جناب ابو طالب علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ آپ کا بھتیجا اگر سرداری چاہتا ہے تو ہم اسے اپنا سردار بنانے کو تیار ہیں، اگر اسے دولت و ثروت چاہئے تو ہم اسے اتنی دولت دیں گے کہ وہ ہم سب سے زیادہ امیر ہو جائے گا، اگر وہ بادشاہ بننا چاہتا ہے تو ہم اسے اپنا بادشاہ ماننے کو تیار ہیں، بس وہ یہ کام کرے کہ جو باتیں کر رہا ہے وہ بند کر دے۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام کو بھتیجے کے لئے خطرے کا احساس ہوا، انہیں سازش کی بو آنے لگی، پیغمبر اسلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ بزرگان مکہ نے یہ پیغام بھیجا ہے۔ پیغبر اسلام نے جواب دیا کہ "اے چچا! اگر میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیا جائے تاکہ میں اپنا ہدف و مقصد ترک کر دوں توبھی خدا کی قسم میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی مجھے فتح سے ہمکنار کرے یا ہم سب نابود ہو جائيں۔" اس کے بعد روایت میں ہے کہ چشم مبارک پیغمبر اسلام میں آنسو آ گئے اور آپ اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔ جب حضرت ابو طالب علیہ السلام نے ایمان کا یہ انداز اور یہ پائيداری دیکھی تو آپ نے فرمایا: "بھتیجے! اپنے ہدف کی جانب بڑھو اور جو بھی دل چاہے کرو۔ خدا کی قسم میں تمہیں کسی بھی چیز کے بدلے نہیں دے سکتا۔" استقامت کا یہ انداز استقامت کا سرچشمہ بنتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی اس استقامت سے حضرت ابو طالب کی استقامت و پائيداری میں اضافہ ہوا۔