امام صادق علیہ السلام کے اصحاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "چار ہزار تھے"، یہ تعداد کہاں سے آئی؟ کس نے انہیں تیار کیا؟ آپ کے بقول، کس نے چار سو کو چار ہزار بنا دیا؟ میں نے امام صادق علیہ السلام کی یہ روایت بارہا ان مجالس میں پڑھی ہے کہ "امام حسین علیہ السلام کے بعد لوگ مرتد ہو گئے سوائے تین کے"۔ بعض روایات میں "سوائے تین کے" ہے، ایک روایت میں مثلاً "سوائے پانچ کے" ہے۔ یعنی واقعہ عاشورہ نے عالم اسلام کے ہر فرد کے دل میں ایسا خوف پیدا کر دیا کہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ یہ حکومت اتنی سفاک ہے، اتنی بے رحم ہے کہ نبی کے نواسے کو بھی نہیں چھوڑتی اور وہ پیغمبر کے خاندان کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے! [لہذا] دل اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ حضرت سجاد علیہ السلام کے گرد صرف یہ تین یا چار یا پانچ افراد ہی باقی رہ گئے۔ اور یہ سب بھی مدینہ میں نہیں تھے؛ ان میں سے ایک دو مثلاً کوفہ میں تھے۔ حضرت نے ان چار پانچ افراد کو تقریباً ۳۵ سال کے عرصے میں [جمع کیا] اور آہستہ آہستہ زمین ہموار کی۔ 

پھر جب امام باقر علیہ السلام کا زمانہ آیا، تو یہ جماعت بڑھ گئی؛ اسی روایت میں ہے کہ "پھر لوگ ملحق ہوئے اور تعداد بڑھ گئی"؛ آہستہ آہستہ لوگ شامل ہوتے گئے، آ کر جڑتے گئے۔ کون انہیں شامل کرتا تھا؟ امام باقر علیہ السلام۔ کیونکہ دلوں سے خوف کو دور کرنے کے لیے صرف دینی مباحث اور فقہ کا بیان کافی نہیں ہوتا؛ دیگر چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں؛ آج دنیا میں دوسرے طریقے سے حرکت کرنی پڑتی ہے، دوسرے انداز میں بات کرنی پڑتی ہے تاکہ انسان ان تین چار معدود افراد کو سینکڑوں اور پھر ہزاروں میں تبدیل کر سکے؛ یہ کام امام باقر نے کیا۔ 

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ امام صادق اور امام باقر نے بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان جھگڑے کا فائدہ اٹھایا، یہ امام باقر کے زمانے کی بات نہیں ہے؛ اس وقت تو کوئی جھگڑا تھا ہی نہیں۔ حضرت ۹۵ سے ۱۱۴ ہجری تک، انیس سال سخت ترین حالات میں رہے؛ یعنی آپ ہشام کے معاصر تھے اور ہشام سے پہلے بنی امیہ اور بنی مروان کے چند دیگر ظالم و سفاک حکمرانوں کے دور میں بھی۔ حضرت ان کے مقابلے میں تھے اور ان کے ہوتے ہوئے بھی یہ کام کیا؛ یعنی فکر کو پھیلانے اور اس میدان میں شامل افراد کی تعداد بڑھانے کی یہ تاثیر اور طاقت، امام باقر علیہ السلام کا کام ہے۔ دیگر ائمہ میں سے کسی کے بارے میں ایسی صورت حال نہیں ملتی۔ البتہ آخری ائمہ، یعنی حضرت امام علی نقی، حضرت امام محمد تقی، حضرت عسکری علیہم السلام، کے زمانے میں ایک دوسری قسم کی صورت حال تھی، لیکن امام باقر کے دور والی شکل نہیں تھی۔ ان کی حالت یہ تھی کہ انہیں جلاوطن کر دیا گیا؛ یعنی شام بلوایا گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام واحد امام ہیں جنہیں دو بار شام میں اسیر بنا کر لے جایا گیا: ایک بار چار سال کی عمر میں یزید کے زمانے میں، اور دوسری بار ہشام کے دور میں جب انہیں اور امام صادق علیہ السلام کو اکٹھا لے گئے اور اس سفر میں کچھ اہم واقعات پیش آئے؛ یعنی ان چیزوں کو امام باقر علیہ السلام کی زندگی کے مطالعے میں خاص طور پر ملحوظ رکھنا چاہیے۔

پھر، وہ اس پر اکتفا نہیں کرتے۔ یہ جو جدوجہد کی گئی ہے، اسے جاری رکھنا ضروری ہے، لہذا وہ وصیت کرتے ہیں کہ منیٰ میں دس دن تک میری عزاداری کرو! امام کو عزاداری کی ضرورت نہیں، لیکن وہ یہ چاہتے ہیں۔ منیٰ میں لوگ فارغ ہوتے ہیں، دنیا بھر سے آتے ہیں، پھر دیکھتے ہیں کہ عزاداری ہے، [پوچھتے ہیں] یہ کس کی ہے، کیوں عزاداری کر رہے ہو، یہاں کیوں، کیا ہوا ہے؛ اس طرح امام باقر کا پیام عالم اسلام کے کونے کونے تک پہنچتا ہے۔ یہ خود ایک بہت اہم سیاسی تدبیر ہے۔ 

۱: الاختصاص، مفید، صفحہ 64