اس موقع پر انھوں نے اپنے خطاب میں بعض مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے اہم سفارشیں کیں۔ انھوں نے مغرب کا سامنا کرنے میں ایرانی جوانوں کے دو مختلف تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلا تجربہ اپنے آپ کو کھو دینے پر منتج ہوا لیکن دوسرے تجربے میں، جس کے راستے پر ملک کے موجودہ اسٹوڈنٹس گامزن ہیں، مغرب کے حقائق کو پہچانا گيا، خود مختاری کی راہ اختیار کی گئی اور مغربی تمدن کے مسائل سے دوری اختیار کی گئي۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیاری اور ایران کے لیے خط بھیجنے کے امریکی صدر کے بیان کی طرف اشارہ کیا اور اسے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ خط ابھی مجھ تک نہیں پہنچا ہے لیکن امریکا یہ جھوٹ پھیلانا چاہتا ہے کہ ایران، ہمارے برخلاف مذاکرات نہیں چاہتا جبکہ اسی شخص نے جو یہ باتیں کر رہا ہے، امریکا کے ساتھ ہمارے مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کو پھاڑ دیا تھا۔ اب کس طرح اس سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ نتائج پر عمل نہیں کرے گا؟

انھوں نے کہا کہ مذاکرات میں شروع سے ہمارا ہدف پابندیاں ختم کرانا تھا اور بحمد اللہ طویل عرصے تک جاری رہنے کی وجہ سے پابندیوں کا اثر بتدریج کم ہو رہا ہے اور بعض امریکیوں کا بھی کہنا ہے کہ اگر پابندیاں زیادہ عرصے تک جاری رہیں تو وہ اپنا اثر کھو دیتی ہیں اور پابندی جھیلنے والا ملک، پابندیوں کو ناکام بنانے کا راستہ تلاش کر لیتا ہے اور ہم نے بھی مختلف راستے تلاش کر لیے ہیں۔

آيت اللہ خامنہ ای نے امریکیوں کی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار نہیں بنانے دیں گے، کہا کہ اگر ہم ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے تو امریکا ہمیں روک نہیں سکتا تھا۔ اگر ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اور ہم ایٹمی ہتھیاروں کے درپے نہیں ہیں تو یہ ان وجوہات کی بنا پر ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔

انھوں نے فوجی حملے کی امریکی دھمکی کو غیر دانشمندانہ بتایا اور زور دے کر کہا کہ چوٹ پہنچانے اور جنگ شروع کرنے کی دھمکی کوئي یکطرفہ مسئلہ نہیں ہے اور ایران جوابی چوٹ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے اور قطعی طور پر یہ کام کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ اگر امریکا اور اس کے ایجنٹوں نے کوئي حماقت کی تو خود انھیں زیادہ نقصان ہوگا۔ البتہ ہم جنگ نہیں چاہتے کیونکہ جنگ اچھی چیز نہیں ہے لیکن اگر کسی نے کارروائي کی تو ہم یقینی طور پر دنداں شکن جواب دیں گے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو زوال کی راہ پر گامزن بتایا اور کہا کہ معاشی، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، سماجی مسائل اور دوسرے میدانوں میں امریکا کمزور ہوتا جا رہا ہے اور اب اس کے پاس بیس تیس سال پہلے والی طاقت نہیں رہ جائے گي۔

انھوں نے اسی طرح کہا کہ امریکا کی اس موجودہ حکومت سے مذاکرات سے نہ صرف یہ کہ پابندیاں ختم نہیں ہوں گی بلکہ پابندیوں کی گرہ مزید پیچیدہ ہو جائے گی، دباؤ میں اضافہ ہوگا اور نئے بے جا مطالبات سامنے آنے لگیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں فلسطین اور لبنان کی مزاحمت کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور پرجوش بتایا اور کہا کہ دشمن کی توقع کے برخلاف نہ تو فلسطین کی مزاحمت اور نہ ہی لبنان کی مزاحمت کا خاتمہ ہوا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور پرجوش ہو گئي ہے۔ ان شہادتوں سے انھیں انسانی لحاظ سے نقصان پہنچا ہے لیکن جوش و جذبے کے لحاظ سے وہ زیادہ مضبوط ہو گئي ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سید حسن نصر اللہ جیسی شخصیت ان لوگوں کے درمیان سے چلی جاتی ہے لیکن ان کی شہادت کے فورا بعد حزب اللہ، صیہونی حکومت کے خلاف ایسی کارروائیاں کرتی ہے جو اس کی پچھلی کارروائيوں سے زیادہ مضبوط ہے۔

انھوں نے فلسطین کی مزاحمت کے بارے میں بھی کہا کہ فلسطینی مزاحمت میں شہید ہنیہ، شہید سنوار اور شہید محمد الضیف جیسے لوگ ان کے درمیان سے چلے جاتے ہیں لیکن فلسطین کی مزاحمت، صیہونی حکومت، اس کے حامیوں اور امریکا کے اصرار پر ہونے والے مذاکرات میں، اپنی شرطیں، فریق مقابل پر مسلط کر دیتی ہے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مزاحمتی محاذ کی حمایت جاری رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران کی حکومت اور صدر مملکت سمیت تمام ایرانی حکومت اس بات پر متفق ہیں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کی حمایت کرتے رہیں اور ایرانی قوم ان شاء اللہ مستقبل میں بھی ماضی کی طرح ہی منہ زوریوں کے مقابل میں مزاحمت کا پرچم اٹھائے رہے گي۔

انھوں نے گزشتہ سال کے مختلف واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال ان دنوں شہید رئیسی، شہید حسن نصر اللہ، شہید ہنیہ، شہید سنوار، شہید ضیف اور دوسری کئي نمایاں اور انقلابی شخصیات ہمارے درمیان تھیں لیکن اب نہیں ہیں اور اسی وجہ سے دشمن سوچ رہا ہے کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں لیکن میں پورے اطمینان کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگرچہ ان انتہائي گرانقدر برادران کا فقدان ہمارے لیے نقصان ہے لیکن بہت سے امور میں گزشتہ سال کی نسبت ہم زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔

رہبر انقلاب نے امریکی صدر نکسن کے دورۂ تہران کے خلاف تہران یونیورسٹی میں 6 دسمبر کے قیام جیسے امریکا کے خلاف ایرانی اسٹوڈنٹس کی تحریکوں کے آغاز اور اس میں حکومت کے ہاتھوں تین اسٹوڈنٹس کے جاں بحق ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس واقعے کو مغرب کا باطن آشکار ہونے کا ایک اثر بتایا۔

انھوں نے اسلامی انقلاب کے خلاف عالمی بدمعاشوں کے سازشیں نہ چھوڑنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم، یعنی پوری دنیا کو ہمارے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینا چاہیے اور اس مفاد پرستی کو آج سبھی دیکھ رہے ہیں اور آج ایران اسلامی وہ واحد ملک ہے جس نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے مفادات پر دوسروں کے مفادات کو ترجیح نہیں دے گا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی کوششوں خاص طور پر مواصلات کے نئے طریقوں کے استعمال کا مقصد ایران پر مغرب کے تسلط کو بحال کرنا اور ایران کے جوان اسٹوڈنٹس میں انقلاب سے پہلے کی پسپائي اور انحصار والی صورتحال کو لوٹانا بتایا۔