بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و الصلواۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
آج آپ کے ساتھ بہت اہم اور شیریں میٹنگ ہوئی۔ طلبا کا ماحول، بہت ہی شاد، زندگی سے بھرپور، پرجوش اور شوق و اشتیاق نیز مطالبات سے مملو ہوتا ہے۔ یہ طلبا کے ماحول کی فطری خصوصیت ہے۔ جو باتیں، دوستوں نے یہاں بیان کیں، وہ طلبا کا مخصوص تجزیہ ہے، طلبا کی مخصوص تجاویز ہیں جو غنیمت ہیں۔ یعنی واقعی، ہم جیسے لوگوں، مجھے اوردیگرحکام کو، جو ملک کے مختلف شعبوں کے ذمہ دار ہیں، یہ باتیں سننا اور ان پر غور کرنا چاہئے، ان کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ان میں سے بعض تجاویز پوری طرح قابل عمل ہیں، ان پر کام کرنا چاہئے اور ممکن ہے کہ بعض قابل عمل نہ ہوں۔
اب یہ جو اس عزیز نوجوان نے کہا کہ ہمیں فلسطین بھیج دیں، یہ ایک بات ہے۔ مطمئن رہیں کہ اگر اپنے نوجوانوں کوفلسطین بھیجنا ممکن ہوتا تو آپ کے کہنے سے پہلے یہ کام کیا جا چکا ہوتا۔
میری توقع بھی واقعی یہی ہے کہ جائزہ لینے اور ان پر غور کرنے کے ساتھ، ظاہر ہے کہ ہر طلبا تنظیم کے نمائندے جو باتیں بیان کرتے ہیں، ان کا خود اس تنظیم میں غور و فکر کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہوگا۔ ان کی اسٹڈی کی جاتی ہوگی، ان پر غور کیا جاتا ہوگا، ان کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہوگا اور اس کے بعد یہاں بیان کی جاتی ہوں گی۔
بہت اچھی بات ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ باتیں یقینا کہی جائيں، لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایک تو تجاویزحقیقت پسندانہ ہوں اور دوسرے حقیقی معنی میں ان کا پوری طرح جائزہ لینے کے بعد انہیں پیش کیا جائے۔
ایک دوست نے کہا کہ "خیال کیا جاتا ہے کہ عدل و مساوات کے مسئلے میں رہبر کا نظریہ 22 سال پہلے سے مختلف ہو گیا ہے۔" اگر تبدیل ہوا ہے تو اس لحاظ سے بدلا ہے کہ عدل و انصاف کی تاکید بڑھ گئی ہے۔ اس لئے کہ عدل و انصاف کے راستے پر ہماری پیشرفت کم رہی ہے، اس کے لئے ہماری تاکید زیادہ ہے۔عدل و انصاف سے تو دستبردار نہیں ہوا جا سکتا۔ لیکن اس کے تمام پہلوؤں کو سمجھنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں افراد کی طرف اشارہ نہیں ہونا چاہئے۔ بیانات میں افراد کی طرف اشارہ نہ کیا جائے۔
اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ آج حکومت میں کچھ ایسے لوگ کام کر رہے ہیں جو چند سال پہلے آپ کی طرح اس میٹنگ میں شریک تھے اور یہاں تقریر کرنے والوں میں شامل تھے۔ یعنی میں جو ہمیشہ یہ توقع ظاہر کیا کرتا تھا کہ نوجوان طلبا آگے آئيں گے اور متوسط درجے کے مینیجمنٹ میں فعال ہوں گے بلکہ اعلی عہدوں پر کام کریں گے، تو یہ توقع پوری ہوئی اور بہت سے نوجوان جو چند سال پہلے تک یونیورسٹی طلبا کی حیثیت سے یہاں، اس میٹنگ میں شریک ہوا کرتے تھے،اج مختلف ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت پر توجہ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ اس سے نوجوانوں کا ذہن اس سمت میں جائے گا کہ مشکلات کا حل نزدیک تر ہو گیا ہے۔ میری توقع یہ ہے۔
بہرحال میں ان تمام حضرات کا شکرگزار ہوں جنہوں نے یہاں تقریر کی۔ میں ان کی تحریروں کو ان شاء اللہ پڑھوں گا یا یہ کہوں گا کہ ان کی تلخیص کی جائے اس کے بعد انہیں پڑھوں گا۔ قاری محترم کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے بہت اچھی تلاوت کی۔ اس میٹنگ کی نظامت کرنے والے محترم ناظم جلسہ اور اسی طرح ترانہ پیش کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
رمضان المبارک کے آخری آیام ہیں۔ آپ نوجوان ہيں، آپ کے دل پاکیزہ ہیں، یہ میں ظاہرداری میں نہیں کہہ رہاہوں، یہ حقیقت ہے۔ روزہ، تلاوت قرآن، رات، دن اور سحری کی دعائیں، آپ پر، مجھ جیسے لوگوں سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس سال (کے رمضان المبارک) میں آپ کے اندر یقینا، نورانیت پیدا ہوئی ہے۔ اس نورانیت کی حفاظت کی کوشش کریں۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ گناہوں سے پرہیز کریں۔ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کی توجہ اس بات پر نہیں ہوتی کہ وہ گناہ ہیں۔ بہت سی باتیں جو ہم کرتے ہیں اور بہت سے ایسے بیانات جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں، ان کا جواب دینا پڑے گا۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ "ان السّمع والبصر والفواد کلّ اولئک کان عنہ مسئولا"(1) انسان کو جواب دینا ہوگا۔ یہ صحیح نہیں ہے، بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے اعمال میں انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے تو ان کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ ان سے توبہ ممکن ہے، ان پر استغفار کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ پتہ نہ چل سکے کہ یہ صحیح نہیں ہیں تو پھر ان پر توبہ بھی نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح رہ جائے گی، ان کی تعداد زیادہ ہو جائے گی اور دل سے نورانیت ختم کر دیں گی۔ افسوس کی بات ہوگی ! آپ کے دل واقعی نورانی ہیں۔ کوشش کریں کہ رمضان المبارک میں اس نورانیت میں اضافہ ہو۔ ترک گناہ کے ذریعے، اول وقت نماز کی پابندی کرکے، حتی المقدر نماز جماعت میں شرکت کے ذریعے، بولنے میں بہت زیادہ خیال رکھ کے۔ جیسا کہ اشارہ کیا گیا۔(3) میں آپ کو خاموش رہنے کی نصیحت ہرگز نہیں کروں گا۔ یہ نہیں کہوں گا کہ تنقید نہ کریں، فکر نہ کریں، اعتراض نہ کریں۔ نہیں ہرگز یہ سفارش نہیں کروں گا۔ میری نصیحت یہ ہے کہ خیال رکھیں کہ کیا بول رہے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ اس بیان میں، اس بات میں، اس تحریر میں، کسی ایسے فعل کے مرتکب نہ ہوں کہ جن کا جواب نہ دے سکیں۔
الحمد للہ اس سال کا رمضان المبارک، بہت اچھا رمضان تھا، خاص طور پر تلاوت قرآن کی ترویج کے لحاظ سے، قرآن کریم کی تلاوت سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ مختلف شہروں میں، متعدد افراد، بعض اوقات نوجوان اتنی اچھی طرح اور اتنی روانی سے تلاوت کرتے ہیں اور بعض اوقات قرآن انہیں حفظ ہوتا ہے اور بغیر دیکھے تلاوت کرتے ہیں، یہ میری بڑی آرزوؤں میں سے ایک تھی جو میں دیکھ رہا ہوں کہ پوری ہو رہی ہے، بلکہ پوری ہو گئی ہے۔ اس کے لئے میں خدا کا بار بار شکر ادا کرتا ہوں۔ جتنا ہو سکے، اتنا قرآن سے انسیت پیدا کریں۔ سب کچھ قرآن میں ہے، جو قرآن میں غور و فکر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ غور و فکر رہنمائی میں ہونا چاہئے۔ یہاں تین بار جناب مصباح مرحوم (رضوان اللہ علیہ) کا نام لیا گیا جو بجا ہے۔ ان کی کتابوں سے استفادہ کیا جائے۔ حق و انصاف یہ ہے کہ اس عظیم ہستی کی فکر، صحیح نہج پر سوچنے میں نوجوانوں کی مدد کر سکتی ہے۔
اس مہینے میں سرگرم انجمنیں، اس مہینے میں سڑکوں پر افطاری کا اہتمام، یہ سب بہت اہم اور قابل قدر ہے۔
میں کچھ باتیں نوٹ کرکے لایا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ ان کا وقت ہوگا یا نہیں، مختصر کروں گا۔ جو اہم باتیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں، ان میں سے ایک خود یونیورسٹی طلبا سے متعلق ہے اور ایک یونیورسٹیوں سے متعلق ہے۔ چند جملے طلبا تنظیموں کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔
یونیورسٹی طلبا کے بارے میں، ایک یونیورسٹی طالب عالم، ایک نوجوان، پرجوش، توانا اور مستقبل کا مالک ہوتا ہے۔ آپ اگے کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ ساٹھ برس ستر برس آپ کے سامنے ہیں ایک دنیا آپ کے سامنے ہے۔ فطری طور پر ان خصوصیات کے ساتھ یونیورسٹی طلبا کے اس اجتماع سے کچھ توقعات بھی ہیں۔ یہ مجمع نوجوان بھی ہے، توانا بھی ہے، روشن مستقبل کا مالک بھی ہے، تعلیم یافتہ بھی ہے، پڑھنے والا، صاحب علم، بحث کرنے والا اور صاحب فکر بھی ہے۔ فطری طور پر اس کو مستقبل کے لئے فعال بھی ہونا چاہئے۔ حساس ہونا چاہئے، میری تاکید یہ ہے کہ یونیورسٹی طلبا کی نگاہ مستقبل پر ہو۔ آپ آج ملک کے موجودہ مسائل پر معترض ہیں، جیسے وہی باتیں جو آج یہاں کہی گئيں، ملک کی موجودہ صورتحال کے تعلق سے اس کی دس گنا باتیں موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ کمیاں زیادہ ہوں، یعنی یقینا، یہ نہیں کہ ممکن ہے، ہوسکتی ہیں اور ہیں۔ جی ہاں، ہم اگر مستقبل پر نظر رکھیں، مستقبل کے بارے میں سوچیں، اس کے لئے منصوبہ بندی کریں، کچھ کام بھی کریں، مستقبل کے لئے کچھ اصول و ضوابط تیار کریں، تو امید ہے کہ یہ مشکلات مستقبل میں نہیں ہوں گی۔ طلبا کے اجتماع سے میری ایک توقع یہی ہے۔ برسوں سے ہم ان میٹنگوں میں کچھ باتیں بیان کرتے ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ ان باتوں پر آپ کی توجہ بھی ہے۔ آج بھی آپ اشارہ کر رہے ہیں، بعض دیگر معاملات میں تفصیل سے اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ بات جو آپ نے کہی ہے۔ ہاں ہم نے بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن ان باتوں پر کتنا عمل ہوا؟ طلبا کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ خود یونیورسٹی طلبا نے ان باتوں پر کتنا عمل کیا؟ ہمیشہ صرف حکومتی ذمہ داروں اور عہدیداروں پر ہی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنے آپ میں بھی کمیاں نکالیں۔
آج آپ دیکھیں، سوچیں، کل کے لئے، مستقبل کے لئے، اصول و ضوابط کی تدوین کے لحاظ سے بھی، پلاننگ اور کام کی صحیح فکر اور ایک معینہ مستقبل کی تصویر کشی کریں، مستقبل میں جانے کے راستے کا تعین کریں اور قدم بہ قدم آگے بڑھیں۔ جلدبازی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ آپ کی معمول کی رفتار آپ کو منزل مقصود تک پہنچائے گی۔ یقینا پانچ سال بعد کی حالت آج سے بہت بہتر ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ البتہ اگر ہم جو سوچتے ہیں اور عرض کرتے ہیں اس پر عمل بھی کریں۔
لیکن اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ یونیورسٹی طلبا کا اصل کام پڑھائی ہے۔ البتہ علم کا اصلی کام حصول علم ہے۔ اگر وقت رہا تو میں بعد میں بھی اس سلسلے میں کچھ باتیں کہوں گا۔ لیکن طالب علمی اور علمی کاموں کے ساتھ ہی مستقبل پر نظر رکھنا، معاشرے پر نظر رکھنا، عوام پر نظر رکھنا اور مشکلات و مسائل پر نظر رکھنا بھی یونیورسٹی طلبا کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر یہ مقصد حاصل کرنا چاہیں یعنی آنے والے کل کو آج سے بہتر بنانا چاہیں تو ہمیں اپنے لئے امنگوں کا تعین کرنا ہوگا۔ امنگوں اور اہداف کو سمجھنے اور یہ جاننے کے لئے کس چیز کے پیچھے بھاگنا ہے اور کیا حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرنا ہے، کس لئے کوشش کرنا ہے، ہمیں اپنی صورتحال کو سمجھنا ہوگا۔
یہ باتیں جو میں کہہ رہا ہوں، ممکن ہے آپ کے لئے، اپنی حالت کے لحاظ سے، آپ کی فکر کے لحاظ سے، آپ کے عمل کے لحاظ سے، یہ کام ہو چکا ہو لیکن یونیورسٹی کے عام ماحول میں ایسا نہیں ہے۔ آپ کو یہ کام کرنا ہے کہ یہ خواہش اور یہ ہدف یونیورسٹی طلبا کے پورے ماحول میں عام ہو جائے۔ میں ابھی عرض کرتا ہوں۔
پہلے ہم اپنے وجود اور پوزیشن کو اچھی طرح پہچانیں۔ آج یونیورسٹی کے نوجوان طالب عالم کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے انقلابی نظام میں آنکھیں کھولیں، بڑا ہوا، یونیورسٹی تک پہنچا، علمی ماحول تک دسترسی حاصل کی اور یہاں تک آگے بڑھا۔ ایک انقلابی نظام میں۔ پہلے اس کو جان لیں۔ بہت سے اس سے غافل ہیں۔ انقلابی نظام کا مطلب کیا ہے؟ یعنی وہ نظام جو سخت اور پیچیدہ مجاہدتوں کے بعد بعض تلخ حقائق کے ساتھ وجود ميں آیا۔ یعنی وہ نظام جو مجاہدت کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ ہماری نوجوانی کا زمانہ، وہ جگہ جہاں ہم رہتے تھے، ایسی نہیں تھی۔ ایک ایسا نظام تھا جو اپنی تمام مشکلات کے ہمراہ، ایک محرک اور ایک وجود میں نہ آنے والے ہدف کی فکر میں تھا، اس کی تفصیل بہت زیادہ ہے۔ لیکن وہ نظام جو آپ کے پاس ہے، جس میں آپ رہتے ہیں، سخت مجاہدت اور محنتوں سے وجود میں آیا ہے۔ اس وقت ہماری زندگی کے اصلی ترین حقائق یہ ہیں کہ نظام، انقلابی نظام ہے۔ ممکن ہے، یعنی یقینا ایسا ہی ہے کہ بہت سی انقلابی خواہشات پوری نہیں ہوئيں۔ یہ صحیح ہے۔ ہمیں اس پر یقین ہے، لیکن وہ نظام جس میں ہم رہتے ہیں، ایسا نظام ہے کہ یہ توقعات اس سے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ انقلابی نظام ہے۔ لہذا "نظام کے انقلابی ہونے کو" ہم ہمیشہ ایک حقیقت کی حیثیت سے نظر میں رکھیں۔
وہ مجاہدت جو اس نظام کو وجود ميں لائي، کس کے خلاف تھی؟ یہ بھی اہم ہے۔ کس سے جدوجہد ہوئی؟ کس چیز سے، کس حقیقت کے ساتھ مجاہدت انجام پائی؟ یہ اہم ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کل کیسے تھے۔ آج کی حقیقتوں کی شناخت اور ان کے بارے میں صحیح فیصلہ اس صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہوکہ ہم کہاں سے چلے اور اس وقت ملک پر حکمفرما حقیقت کیا تھی۔
میں عرض کرتا ہوں کہ یہ حادثات سے پر اور انتہائی پیچیدہ مجاہدت جو برسوں چلی، ایک بدعنوان اور خیانتکار نظام کےخلاف تھی۔ یہ نظام بدعنوان بھی تھا اور خائن بھی تھا۔ پہلوی حکومت اغیار سے وابستہ تھی۔ ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
اس بدعنوان نظام کی خصوصیات میں بتاتا ہوں: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک پر ہر لحاظ سے ایک قابل اعتراض خاندان حاکم تھا۔ ایک خاندان کی حکومت یعنی حکومت موروثی تھی اور وہ خاندان بھی انتہائی پست تھا اور دوسرے انواع و اقسام کی بدعنوانیوں میں مبتلا تھا۔ ملک میں برسراقتدار یہ خاندان تھا۔ ہمارے ملک کی حالت یہ تھی۔ آپ آج کے ایران ( کی حالت) کو دیکھتے ہیں، (اس وقت کا) ایران ایسا تھا کہ اس عظیم، قدیمی اورمحکم بنیادوں کے مالک اس ملک میں ایسے عناصر برسر اقتدار تھے اور وہ عوام پر حکومت کر رہے تھے۔
انتظامی لحاظ سے، نظام پوری طرح استبدادی تھا اور اس میں عوام کا کوئی کردار نہیں تھا۔ آج آپ یہاں نعرے لگاتے ہیں اور صحیح نعرے ہیں کہ عوام ایسا کریں اور ویسا کریں۔ اس وقت امور مملکت میں عوام جتنے دخیل ہیں، اس کا موازنہ ماضی سے کریں، ہم کہاں سے چلے اور کہاں پہنچے ہیں۔ البتہ آج جو ہیں اس پر قانع نہیں ہونا چاہئے، یہ ہمارے مسلمات میں سے ہے۔ اس نظام میں عوام کے مطالبات پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی تھی، کسی بھی مسئلے میں اور کسی بھی کام میں عوام کی کوئی حثیت نہيں تھی۔
سیاسی لحاظ سے وہ ایسا سیاسی نظام تھا جو پٹھو تھا۔ اس کا تعین ان پر مسلط بیرونی طاقتوں نے رسمی طور پر کیا تھا۔ ایک زمانے میں برطانیہ تھا اور پھر امریکا آ گیا۔ ایک وقت، کوئی نادر شاہ آتا ہے، اٹھتا ہے، طاقت کے ذریعے ملک کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، صحیح ہے کہ طاقت کے ذریعے حکومت کی، استبدادی تھا، لیکن جو بھی تھا خود تھا۔ گزشتہ حکومت ایسی نہيں تھی، خود برسراقتدار نہیں آئی تھی، حکام زور زبرستی کرتے تھے، مستبد تھے، ظالم تھے، عوام کے قاتل تھے، لیکن خود سے اقتدار میں نہیں آئے تھے، انہيں اقتدار میں لایا گیا تھا۔ رضا پہلوی کو بھی اور (اس کے بیٹے) محمد رضا کو بھی۔ وہ پٹھو تھے۔ ملک کے اندر ان کا طرزعمل استبدادی تھا لیکن اغیارکے حکم کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کے مطیع تھے۔ وزیر اعظم اس کو ہونا چاہئے، پیٹرولیم کا وزیر فلاں ہو، وزارت دفاع میں اسلحے کی خریداری کا انچارج وہ ہو، ان تمام امور میں وہ اغیار کے احکام پر عمل کرتے تھے۔
ثقافتی لحاظ سے مغرب والوں کی سیکنڈ ہینڈ چیزوں کے شیدائی تھے۔ یعنی مغربی ثقافت پسماندہ عناصر ان کے لئے پرکشش اور قابل ترویج تھے اور یہ ان کی ترویج کرتے بھی تھے۔
سماجی لحاظ سے طبقاتی خلیج بہت زیادہ تھی۔ امتیاز غیر معمولی تھا، عدل وانصاف بے معنی تھا، اجارہ داری سب میں رائج تھی۔ جس کا بھی دربار اور حکومت سے کوئی رابطہ تھا، وہ بہت آسانی کے ساتھ لوگوں کے اموال پر قبضہ کر لیتا تھا۔
میں 1964 میں گرگان میں مجلسیں پڑھا کرتا تھا۔ لوگ ہمارے پاس آتے تھے، باتیں بتاتے تھے۔ اگرچہ بہت مشکل تھا۔ یعنی واقعی ان باتوں کو کہنا بہت خطرناک تھا لیکن لوگ آتے تھے اور کہتے تھے۔ تہران سے ایک چھوٹا سے پرچہ ایک ریٹائرڈ افسر کو دے دیتے تھے، وہ آتا تھا، لوگوں کے کھیت میں جاتا تھا اور کہتا تھا یہ میری زمین ہے، اٹھاؤ اپنا بوریا بستر اور جاؤ یہاں سے۔ پوچھتے تھے کیوں جناب؟ تو کہتا تھا کہ یہ میری ملکیت ہے۔ یہ زمین میری ہے، باپ سے میراث ملی ہے۔ کہتے تھے یہ باتیں غلط ہیں تو ٹریکٹر اتار دیتے تھے۔ جو بھی اس کے پاس ہوتا تھا، برباد کر دیتے تھے اور اس کی جائداد پر قبضہ کر لیتے تھے۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج صیہونی حکومت کی کالونیوں کے آبادکارغرب اردن کے عوام کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح ہیں۔ جاتے ہیں، لوگوں کی جائداد اور ان کے گھر مسمار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ملکیت ہے۔ بالکل یہی کام ایران میں انجام پاتا تھا۔ میں مشہد سے جا رہا تھا، بائيں ہاتھ پر سڑک کا ایک حصہ، اب مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے کہ مشہد اور قوچان کے درمیان تھا یا قوچان اور شیروان کے درمیان تھا، دیکھا کہ کئی کلومیٹر تک سڑک کو گھیر لیا تھا، گاڑی چلی جا رہی تھی اور وہ گھیرا ختم نہیں ہوتا تھا! اب وہ گھیرا خاردار تار کا تھا یا لکڑی اور بانس کا، مجھے یاد نہیں ہے۔ اس کو دیکھ کر تعجب ہوا، پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ کہا یہ وہ زمینیں ہیں جوفلاں نے لے لی ہیں۔ ایک شخص تھا جو اس وقت مشہور تھا، میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا، بہائی تھا۔ ساواک (شاہی زمان کی خفیہ ایجنسی) کے سربراہ کا رشتہ دارتھا۔ اس نے یہاں کے عوام کی ساری زمینیں لے لی تھیں۔ وہ آتا تھا، لوگوں کو ان کے گھروں سے کھیتوں سے، اور ان کے باغوں سے نکال باہر کرتا تھا۔ یہ حالت تھی۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے لحاظ سے، دیکھئے، اس ملک میں چالیس سال سے زائد عرصے سے یونیورسٹی تھی۔ پہلوی دور میں اس یونیورسٹی سے کون سی نئی سائنسی فکر باہر آئی؟ جبکہ بہت اچھے اساتید تھے۔ اس کے بعض اساتذہ دنیا کی معروف یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے۔ پڑھے لکھے تھے، صاحب علم تھے۔ ڈاکٹر حسابی تھے، ڈاکٹر ریاضی تھے، انجنیئر بازرگان مرحوم تھے، اس طرح کے تعلیم یافتہ اور اچھے لوگ تھے۔ اساتذہ کے لحاظ سے کوئي مشکل نہیں تھی۔ لیکن اس یونیورسٹی نے کچھ کرکے نہ دیا۔ نہ کوئی سائنسی پروڈکٹ اور نہ ہی صنعت و ٹیکنالوجی میں کوئي پیشرفت۔ اس یونیورسٹی نے ملک کا نظام چلانے کے لئے بھی کوئی نئی فکر نہیں پیش کی ہے۔ اس یونیورسٹی کی علمی اور ثقافتی صورتحال یہ تھی۔ یہ اس دور کی بدیہی باتوں ميں شامل تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایران کوئی اعلی اور دقیق ٹیکنالوجی حاصل کرسکے۔ یہ بات مسلمہ تھی کہ ایرانی اعلی علمی اور سائنسی مدارج طے نہیں کرسکتے اور نہ ہی علم و سائںس کی پہلی صف میں کھڑے ہوسکتے ہین۔
قومی تشخص کے لحاظ سے ایران، ایک حکومت کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقہ بگوشوں میں شامل تھا۔ یہ اس دور کے مسلمات میں سے تھا۔ یہ حالت تھی۔ انقلاب سے پہلے ایران میں جو نظام حکومت تھا، اس کے بارے میں اس طرح کی بتیں بہت زیادہ ہیں۔ انقلاب نے اس سے جنگ کی اور اس کے خلاف وجود میں آیا۔ واقعی شرمناک صورتحال تھی۔
چالیس کے عشرے کے اوائل میں جدوجہد شروع ہوئی۔ مختلف افکار اور مختلف مکاتب کے لوگوں نے، ان میں بعض مارکسی تھے، بعض مارکسزم کے مخالف تھے، بعض اعتدال پسند مارکسی تھے اور بعض غیر مارکسی تھے۔ بعض کسی حد تک اسلامی تھے اور بعض نیشنلسٹ تھے۔ انھوں نے جدوجہد شروع کی۔ تیل کو قومیانے کی تحریک اس کا عروج تھا جو مصدق مرحوم اور کاشانی مرحوم کی پشت پناہی اور حمایت سے شروع ہوئی اور ناکام ہوگئ۔ اس قومی تحریک میں ایرانیوں کی تحقیر ہوئی۔ یعنی ایک امریکی پیسوں سے بھری ہوئی ایک اٹیچی کے ساتھ، ڈالروں سے بھری اٹیچی لے کر برطانوی سفارتخانے ميں پہنچا۔ ایک کمیٹی بنائی گئی، غنڈوں، بدمعاشوں اور چاقو بازوں اور دیگر غلط لوگوں کو جمع کیا گیا، انہیں پیسے دیے گئے اور وہ چل پڑے۔ (درحقیقت) اوباشوں اور آوارہ بدمعاشوں کے ذریعے تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ حقیقی معنی میں کوئی فوجی بغاوت بھی نہیں تھی۔ انھوں نے حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ شاہ جو بھاگ گیا تھا، واپس آ گیا۔ ایران کی اس طرح تحقیر کی گئی۔ ایک قوم کی حکومت کو اس طرح گرا دیا گیا۔ یہ واقعا جیسے ایرانیوں کی تحقیر کا اعلان کرتا تھا۔
اس کے بعد اس تحریک کی تکمیل شدہ شکل سامنے آئی اور عوام نے دینی علما کی رہبری میں جدوجہد شروع کی۔ اس کے قائد ہمارے عظیم امام (امام خمینی) اور علمائے دین تھے۔ یہ تحریک مکمل شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس میں ماضی کے سبھی تجربات سے استفادہ کیا گیا۔ اور چونکہ دین تھا، عالم دین تھا، اس لئے تحریک میں عوام کو جمع کرنے میں کامیابی ملی اور یہ تحریک ملّی قوت کو میدان میں لائی۔ جب قومی اور ملی قوت میدان میں آ گئی اور صحیح رہبری بھی تھی تو فطری طور پر پیشرفت ہوئی اور انقلاب کامیاب ہوا۔ اسلامی جمہوری نظام اقتدار میں آيا۔ یہ ہماری زمینی حقیقت ہے۔ ہم اس طرح وجود میں آئے۔ آج کی ایرانی قوم کی تاریخی شناخت یہ ہے۔
اس انقلاب کا متن جمہوریت اور اسلامیت ہے۔ جمہوریت بھی اور اسلامیت بھی۔ اس لئے امام نے اعلان کیا کہ "اسلامی جمہوریت" تقریبا سبھی عوام نے اسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ دیا۔ حتی ان لوگوں نے بھی جو اسلام کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے، لیکن انھوں نے بھی اسلامی جمہوری نظام کے حق ميں ووٹ دیا۔ اسی وقت یہ شبہات پیش کئے گئے کہ "اسلامی" اور "جمہوری" ایک دوسرے سے سازگار کیسے ہو سکتے ہیں۔ یعنی یہ شبہ کہ عوام کی حکمرانی، جمہوریت، عوام کی موجودگی اور عوام کے ووٹ، یہ اسلام کے دائرے سے سازگار نہیں ہیں، یہ شبہ ابتدائے انقلاب ميں ہی کچھ لوگوں نے پیش کر دیا۔ اس شبہے کا جواب دینے والے علمائے دین نہیں تھے بلکہ ملک کے ممتاز قانون داں حضرات تھے جنہوں نے اس شبہے کا جواب دیا۔ یہ شبہ قابل جواب ہے اور جواب بالکل واضح ہے۔ یعنی سب نے قبول کیا۔
اب اس تمہید اور اس توضیح کے بعد، میں نے عرض کیا کہ امنگیں تلاش کریں۔ میری نظر میں "اسلامی جمہوریہ" خود دوعنوانات کے تحت اپنی امنگوں کو بیان کر سکتی ہے۔
ایک عنوان ہے "اسلامی طریقے سے ملک چلانا" اور دوسرا "دنیا والوں کے لئے اچھی طرح ملک چلانے کا مثالی نمونہ" یہ دو امنگیں ہیں۔ آپ ان دو امنگوں کے لئے کوشش کریں۔ آپ ان راہوں کے بارے میں جن سے یہ دونوں باتیں پوری ہو سکتی ہیں، فکر کریں، کام کریں، طلبا کے جلسے، ان کی فکری نشستیں، ان کی تحقیقات اور انقلاب پر یقین رکھنے والے صاحبان فکر ونظر سے ان کے رابطوں کو، اس جہت میں ہونا چاہئے۔ دیکھئے اور تحقیق کیجئے۔ ان دو باتوں کی تکمیل کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سوچیں کہ اس راہ میں کیا کوشش ہونی چاہئے اور کس طرح یہ کوشش ہونی چاہئے۔
ایک اسلامی طریقے سے ملک چلانا۔ اسلامی طریقے سے ملک چلانے کے بارے میں باتیں اور بحثیں بہت زیادہ ہیں اور میں شاید اس سلسلے میں صرف چند جملے عرض کروں۔ وقت بھی نہیں ہے کہ ان باتوں کی زیادہ وضاحت پیش کروں۔ لیکن وہی ہے جو نہج البلاغہ کے بیانات میں ہے اور آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں اور اس سے واقف ہیں۔ مثال کے طور پر مالک اشتر کے نام امیر المومنین علیہ السلام کا خط ہے۔(4) اسلامی حکومت وہی علوی حکومت ہے۔ میں انقلاب سے پہلے نوجوانوں کے درمیان تقریریں کیا کرتا تھا۔ چونکہ ساواک ( شاہی حکومت کی خفیہ ایجنسی) اسلامی حکومت کے نام سے حساس تھی، اس لئے یہ اصطلاح استعمال نہیں کیا کرتا تھا، بلکہ حکومت علوی کہا کرتا تھا۔ وہ نہیں سمجھتے تھے کہ حکومت علوی کا مطلب کیا ہے۔ حکومت علوی یعنی حکومت اسلامی۔ ملک کو اسلامی طریقے سے چلانے کا مطلب یہ ہے کہ مادی اور دینی دونوں لحاظ سے بغیر کسی وقفے اور پسپائی کے، پیشرفت کے راستے پر آگے بڑھتے رہيں۔ جب ہم مادی لحاظ سے پیشرفت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب لوگوں کی آسایش اور ان کی جسمانی و اخلاقی سلامتی اور انصاف ہے۔ عدل کا مطلب کیا ہے ؟ لوگ انصاف کے بارے میں اظہار رائے کرتے ہیں۔ انصاف کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انصاف یعنی عمومی سہولیات سے استفادے میں طبقاتی فاصلے کی نفی۔ سبھی سہولتوں تک عوام کو مساوی دسترسی حاصل ہو۔ مواقع اور سہولتوں سے استفادے میں امتیاز ظلم ہے۔ خلاف عدل ہے۔ اگر آپ نے کسی کے بارے میں کچھ کہا ہے، اس کو سوشل میڈیا پر بھی نشر کر دیا ہے، اس کو کسی بھی وجہ سے آپ کی باتوں کا جواب دینے کا موقع نہیں ملتا ہے تو یہ انصاف کے خلاف ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے۔ عزت و آبرو کے مسائل میں، کام کے مسائل میں، کام اور روزگارکے مسائل میں حیثیت عرفی اور دیگر امور میں انصاف کا خیال رکھنا چاہئے۔ علمی پیشرفت میں، حفظان صحت کی سہولتوں میں آبادی کو جوان رکھنے میں، انواع واقسام کی تعمیرنو اور ایجادات میں انصاف ہونا چاہئے۔ ہم جب ملک کو اسلامی طریقے سے چلانے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری باتیں پوری ہوں۔
ان میں سے ہر ایک خود ایک باب ہے جس پر فکر کی جا سکتی ہے۔ سوچا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر باب کو فکر کے ساتھ آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نظریہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ میں لفظ "آئیڈیا" کا استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ میری مراد اسی آئیڈيا کے معنی میں ہے۔ پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ یونیورسٹی طلبا سے، صرف طلبا تنظیموں سے ہی نہیں بلکہ یونیورسٹی طلبا کی پوری جماعت سے یہ توقع ہے۔
دینی پہلو بھی اسی طرح ہے۔ اخلاق، دینداری، تعاون، اسلامی طرز زندگی، ایثار اور مجاہدت وغیرہ۔ ان کے بارے میں بھی فکر کرنے، نظریہ سازی اور پلاننگ کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب تک اس پر کام نہیں ہوا ہے۔ بہت کام ہوا ہے، لیکن سبھی افکار و نظریات اور سبھی پروگراموں کو و از سر نو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے آپ کا انتھک کام ضروری ہے۔ البتہ اسی کے ساتھ یونیورسٹی طلبا کی جماعت کی اپنی فکریں بھی ہیں، ان کے اپنے مطالبات بھی ہیں، ان کی اپنی تنقیدیں بھی ہیں، یہ سب ہے لیکن اس کام کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
دنیا کے سامنے نمونہ عمل پیش کرنے کے لئے، ہم جب دنیا اور عالمی معاشرے کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو بعض لوگ مسکراتے ہیں کہ "حیرت ہے دنیا کو آباد چاہتے ہیں!" ہاں اس میں حرج کیا ہے؟ اگر کوئی معاشرہ یہ بیڑا اٹھاتا ہے، اس کے اندر یہ توانائی بھی ہو کہ دنیا پر اثرانداز ہو سکے، دنیا کو اصلاح کی طرف لے جا سکے تو اس میں حرج کیا ہے؟ یہ دنیا کے عوام کی خیر خواہی ہے۔ امیر المومنین (علیہ السلام) نے فرمایا ہے کہ "فانھم صنفان"۔ یہ عوام دو طرح کے ہیں۔ "امّا اخ لک فی الدین و اما نظیر لک فی الخلق" (5) ان میں سے بعض آپ کے ہم مذہب ہیں، آپ کا اور ان کا دین ایک ہے، آپ کے بھائی ہیں، بعض آپ کے بھائی نہیں ہیں لیکن انسان تو ہیں، بشر تو ہیں، آپ کو ان کا بھی خیر خواہ ہونا چاہئے، ان کے بارے میں بھی فکر کریں۔ اس میں کیا حرج ہے؟
نمونہ عمل پیش کرنا، یہ کام بھی کسی حد تک انجام دیا گیا ہے۔ یہ میں آپ سے یقین کے ساتھ عرض کر سکتا ہوں: ہر چند کہ بعض امور میں کام کم ہوا ہے، ہم پیچھے رہ گئے ہیں، لیکن اس شعبے میں ہم نے حتمی پیشرفت کی ہے۔ کچھ کام ہوئے ہیں، آج آپ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ نوجوان یونیورسٹی طلبا کو معلوم ہونا چاہئے کہ علاقے اور دنیا کے ایسے بہت سے حوادث جن سے آپ وجد میں آ جاتے ہیں اور ان پر افتخار کرتے ہیں، آپ کے ملک سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کے معاشرے اور سماج اور آپ کے انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی طلبا کے بارے میں، میں نے کچھ اور باتیں بھی نوٹ کی تھیں لیکن اب وقت نہيں ہے۔ کچھ باتیں یونیورسٹی کے بارے میں بھی کہنی ہیں۔
دیکھئے یونیورسٹی کے بارے میں، یقینا محترم وزیر بھی یہاں تشریف رکھتے ہیں، یونیورسٹیوں کے ذمہ داران بھی یہاں موجود ہیں، میرا خطاب ان سے ہے۔ اگر یونیورسٹی کی تعریف کریں تو یونیورسٹی کی تعریف کا اصلی رکن علم ہے، دانش ہے۔ البتہ یونیورسٹی کی تعریف میں سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی بعض عناصر شامل ہوتے ہیں لیکن اہم علم ہے۔ یونیورسٹی کے تین بنیادی فرائض ہوتے ہیں۔ میں گزارش کروں گا کہ یونیورسٹی کے ذمہ دار رفقا توجہ کریں! آپ طلبا بھی توجہ کریں! یونیورسٹی کے تین بنیادی فرائض ہیں۔ اول صاحب علم تیار کرنا، دوم علم کی پیداوار اور سوم عالم کی تیاری اور علم کی پیداوار کو جہت دینا۔ یہ ہے۔ اب دنیا کی یونیورسٹیاں، صاحبان علم تیار کرتی ہیں، علم کی پیداوار کا کام بھی کرتی ہیں، لیکن تیسرے فریضے میں کچھ نہیں کر رہی ہیں، نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علم کی پیداوار اور صاحبان علم جو تیار ہوتے ہیں، وہ صیہونی اور سامراجی طاقتوں کے اختیار میں چلے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے سبھی ارکان ان تین نقاط پر توجہ دیں۔ منتظمین، اساتید، طلبا، نصاب کے متن، تعلیمی عمل، ان سب کو انہیں تین جہتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں ملک کے علمی خزانے میں اضافہ کرنا اور علمی لحاظ سے ملک کو غنی بنانا ہے۔ آج دنیا میں ایران اسلامی کے اعتبار کا اہم حصہ کہاں سے حاصل ہوتا ہے؟ یونیورسٹیوں سے، تحقیقاتی مراکز سے اور علم سے۔ علمی لحاظ سے ہم نے پیشرفت کی ہے۔ علم کے نتیجے کے لحاظ سے جو ٹیکنالوجی ہے، پیشرفت کی ہے، دنیا میں ہمارے اعتبار کا اہم حصہ اسی سے مربوط ہے۔ اس کو نگاہ میں رکھیں اور محفوظ رکھیں۔ لیکن سامراجی طاقتیں ہمارے لئے ایسی یونیورسٹی کو پسند نہیں کرتیں۔ میں نے یونیورسٹی کے بارے میں کئی صفحے لکھے ہیں، لیکن اب وقت نہیں ہے، اذان کا وقت قریب ہے۔
طلبا تنظیوں کے تعلق سے، آپ سب کا تعلق تنظیموں سے ہے۔ تنظیموں سے ہماری توقع بہت زیادہ ہے۔ جتنی توقع آپ نے یہاں، حکومت، نظام اور اس بندہ ناچیز سے بیان کی ہیں، اس کی کئی گنا توقع مجھے آپ سے ہے۔ تنظیموں سے توقع بہت زیادہ ہے۔ پہلی توقع یہ ہے کہ یونیورسٹی طلبا کے ماحول میں آپ کا اثر ہونا چاہئے۔ یہ اثر نظر نہیں آتا۔ کم نظرآتا ہے۔ آپ تنظیم ہیں، پہلے درجے میں، طلبا تنظیموں کی نگاہ یونیورسٹی کے اندر کے ماحول پر ہونی چاہئے۔ آپ کی پہلے درجے کی نگاہ یونیورسٹی سے باہر کے ماحول پر ہے۔ یونیورسٹی سے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، فکر مند ہوں، تنقید کریں، اعتراض کریں، راہ حل پیش کریں، یہ بہت اچھی باتیں ہیں، لیکن اس سے بہتر، اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ یونیورسٹی کے اندر کے ماحول پر نظر رکھیں۔ یونیورسٹی پر کام کریں۔ ہماری تنظیمیں یونیورسٹیوں پر کم کام کرتی ہیں۔ واقعی یہ کمی ہے۔ یونیورسٹی کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ کلاس میں کیا ہو رہا ہے؟ تھیسس میں کیا لکھا جا رہا ہے؟ کچھ لوگ آج ایران کی اسلامی یونیورسٹی میں، ملک کی یونیورسٹیوں میں، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایرانی طلبا، مغرب کی پیروی میں اپنی شناخت بنائيں! آج یہ کوشش ہو رہی ہے۔ مجھے خبریں ملتی ہیں۔ معتبر اور قابل یقین خبریں ملتی ہیں کہ کلاس کے اندر، کلاس سے باہر کوشش ہو رہی ہے کہ طالب علم اس جہت میں آگے بڑھے۔ اس کا مقابلہ کس کو کرنا چاہئے؟ سیکورٹی فورس کو؟ آپ کو اس معاملے میں فعال ہونا چاہئے۔ آپ کو چاہئے کہ یہ نہ ہونے دیں۔ کچھ لوگ ہیں، مجھے یونیورسٹی میں معلوم ہوا تھا کہ کلاس میں ایک استاد نے، کلاس کے اندر، ملک کی تقسیم کا دفاع کیا! اس چیز کا جو انقلاب کے مخالفین کو بھی منظور نہیں ہے۔ ملک کی تقسیم، ایک استاد نے ایک ایسے بیان کا دفاع کیا! میں نے اسی وقت یونیورسٹی کے سربراہ کو اس پر نصیحت کی۔ لیکن اس زمانے میں صحیح کام نہیں ہوا۔ یہ آپ کا کام ہے۔
فکری اور نظریاتی پشت پناہ کی حیثیت سے خود کو مضبوط کریں۔ یہ ضروری ہے۔ اگر ںظریاتی لحاظ سے اپنی تقویت نہ کی، اپنی تنظیموں کی تقویت نہ کی تو ان کے کام میں خرابیان آئيں گی۔ صرف یہی نہیں کہ انقلابی فکر کو پھیلا نہیں سکیں گی بلکہ خود بھی ممکن ہے کہ تحلیل ہو جائیں۔ چنانچہ بعض معاملات میں یہ ہوا ہے۔ اسلام کے نام پر فکر اسلامی کے خلاف کام ہوتا ہے۔ بولا جاتا ہے، اعلامئے جاری کئے جاتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے کام۔
ایک توقع یہ ہے: تنقیدی نگاہ رکھیں لیکن ملک کی ترقی و پیشرفت کے تعلق سے افتخار آمیز سربلندی کی نگاہ بھی رکھیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ملک کے مختلف میدانوں میں کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ طلبا تنظیموں کے بیانات میں ان کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟ ہاں ٹھیک ہے بیشک تنقید کریں لیکن افتخار بھی کریں، سربلند رکھیں کہ ملک کے مختلف شعبوں میں اہم کام کئے گئے، اچھے کام کئے گئے ہیں۔
بہرحال طلبا تنظیمیں ملک کے لئے بہت اہم ہیں۔ میں طلبا تنظیموں کو آپ سب کو بڑی غنیمت سمجھتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ نظریاتی اختلاف بھی رکھتے ہیں، طرزعمل کا اختلاف بھی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن فکری اختلاف لڑائی اور گریبان پکڑنے سے الگ ہے۔ جو بات میں نے آغاز سال پر کہی ہے (6)، اس کی تکرار بھی کی، ایک بار پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں، اور اس سے منع کرتا ہوں، وہ لڑائی ہے۔ نظریاتی اختلاف لڑائی پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیں۔ اختلاف ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن طلبا تنظیموں کا وجود یونیورسٹی کے لئے بڑی غنیمت ہے۔ میرے خیال میں شاید اذان کے وقت کو دو تین منٹ گزر گئے۔ بہت اچھی میٹنگ تھی۔
پالنے والے! محمد وآل محمد کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہمارے ان نوجوانوں کو اچھے اور شیریں مستقبل میں اسلام کے عظیم مجاہدین میں قرار دے۔ انہیں اس راہ میں ثابت قدم رکھ
پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ، ایرانی قوم کو حقیقی معنی میں، ہمارے ان عزیز نوجوانوں کی جماعت سے مملو کر دے۔
پالنے والے! ہم سب کے قلوب کو بالخصوص ان نوجوانوں کے قلوب کو اپنی نورانیت میں محفوظ رکھ۔ حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما، شہیدوں کی ارواح پاک کو ہم سے راضی کر، ہمارے امام بزرگوار کی روح مطہر کو ہم سے راضی فرما۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ 27 رمضان المبارک کو انجام پانے والی اس ملاقات میں، طلبا تنظیموں کے 6 نمائندوں نے اپنے نظریات بیان کئے، تنقیدیں کیں اور تجاویز پیش کیں۔
2۔ سورہ اسراء آیت نمبر 36 "۔۔۔۔۔ یقینا، کان آنکھ اور قلب سب سے سوال کیا جائے گا"
3۔ ایک مقرر کی باتوں کی طرف اشارہ ہے
4۔ نہج البلاغہ، خط نمبر 53
5۔ نہج البلاغہ خط نمبر 53
6۔ 20 مارچ 2024 کو نئے سال کے آغاز پر عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب۔