رفتہ رفتہ صفیں بھرتی گئیں۔ خاص بات یہ تھی کہ آج کے تمام مہمان شعر و ادب کی دنیا سے وابستہ افراد تھے۔ خواتین کی بھی خاصی تعداد تھی۔ بڑا دلچسپ لگا کہ جا بہ جا معمم حضرات نظر آ رہے تھے جو علم دین کے ساتھ ہی شعر و ادب کی وادی میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ چند سال قبل محقق علما کی ایک ٹیم رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای سے ملنے آئی تھی جو حوزہ علمیہ قم اور نجف کے علماء کی شعر و ادب کے میدان کی خدمات پر باقاعدہ تحقیق کر رہی تھی۔ تو علما کی صنف شعر و ادب کی بھی خدمت کرتی رہی ہے، البتہ علم دین کا پہلو غالب رہنے کی وجہ سے علما کی شعری خدمات بسا اوقات کما حقہ منظر عام پر نہیں آ پاتیں۔

اذان میں ابھی آدھے گھنٹے کا وقت بچا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای حسینیہ میں تشریف لائے۔ بہت بشاش نظر آ رہے تھے، لگتا تھا جیسے پورے وجود سے خوشی چھلک رہی ہے۔ سارے مہمان رہبر انقلاب کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے۔ پہلی صف میں نامور شعرا و ادبا تھے۔ رہبر انقلاب ایک ایک قدم آگے بڑھتے اور ایک ایک سے احوال پرسی کرتے۔ وہ پہلی صف سے تقریبا دو تین میٹر کے فاصلے پر رکھی گئی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ چند منٹ قبل کئے گئے اعلان کے مطابق بڑا دلچسپ پروگرام شروع ہوا۔ دو درجن سے زائد ادباء و شعراء کو یہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنی کتاب رہبر انقلاب کو ہدیہ کریں۔ ناظم ایک ایک کرکے ان ادباء و شعراء و شاعرات کے ناموں کا اعلان کرتے اور وہ باری باری رہبر انقلاب کے پاس جاکر اپنی کتاب انہیں ہدیہ کرتے اور رہبر انقلاب سے چند جملے بات کرتے۔ رہبر انقلاب کتاب کھولتے، ورق پلٹتے اور مصنف سے کچھ سوال کرتے۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ زیادہ سے زیادہ باتیں آغا سے بیان کر دے اور ناظم کے سامنے چیلنج تھا کہ محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ مصنفین کو اپنی کتاب رہبر انقلاب کو پیش کرنے کا موقع مل جائے، وہ بڑے ادب اور لجاجت سے بار بار یاددہانی کراتے کہ گفتگو مختصر رکھی جائے تاکہ باقی افراد کو وقت مل سکے۔

سیکورٹی اہلکاروں کے لئے بھی یہ کم چیلنج بھرا پروگرام نہیں تھا۔ آغا مصنفین اور شعراء سے بڑی اپنائیت سے بات کر رہے تھے جبکہ سیکورٹی اہلکاروں کا دل چاہتا تھا کہ سیکورٹی کی گائیڈلائنوں کو پوری طرح فالو کیا جائے۔

مجھ سے آگے والی صف میں طویل القامت نوجوان عالم دین تھے، سر پے سفید عمامہ تھا، انہیں بھی اپنی کتاب رہبر انقلاب کو پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور رہبر انقلاب کے دوش پر پڑی رہنے والی کوفیہ مانگ لائے تھے۔ ہمارے پہلو میں ایک صاحب تھے جو ان عالم دین کے شناسا معلوم پڑتے تھے انہوں نے اشارہ کیا کہ کوفیہ چند لمحے کے لئے مجھے دے دیں مگر نوجوان عالم دین نے کوفیہ کو اپنی ‏آغوش میں ایسے دبوچا جیسے کوئی پرندہ اپنے بچے کو عقاب سے بچائے۔

دریں اثنا اذان کا وقت ہو گیا اور اللہ اکبر کی آواز گونجی۔ صفیں مرتب کی گئیں اور رہبر انقلاب کی امامت میں نماز مغرب ادا کی گئی۔ تعقیبات کے بعد نماز عشا شروع ہوئی۔ ایک بات کی طرف میری توجہ گئی کہ آغا کے کچھ سیکورٹی اہلکاروں نے مغرب کی نماز جماعت سے پڑھنے کے بعد اپنی جگہ ان دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو دے دی جو نماز مغرب کے دوران اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اور خود جاکر ان کی جگہ نماز عشاء کے دوران ڈیوٹی انجام دی۔ سیکورٹی اہلکار چہرے سے ہی دیندار نظر آتے تھے۔

نماز عشاء ختم ہوئی تو سارے مہمانوں کو حسینیہ امام خمینی کے اندر ہی اس حصے کی طرف جانے کے لئے کہا گيا جسے پارٹیشن سے گھیر دیا گیا تھا اور وہاں افطاری کا اہتمام کیا گيا تھا۔ افطاری سے فارغ ہو جانے کے بعد مہمانوں کو بالائی منزل پر جانے کے لئے کہا گیا جہاں شب شعر منعقد کی گئی تھی۔ آٹھ بج کر چند منٹ ہو چکے تھے کہ محفل کا آغاز ہوا اور آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ناظم نے مائیکروفون سنبھالا۔ مشاعرے کے ناظم اس ناظم سے مختلف تھے جس نے کتب ہدیہ کرنے کے پروگرام کی نظامت کی تھی۔ ناظم کے پاس چالیس شعرا کی طویل فہرست تھی۔ وہ یکے بعد دیگر شعراء کے نام کا اعلان کرتے تھے مائیکروفون شاعر یا شاعرہ کے سامنے رکھا جاتا تھا اور وہ اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ رہبر انقلاب بعض اشعار کو مکرر پڑھنے کے لئے کہتے تھے۔

اشعار فارسی زبان میں پڑھے جا رہے تھے لیکن دو تین شعراء نے ترکی زبان میں اور ایک عراقی شاعر مہدی نحیری نے عربی زبان میں اشعار پڑھے:

اقدّس اعماقی اذا قلت صادقا سلام علی ایران عمقا مقدّسا

خمینیھا احیی الملایین ثورتا بما صاغ واستوحی و شاد و اسّس

دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ بصرہ کے اس عرب شاعر نے مزاحتمی محاذ کی عظیم ہستیوں کی قدردانی میں جیسے ہی اپنا قصیدہ مکمل کیا رہبر انقلاب نے عربی زبان میں برجستہ ایک شعر پڑھا اور پورا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔

ممدوح امام حسن علیہ السلام کی شان میں اشعار پڑھے گئے، مولائے کائنات کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کیا گيا۔ مزاحمتی محاذ کی عظیم ہستیوں شہید سلیمانی، شہید حسن نصر اللہ شہید حججی، شہید باکری، شہید احمد کاظمی اور دیگر شہدا کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

مشاعرے کا ایک اہم لمحہ وہ تھا جب ناظم نے اعلان کیا کہ ہندوستان کے وارانسی سے تعلق رکھنے والے شاعر سید علی اصغر حیدری فارسی میں اپنا کلام پیش کریں گے۔

سید علی اصغر حیدری نے امام خمینی کی شان میں اپنے اشعار پڑھے:

مرد میدان مرد طوفان مرد دوان بود امام

قلب ما و روح ما و جان جاناں بود امام

آغا نے ہندوستان کے شاعر کی بڑی تعریف کی کہ ایک شخص جس کی مادری زبان فارسی نہیں ہے وہ فارسی زبان میں صرف تکلم نہیں بلکہ شاعری کرے اور بڑی شستہ اور شائستہ شاعری کرے تو بہت اہم بات ہے۔

شاعر علی رضا رجب علی زادہ نے کوفے میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے تاریخی خطبے کے مضمون کو اشعار میں ڈھالا تھا:

سپس روز از نفس افتاد و راوی گفت و آوای اذان پیچید

صدا آری صدای زخمی زن در گلوی آسمان پیچید

خاتون شاعر فائزہ امجدیان نے فلسطینی بچوں کے احساسات و کیفیات کی ترجمانی کرنے والے بڑے جذباتی اشعار پڑھے:

دخترک تا ھمین دو ثانیہ پیش خانہ ای داشت سر پناھی داشت

دخترک تا ھمین دو ثانیہ پیش پدری داشت تکیہ گاھی داشت

ہال پر غم و اندوہ کی کیفیت طاری ہو گئی۔

 محفل میں ایک موقع وہ آیا جب پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ نوجوان اور غیر شادی شدہ طنزیہ شاعر محمد قریشی نے تولید اور افزایش نسل کے موضوع پر اپنی تخیلاتی اہلیہ سے مکالمے کو شعری پیرائے میں پیش کیا:

ھمسرم بھترین نوع بشر

 شعبہ رسمی جمال قمر

ای کہ در کل عرصہ ھا ھستی

از تمام زنان طایفہ سر

محفل تقریبا 10 بج کر 35 منٹ تک چلی جس کے بعد رہبر انقلاب کی تقریر شروع ہوئی۔ تقریبا 25 منٹ کی تقریر میں رہبر انقلاب نے انقلابی شاعری کی موجودہ صورت حال پر اطمینان کا اظہار کیا۔  محفل میں عاشقانہ اشعار پڑھے جانے کی اس تاکید کے ساتھ ترغیب دلائی کی عفت و نجابت کا خیال رکھا جائے۔ شعر و سخن کے معیار کو بلند سے بلند تر کرنے پر تاکید کرتے ہوئے آپ کا یہ کہنا تھا کہ موجودہ دور میں یہ صلاحیت ہے کہ سعدی و حافظ و نظامی جیسے شعراء پیدا ہوں۔

یہ جملہ معروف ہے کہ شاعری قافیہ بندی کا نام نہیں معنی افرینی کا نام ہے تو یہ پوری محفل بلکہ محفل سے قبل مصنفین کی قدردانی، نماز جماعت میں شعراء و ادبا کی شرکت، ایک ساتھ روزے کی افطاری یہ سب کچھ معانی و رموز و پیغامات کا مجموعہ تھا۔ اس پورے پروگرام میں تقریبا 5 گھنٹے رہبر انقلاب کا موجود رہنا، خاص معنی و پیغام کا حامل ہے کہ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کی نگاہ میں شعر و ادب کا کیا مرتبہ و مقام ہے۔ اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ شعر و ادب کے شعبے کی سماج کے تعلق سے کتنی بڑی ذمہ داریاں اور اس شعبے کا کتنا گہرا اثر ہے۔

رپورٹ: احمد عباس