سوال: آپ کے خیال میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے شہید سید حسن نصر اللہ کے بارے میں یہ جملہ، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب مغربی دنیا شہید کی شہادت کو مزاحمت کی شکست اور اس کے خاتمے کے طور پر دیکھ رہی ہے، جبکہ عالم اسلامی میں بعض لوگ اسے مایوسی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، کن بنیادوں پر کہا گیا ہے؟
جواب: اگر ہم اس بات کی گہرائي اور اس کے راز کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عزت سے متعلق قرآن کی آیات کو سمجھنا ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی کے تمام بنیادی نظریات اور دانشمندانہ موقف کی جڑ قرآن میں ہے، لہٰذا اس سلسلے میں قرآن کی آیات کا مطالعہ ضروری ہے۔ مثال کے طور پر قرآن میں اللہ فرماتا ہے: وہ (منافق) جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں، کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔" (سورۂ نساء، آيت 139) اس طرح کا مفہوم قرآن مجید کی آيتوں میں بار بار دوہرایا گیا ہے کہ غیر مومنوں اور غیر خدائي چیزوں میں عزت نہیں ہے۔ جو بھی عزت، کامیابی اور ایک عظیم سماجی مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ عالمی سطح پر ہو یا تہذیبی سطح پر، تو اسے اللہ کے قریب ہونا ہوگا اور اگر وہ اللہ سے تعلق مضبوط کر لے، تو یقینی طور پر وہ الہی عزت اسے حاصل ہوگی۔ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ حقیقی عزت اللہ سے تعلق کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور جو شخص ان چیزوں کے خلاف مزاحمت کرتا ہے جو اللہ سے تعلق نہیں رکھتیں، جیسے ظالم حکمراں، استعماری نظام، اور ظلم پر مبنی عالمی تعلقات، تو خواہ وہ اس راہ میں شہید ہو جائے، تب بھی وہ الہی عزت اس کے شامل حال ہو جاتی ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اور مغربی دنیا کے درمیان زندگی کے معیاروں اور موت کے معیاروں، شکست کے معیاروں اور فتح کے معیاروں، انسانی وقار کے معیاروں اور انسانی عزت کے معیاروں کے سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ کوئی انسان ظلم کے خلاف مزاحمت کرے اور ممکنہ طور پر مارا جائے، شہید ہو جائے تو وہ انسان شکست خوردہ ہے اور وہ انسان جو کسی بھی وجہ سے ظلم کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا اور اس کے سامنے جھک جاتا ہے تو وہ انسان کامیاب ہے کیونکہ اس کے ظاہر سے یہی پتہ چلتا ہے کہ امریکی خواہشات کے سامنے جھک جانے کی وجہ سے اس کے معاشی حالات اچھے ہیں، اس پر پابندی نہیں ہے اور وہ اپنے ملک میں پیشرفت کے منصوبوں پر عمل کر سکتا ہے، مختلف پروجیکٹس پر کام کر سکتا ہے، یہ سوچ پوری طرح سے دنیوی اور مادّی سوچ ہے، اس معنی میں کہ ہم سعادت، امید اور خوش بختی کو صرف اور صرف مادی چیزوں میں تلاش کر رہے ہیں۔ جبکہ اسلامی تعلیمات میں عزیز ہونے کی کسوٹی، مؤقر ہونے کا معیار، زندگي یہاں تک کہ موت کی کسوٹی، در حقیقت انسانی معیارات پر مبنی ہے۔ ذلت و عزت اور موت و زندگي کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام اور دیگر ائمہ کے اقوال میں ہمیں یہ حقیقت دکھائي دیتی ہے کہ بنیادی طور پر تمھاری موت، ذلت کے ساتھ زندگي گزارنے میں ہے اور تمھاری حیات، عزت کے ساتھ مرنے میں ہے۔ اسلامی تعلیمات خاص طور پر مزاحمت کی دنیا میں زندگي اور موت کا اصل فلسفہ یہ ہے۔
بنابریں جس چیز نے مغربی دنیا میں ہمارے تمدنی دشمنوں کو خوار کر رکھا ہے وہ یہ نکتہ ہے کہ مزاحمت کی دنیا نہ موت کو اپنے لیے شکست مانتی ہے اور نہ زندگي کو اپنے لیے خالص فتح سمجھتی ہے بلکہ وہ فرض پر عمل کرنے والی ہے اور اگر وہ فتحیاب ہے تو فتحیاب ہے اور اگر مر جائے اور شہید ہو جائے تب بھی فتحیاب ہے۔ مغربی دنیا کے لیے اس بات کو سمجھنا، جس نے حیات انسانی کو، اس کی مادی حیات میں مقید کر رکھا ہے، بہت مشکل ہے لیکن یہی بات مزاحمت کی دنیا کے لیے، اس کے زندگی اور موت کے فلسفے کے سبب، پوری طرح واضح ہے۔ مزاحمت کے دشمنوں کو یہی خصوصیت عاجز کر دیتی ہے اور وہ اس قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتے جو دل و جان سے یہ عقیدہ و ایمان رکھتی ہے۔
سوال: رہبر انقلاب نے اپنے پیغام میں کہا کہ شہید نصر اللہ کی روح اور راہ پہلے سے زیادہ سرفراز ہو کر لوگوں کی رہنمائي کرتی رہے گي۔ اس تحرک اور تسلسل کا معیار کیا ہے اور کس طرح شہادت کے بعد بھی کسی میں اتنا اثر، حیات، طاقت اور رہنمائي ہو سکتی ہے؟
جواب: شہید نصر اللہ، شہید سلیمانی اور مزاحمت کے دوسرے بڑے شہداء کی روح اور راہ کس طرح باقی رہ سکتی ہے اور کس طرح ان کی راہ پر چلنے والے زیادہ سنجیدگي اور زیادہ پراثر طریقے سے مزاحمت کے میدان میں آ سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ مزاحمت کے شہدا، خاص طور پر وہ مزاحمت جو فلسطین کے سلسلے میں وجود میں آئی، اس وقت کس حالت میں ہیں۔ وہ زوال کی حالت میں ہیں یا عروج کی حالت میں ہیں؟ جو چیز نظر آتی ہے اور جو چیز تجربہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ مزاحمت کے رہنماؤں کے قتل اور انھیں شہید کرنے سے مزاحمت کا دائرہ کم نہیں ہوا ہے بلکہ اس میں وسعت آتی گئي ہے۔ آج جو بچے پناہ گزیں کیمپوں میں، اسرائيل کی بمباری میں اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے ہیں، وہی مزاحمت کے مستقبل کے رہنما ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے مغربی دنیا تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ فلسطینیوں کو قتل کرکے فلسطین کے مسئلے کو، مزاحمت کو، حریت پسند اور خود مختار ملکوں کے اہداف کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اگلا نکتا جسے عقیدے اور معرفت کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور وہ شہیدوں کا خون ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا گيا ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 169 میں خداوند عالم فرماتا ہے: "اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں انھیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔" مطلب یہ کہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اسے محسوس نہیں کر پا رہے ہو۔ اس آيت میں کہا گيا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کے یہاں روزی پا رہے ہیں، سورۂ بقرہ کی آيت نمبر 154 میں "اللہ کے یہاں" نہیں کہا گيا ہے بلکہ فرمایا ہے: "بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمھیں (ان کی زندگی کی حقیقت کا) شعور (سمجھ) نہیں ہے۔" مطلب یہ کہ وہ حقیقت میں زندہ ہیں لیکن تم سمجھ نہیں پاتے۔
شہید کے زندہ ہونے سے متعلق یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے، یعنی شہید کے سلسلے میں مزاحمت کی سوچ، قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے، شہید کے زندہ ہونے کے عقیدے پر مبنی ہے۔ شہید کی زندگی، آخرت میں تو ایک قابل رشک زندگي ہے ہی لیکن اس دنیا میں بھی وہ زندہ ہے۔ بہرحال شہید کی حیات کے بارے میں بہت سے پہلوؤں سے بات کی جا سکتی ہے لیکن اگر ہم ان سب سے قطع نظر کرتے ہوئے یہاں پر صرف رہبر انقلاب کی جانب سے استعمال کیے گئے مذکورہ جملے کی بات کریں تو ہمیں بڑے شہیدوں یا شہیدوں کی امت کے بارے میں بات کرنی ہوگي۔ ان شہیدوں کا خون بہت عظیم ہے۔ یہ خون کبھی سید الشہداء کے خون میں، کبھی امیر المومنین کے خون میں دکھائي دیتا ہے، کبھی امام حسین علیہ السلام کے پیروکاروں میں ظاہر ہوتا ہے یعنی اس خون کی عظمت، امت کی عظمت جیسی ہے جیسے شہید نصر اللہ کا خون، شہید قاسم سلیمانی کا خون یا دیگر بڑے شہیدوں کا خون جو اسرائيل اور امریکا جیسے ایک بڑے دشمن کے ذریعے امت کی سطح پر بہایا گيا۔ چونکہ یہ خون، بہت عظیم خون ہے اس لیے اس کے اثر کا دائرہ بھی بہت بڑا اور پائيدار ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں شہید کا خون، عظیم شہید کا خون، عملی طور پر نور خدا ہے اور قرآن مجید کہتا ہے کہ اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا، وہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گا کہ دوسرے لوگ اور مجرمین، دنیا میں اس نور کو خاموش کر دیں۔ سورۂ صف کی آٹھویں آيت میں کہا گيا ہے کہ "یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو کامل کرکے رہے گا۔"
اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کا جتنا خون بہایا جائے گا، سماج پر اس کا اثر اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اس کی سب سے اہم مثال آپ امام حسین علیہ السلام کے خون میں دیکھتے ہیں۔ بہرحال اگر یہ طے ہوتا کہ کسی شہادت سے اسلامی معاشرہ مایوس ہو جائے، ناامید ہو جائے، پسپا ہو جائے اور اس کے راستے پر چلنا چھوڑ دے تو امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے بڑھ کر کس کی شہادت ہو سکتی تھی؟ تو جب امام حسین علیہ السلام کی سطح کا کوئي انسان شہید ہوا تو اس قاعدے کی رو سے ناامیدی اور مایوسی بھی بہت زیادہ پھیل جانی چاہیے تھی اور اس خون کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے جم جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، وہ خون، لازوال ہو گیا اور ایسا اس لیے ہوا کیونکہ وہ درحقیقت نور خدا ہے جو امام حسین علیہ السلام جیسی شخصیت میں پایا جاتا ہے اور اسی طرح ان کے ان پیروکاروں کی شخصیت میں بھی پایا جاتا ہے جو اس راہ میں شہید ہوتے ہیں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ