بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
خداوند عالم کا شکرگزار ہوں کہ ایک بار پھر اس خوبصورت اور شیریں جلسے میں آپ حضرات کے دیدار اور دلنشین تلاوت سننے کا موقع ملا۔ میں قاریان قرآن کریم کی تعداد میں مسلسل اضافے پر بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں حمد و شکر ادا کرتا ہوں۔ آج ہماری آنکھوں اور سماعت دونوں کی نوازش ہوئی اور واقعی مختلف شہروں سے آنے والے مختلف عمر کے قاریان محترم کی تلاوت و قرآئت قرآن کریم سے ہم بہرہ مند ہوئے۔ جناب آقائے روحانی نژاد (2) کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ چالیس برس سے زائد عرصے کے بعد ان کی تلاوت سنی۔ اس وقت، جوانی کے ایام میں ان کی آواز بہت اچھی تھی، جب یہ آقائے مختاری (3) کے شاگرد تھے۔ خدا آقائے مختاری پر رحمت نازل فرمائے۔ ان کی وہ شاندار آواز، الحمد للہ۔
آپ حضرات کی خدمت میں رمضان المبارک کی آمد کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ واقعی مومنین اور عید عظیم کے قدر شناسوں کے لئے (یہ بہت مبارک مہینہ ہے)۔ خداوند عالم سے ہماری دعا ہے کہ اس مہینے کو ایرانی عوام اور آپ سب کے لئے حقیقی معنی میں مبارک قرار دے۔
میری نظر میں اہم یہ ہے کہ ہم معاشرے کو، پہلے درجے میں خود اپنے معاشرے کو، قرآن کریم کے چشمہ لایزال سے سیراب کریں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہماری انفرادی زندگی ميں بھی، ہمارے کردار میں بھی اور ہماری رفتار میں بھی ایسے نقائص در پیش ہیں جو قرآن کریم کی مدد سے برطرف ہو سکتے ہیں۔ ہماری اجتماعی زندگی میں بھی، اس زندگی کا ایک حصہ، اندرون معاشرہ سے ربط رکھتا ہے، اپنے روابط میں، اپنے باہمی تعاون میں، اپنے افہام وتفہیم میں، دو طرفہ محبتوں میں بھی جس کے ایک حصے میں ہمیں معاشرے سے باہر کے حالات کا سامنا بھی ہوتا ہے، ان سب زندگیوں میں، ہمیں ایسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کہ ان مصیبتوں کو قرآن کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔ قران کریم اس میدان میں ہماری رہنمائی اور دستگیری کر سکتا ہے۔ معاشرے سے باہر کی دنیا سے رابطے کے سلسلے میں، آج ایرانی قوم کو طاقتور کافرین اور منافقین کے ایک وسیع محاذ کا سامنا ہے۔ صورتحال یہ ہے۔ ہمیں اقوام سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ اقوام ایک دوسرے سے برادرانہ تعلق رکھتی ہیں۔ اور اگر غیر ہیں تب بھی ایک دوسرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ وہ جن کا سروکار دوسرے ملکوں اور اقوام سے ہے، وہ طاقتورعناصر ہیں۔ ہم ان ممالک میں سے ہیں جنہیں ان طاقتوروں کے ایک وسیع محاذ کا سامنا ہے۔ ان سے کس طرح پیش آئيں؟ قرآن کریم ان کے ساتھ پیش آنے کے طریقے اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس مرحملے میں بھی جب ہمارے لئے ان سے بات کرنا ضروری ہوتا ہے، اور اس مرحلے میں بھی جس میں ہاتھ ملانا پڑتا ہے اور اس مرحلے میں بھی جس میں ہمارے لئے انہیں مکا رسید کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس مرحلے میں بھی جب شمشیر کھینچنا لازم ہو جاتا ہے، ان تمام مراحل میں قرآن کریم نے ہمارے طرزعمل کا تعین کر دیا ہے۔
معاشرے کے اندر، سماجی مسائل کے حوالے سے، ارتباط اور تعلقات کے مسائل کے سلسلے میں، آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل میں، اسلام، توحید، توحیدی تعلیمات اور خدا سے رابطے کے بعد، سب سے زیادہ عدل و انصاف کو، سماجی انصاف کو اہمیت دیتا ہے۔
پیغمبران خدا نے توحید کے بعد جتنی دعوت عدل و انصاف کی دی ہے، اتنی اور کسی چیز کی دعوت نہیں دی ہے۔
سماجی انصاف کے میدان میں ہمیں مشکلات کا سامنا ہے، اس کی راہ حل قرآن کریم میں ہے۔ اپنے ذاتی امور میں، ذاتی احوال میں ہمیں اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں کا سامنا ہے، حسد پایا جاتا ہے، بخل پایا جاتا ہے، بدگمانیاں پائی جاتی ہیں، سستی اور کاہلی پائی جاتی ہے، ہوا و ہوس پائی جاتی ہے، خودپسندی پائی جاتی ہے، اجتماعی مفادات پر ہم اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے اندر یہ باتیں پائی جاتی ہیں اور ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے۔ کچھ جگہوں پر ہم نے پیشرفت بھی کی ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ بیماریاں بھی موجود ہیں۔ ان کا علاج قرآن میں ہے۔ اگر تلاوت قرآن صحیح ہو تو۔ اس حوالے سے بھی مختصرعرض کروں گا، اگر تلاوت صحیح ہو تو سنی جائے گی اور یہ امراض برطرف ہو جائيں گے۔
قرآن کریم ہمارے سامنے علاج بھی پیش کرتا ہے، بخوبی توجہ فرمائيں، ہمارے سامنے علاج بھی پیش کرتا ہے، ہمیں راستہ بھی دکھاتا ہے اور ہمارے اندر جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ اہم ہے۔
بہت سے ہیں جن کا راستہ بلند ہے لیکن ان کے اندر جذبہ نہیں ہے اور فکری و اخلاقی نظام ان کے اندر جذبہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ قرآن جذبہ پیدا کرتا ہے۔
جب قرآن کی اچھی طرح تلاوت کی جائے، اس کو اچھی طرح سنا جائے اور اچھی طرح اس پر غور کیا جائے تو اس کا یہ عظیم فائدہ ہوگا کہ یہ بیماریاں دور ہوں گی۔ خود قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے: "ھوَ الَّذی بَعَثَ فِی الاُمّیّینَ رَسولاً مِنھم یَتلوا عَلَیھم آیاتہ۔" آیات کی تلاوت کرتا ہے ۔ آیات کی تلاوت کا نتیجہ کیا ہوگا؟ ویزکّیھم۔ یہ جو آیات کی تلاوت کی جا رہی ہے، اس سے تزکیہ ہوتا ہے۔ تزکیہ کیا ہے؟ یعنی دل اور روح کو شفا ملتی ہے۔ تزکیے کا مطلب یہ ہے۔ انسان کا دل، انسان کی رح، انسان کی جان کو ان بیماریوں سے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا، شفا ملتی ہے۔ یہ ہے تزکیہ۔ قرآن یہ کام کرتا ہے، تلاوت قرآن، تزکیہ کرتی ہے۔ وَ یُعَلِّمُهُمُ الکِتاب۔ انہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے۔ کتاب کیا ہے؟ کتاب اس انفرادی اور اجتماعی زندگی سے عبارت ہے۔ اسی کو خداوند عالم نے قرآنی اور دینی تعبیرات میں حق کا نام دیا ہے۔ کتاب یعنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا مجموعی پیکر۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شکل، وہ مجموعہ ہے کہ کتاب دوسرے الفاظ میں اس کو بیان کرتی ہے اور اس کی ضامن ہے۔ وَ یُعَلِّمھمُ الکِتابَ وَ الحِکمۃ۔ (4) حکمت کیا ہے؟ حقائق عالم وجود کی شناخت اور معرفت۔ کہ انسان حقائق عالم وجود کو پہچانے۔ تلاوت کتاب، ہمیں یہ باتیں سکھاتی ہے۔ یتلوا علیھم۔ پیغمبر عوام کے لئے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تاکہ یہ چند کام انجام پائيں: "تزکیہ، تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت۔" آپ کیا کام کرتے ہیں؟ آپ قاریان قرآن وہی پیغمبر کا کام کرتے ہیں۔ آپ بھی تلاوت کرتے ہیں، تلاوت پیغمبر کا کام ہے۔ تلاوت قرآن اس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ آپ قرآنی مفاہیم کو لوگوں کے فکری مسلّمات میں تبدیل کر دیں۔ قرآن کریم میں ہزاروں اہم عناوین اور ابواب ہیں۔ مثال کے طور پر : لیقوم النّاس بالقسط" (5) یا " خذ العفو" (6) یا "اذکرو اللہ ذکرا کثیرا"۔ (7) یہ سب ایک عنوان اور باب ہے۔ آپ کا ایک فریضہ اور آپ کی تلاوت کا ایک کام ، اگر صحیح طور پر انجام پائے، یہ ہے کہ ان مفاہیم کو معاشر ے کے فکری مسلّمات میں تبدیل کر دیتی ہے۔ معاشرے میں یہ بات اپنی جگہ بنا لیتی ہے کہ عدل کے لئے قیام کرنا چاہئے۔ ذکر خدا ہونا چاہئے: اُذکُرُوا اللہ ذِکراً کَثیراً۔ بھائیوں کے درمیان عفو درگزر ہونا چاہئے: خذ العفو۔ "َفلیُقاتِل فی سَبیلِ اللہ"(8) اور دیگر مفاہیم جو قرآن میں موجود ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ہزاروں عناوین اور ابواب موجود ہیں جو لوگوں کی عام فکر اور نظرئے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہ کام کون سی چیز کرتی ہے؟ اچھی تلاوت۔ اچھی تلاوت سے عوام کی قرآنی تعلیم بڑھتی ہے اور وہ اسی طرح سوچنے لگتے ہیں جس طرح کہ قرآن نے حکم دیا ہے۔
عام طور پر انسان جس طرح سوچتا ہے اسی طرح عمل بھی کرتا ہے، اسی طرح آگے بڑھتا ہے اور چلتا ہے۔ بنابریں تلاوت و قرآئت قرآن، وہ کام جو آپ کر رہے ہیں، اس کی اہمیت یہ ہے۔ وہ ایسا معجزہ کرتی ہے۔ اتنا بڑا کام کرتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ یہ کام آداب تلاوت کی پابندی کے ساتھ کیا جائے۔ یہ وہ بات ہے جو آپ کی ذمہ داری سنگین تر کر دیتی ہے۔ آداب تلاوت کا خیال رکھنا چاہئے۔
پہلا ادب یہ ہے کہ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت کریں تو چاہے گھر کے اندر ہوں یا لوگوں کے درمیان، یہاں یا کہیں بھی، یہ سمجھیں کہ خدا کے سامنے ہیں اور اس سے بات کر رہے ہیں۔ اس بات پر توجہ رکھیں کہ خدا کے حضور ہیں اور اس کی باتیں ہم تک پہنچا رہے ہیں، اس کی بات ہم تک پہنچا رہے ہیں، اس سے آپ کے اندر ایک احساس پیدا ہوگا۔ یہ بہت اہم ہے۔ پہلا ادب یہ ہے۔
قرآن کریم کو اس کے معنی پر توجہ رکھتے ہوئے پڑھیں۔ میں نے آج دیکھا کہ بعض برادران نے اس کی اچھی طرح رعایت کی ہے اور تلاوت معنی پر توجہ کے ساتھ انجام پائی۔ بعض اوقات معنی پر توجہ نہیں ہوتی تو تلاوت بے تاثیر ہو جاتی ہے۔ معنی پر توجہ ہو اور آپ یہ سمجھتے ہوں کہ آپ کے گلے سے کون سی حقیقت باہر آ رہی ہے، معنی پر توجہ کا مطلب یہ ہے، تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی عرب ہو اور عربی اس کی مادری زبان ہو لیکن اس کی توجہ اس بات پر نہ ہو کہ کیا کہہ رہا ہے ۔ یہ اہم ہے کہ ہم یہ جانتے ہوں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ معنی پر توجہ کا مطلب یہ ہے۔
اور قرآن کی ترتیل کے ساتھ تلاوت کریں۔ البتہ ہمارے درمیان رائج آج کی اصطلاح میں ترتیل انہیں تلاوتوں کو کہتے ہیں جو ان قرآنی جلسوں میں، چند افراد بیٹھتے ہیں اور ترتیل سے تلاوت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ہم ترتیل سے قرآن پڑھتے ہيں۔ ترتیل یہ نہیں ہے۔ ( یہ جو کہا جاتا ہے کہ) رتّل القرآن ترتیلا(9) ترتیل کا مطلب یہ کہ قرآن کو سمجھ کے، تدبر کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کے پڑھا جائے۔ ": وَ قُرآناً فَرَقناه لِتَقرَأه عَلَی النّاسِ عَلیٰ مُکث" (10) ترتیل یہ ہے۔ ترتیل ایک معنوی چیز ہے۔ یہ جانیں کہ کیا کر رہے ہیں، کیا پڑھ رہے ہیں، سامنے والے کو کیا اور کس قلبی جذبات کے ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے۔ اس طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ ترتیل یہ ہے۔ البتہ اس وقت قاریان قرآن اور ان لوگوں کے درمیان، جنہوں نے قرآئت کے بارے میں لکھا ہے، جو بات رائج ہے، وہ "تحقیق" کی صورت میں، یا "تدویر" کی صورت میں یا "حدر" کی صورت میں تلاوت کرنا ہے۔ تدویر وہی حد وسط ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو آج ہم ترتیل کہتے ہیں۔ اس کا علمی اور تکنیکی نام تدویر ہے۔ اس سے بالاتر تحقیق ہے۔ یہ وہی تلاوت ہے جو آپ کرتے ہیں۔ اس سے نچلی سطح، حدر یا تحدیر ہے جو تیز رفتاری اور سرعت کے ساتھ قرآن پڑھنا ہے۔
اگر قرآن، اس معنی میں جو میں نے عرض کیا، اس معنی ميں نہیں جو رائج ہے، ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا اثر ہوگا۔ یہاں میں ذیل میں ایک بات عرض کروں گا کہ اسی تدویر کی شکل میں جس کو ہم ترتیل کہتےہیں، قرآن پڑھنا بہت اہم کام ہے، بہت اچھا ہے۔ یہ جو آج رائج ہے، پورے ملک میں، مشہد میں، قم میں، جمکران میں، خوزستان میں ، اہواز میں، طبس میں اور ہر جگہ جو قرآن پڑھتے ہیں اور ٹی وی پر اس کو نشر کرتے ہیں، یہ کام بہت اہم ہے۔ بہت اچھا ہے۔ میں جب دیکھتا ہوں کہ مختلف قاریان قرآن آتے ہیں، اور قرآن کریم کی تلاوت کرتےہیں، تجوید کے ساتھ، وقف کے ساتھ، صحیح ابتدا کے ساتھ، حروف صحیح مخارج سے خوبصورتی کے ساتھ ادا کرتے ہیں، تو مجھے جو غیر معمولی خوشی ہوتی ہے، شاید میں اپنی اس کیفیت کی تصویر کشی نہ کر سکوں۔ لیکن یہ تلاوت بہت غیر معمولی اور بہت اچھی ہے۔ یہ جتنا رائج ہو اتنا اچھا ہے۔ لیکن بہرحال ترتیل کے جو معنی میں نے بیان کئے، اس معنی کے ساتھ تلاوت موثر واقع ہوگی۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تلاوت سے قاری کا پہلا مقصد، خود اپنی بہرہ مندی ہونا چاہئے۔ آپ جب قرآن پڑھتے ہیں تو ، پہلے درجے میں یہ بات مد نظر رکھیں کہ خود بہرہ مند ہوں اور اس کے بعد دوسرے درجے میں مخاطبین کو بہرہ مند کریں اور تیسرے درجے میں، قرآن کے شایان شان، لفظی اور قلبی آراستگی پیش کریں۔ یہ جو اچھی آواز میں، بہترین اور خوبصورت آواز میں، اچھے لحن میں قرآن پڑھتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے میں دیکھتا ہوں کہ جن لوگوں کی اس طرح کی تلاوت ٹیلیویژن سے نشر ہوتی ہے، ان کا لحن تقلیدی نہیں ہے۔ ان کا لحن اپنا ہے جو خود انھوں نے اختراع کیا ہے۔ پرانے زمانے میں، اوائل انقلاب میں، ہمارے قاریان قرآن مشہور مصری قاریوں کی تقلید کیا کرتے تھے۔ عبدالباسط کی، مصطفی اسماعیل کی یا منشاوی وغیرہ کی تقلید کرتے تھے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ البتہ تقلید میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی کسی اچھے قاری کی آواز کی اور لحن کی تقلید کرتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لیکن آج الحمد للہ ہمارے ملک میں قاریان قرآن خود لحن ایجاد کرتے ہیں۔ اس کا ہم بعض قاریان قرآن میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ بہرحال پہلے درجے میں تلاوت سے آپ کا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ آپ خود اس سے متاثر ہوں، اور بعد کے درجے میں مخاطب کو متاثر کرنا مقصود ہونا چاہئے۔ اگر یہ ہو تو سننے والے میں خضوع و خشوع پیدا ہوگا۔ تلاوت سننے والے میں خضوع و خشوع پیدا ہونے کا تعلق آپ کی اچھی تلاوت سے ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، اچھی تلاوت سننے والے کے دل میں خشوع پیدا کرتی ہے۔ یہ خشوع بہت اہم ہے۔ اس سے ذکر کی کیفیت وجود میں آتی ہے۔ اُذکُرُوا اللہ ذِکرًا کَثیرًا * وَ سَبِّحوه بُکرَة وَ اَصیلاً " (11) یہ حالت تسبیح، ذکر اور خشوع کی کیفیت جو تلاوت کے نتیجے میں آپ کے دل میں پیدا ہوتی ہے، یہ بہت اہم ہے، ہمیں اس کی ضرورت ہے۔
البتہ ایک مسئلہ ہمارے ملک میں اور دیگر غیر عرب ملکوں میں، معنی کا سمجھنا ہے۔ یہ مسئلہ کسی طرح حل ہونا چاہئے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں درپیش ہیں۔ البتہ خوش قسمتی سے آج صورتحال بہت مختلف ہو چکی ہے۔ ہمارے قاریان قرآن جب تلاوت کرتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ معنی پر ان کی توجہ ہے۔ معنی کو سمجھتے ہيں اور سامنے والے سے بات کرتے ہیں۔ اوائل انقلاب میں ایسا نہیں تھا۔ تلاوت کرتے تھے لیکن معنی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان کی تلاوت میں، وقف اور ابتدا وغیرہ کے لحاظ سے بہت سے نقائص تھے۔ آج الحمد للہ صورتحال بہت اچھی ہے۔ لیکن یہ بات عام ہونی چاہئے۔ یعنی آپ کی تلاوت سننے والے کو بھی جب وہ سنے تو اس کی سمجھ میں آنا چاہئے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ چاہے کلی طور پر ہی سمجھ میں آ جائے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کام محکمہ تعلیم وتربیت، ادارہ تبلیغات اسلامی اور قرآن سے متعلق اداروں کا ہے کہ جو قرآنی علوم میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں اس بارے میں سوچنا چاہئے اس کے لئے کون سا طریقہ کار اپنائيں۔ اس کا ایک راستہ ترجمہ لکھنا بھی ہے۔ لکھا جا رہا ہے اور بہت اچھا لکھا جا رہا ہے۔ دوسرے راستے بھی ہیں جن کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ قاری کی سیرت اور اس کے قلب کی بات ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ قاری کو ضروری شرائط کے ساتھ تلاوت کرنی چاہئے۔
قاری کی ظاہری شکل و صورت بھی اہم ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی حالت بھلے لوگوں کی ہونی چاہئے۔ ابتدائے انقلاب میں جو قاری بھی کسی ملک سے یہاں آنا چاہتا تھا، اس کے لئے پہلی شرط جو ہم نے رکھی تھی، یہ تھی کہ اس کے داڑھی ہونی چاہئے۔ کیونکہ ان کے ہاں داڑھی منڈانا حرام نہیں ہے۔ داڑھی منڈاتے ہیں۔ مولوی ہیں، لیکن داڑھی منڈاتے ہیں۔ ہم یہ شرط لگاتے تھے کہ آپ تہرآن آ رہے ہیں تو داڑھی منڈانا منع ہے۔ سب اس کو قبول کرتے تھے۔ مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں ہے کہ متعدد قاریان قرآن جو یہاں آئے ہیں، ان میں سے کسی نے یہ بات نہ مانی ہو۔ بہت سے قاریان قرآن آئے۔ نامور اور مشہور قاری آئے۔ ان میں سے مشہور ومعروف قاریاں قرآن شاید اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ سب نے داڑھی رکھی۔ جو لوگ دوسرے ملکوں میں بغیر داڑھی کے تلاوت کرتے تھے، وہ یہاں داڑھی رکھ کے آتے تھے۔ یہ قاریان قرآن کا خود نیک ہونا بہت اہم ہے۔ ہمارے اپنے قاریان قرآن کو اس کی رعایت کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ داڑھی نیک لوگوں کی شکل ہے صالحین کی شکل ہے۔ قاریان قرآن کو اس کا لحاظ ضرور کرنا چاہئے۔ بالخصوص ان قاریان قرآن کو جن کی تلاوت ٹیلیویژن پر نشر ہوتی ہے یا جو مجمع عام میں، مساجد وغیرہ میں تلاوت کرتے ہیں۔
لباس کا مسئلہ بھی اسی طرح ہے۔ میں ایک دوست سے جو دیگر ممالک کا سفر کیا کرتے تھے، مختلف ملکوں میں ہمارے قاریان قرآن کی مقبولیت بہت ہے، اس کا استقبال ہوتا ہے، تعریف ہوتی ہے، ہمارے بعض قاریان قرآن ان کا لباس پہنتے ہیں، میں نے کہا کیوں؟ ان کا لباس کیوں پہنتے ہیں؟ آپ ایرانی ہیں۔ آپ اپنا سوٹ پہنیں۔ زیادہ سے زيادہ یہ کریں کہ اوپر سے ایک عبا کندھے پر ڈال لیں۔ یا ان کی ٹوپی پہنتے ہیں۔ ان کا لباس پہنتے ہیں۔ یا کسی مشہور مصری قاری کا لباس پہنتے ہیں۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟ ان ظاہری باتوں کا خیال رکھیں۔ یعنی ایرانی ہونا ظاہر ہونا چاہئے۔
ایک اور مسئلہ قرآئت کی شکل ہے۔ حرام لحن نہیں اختیار کرنا چاہئے۔ اس بات پر توجہ رکھیں۔ میں نے گزشتہ جلسے میں، میرے خیال میں، گزشتہ سال تھا(12) بعض قاریوں کا نام لیا تھا۔ مجھ سے کہا کہ یہ جن کا آپ نے نام لیا ہے، ان کے طرفدار بہت ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ان کے طرفدار بہت ہیں۔ ان کا پڑھنا مجھے بھی اچھا لگتا ہے لیکن بعض اوقات اس طرح پڑھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ فلاں مصری گانے والے میں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انہیں کی طرح ہیں۔ انہیں کی طرح پڑھتے ہیں۔ یہ لحن لحن قرآنی نہیں ہے۔ دوسرا لحن ہے۔ خوش الحانی میں کوئی حرج نہيں ہے۔ ابھی آپ نے جو یہاں پڑھا ہے۔ یہی ہمارے اچھے قاریان قرآن اور وہ قاریان بھی جو اس سے بھی اچھا پڑھتے ہیں،ان کا لحن بہت اچھا ہے۔ بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ بہت ہی شیریں اور زیبا انداز سے پڑھتے ہیں جس کو سننا اچھا لگتا ہے۔ یہ حرام نہیں ہے۔ بنابریں حرام لحن سے پرہیز کیا جا سکتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ تلاوت میں تقلید میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مقلد کی تربیت کی کوشش کریں اور اس کے لئے ہم فیسٹیول کا اہتمام کریں، یہ میں نہیں سمجھ سکا ہوں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہم مثال کے طور پر یہ ٹریننگ دیں کہ اگر شیخ مصطفی اسماعیل کی طرح تلاوت کرنا چاہتے ہیں تو یہاں اس طرح پڑھیں! اس میں نئی بات کیا ہے۔ اس کو سکھانے کی ضرورت کیا ہے؟ کوئی خود سیکھ لے تو اچھا ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ مشہد میں مصطفی اسماعیل کے کیسیٹ سب سے پہلے میں لایا۔ یعنی میرے کہنے پر عرب ملکوں سے لے آئے اور ہم نے یہ کیسیٹ مشہد میں تقسیم کئے۔ مشہد میں مصطفی اسماعیل کو لوگ نہیں جانتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کی قرآئت اور تلاوت اچھی لگتی ہے لیکن یہ کہ ہم اپنے بچے سے کہیں کہ ان کی تقلید کرو، یا منشاوی کی تقلید کرو، یا احمد شبیب یا کسی اور کی ، میرے خیال میں یہ کام زیادہ منطقی نہیں ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ مختلف ادارے مسئلہ قرآن کے ذمہ دار ہیں اور قرآن سے سروکار رکھتے ہیں۔ وزارت ارشاد،(اسلامی ہدایت کی وزارت) قرآن سے سروکار رکھتی ہے، ادارہ تبلیغات اسلامی بھی قرآن سے سروکار رکھتا ہے، اوقاف کے ادارے بھی قرآن کے سلسلے میں کام کرتے ہیں، ریڈیو ٹیلیویژن کا ادارہ بھی قرآن کے تعلق سے سرگرم ہے، مختلف دیگر ادارے بھی ہیں ،عوام اور عوامی تنظیمیں بھی اس حوالے سے کام کر رہی ہیں، یہ سب ایک دوسرے سے مل کر کام کریں۔ مل کر کام کرنے کا راستہ یہ ہے کہ یہ جو قرآن کی اعلی کونسل تشکیل دی گئی ہے، اس حوالے سے کونسل میں پالیسیاں تیار کرتے ہیں، ان پالیسیوں پر توجہ دیں۔ یہ کام اہم ہے، مفید ہے۔ یعنی ایسا ہو کہ پورے ملک میں امور قرآن میں پیشرفت ہو۔ اس حوالے سے مختلف جہتوں اور مسائل پر توجہ دی جائے۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم کے بعض اساتید نے مذاکرات کئے تھے، ان مذاکرات کی کچھ باتیں مجھ تک پہنچائی گئيں۔ اہم باتیں، قرآن کے مسائل سے متعلق قابل توجہ باتیں، تلاوت وغیرہ کے مسائل میرے علم میں لائے گئے، ان پر توجہ دی گئی، تاکید کی گئی، اہتمام کیا گیا، ان سے استفادہ کیا جائے۔ خاص طور پر ریڈیو ٹیلیویژن کے ادارے کو قرآن کے حوالے سے انجام دیے جانے والے قابل فخر کارناموں کا استقبال کرنا چاہئے یعنی اس کی حمایت کرنی چاہئے۔ واقعی تلاوت قرآن کریم کے سلسلے میں ہم نے بڑے کام کئے ہیں، بہت اچھی پروڈکشن، ممتاز کارنامے موجود ہیں، ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور استفادے کے لئے عوام کے اختیار میں قرار دیا جائے۔
خوش قسمتی سے قرآن کے لحاظ سے ملک میں تیز رفتار پیشرفت ہوئی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ سرعت کے ساتھ ترقی ہوئي ہے۔ یعنی وہ ملک جس میں قرآن کو الگ کر دیا گیا تھا، محدود کردیا گیا تھا، بڑے شہروں میں ایک دو، تین یا پانچ جلسے قرآن کے ہوتے تھے جن میں زیادہ سے زیادہ چھے سات قاری ایسے شریک ہوتے تھے جو اچھی تلاوت کرتے تھے، تجوید کے ساتھ تلاوت کرتے تھے، آج خوش قسمتی سے اسی ملک میں چھوٹے شہروں میں حتی دیہی بستیوں میں بھی بہت اچھے قاریان قرآن موجود ہیں جو ممتاز ہیں اور بہت اچھی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ ہمارے امتیازات ہیں اور کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران قرآن کے لحاظ کچھ نہیں کر سکا۔ نہیں، الحمد للہ بہت اچھا کام ہوا ہے۔ اس سے زیادہ ہونا چاہئے۔ لیکن جو نکات میں نے عرض کئے ہیں، ان پر توجہ دی جائے ۔ یعنی اہم یہ ہے کہ چشمہ معنوی قرآن عوام کے افکار میں بہنا چاہئے۔ لوگوں کے دلوں میں اور ان کے عمل میں جلوہ فگن ہونا چاہئے ۔ یہ اہم ہے۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ سب کو، ہم سب کو یہ توفیق عنایت فرمائے۔
میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس جلسے کی تشکیل پر شکرگزار ہوں۔ ناظم جلسہ کا (13) شکریہ ادا کرتا ہوں، بہت اچھی طرح نظامت کی۔ جن لوگوں نے تلاوت کی ہے ان میں سے ایک ایک فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ آپ سب کامیاب وکامران ہوں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس جلسے کے آغاز میں بعض قاریان قرآن نے تلاوت کی اور قرآنی گروہوں نے پروگرام پیش کئے
2۔ جناب جواد روحانی نژاد
3۔ جناب علی مختاری امیر مجدی
4۔ سورہ جمعہ ، آیت نمبر 2
5۔ سورہ حدید آیت نمبر 25 " ۔۔۔۔ ہم نے ان پر کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں
6۔ سورہ اعراف آیت نمبر 199 " درگزر سے کام لو
7۔ سورہ احزاب آیت نمبر 41" ۔۔۔۔ خدا کو یاد کرو۔ بہت زیادہ یاد کرو"
8۔ سورہ نساء آیت نمبر 74
9۔ سورہ مزمل آیت نمبر 4"۔۔۔۔ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کے پڑھو"
11۔ سورہ احزاب، آیت نمبر41 و 42 " ۔۔۔۔خدا کو یاد کرو، بہت یاد کرو، اور صبح و شام پاکیزگی کے ساتھ اس کی ستائش کرو
12۔ 2024 کی پہلی رمضان المبارک کو قاریان قرآن سے خطاب
13۔ جناب مجید یراقبافان