(جناب) جابر نے (حدیث کا یہ حصہ) امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے ’’وَالزَّکاۃُ تزیدُ فی الرِّزقِ‘‘ مسئلہ بظاہر ہماری مادی نگاہ میں یہ ہے کہ جس وقت ہم زکات نکالتے ہیں، یعنی صدقہ کے طور پر ایک رقم الگ کرتے ہیں در اصل اپنی چیز میں کچھ کمی کرتے ہیں، لیکن مسئلے کا باطنی پہلو یہ نہیں ہے بلکہ حقیقت مسئلہ یہ ہے کہ زکات رزق میں اضافہ کرتی ہے اور یہ بھی اس معنی میں ہے کہ زکات نکالنے کا قدرتی اثر یہ ہوتا ہے کہ خداوند متعال اس کا بدلا انسان کو بھلائی کی صورت میں دیتا ہے اور رزق کو بڑھا دیتا ہے، اس سے زیادہ وسیع نگاہ سے جب انسان دیکھتا ہے، ذرا وسیع معنی میں جس وقت معاشرے میں زکات نکالنے کے لوگ عادی ہو جاتے ہیں تو اقتصاد میں رونق آ جاتی ہے اور جب اقتصاد میں رونق پیدا ہو جائے عوام کے تمام طبقے، ہر طرح کے لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں، دوسرے لفظوں میں عبادت کا اصل مضمون یہ بھی ہو سکتا ہے، اس کے بعد فرمایا ہے کہ روزہ بھی اور حج بھی سکون دل کا سرچشمہ ہے، دل کا سکون خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، ’’سکینہ‘‘ یعنی دل کا سکون و آرام، یہ آرام جاں وہی چیز ہے جس کے اولیائے خدا حامل تھے اور بے شمار سختیوں اور مشکلات میں ان کی روح و جان کو آرام و سکون حاصل رہتا ہے۔
امام خامنہ ای
03 / فروری/ 2019