے انتظار میں ہے۔