بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

بہت اچھا جلسہ رہا۔ ہمارے عزیز نوجوانوں کے بیانات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتے ہیں کہ یونیورسٹی طلبا کی فکر، تبصرے وتجزیے اور نتیجہ اخذ کرنے کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اس سال جو باتیں سنی ہیں ان کی سطح گزشتہ برس سے بالاتر ہے۔ یہ بات بذات خود امید افزا اور نوید بخش ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے نوجوان اور یونیورسٹی طلبا آگے بڑھ رہے ہیں، پیشرفت کر رہے ہیں۔ بعض اوقات ہم آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن اپنی پیشرفت پر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ اس وقت ایسا ہی ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت یونیورسٹی طلبا میں جو فکر ہے وہ  زیادہ پختہ اور جامع ہو رہی ہے، پیشرفت کر رہی ہے۔
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں جو کچھ کہا گیا ہے میں ان سب سے میں اتفاق کرتا ہوں۔ ممکن ہے کہ بعض باتیں مجھے قبول نہ ہوں۔ مثال کے طور پر ایک صاحب نے کہا کہ جو اقتدار میں ہیں، صاحب اختیار ہیں، جیسے سیکورٹی اور فوجی عہدوں پر ہیں، حساس منصبوں پر، صیہونی حکومت کے مقابلے میں اپنے فریضے پر عمل نہیں کرتے اور  صرف بیان جاری کرتے ہیں! یہ صحیح نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے، وہ لوگ جنہيں کام کرنا ہوتا ہے، انھوں نے اپنے وقت پر کام انجام دیے ہیں۔ اگر وہ کام جس کی آپ کو توقع ہے کہ انجام پائے، انجام نہیں پاتا ہے تو تحقیق کریں۔ البتہ بعض مواقع پر قابل تحقیق نہیں ہے، اس لئے کہ  ان میں سے بہت مسائل خفیہ ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ نہیں ایسا نہیں ہے، بلکہ قابل توجیہ ہے۔ یعنی جو کام کیا گیا یا جو کام نہیں کیا گیا، اس کا ٹھوس منطقی جواز ہے۔
نوجوانوں کے بارے میں کہا ہے کہ میں نوجوانوں پر اعتماد کرنے سے منصرف ہو گیا ہوں، نہیں ایسا نہيں ہے، میری امید صرف آپ نوجوانوں سے ہے۔ میں نوجوانوں پر بھروسہ کئے جانے پر یقین رکھتا ہوں، لیکن بہت سی شرائط ہیں اور ان شرائط پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ میں آج کی گفتگو میں اس طرف اشارہ کروں۔ بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے موقف پر پائیداری کے ساتھ باقی رہیں۔ استقامت دکھائيں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ایک تجزیہ کریں، فیصلہ کریں، جو انقلابی ہو، صحیح ہو، قابل قبول ہو، بعد میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ اور تردد سے اس بنیاد سے منصرف ہو جائيں اور لاتعلق ہو جائيں۔ خیال رکھیں کہ اس جذبے، اس احساس، اس جوش و خروش اور اس تجزیے کو باقی رکھیں۔ 
میں محترم حکام، اعلی تعلیم کی وزارت اور وزارت صحت سے درخواست کرتا ہوں ان باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ ان برادران و خواہران کی وہ تحریریں جن میں ان کی شکایات ہیں، ان سے لیں، پڑھیں، توجہ دیں اور ان پر اقدام کریں۔ ایک بات ان کی بالکل صحیح ہے۔ جہاں تک ہم سے متعلق ہے، ہم یقینا اس پر غور کریں گے۔

آج میں نے اپنی تقریر کو تین حصوں میں تقسیم  کیا ہے جنہیں عرض کروں گا۔ چند جملے رمضان اور روزے  سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ باتوں کا تعلق طلبا سے ہے، آپ کے مسئلے سے ہے اور کچھ باتیں ملک کے موجودہ سیاسی مسائل سے متعلق ہیں جو زبانوں پر ہیں، چند جملے ان کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔
البتہ یہ عرض کر دوں کہ گزشتہ برس جب یہ جلسہ تشکیل پایا تھا، اس وقت سے اس سال تک گوناگوں حوادث رونما ہوئے۔ سال گزشتہ صورتحال مختلف تھی۔ گزشتہ برس آج کی طرح یونیورسٹی طلبا کے ساتھ جلسہ تشکیل پایا تو شہید رئیسی زندہ تھے، شہید سید حسن نصراللہ (رضوان اللہ علیہ) ہمارے پاس تھے، شہید ہنیہ شہید، صفی الدین، شہید سنوار، شہید ضیف اور چند دیگر ممتاز انقلابی ہستیاں ہمارے درمیان اور ہمارے پاس تھیں، جو اس سال نہیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے  دشمنوں، مخالفین اور حریفوں کے ناقص اور بے بنیاد نقطہ نگاہ میں اس حادثے سے غلط نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ میں ان کی باتوں کے برعکس، پورے اطمینان سے آپ سے یہ کہنا چاہتوں کہ یہ صحیح ہے کہ یہ برادران بہت اہم تھے، واقعی ان کا نہ ہونا ہمارے لئے نقصان ہے۔ اس میں شک نہیں، لیکن اگرچہ اس سال وہ نہیں ہیں لیکن گزشتہ برس کے آج کے دن کے مقابلے میں بعض مسائل میں ہم گزشتہ برس سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اور بعض مسائل ميں اگر قوی نہیں ہوئے ہیں تو کمزور بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اس سال الحمد للہ مختلف لحاظ سے، مختلف پہلوؤں سے ہمارے اندر وہ طاقت اور توانائی ہے جو گزشتہ سال نہیں تھی۔  بنابریں اگرچہ ان عزیزوں کا فقدان نقصان ہے، مغربی ایشیا کے علاقے میں جو حوادث رونما ہوئے وہ تلخ اور دردناک ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے الحمد للہ  رشد اور پیشرفت کی ہے اور اس کی طاقت و توانائی میں اضافہ ہوا ہے۔
ہجرت کے تیسرے سال پیغمبر اکرم نے  حمزہ جیسی ہستی کو کھو دیا۔ جنگ احد میں حمزہ پیغمبر کے پاس سے چلے گئے ( شہید ہو گئے) صرف حمزہ ہی نہیں تھے،  حمزہ ان میں ممتاز ترین تھے، ورنہ رسول کے بہت سے اصحاب اور دلیر ہستیاں چلی گئيں۔ یہ ہجرت کے تیسرے سال ہوا۔ چوتھی اور پانچویں ہجری میں پیغمبر تیسری ہجری سے زیادہ طاقتور تھے۔ یعنی ممتاز ہستیوں کا فقدان، پسپا ہو جانا، پیچھے چلے جانا اور کمزور ہو جانا نہیں ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ دو عوامل موجود ہوں۔ ایک امنگ اور دوسرا سعی و کوشش۔ اگر قوم میں یہ دو عوامل ہوں تو شخصیات کے ہونے اور نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ شخصیات کا فقدان نقصان ہے لیکن اس سے آگے بڑھنے  کا عمل متاثر نہیں ہوتا۔
چند باتیں رمضا ن المبارک سے متعلق۔ خداوند عالم فرماتا ہے: یا اَیّھَا الَّذینَ آمَنوا کُتِبَ عَلَیکُمُ الصّیامُ کَما کُتِبَ عَلَى الَّذینَ مِن قَبلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقون‌ (2) اس  آیہ کریمہ کے مطابق روزہ کا مقصد تقوا ہے۔ تقوا کیا ہے؟ تقوا کا مادہ 'وقایہ' ہے۔ وقایہ یعنی حفاظت۔ تقوا یعنی وسیلہ حفاظت، محفوظ رہنے کا وسیلہ، یہ تقوا تحفظ پیدا کرتا ہے۔ تقوا انسان کو محفوظ کر دیتا ہے۔ کس چیز سے؟ برائیوں سے، وسوسوں سے، غلط خیالات سے، بدخواہیوں سے، خیانتوں سے،  گناہوں سے، شہوت پرستی سے، فرائض سے غافل ہونے سے، ترک واجبات سے۔ تقوا یہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ روزہ آپ کے اندر ایسی ہی ایک حالت، اس حالت جیسی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ آپ کو بھوک لگی ہے، کھانا بھی موجود ہے، پیاس لگی ہے، پانی موجود ہے، لیکن آپ کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں، یعنی خود کو روکتے ہیں۔ یہ وہی تقوا ہے، لیکن یہ حالت آپ کے اندر دن کے چند گھنٹے اور چند محدود معاملات میں رہتی ہے۔ یہ حالت  اگر زندگی میں عام ہو جائے تو ہم اور آپ متقی ہو جائیں گے۔

قرآن میں تقوا کے آثار کا ذکر زیادہ ہے لیکن میں ان میں سے دو کی طرف اشارہ کروں گا پہلا یہ ہے کہ وَ مَن یَتَّقِ اللہ َ یَجعَل لہ مَخرَجاً * وَ یَرزُقہُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب‌۔(3 ) اگر تقوا حاصل ہو جائے تو تقوا سے گرہ یعنی راستے کھلتے ہیں۔ تقوا سے دنیوی مشکلات دور ہوتی ہے، دنیاوی مسائل کے حل کے راستے کھلتے ہیں۔ اقتصادی میدان میں بھی تقوا کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، سیکورٹی کے مسائل میں تقوا کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تقوا ایسی چیز ہے۔ جو معاشرہ متقی ہو یجعل لہ مخرجا۔ یہ تقوا اس کے راستے کھولتا ہے ۔ دوسرے ھدىً لِلمُتَّقین‌‌ ہے( 4) قرآن صاحبان تقوا کے لئے کتاب ہدایت ہے۔ ہدایت الہی معمولی چیز نہیں ہے۔ ہدایت الہی اہم ترین چیز ہے۔ ہم نجات، فلاح اور سعادت ہی تک تو پہنچنا چاہتے ہیں؟ وہ ایک ہدف ہے اور ہم اس ہدف تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہدف تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ہماری رہنمائی کرے، ہماری مدد کرے۔ وہ خدا ہے۔ خدا دستگیری کرتا ہے۔ کب؟  جب ہم تقوا کا خیال رکھیں۔ بنابریں روزے کو اس بات کا وسیلہ قرار دیں کہ ہمارے اندر تقوا پیدا ہو اور اس کی تقویت ہو۔ یہ بنیادی کام ہے۔  آج ہمیں ان دونوں نتائج کی ضرورت ہے، راستے کھلنے کی بھی اور ہدایت کی بھی۔ ہمیں مشکلات کے حل کی بھی ضرورت ہےاور ہدایت الہی کی بھی۔  
تقوا کیسے حاصل کریں؟ اس سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا ہے، راہ حل بتائی گئی ہے، میں ایک جملے میں  جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تقوا ہمارے اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے لئے ہمارا اور آپ کا عزم و ارادہ ضروری ہے۔ ہم اس کا ارادہ کریں۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) اخلاقی موضوع پر اپنی ایک کتاب میں، شاید چالیس احادیث یا اسرار الصلاۃ میں، اس قاری کو جو راہ توحید پر چلنا چاہتا ہے، راہ توحید کا سالک بننا چاہتا ہے، مخاطب کرکے، کہتے ہیں کہ "دلیرانہ فیصلہ کرو، ٹھوس فیصلہ کرو" (5) آپ کے فیصلے سے، آپ کی توجہ سے اور آپ کی نگرانی سے تقوا حاصل ہوگا۔ وہ نوجوان جو کسی پرکشش واقعے میں اپنے آپ کو حرام سے بچاتا ہے، اس کا یہ کام اس کے اندر تقوا کی طاقت پیدا کرتا ہے اور اس کی تقویت کرتا ہے، اس کے اندر محفوظ رہنے کی حالت وجود میں لاتا ہے اور اس کے محفوظ رہنے کی قوت بڑھاتا ہے۔ یہ رمضان کے تعلق سے چند جملے تھے۔

اب کچھ باتیں یونیورسٹی طلبا کے بارے میں۔ یونیورسٹی طلبا کے مسائل اور اس امید  کے بارے میں جو یونیورسٹیوں پر اعتماد رکھنے والوں کے دلوں میں، طلبا کی تحریک کے حوالے سے پائی جاتی ہے، آپ نے جو باتیں کہی ہیں، بالکل صحیح ہیں۔ میں بھی ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ میں اختصار کے ساتھ کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ البتہ اگر ان شاء اللہ آج اختصار کے ساتھ بیان کر سکا تو۔ یہاں کچھ باتیں میں نے نوٹ کر رکھی ہیں، انہیں بیان کروں گا، وہ بھی یہی طلبا کے تشخص کا مسئلہ ہے۔  دیکھئے ان صدیوں کے دوران جب مغربی تمدن ہمارے ملک میں آیا، ہم سے اس نے رابطہ قائم کیا اور مغرب والوں اور ان کے تمدن سے ہمارا سروکار ہوا تو ایرانی نوجوانوں کو مغربی تہذیب کے حوالے سے دو متضاد تجربات ہوئے۔ ایک اس کا پہلا تجربہ ہے جس کا نتیجہ، فریفتگی اور خود کو فراموش کر دینا ہے اور دوسرا تجربہ، اس کے بعد کا تجربہ ہے جس کا نتیجہ شناخت، انتخابی طرزعمل اور جذبہ خود مختاری ہے اور بعض مواقع پر مکمل طور پر علاحدگی اور دوری کا احساس ہے۔ ان دونوں ردعمل کی میں مختصر وضاحت کروں گا۔ 

پہلے ردعمل میں، پہلی بار سامنا ہونے پر، جب  مغرب والوں، مغربی عناصر اور بعض مغربی نمونوں سے ہمارا سروکار ہوا تو ایرانی نوجوان، بحث نوجوانوں کی ہے، میں نوجوانوں کے بارے میں گفتگو کر رہا ہوں، دیگر طبقات کا احساس بھی تقریبا نوجوانوں کے احساس جیسا ہی ہے، لیکن اس وقت  میں نوجوانوں کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، جب پہلی بار مغربی تمدن کا سامنا ہوا تو ایک مفروضہ ان کے اندر وجود میں آیا اور وہ یہ تھا کہ "مغرب ترقی یافتہ ہے اور ایران پسماندہ اور کمزور ہے"، "مغرب کامیاب اور ایران ناکام ہے" یہ بات ان کے ذہن ميں آئی۔ جب ایرانی نوجوانون نے مغرب کی ترقیات، مغرب کے علم اور مغرب کی ٹیکنالوجی وغیرہ کا مشاہدہ کیا تو ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ پسماندہ ہیں، پچھڑے ہیں، کمزور ہیں۔ وہ ترقی یافتہ ہے اس لئے اس کے پیچھے چلنا چاہئے اور اس کی پیروی کرنا چاہئے۔ 

 حقیقت بھی یہی تھی، یعنی سو سال پہلے ایران واقعی مغرب سے بہت پیچھے تھا۔ اس کی وجوہات اور علل و اسباب تفصیلی ہیں اور ہماری آج کی گفتگو میں ان کی جگہ نہيں ہے۔ لیکن بہرحال یہ حقیقت تھی۔ لیکن ایک اہم نکتہ یہاں پایا جاتا ہے۔ اگر آپ مقابل فریق کو دیکھیں، مثال کے طور پر مغرب پر آپ نے نظر ڈالی، اس کے طاقتور پہلووں کو دیکھا اور ان پہلووں نے آپ کو اپنی کمزوری کی طرف متوجہ کیا اور آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا تو یہ اچھی بات ہے۔ انسان دیکھے کہ انھوں نے کیا کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ فرض کریں کہ انھوں نے سائنس میں  ترقی کی، ہمیں بھی سائنس کے میدان ترقی کرنا چاہئے۔ اگر یہ ہو تو اچھی بات ہے۔ لیکن یہ نہیں ہوا۔ مغرب کو اس حیثیت سے دیکھا گیا کہ وہ کامیاب ہے، اس کی قوت کے پہلو اس بات کا باعث بنے کہ ہم اپنی قوت کی باتیں فراموش کر بیٹھے! ہمارے اندر بھی قوت کے نقاط تھے۔ ایرانی قوم میں قوت کے پہلو بھی تھے۔ اس کے اندر ایمان تھا، خلوص تھا، خاندان تھا، وفا تھی، حیا تھی، یہ ہماری قوت کی باتیں ہیں۔ ہم ان کی طرف سے غافل ہو گئے۔ اس دور کے نوجوانوں نے قوت کے ان پہلووں کی طرف سے غفلت کی ۔ خود کو بھلا دیا۔ ملک میں کچھ لوگ ظاہر ہوئے یا پہلے سے موجود تھے، انھوں نے یہ غفلت شدید تر کر دی۔ یعنی اس کے بجائے کہ اپنے آپ میں آتے، خود کو فراموش کر دینے کے مرحلے  میں پہنچ گئے۔ اور عوام کے اندر یہ سوچ پھیلائی کہ اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں، آپ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی، آپ کا عمل اور آپ کی توانائی وہاں تک پہنچ جائے جو آپ مغرب میں دیکھتے ہیں، تو ہر بات میں ان کے جیسا بننا ہوگا۔ مغرب زدہ بن جائيں،آپ اپنی اصل اور بنیادی حقیقت کے ساتھ کہیں نہیں پہنچ سکتے! یہی تقی زادہ کی مشہور باتیں(6) ہیں جس میں کہا گیا کہ سر سے پیر تک مغربی بن جاؤ، لباس مغربی ہو، تہذیب مغربی ہو، طرز زندگی مغربی ہو، ہماری ہر بات مغربی ہونی چاہئے تاکہ ہم ان تک پہنچ سکیں۔   

اور پھر اہم بات یہ ہے کہ ان باتوں میں، اخلاقی مسائل میں، بود و باش میں اور فکری مسائل میں مغرب کی تقلید ہوئی لیکن بنیادی مسائل میں جس پر مغرب کا انحصار تھا، کچھ نہ ہوا۔  یونیورسٹی کی ایک شکل بنا دی گئی، لیکن رضا خان کے دور میں اس یونیورسٹی سے کوئی ممتاز ہستی، کوئی اختراع، کوئی نیا کام، کوئي سائنسی پیشرفت باہر نہيں آئي۔ مغرب والوں نے بھی اس کی تقویت کی۔ مغرب والوں نے اسی احساس اور اسی یقین کی تقویت کی کہ مغرب کی پیروی اور تقلید ہونی چاہئے۔ اس زمانے میں ملک کے اندر، مغربی ملکوں کے نمائںدے در اصل انگریز تھے جو یہاں ہر چیز پر قابض تھے، ہر ایک پر مسلط تھے۔ وہ ایک ڈکٹیٹر بر سر اقتدار لائے، رضا خان اقتدار میں آیا۔ اس نے، اقتدار پرستی، آمریت اور بدمعاشی کے ساتھ سب کچھ اپنے اختیار میں کر لیا اور اس کے گرد ایسے لوگ جمع ہو گئے جو فکری لحاظ سے، چونکہ یہ باتیں خود اس کی عقل میں نہیں آتی تھیں، مغرب کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے اور انھوں نے درحقیقت عوام کے درمیان، مغرب کی پیروی اور  مغربی تمدن میں ڈوب جانے کی ترویج کی، مغربی تہذیب کے لئے جگہ بنائی، اس کو عمل میں لائے اور ہماری معیشت، ہمارے گوناگوں مسائل، ہمارے سماجی مسائل میں مغربی تمدن کو رائج کیا۔ مغربی حمایت کا پرچم درحقیقت انہیں لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔   

رضا خان تخریبی مغرب پرستی کا مظہر تھا۔ تباہ کن مغرب پرستی۔ ان لوگوں نے سب کچھ مغرب والوں کے اختیار میں دے دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک اندر سے کھوکھلا ہو گیا۔ چنانچہ جب انہیں انگریزوں نے بیس سال بعد رضا خان کو اقتدار سے بے دخل کیا اور لے گئے، تو نہ ملک میں قومی اقتصاد تھا، نہ ملی خارجہ پالیسی تھی اور نہ ہی حتی ملی لباس تھا! یعنی انھوں نے ملک کی ترقی کو لباس  کی تبدیلی اور مخصوص انداز میں ہیٹ لگانے میں منحصر کر دیا۔ انھوں نے اس طرح مغرب کا سامنا کیا۔ قاجاری اور پہلوی دور کے ایک سیاستداں، ایک اعلی عہدیدار مخبر السلطنہ ہدایت سے منقول ہے کہ وہ کہتا ہے کہ نگاہیں، مغرب کے کتب خانوں اور تجربہ گاہوں پر نہيں بلکہ مغربی شہروں کی سڑکوں پر تھیں۔

تقی زادہ، فروغی، اورحکمت جیسے افراد سب سے زیادہ قصور وار تھے جنھوں نے  ہمارے ملک کو دسیوں سال پسماندہ رکھا۔ توجہ رکھئے کہ اگر ان کی جگہ ایران سے محبت کرنے والے ہمدرد لوگ ہوتے تو یقینا وہ ملک کو آگے لے جا سکتے تھے۔ انھوں نے ملک  کو پسماندہ رکھا۔ مغرب سے روبرو ہونے پر یہ ان کا پہلا ردعمل تھا۔  
 دوسرا تجربہ، میری نظر ميں یہ بھی اہم ہے۔ اس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ تلخ حوادث سے عوام پر حقیقت عیاں ہو گئی۔ ہمارے ملک میں مغرب والوں کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ اقدامات، ملک کے بعض علاقوں پر برطانیہ اور روس کا قبضہ۔ اس دور میں اس کا شمار بھی مغرب میں ہوتا تھا، بعد میں سوویت یونین کے ذریعے ایران کے بعض حصوں پر قبضہ کر لیا، ملک کے شمال، جنوب اور مشرق میں، کچھ جگہوں پر انھوں نے اپنا تسلط جما لیا، عوام کی سرکوبی کی اور ملک پر قحط مسلط کر دیا۔ ہزاروں لوگ، دقیق اعداد و شمار ہمارے پاس نہیں ہیں، لیکن بعض لوگ کہتے ہیں دسیوں لاکھ، ملک پر مغرب والوں کے مسلط کردہ قحط میں مر گئے۔ اس قحط میں جو انھوں نے مسلط کیا تھا، اندرون ملک تحریکوں کی سرکوبی کی، تبریز میں، مشہد میں، گیلان میں الگ الگ طریقے سے تحریکوں کی سرکوبی کی گئی۔ خیانتیں کی گئيں، رضا شاہ جیسے لوگوں کے ذریعے وثوق الدولہ معاہدہ (7) ڈی آر سی تیل کے سمجھوتے کی توسیع (9) کی گئی ۔ ان کاموں نے تدریجی طور پر صاحبان عقل اور عوام بالخصوص نوجوانوں کو مغرب والوں کے باطن کی طرف متوجہ کیا۔ معلوم ہو گیا کہ اس زرق برق ظاہر اور مسکراہٹوں کے پیچھے کتنا خبیث باطن ہے، ان کے باطن کی خیانت ظاہر ہو گئی۔ یہ محسوس کر لیا گیا اور تدریجی طور پر ملک کے عوام اور نوجوانوں میں مغربی تمدن کا شوق اور اس کی دلکشی کم ہو گئی۔        
 1950 اور 1951 کی ملی تحریک یقینا ایک اہم موڑ تھا، تاریخ ساز موڑ تھا۔ ایک ایسا موڑ تھا جس نے مغرب والوں کا باطن آشکارا کر دیا۔  اس تحریک، اس کی تمہیدات، اس کے انجام اور اس کے نتائج نے ایرانی عوام پر مغرب کی پوری حقیقت اور مغرب کا پورا باطن آشکارا کر دیا۔ تیل کے مسئلے میں  برطانیہ کے خلاف جدوجہد میں مصدق کی ساری امیدیں امریکا اور برطانیہ کے مقابلے میں اس کی حمایت سے وابستہ تھیں، مصدق کو آشکار طور پر امریکا سے یہ امید تھی کہ وہ برطانیہ کے مقابلے میں ان کی حمایت کرے گا، لیکن امریکا نے مصدق کو زبردست چوٹ دی ۔ وہی امریکا جس کی مدد کی مصدق کو امید تھی، اسی نے ان کا تختہ الٹ دیا۔  

 کم روز ویلٹ جس نے 19 اگست کی بغاوت کروائی، امریکی تھا۔ یہ بغاوت امریکی سرمائے سے اور اسی کی منصوبہ بندی سے کی گئی جس کے بعد دسیوں سال ملک اس کے تسلط میں گرفتار رہا۔
 ان حوادث کا ایک نتیجہ  نکلا۔ وہ نتیجہ یہ تھا کہ پیشرفت کے لئے مغرب پر بھروسہ نہ صرف یہ کہ مدد نہیں کرے گا بلکہ رکاوٹ بھی بنے گا۔ یعنی مغرب پر بھروسہ کرکے نہ صرف یہ کہ پیشرفت نہیں ہوگی بلکہ یہ بھروسہ پیشرفت میں رکاوٹ بنے گا۔ معلوم ہوا کہ مغرب کی کثرت طلبی اور تسلط پسندی اور مغرب کے مفاد سے جو بھی ٹکرائے گا، اس سے بے رحمی سے پیش آئيں گے جیسا کہ 19 اگست کو کیا گیا کہ تختہ الٹ دیا۔ یا بالواسطہ اقدام کریں گے یعنی اپنی پٹھو حکومت کے ذریعے اقدام کریں گے جس طرح کہ 5 جون 1963 کو قتل عام کیا لیکن یہ قتل عام محمد رضا  کے ذریعے کیا گیا۔
اس حالت نے ایرانی عوام پر مغربی تمدن کا باطن ظاہر کر دیا۔ ایرانی نوجوان اس سے واقف ہو گئے، جس کے نتیجے میں ردعمل شروع ہو  گیا، کچھ لوگ سینہ سپر ہو گئے ۔ اگست (1953) میں بغاوت ہوئی، اور پھر اسی سال دسمبر ميں اس وقت کے امریکا کے نائب صدر ریچرڈ نکسن کے دورہ ایران کے خلاف تہران یونیورسٹی میں طلبا نے قیام کیا، مزاحمت کی اور تین طلبا، حکومت  کے عوامل کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دن سے تحریک شروع ہو گئی۔ البتہ اس بات پر توجہ رہے کہ یونیورسٹی بہت سے بڑے حوادث ميں دخیل رہی ہے۔ جی ہاں، آج کی یونیورسٹی، انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی سے، حتی انقلاب کے بعد کی یونیورسٹی سے، یا بیس سال پہلے سے بہت مختلف ہے۔  گوناگوں مسائل کے بارے میں اس کا ادراک بہت عمیق اور گہرا ہے۔ اس کی استقامت بھی بہت اچھی ہے۔  اس کے برخلاف ہے جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ  ایرانی یونیورسٹی طلبا کی نئی نسل اور نوجوان 80 کے عشرے کے  نوجوانوں کی طرح آمادگی نہیں رکھتے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ آمادگی آج بھی پائی جاتی ہے۔ ہم نے مختلف معاملات میں اس کا مشاہدہ کیا ہے۔  آج بھی دشمن کے مقابلے میں اگلی صفوں ميں رہنے کے لئے ایرانی نوجوانوں کی آمادگی  ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، دشمن سے مقابلے کے لئے تیار ہیں ۔ مسائل کے بارے میں ان کا ادراک بھی بہتر ہے اور ان کی آمادگی الحمد للہ بہت اچھی ہے۔

لیکن وہ انحرافی سلسلہ  منقطع نہيں ہوا۔ وہ سلسلہ جاری رہا۔ انقلاب کے شروع تک صراحت کے ساتھ یہ انحرافی سلسلہ عوام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کر رہا تھا۔ یعنی واقعی اگر 1979 میں انقلاب نہ آیا ہوتا تو اس وقت کے حکام اور ثقافتی شعبوں کے عہدیداروں کی روش ایسی تھی کہ جو ملک کو معنوی اور اخلاقی امتیازات اور معنوی ثروت سے محروم کر رہی تھی۔ بیرون ملک سے، امریکا سے دیگر مختلف ملکوں سے، وابستگی، مادی وابستگی بھی اور معنوی وابستگی بھی  روز بروز بڑھ رہی تھی اور زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کے لئے ان کے ہاتھ کھول رہی تھی۔ انقلاب نے عوام کی مدد کی، ملک کی مدد کی اور اس یلغار کو روکا۔ انھوں نے انقلاب تک  یہ سلسلہ جاری رکھا۔

 میں اس کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہوں۔ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے کسی خاص طبقے، یا جماعت یا گروہ سے نہيں بلکہ خود عوام سے بات کی، قوم کو تشخص دیا، اس سے اپیل کی اور اس سے توقع کا اظہار کیا۔ آپ عوام کو میدان میں لائے، قوم کو میدان میں اتارا، یہ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کا بڑا کمال ہے۔ ماضی کے کسی بھی واقعے میں، امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) کی دعوت پر شروع ہونے والی عظیم ملی تحریک کی طرح کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔ البتہ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) جیسی کوئی ہستی بھی  ہمارے پاس نہیں تھی۔ 

 اس طرح آپ نے قوم میں احساس تشخص پیدا کیا، عوام کو میدان میں آںے کے لئے کہا، ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی، ملت ایران کو اس کے ثقافتی اور تاریخی تشخص کی یاد دلائی اور ہم سب کو غفلت سے باہر نکالا۔

 ہم خود اپنی توانائیوں کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ امام نے ہمیں اپنی توانائیوں کی طرف متوجہ کیا اور ہمیں میدان میں اتارا۔ عوام کو میدان میں لائے۔ اس کام میں انھوں نے واقعی مجاہدت کی اور خداوند عالم نے برکت عطا فرمائی۔  ہمارے عوام مرعوب نہیں تھے، مرعوب نہیں ہوئے، امام خمینی نے ان کے اندر مرعوب ہونے کا احساس ختم کردیا۔ یہ مغربی تمدن، مغرب کے مادی تمدن پر ایرانی عوام بالخصوص نوجوانوں کا دوسرا ردعمل تھا۔ اس سلسلے میں ہم کافی بحث اور گفتگو کر چکے ہیں۔ عالمی لٹیرے، جنھوں نے طویل برسوں تک ایران میں جو چاہا کیا، پچاس ہزار فوجی اور غیر فوجی مشیر یہاں لائے، ملک کے ذخائر میں سے جو چاہا لے گئے، جو بات چاہی مسلط کی: " کسے تیل بیچو کسے نہ بیچو،  کس سے رابطہ رکھو، کس سے نہ رکھو، کس کو وزیر اعظم بناؤ کس کو نہ بناؤ، علما سے کس طرح پیش آؤ، یونیورسٹی سے کیا برتاؤ کرو" طویل برسوں تک وہ اس طرح اس ملک میں رہے۔ ان کا تسلط ختم کر دیا گیا ہے تو وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ ابتدائے انقلاب سے اب تک اس کے خلاف مہم چلائی ہے، مقابلہ کیا ہے، سازش کی ہے، جو بھی کر سکتے تھے، وہ کیا ہے۔ 

 البتہ اس پوری مدت میں فضل خدا سے انقلاب ان پر فاتح رہا۔ عالمی بد معاش کہتے ہیں کہ دنیا ہماری پیروی کرے! آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں، ایک نمونہ دنیا میں سبھی دیکھ رہے ہیں (10) "سب ہماری پیروی کریں، سب ہمارے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیں۔ سب سے پہلے ہم ہیں۔" یہ تو دنیا میں وہ آج سبھی کو دکھا رہے ہیں۔  درحقیقت وہ مغرب کا باطن دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔  البتہ میرے خیال میں، میں اس طرح سمجھتا ہوں، کہ ایران اسلامی واحد ملک ہے جس نے پوری قوت سے اس کو مسترد کر دیا ہے۔ ہم نے ٹھوس انداز میں کہا ہے کہ ہم دوسروں کے مفاد کو اپنے مفاد پر ہرگز ترجیح نہیں دیں گے۔ 

   اب نوجوان ایرانی طلبا کی طرف واپس آتے ہیں۔ آج میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دشمن کی  یہ حرکت اور سیاست، اسی پیروی، کمزوری اور وابستگی کی ترویج کے لئے ہے۔ دشمن کی طرف سے لوگ پوری طرح فعال ہو گئے ہیں،  ںئے طریقوں سے، بالخصوص، جو سائنسی پیشرفت ہوئی، اس سے،  انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے وہ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں کے طلبا کہاں ہیں؟ البتہ یہاں جو کچھ کہا گیا، جو باتیں بیان کی گئيں، یہاں جو جذبہ ظاہر کیا گیا، وہ بہت اچھا ہے۔ دشمن ہمارے ملک میں نفوذ کرنا، قبضہ کرنا اور ہاتھ سے نکل جانے والا تسلط دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کی سازشوں کا مقابلہ اسی جذبے،اسی احساس اور یونیورسٹی طلبا کی تحریک سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے۔  

 دشمن کی مہم کے مقابلے میں، یہ مہم جو میں نے کہی، نئے طریقے سے انجام پا رہی ہے، اسلامی  تحریک بھی خوش قسمتی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ آج دینی مسائل میں، اخلاقی مسائل میں، حتی عرفانی مسائل میں، نئے کام بہت اچھے ہو رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے آج دینی تعلیم کے مراکز میں، یونیورسٹیوں میں اور معاشرے کے مختلف علاقوں میں، صاحبان فکر نے کافی ترقی کی ہے۔ اسلامی مسائل کو سمجھانے کے لئے انھوں نے بہت مناسب زبان اختیار کی ہے اور اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ وہی باتیں جو آپ نے یہاں کہی ہیں۔ یونیورسٹی طلبا کے اجتماعات میں اس کی دس گنا زیادہ فراہم کی جا سکتی ہیں۔ میں بعد میں اس کی طرف ایک اشارہ کروں گا۔ یہ وہی چیز ہے جس کی میں نے کچھ وقت پہلے، انہیں ملاقاتوں میں سفارش کی ہے، "مطالب سامنے رکھنا"(11)  ایک کام یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے لئے مواد تیار کیا جائے۔ یہ وہ کام ہے جو آپ کر سکتے ہیں۔ آپ فکریں تیار کر سکتے ہیں۔ مسائل کے بارے میں آپ جو گہرا تحلیل و تجزیہ کر سکتے ہیں، اس کو پیش کریں، یہی مواد اور مطالب کی تیاری ہے جس کی ہمیں توقع ہے۔

یونیورسٹی طلبا کو یہاں ہونا چاہئے۔ ان کی جگہ یہ ہے۔ یونیورسٹی طالب علم کو ایک معلم کی طرح، ایک خبردار کرنے والے کی طرح، ایک چراغ ہدایت کی طرح عمل کرنا چاہئے۔ اپنے مناسب ماحول میں، اپنی توانائی بھر یہ کام کرنا چاہئے۔ یہی وہ چیز ہے جو میری نظر میں ہمارے یونیورسٹیوں کےعزیز طلبا کا تشخص ہے۔ یہی قوت بیان، بیان کرنے اور وضاحت کرنے کی توانائی۔   

 البتہ میری بعض سفارشات بھی ہیں۔ گزشتہ سال بھی میں نے کچھ سفارشات کی تھیں۔ یہاں کچھ باتیں بیان کیں۔(12) میری ایک سفارش یہ تھی کہ طلبا تنظیمیں یونیورسٹی کے اندر یہ کام کریں۔ یہ میری تاکید ہے۔ یہ کام، جو مجھے رپورٹ دی گئی ہے، اس کے مطابق جس طرح یہ کام ہونا چاہئے تھا، اس طرح نہیں ہوا۔ آپ نوجوانوں سے مجھے یہ توقع ہے۔ رکاوٹیں ہیں، سبھی بڑے کاموں میں، سبھی اچھے کاموں میں کچھ رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ یہ نہ سوچیں کہ ہم ہموار ڈامر روڈ پر آگے بڑھ رہے ہیں، نہیں اس راہ میں پیچ وخم ہیں، نشیب وفراز ملیں گے، مشکلات کا سامنا ہوگا، مشکلات پر غلبہ حاصل کریں۔ مشکلات پر قابو  پائیں! اگر آپ بیان کے لئے مناسب زبان سے کام لیں تو یونیورسٹیوں کے اندر آپ موثر واقع ہو سکتے ہیں۔ آپ کا مخاطب طالب علم ہے، نوجوان ہے، اس کے اندر عناد نہیں ہے، دشمنی نہیں ہے، وہ آپ کی بات سننے اور قبول کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ وہی توقع ہے جو ایک صاحب نے یہاں بیان کی اور کہا کہ "جن مراکز کو وضاحت کرنی چاہئے بیان کرنا چاہئے، وہ اپنا کام نہیں کر رہے ہیں، وہ کام نہیں کر رہے ہیں۔" یہ توقع آپ سے بھی ہے۔ یونیورسٹی طلبا کی تنظیمیں مطالعہ کریں، خود کو تیار کریں، یونیورسٹی کے ماحول کو اپنی صحیح فکر سے متاثر کریں۔ میری ایک سفارش تو یہ ہے۔   
ایک سفارش یہ ہے کہ ہم فکری ک نشستیں سنجیدگی کے ساتھ منعقد ہوں۔ اس مسئلے پر سوچیں، ہمارے پاس قابل اطمینان مفکرین موجود ہیں، ہم فکری کی میٹنگوں میں ان مفکرین سے استفادہ کریں۔  ان   میٹنگوں میں اہم ترین تازہ مسائل پر بحث کریں ۔ بعض مسائل جن پر بحث کی جاتی ہے، وہ  درجہ ایک کے مسائل نہیں ہیں، دوسرے اور تیسرے درجے کے مسائل ہیں۔ ملک کے بنیادی مسائل وہ مسائل ہیں جو  انقلاب اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔  اہم ترین اندرونی اور بیرونی مسائل پر بحث کریں۔ مختلف معاملات میں الگ الگ تحلیل و تجزیے پیش کئے جاتے ہیں۔  ایسا نہ ہو کہ اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے یہ تحلیل و تجزیے آپ کے اندر شک و تردد پیدا کر دیں۔ مختلف تحلیل و تجزیے سے آپ شک و تردد میں مبتلا نہ ہوں بلکہ آپ خود تحلیل وتجزیہ کریں۔ اپنے فہم  اور تحقیق سے غلط باتوں پر جو کہی جاتی ہیں، غلبہ حاصل کریں۔   
میری ایک سفارش یہ ہے۔ حکام پر یونیورسٹی طلبا کے بعض اعتراضات اور تنقیدوں کی وجہ لا علمی ہوتی ہے۔ مثلا فرض کریں، یہ اعتراض کہ آپریشن وعدہ صادق 2  اس وقت انجام دیا گیا، فلاں وقت کیوں انجام نہیں دیا گيا؟ اگر فلاں وقت انجام دیا گیا ہوتا تو وہ حادثہ نہ ہوتا۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ جو لوگ ان امور کے ذمہ دار ہیں، انقلاب سے ان کی وابستگی، قلبی لگاؤ  اور عشق نیز ان کی آمادگی، ہم سے اور آپ سے کم نہیں ہے۔ ان پر الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ حساب کتاب کرتے ہیں، اندازہ لگاتے ہیں، کام کے جوانب کا جائزہ لیتے ہیں، اگر آپ بھی ان کی جگہ ہوتے تو یہی کام کرتے۔ ہمیشہ یہ احتمال اپنے ذہن میں رکھیں اور لوگوں پر الزام نہ لگائيں۔ جن معاملات میں آپ دیکھیں کہ آپ کے لئے ابہام موجود ہے، تو ہمیشہ یہ احتمال دیں کہ صحیح حساب کتاب کیا گیا ہوگا۔ ممکن ہے کہ یہ فیصلہ صحیح اندازوں اور حساب کتاب پر استوار ہو۔ 

میں نے گزشتہ برس سفارش کی تھی تنقید کریں، تنقید میں کوئی حرج نہيں ہے۔ سوال کیا گیا کہ کس طرح تنقید کریں؟ مثال کے طور پر جنگی حالت میں، دشمنوں سے مقابلے کی صورتحال میں، کس طرح تنقید کریں کہ انہیں برا نہ لگے؟ تنقید میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن تنقید اور تہمت میں فرق ہے۔ خیال رکھیں کہ تنقید کرنے میں کسی پر الزام نہ لگائيں۔ سوال پیش کریں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔  سوال پیش کیا جائے، ابہام بیان کیا جائے لیکن جواب کا موقع بھی ہو۔ بعض اوقات کچھ سوالات کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ موقع جواب کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔ یا کسی  معاملے میں جواب دینا ممکن نہیں ہوتا، اس طرح کے معاملات میں ابہام بھی بیان نہ کریں۔ یا ممکنہ احتمالات کو مسلمہ نہ بنائيں۔

میرے خیال میں تنقید میں دھیان رکھیں کہ یہ نہ کہیں کہ راستے بند ہو گئے ہیں۔ یعنی اس طرح تنقید کریں کہ جب عام لوگ سنیں تو انہيں یہ احساس نہ ہو کہ کوئی راستہ نہيں بچا ہے۔ نہیں، یہ نہیں ہونا چاہئے۔ بعض اوقات، کمیاں  اس طرح بیان کی جاتی ہیں کہ سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ واقعی کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں اقتصای یا اس ثقافتی مسئلے میں، یا اس تعلیمی مسئلے یا یونیورسٹی کے اس مسئلے کے حل کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے، یہ غلط ہے۔ یہ بات عوام کو مایوس کرتی ہے۔ اس سے سختی سے پرہیز کرنا چاہئے۔  اختلاف ڈالنا، دھڑے بندی، مایوسی کی بات کرنا، فیصلہ کرنے والے حکام کے تئيں بد گمانی پھیلانا، تنقید ميں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔

بعض اوقات مجھ سے سوال کرتے ہیں، البتہ براہ راست سوال نہیں کرتے، مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر، یا ہمارے دفتر سے بیان کرتے ہیں کہ فرض کریں جب سبھی وزرا کو اعتماد کا ووٹ مل گیا تو خوشی کا اظہار کیوں کیا، جبکہ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ان کے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں؟ ایک سوال یہ بھی ہے۔ اچھا ٹھیک ہے، یہ سوال ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سبھی وزیروں کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ مل جانا ایک اچھی بات ہے۔ اگر ووٹ نہ ملے تو جس وزیر کو بھی ووٹ نہ ملے، اس کا محکمہ ایک مدت تک کسی سرپرست کے بغیر رہے گا۔ کسی محکمے کا بغیرسرپرست کے رہنا اس سے بدتر ہے کہ کوئی ایسا فرد ہو جو ممکن ہے کہ معیاروں پر پورا نہ اترتا ہو۔ اگر کوئی نہ ہو تو ہرج مرج کی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ حکومت ایک مناسب موقع پر مناسب وقت کے اندر تشکیل پا جائے اور امور مملکت چلانے لگے۔ حکومت کو امور مملکت چلانے پر قادر ہونا چاہئے۔ سبھی وزرا کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ مل جانا، بہت اچھی بات ہے۔ اس سے فطری طور پر خوشی ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ  کسی وزیر کی کارکردگی پوری طرح پسند نہ ہو۔ یا اس کی بعض خصوصیات مثبت نہ ہوں۔ ان میں کوئی منافات نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں تو ہوتی ہی ہیں۔ مختصر یہ کہ ایک طالب علم کو اس پر متفکر نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ملک کے بنیادی اور اصلی مسائل نہیں ہیں۔ ملک کے اصلی مسائل جیسا کہ میں نے عرض کیا، دوسرے ہیں۔  

 چند جملےامریکا کی جانب سے مذاکرات کی اس دعوت کے مسئلے میں عرض کروں گا۔ امریکی صدر (13) کہتے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئےتیار ہیں اور مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں۔ انھوں نے دعوی کیا ہے کہ خط بھیجا ہے۔ البتہ وہ خط ہمیں نہیں ملا ہے۔ یعنی مجھ تک نہیں پہںچا ہے۔  میرے خیال میں یہ دنیا کی رائے عامہ کو فریب دینے کے لئے ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، صلح کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ لڑائی نہ ہو، لیکن ایران مذاکرات کے لئے تیار نہيں ہے۔ اچھا تو ایران کیوں مذاکرات کرنا نہیں چاہتا؟ یہ خود سے پوچھیں۔ ہم نے چند برس مذاکرات کئے، اسی شخص نے جو مذاکرات پورے ہو گئے تھے، مکمل ہو گئے تھے، دستخط ہو گئے تھے، اس کو میز سے اٹھایا اور پھاڑ دیا(14) اس شخص سے کس طرح مذاکرات کریں؟

ہماری اس بات کے جواب میں ایک روزنامے کا کالم نویس کہتا ہے کہ "جناب!دو افراد جو ایک دوسرے سے جنگ کرتے ہیں، وہی بیٹھ کر صلح کے مذاکرات کرتے ہیں، وہ بھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہ عدم اعتماد مذاکرات میں مانع نہیں ہوتا۔" یہ غلط ہے۔ وہی دو افراد جو صلح کے مذاکرات کرتے ہیں، اگر انہیں جو معاہدے میں لکھا جا رہا ہے، اس کی  پابندی کا یقین نہ ہو تو مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ جانتے ہیں یہ کام بیکار ہے۔ مہمل ہے۔ مذاکرات میں انسان کو اطمینان ہونا چاہئے کہ مقابل فریق جو عہد کرے گا اس پر عمل کرے گا۔ جب ہم جانتے ہیں کہ عمل نہیں کرے گا تو کیسے مذاکرات؟ بنابریں مذاکرات کی دعوت رائے عامہ کو فریب دینے کے لئے ہے۔

امریکی پابندیوں کے حوالے سے، جامع ایٹمی معاہدے کے تعلق سے 2010 کے عشرے میں  ہمارے مذاکرات شروع سے ہی، پابندیوں کے خاتمے کے لئے تھے۔ خوش قسمتی سے دنیا ميں پابندیوں کا اثر کم ہو رہا ہے۔ جب پابندی جاری رہتی ہے تو تدریجی طور پر اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا خود انہیں بھی اعتراف ہے۔ یعنی وہ خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جس ملک پر پابندی لگتی ہے وہ، تدریجی طور پر پابندی کو بے اثر بنانے کی   راہ  تلاش کرلیتا ہے۔  ہم نے اس کی بہت سی راہیں ڈھونڈ لی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پابندی بے اثر نہیں ہوتی ہے لیکن ایسا نہيں ہے کہ اگر ہماری اقتصادی حالت بری ہے تو اس کی وجہ صرف پابندی ہو۔ بعض اوقات ہماری بے توجہی بھی اپنا اثر مرتب کرتی ہے۔  بعض نہيں بلکہ زیادہ تر مشکلات کی وجہ خود ہماری بے توجہی ہے۔ ان مشکلات کا ایک حصہ پابندی سے متعلق ہے اور پابندی بھی تدریجی طور پر بے اثر ہو جاتی ہے۔ یہ بھی مسلمات ميں سے ہے۔

ایٹمی اسلحے کے تعلق سے  بھی جو مسلسل یہ کہا جاتا ہے کہ ہم ایران کی  ایٹمی اسلحے تک دستری نہیں ہونے دیں گے۔ ہم  اگر ایٹمی اسلحہ بنانا چاہتے تو امریکا ہمیں نہیں روک سکتا تھا۔ اگر ہمارے پاس ایٹمی اسلحہ نہیں ہے یا ہم ایٹمی اسلحہ نہيں بنا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض وجوہات سے، ہم خود اس کی فکر میں نہيں ہیں، یہ وجوہات ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، اس پر گفتگو کر چکے ہیں۔ ہم نے خود نہیں چاہا۔ ورنہ اگر ہم خود چاہتے تو وہ ہمیں نہیں روک سکتے تھے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ امریکا ہمیں عسکری دھمکی دیتا ہے! میری نظر میں یہ دھمکی غیر دانشمندانہ ہے۔ جنگ، جنگ شروع کرنا اور وار لگانا یک طرفہ نہیں رہتا۔ ایران جوابی وار لگانے پر قادر ہے اور یقینا جوابی وار لگائے گا۔  مجھے یقین ہے کہ اگر امریکا یا اس کے عوامل نے کوئی غلط حرکت کی تو زیادہ نقصان انہیں کا ہوگا۔ البتہ جنگ اچھی چیز نہیں ہے، ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر کسی نے اقدام کیا تو ہمارا جواب بہت سخت اور فیصلہ کن ہوگا۔  

ایک اور بات یہ ہے کہ آج امریکا زیادہ کمزور ہو رہا ہے، مضبوط نہیں ہو رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اقتصادی لحاظ سے وہ کمزور ہو رہا ہے، دنیا میں سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے بھی کمزور ہو رہا ہے، اندرونی طور پر کمزور ہو رہا ہے، اپنی داخلہ پالیسی ميں بھی کمزور ہو رہا ہے، اور سماجی مسائل کے لحاظ سے بھی کمزور ہو رہا ہے، امریکا کے سبھی عوامل کمزور ہو رہے ہیں۔ امریکا کے اندر تیس سال قبل اور بیس برس قبل والے امریکا کی طاقت اب نہیں ہے اور ہوگی بھی نہیں، ہو ہی نہیں سکتی۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اندرونی طور پر بعض لوگ مذاکرات کا مسئلہ مسلسل شدت سے اٹھا رہے ہیں: "جناب جواب کیوں نہیں دیتے؟ مذاکرات کیوں نہيں کرتے؟ امریکا کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟ بیٹھیے۔"

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مذاکرات کا مقصد پابندیوں کا خاتمہ ہے تو اس حکومت سے مذاکرات پابندیاں نہیں ختم کریں گے۔ دباؤ بڑھائيں گے۔

اس حکومت سے مذاکرات دباؤ بڑھائيں گے۔ میں نے چند روز قبل حکام سے گفتگو میں کہا (15) کہ وہ نئی باتیں کریں گے، نئے مطالبات پیش کریں گے، مزید اقدام کے مطالبات پیش کریں گے۔ مشکل جتنی آج ہے، اس سے زیادہ ہو جائے گی۔ بنابریں مذاکرات سے کوئی مشکل برطرف نہیں ہوگی، کوئی گرہ نہيں کھلے گی۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے۔  
آخری بات یہ ہے کہ دشمن کی توقع کے برخلاف نہ فلسطین کی استقامت اور نہ ہی لبنان کی استقامت، ان میں سے کوئی بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ قوی تر ہوئی  ہے، ان کی امنگيں بڑھی ہیں۔ انسانی لحاظ سے ان شہادتوں سے انہیں نقصان پہنچا ہے لیکن جذبے کے لحاظ سے ان کی تقویت ہوئی ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ سید حسن نصراللہ ( رضوان اللہ علیہ) جیسی ہستی ان کے درمیان سے چلی جاتی ہے، پرواز کر جاتی ہے، ان کی جگہ خالی رہ جاتی ہے، لیکن انہیں دنوں میں، ان کی شہادت کے بعد، حزب اللہ نے صیہونی حکومت کے خلاف جو کارروائی کی ہے، وہ اس سے پہلے کی کارروائیوں سے قوی تر تھی۔   

فلسطینی استقامت میں بھی، ہنیہ جیسی ہستی، سنوار جیسی شخصیت اور ضیف جیسی ہستی ان کے درمیان سے چلی جاتی ہے لیکن ان مذاکرات میں جو صیہونی حکومت، اس کے طرفداروں اور امریکا کے اصرار پر ہوئے، فلسطینی استقامتی محاذ فریق مقابل کو مجبور کر دیتا ہے کہ اس کی بات تسلیم کرے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی امنگ  قوی تر ہوئی ہے۔
یہ میرا آخری جملہ ہے ۔ میں کہے دیتا ہوں کہ ہم پوری قوت سے فلسطین اور لبنان کی استقامت کی حمایت کریں گے۔ اس بات پر ملک کے حکام کا اتفاق ہے۔ حکومت، محترم صدر جمہوریہ اور دوسرے سبھی اس پر متفق ہیں۔ اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور ان شاء اللہ ملت ایران مستقبل میں بھی ماضی کی طرح، دنیا کی منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں استقامت کی علمبردار کہلائے گی۔

 والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

 1۔ اس جلسے کے شروع میں طلبا تنظیموں کے کچھ نمائںدوں نے سیاسی، سماجی، علمی اور ثقافتی مسائل میں اپنے نظریات بیان کئے۔

2۔ سورہ بقرہ، آیت نمبر 183۔ " اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، روزہ تم پر واجب کیا گیا ہے اسی طرح، جس طرح  کہ تم سے پہلے والوں پر واجب کیا گیا تھا۔ شاید تم پرہیز گار بن جاؤ۔"

 3۔ سورہ  طلاق، آیت نمبر 2 و 3
 4۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 2

5۔ شرح چہل حدیث، صفحہ 10   

  6۔ سید حسن تقی زادہ، پہلوی حکومت میں سینیٹ کا پہلا چیئرمین

7۔ 1919 میں احمد شاہ قاجار کے صدر اعظم وثوق الدولہ اور برطانوی حکومت کے نمائندوں نے ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کی رو سے ایران کے سبھی فوجی اور مالی ادارے انگریزوں کی نگرانی میں دے دیے گئے اور اسی طرح ریلویز اور کچی سڑکیں بھی انہیں واگزار کر دی گئيں۔  

 8۔  حکومت ایران  اور ولیم ناکس ڈی آرسی (William Knox D'Arcy) کے درمیان 1901 میں ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے شمالی حصوں کو چھوڑ کر، پورے ایران میں تیل نکالنے اور بیچنے کا ٹھیکہ ساٹھ برس کے لئے، ولیم ڈی آرسی کو دے دیا گیا۔  اس کے بدلے میں ڈی آرسی نے یہ قبول کیا کہ اس ٹھیکے پر کام کرنے کے لئے وہ ایک کمپنی یا کمپنیاں تاسیس کریں گے اور سالانہ بیس ہزار لیرہ نقد اور اتنی ہی رقم کمپنی کے شیئر سے اور منافع کا سولہ فیصد حکومت ایران کو ادا کریں گے۔   

9۔ 7 دسمبر 1953

10۔ بعض ملکوں سے درآمد کی جانے والی اشیا پر امریکی صدر کی جانب سے ٹیرف لگائے جانے کی طرف  اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

  11۔ 29 بہمن مطابق 18فروری کے قیام کی مناسبت سے، 18-02-2025 کو صوبہ مشرقی آذربائیجان کے عوام کے ایک اجتماع سے خطاب

12۔  07-04-2024 کو ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبا اور طلبا تنظیموں کے نمائندوں سے رمضان المبارک کی مناسبت سے ملاقات میں رہبر انقلاب کا خطاب

13۔ ڈونلڈ ٹرمپ

14۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے  پہلے دور صدارت میں، 8 مئی 2018 کو ایک فرمان صادر کرکے، امریکا کو جامع ایٹمی معاہدے سے نکال لیا جس پر امریکا کے اس وقت کے صدر باراک اوباما کی حکومت، ایران اور سلامتی کونسل کے رکن پانچ ملکوں اور جرمنی اور یورپی یونین نے دستخط کئے تھے۔  

15۔ 09-03-2024 کو رمضان المبارک کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب