بسم اللہ الرّحمن الرّحیم (1)

الحمد للہ ‌ربّ‌ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ ‌الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین (عجّل‌ اللہ  ‌تعالی ‌فرجہ ‌الشّریف)

برادران عزیزخوش آمدید! امید ہے کہ یہ جلسہ جو ان وجوہات سے جو معلوم ہیں، تاخیر سے انجام پا رہا ہے، ان شاء اللہ عدلیہ کے لئے بھی اور ملک کے لئے بھی مفید اور موثر واقع ہوگا۔ میں عدلیہ کے سبھی اراکین کا، اس کے سربراہ سے لے کر، پورے ملک میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں سرگرم اس کے سبھی اراکین کا شکرگزار ہوں۔

جناب آقائے محسنی نے انجام پانے والے اقدامات کے عنوان سے جو کچھ بیان کیا ہے، اس سے بہت خوشی ہوئی، بہت خوب ہے۔ میری سفارش یہ ہے کہ انجام پانے والے اقدامات کے ساتھ، ہمیشہ ان اقدامات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے جو انجام نہيں پائے ہیں اور انہیں انجام پانا چاہئے۔ یعنی ان میں ہمیشہ ایک تناسب ہونا چاہئے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان سو اچھے کام کرکے خوش ہوتا ہے کہ سو اچھے کام انجام پا گئے۔ لیکن جب  توجہ دیتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دو سو کام انجام نہیں پائے، تو خوشی کچھ کم ہو جاتی ہے۔ البتہ میں یہ دعوی  ہرگز نہیں کرتا کہ گزشتہ برس عدلیہ کی حالت یہی تھی، نہیں اچھے کام بہت ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس اس کی رپورٹ ہے اور صحیح ہے، لیکن ہمیشہ انجام پانے والے کاموں کے ساتھ ہی ان کاموں کو بھی مد نظر رکھیں جنہیں انجام پانا تھا لیکن انجام نہیں پا سکے۔

عدلیہ کے بارے میں ہر سال بہت تفصیل سے جائزہ لیتا ہوں اور اس حوالے سے گفتگو کرتا ہوں۔ میرے خیال ميں عدلیہ کے بارے میں جو باتیں کہنے کی تھیں، اور جن کی سفارش ضروری تھی، وہ کہی گئی ہیں اور بار بار کہی گئی ہیں۔ میں صرف دو نکات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور اس کے بعد ایک اور مسئلہ بیان کروں گا۔  

 پہلا نکتہ یہی مقدمات کی پیروی ہے، چاہے اندرون ملک مقدمات ہوں یا بین الاقوامی مقدمات ہوں۔ ابھی حال ہی میں جو جرائم انجام پائے ہیں، ان کی پیروی بھی بہت ضروری اور اہم ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ برسوں کے معاملات میں ہمیں یہ کام کرنے چاہئے تھے لیکن ہم نے کوتاہی کی۔ اس بار کوتاہی نہ کریں۔ اگر ہم نے اس کی پیروی کی ہوتی، اور بین الاقوامی عدالتوں میں اور اسی طرح ملک کی عدالتوں میں مقدمات دائر کئے ہوتے، چاہے بیس سال لگ جائيں، لگنے دیں،  لیکن یہ کام کیا جائے، مجرم کا گریبان پکڑا جائے۔ بالآخر ممکن ہے کہ کوئی بین الاقوامی عدالت انسان کو ملزم قرار نہ دے اور حقیقت یہی ہو کہ وہ کسی طاقت سے وابستہ ہو۔ مگر کبھی ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ممکن ہے کہ کبھی ایسا نہ ہو بلکہ کوئی ایسا جج مل جائے جو آزاد اور خودمختار ہو۔ یہ پہلا نکتہ ہے، اس کی سنجیدگی سے پیروی کریں۔ پوری ہوشیاری کے ساتھ، پوری قوت سے، سبھی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے، ان شاء اللہ، پیروی کریں۔

 دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عدلیہ کے لئے کی جانے والی سبھی سفارشوں کا ماحصل، ایک لفظ ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام عدلیہ پر اعتماد کریں۔ یہ بات میں نے بارہا ان میٹنگوں میں کہی ہے۔  ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ ملک کے کسی گوشے میں، کسی گاؤں میں، کسی دور افتادہ شہر میں، کسی پر ظلم ہو تو وہ کہے کہ ميں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا، عدالت میں جاؤں گا۔ یعنی ایسی حالت ہو کہ سب یہ سمجھیں کہ وہ عدالت جائیں گے تو ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس طرح کا اعتماد پیدا ہونا چاہئے۔ یہ بہت مشکل کام ہے، بہت سخت ہے۔ البتہ ہر مقدمے اور عدالتی معاملے میں ایک فریق راضی ہوتا ہے اور دوسرا ناراضی ہوتا ہے۔  لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق، صحیح طور پر، دقت نظر کے ساتھ  کیا گیا ہے تو، دل میں اس کو قبول کرتا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ اس پر راضی نہ ہو۔ کوشش کریں کہ یہ حالت پیدا ہو۔ عوام میں اعتماد پیدا ہو۔ انہیں یقین ہو کہ عدلیہ ان کے مسائل حل کرتی ہے۔ 

اس کے لئے، اہم ترین کام  بدعنوانی کے خلاف مہم ہے۔ پہلے مرحلے میں خود عدلیہ کے اندر بد عنوانی دور کرنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے میں نے عدلیہ کے سربراہ جناب آقائے محسنی  سے بارہا بات کی ہے۔ انھوں نے بھی کچھ کام کئے ہیں، ان سے پہلے کے سربراہان نے بھی کئے ہیں۔ اور اس کے بعد عدلیہ سے باہر، بدعنوانی  دور کی جائے۔ بدعنوانی کے حلاف مہم سے عوام کے اندر امید پیدا ہوتی ہے، اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ایک نکتہ یہ ہے۔ یہ دو نکات عدلیہ کے تعلق سے عرض کرنا چاہتا تھا۔  

 لیکن جو بات عرض کرنی ہے وہ یہ ہے کہ حالیہ مسلط کردہ جنگ میں عوام نے عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ بڑا کام آپریشن نہیں تھا، بلکہ ارادہ تھا،عزم تھا اور خود اعتمادی تھی۔ کوئی قوم، کوئی ملک، کسی ملک کی فوج، اپنے اندر اس خود اعتمادی کو دیکھے کہ وہ امریکا جیسی بڑی طاقت سے اور اس علاقے میں اس کے پالتو کتے یعنی صیہونی حکومت سے براہ راست  مقابلے کے لئے تیار ہے، خود یہ ارادہ اور یہ خود اعتمادی بہت اہم ہے۔ ایک وقت تھا،  ہم سے پہلے بھی اور ہماری نوجوانی کے زمانے میں بھی، انقلاب سے پہلے، امریکا کے نام سے ہی لوگ ڈر جاتے تھے۔ چہ جائیکہ اس کا سامنا اور مقابلہ کرنا۔ چاہے زبانی مقابلہ ہو یا عملی مقابلہ ہو۔ گزشتہ شاہی نظام کے افراد کی یاد داشت میں جو برسوں بعد سامنے آئی، تکرار کے ساتھ جو بات لکھی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اعلی حکام امریکا کے کسی اقدام سے ناراض تھے، مثلا تیل کے مسئلے میں یا دیگر مختلف مسائل میں، ناراض تھے، ان کا موڈ خراب تھا لیکن کہتے تھے کہ کچھ نہ کہو، ان کے اندر، حتی خصوصی میٹنگوں میں بھی، اکیلے میں خفیہ طور پر بھی اعتراض کرنے اور بولنے کی جرائت نہیں تھی۔ 

اب وہی قوم ہے جو امریکہ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھڑی ہو جاتی ہے، اس سے نہیں ڈرتی بلکہ اس کو ڈراتی ہے اور عملی لحاظ سے جو بھی اس سے بن پڑتا ہے، انجام دیتی ہے۔ یہ عملی اقدام کا مسئلہ دوسرا مسئلہ ہے، پہلا مسئلہ وہی جذبہ اور استقامت ہے۔ یہ ملی ارادہ، یہ قومی ہمت، یہ وہی چیز ہے جو ملک کو سربلند کرے گی۔ یہ وہی چیز ہے جو ایران کو ایران عظیم بنائے گی۔ میں نے کہا کہ پچاس برس بعد یہ ہونا چاہئے۔ یہ ارادہ وہی بنیادی عامل ہے جو ایران کو وہاں تک پہنچا سکتا ہے۔

میں عرض کرتا ہوں کہ جو بات سب کو جان لینا چاہئے، دوستوں کو بھی جان لینا چاہئے اور دشمنوں کو بھی اور خود ایرانی قوم کو بھی معلوم ہونا چاہئے، وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کسی بھی میدان میں، کمزور فریق کی شکل میں ظاہر نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ ہمارے پاس سبھی لازمی عناصر موجود ہیں، منطق بھی ہے اور طاقت بھی۔ ہم ڈپلومیسی کے میدان میں بھی اور فوجی میدان میں بھی، ان شاء اللہ جب بھی اتریں گے، کامیاب رہیں گے۔ البتہ جنگ میں وار لگایا بھی جاتا ہے اور وار لگتا بھی ہے۔ جنگ میں یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ کوئی حادثہ نہ ہو۔ لیکن الحمد للہ ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں۔ ڈپلومیسی کے میدان میں بھی ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں اور توفیق الہی سے فوجی میدان ميں بھی ہم خالی ہاتھ نہیں ہیں۔

 لیکن یہ اہم قضیہ جو پیش آیا، حالیہ واقعے میں، ہم نے جنگ میں پہل نہیں کی، یہ سب جانتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم صیہونی حکومت کو سرطان سمجھتے ہیں اور اس کی حمایت کی وجہ سے امریکی حکومت کو مجرم مانتے ہیں لیکن ہم نے جنگ میں پہل نہیں کی۔ ہم نے جنگ شروع نہیں کی۔ لیکن جب دشمن نے حملہ کر دیا تو ہمارا جواب مہلک تھا۔ سبھی کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے، معلوم ہونا چاہئے۔ کیونکہ دشمن اس مسئلے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ہم جنگ میں محکم رہے۔ اس کا ثبوت اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ جنگ میں ہماری فریق مقابل صیہونی حکومت امریکا کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئی۔ اگراس کی کمر ٹوٹ نہ گئی ہوتی، اگر وہ گر نہ گئی ہوتی، اگر لاچار نہ ہو گئی ہوتی، اگر اپنا دفاع کرنے پر قادر ہوتی تو اس طرح امریکا سے مدد نہ مانگتی۔  اس نے امریکا کا سہارا لیا۔ یعنی دیکھ لیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے نہیں جیت پائے گی۔ یہ صیہونی حکومت کی حالت ہوئی۔ خود امریکا کی بھی یہی حالت ہوئی۔ جب امریکا نے حملہ کیا تو امریکا پر ہمارا جوابی حملہ بہت سیریئس تھا۔ اب ان شاء اللہ کچھ وقت گزر جائے، چند ماہ یا چند برس بعد جب سینسر ختم ہوگا تو معلوم ہوگا کہ ایران نے کیا کیا۔ جو مرکز ایران کے حملے کا نشانہ بنا، وہ اس علاقے میں امریکا کا غیر معمولی مرکز تھا۔ ہمارا وار بہت کاری تھا۔ البتہ امریکا اور ( اس جیسے) دوسروں پر اس سے بھی زیادہ کاری وار لگائے جا سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔ یہ عملی اقدام کی بات ہے۔    

  اس واقعے میں ایک بہت اہم نقطہ پایا جاتا ہے اور وہ ملی پہلو ہے۔ تنظیمی، فوجی، انٹیلیجنس اور سیکورٹی پہلوؤں سے ہٹ کر، اس واقعے میں جو پہلو ابھر کر سامنے آیا، وہ ملّی جذبہ ہے۔ جارحیت کرنے والوں نے یہ سمجھا تھا، یہ اندازہ لگایا تھا  اور اپنے طور پر یہ حساب کتاب کیا تھا، واقعی انھوں نے یہ حساب کتاب کیا تھا، اس کے لئے انھوں نے باقاعدہ بیٹھ کرحساب کتاب کیا، منصوبہ بندی کی تھی کہ جب ایران پر حملہ کریں گے، ایران کے حساس مراکز کو نشانہ بنائيں گے اور حکومت ایران، اسلامی نظام کے کچھ لوگوں کو  ختم کر دیں گے تو فطری طور پر نظام کمزور ہو جائے گا اور پھر منافقین کے خفیہ مراکز، سلطنتی نظام کی باقیات، ان کے زرخرید ایجنٹ، غنڈے، موالی اور بدمعاش نکل پڑیں گے۔ دشمن نے اپنے طور پر یہ حساب کتاب کیا تھا۔ جو لوگ ڈالر لے کر اپنے ہم وطنوں  کی گاڑیاں نذر آتش کرتے ہیں، وہ نکل پڑیں گے اور سرگرم ہو جائيں گے۔ معاشرے میں ( ایسے افراد) ہیں لیکن جب طاقتورسسٹم کام کر رہا ہو تو یہ خاموش رہتے ہیں۔ فریق مقابل نے سوچا تھا کہ (اس کے خیال خام کے تحت) سسٹم کمزور ہو جائے گا تو یہ عناصر سرگرم ہو جائيں گے، معاشرے میں سر اٹھائيں گے، لوگوں کو ورغلائيں گے اور انہیں نظام کے خلاف سڑکوں پر لانے کی جان توڑ کوشش کریں گے۔  مختصر یہ کہ  نظام کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ ان لوگوں نے یہ خواب دیکھا تھا۔  

 حقیقت میں کیا ہوا؟ حقیقت میں اس کے برعکس ہوا۔ بالکل اس کے الٹ ہوا۔ دشمن کے حملے نے ثابت کر دیا کہ یہ لوگ جو اندازے لگاتے ہیں، چاہے سیاسی میدان سے متعلق ہو یا دیگر میدانوں سے، صحیح نہیں ہیں۔  دشمن کا چہرہ بے نقاب ہو گیا۔ دشمن کے پنہاں اہداف، جنہیں وہ اپنے بیانات میں کسی طرح ظاہر نہیں ہونے دیتا، بہت حد تک آشکارا ہو گئے۔ وہ آٹھ نو مہینے بیٹھ کر کسی اقدام کی، فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہیں، کوئی خبر نہیں ہے، کوئی بات نہیں ہے۔ عوام سمجھ گئے ہیں کہ ایسا نہيں ہے۔ اللہ نے ان کی سازش ناکام بنا دی۔ ان کے اس سازشی منصوبے کو خدا نے ناکام بنایا۔ اللہ نے عوام کو حکومت اور نظام کا پشت پناہ بناکر میدان میں اتارا۔ عوام میدان میں اترے لیکن دشمن نے جو منصوبہ بندی کی تھی، اس کے مطابق نہیں بلکہ اس کی برعکس سمت میں، عوام نظام کی حمایت میں میدان میں آئے اور جان و مال سے اس کی پشت پناہی کی۔  ٹی وی پر مختلف لوگوں کے بیانات آپ نے ملاحظہ فرمائے جو مختلف ظاہری وضع قطع میں،  مختلف شکلوں میں اور مختلف لباسوں میں ظاہر ہوئے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لوگ سامنے آکر اس طرح فداکارانہ انداز میں بولیں گے۔ البتہ بولنے میں اور عمل میں فرق ہوتا ہے لیکن خود  اس طرح بولنا بھی بذات خود اہم ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جذبہ موجود ہے جس کی وجہ سے انسان اس طرح بولتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ ہوگا۔ سبھی مختلف سیاسی نظریات کے ساتھ حتی متضاد سیاسی رجحان کے حامل ہونے کے باوجود، بالکل مختلف مذہبی رجحانات کے باوجود، سب ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور ایک بڑے اتحاد، عظیم ملی وحدت کا جلوہ پیش کیا۔   

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کی حفاظت کریں۔ سبھی اس کی حفاظت کریں۔ صحافی اپنے طور پر، جج صاحبان اپنے طور پر، حکومتی عہدیداران الگ انداز میں، علمائے کرام اپنے طور پر، ائمہ جمعہ حضرات اپنے طور پر، ہر ایک کا فریضہ ہے کہ اس حالت کو محفوظ رکھے۔ اس میں اور سیاسی رجحان کے اختلاف میں کوئی منافات نہیں ہے۔ مذہبی رجحانات کے اختلاف میں اور اس میں کوئی منافات نہیں ہے۔ ایک حقیقت کے دفاع میں، ملک کے دفاع میں ، نظام  کے دفاع میں اور ایران عزیز کے دفاع میں  سب کا ایک ساتھ ڈٹ جانا۔ ( اس کو محفوظ رکھا جائے)

 البتہ کچھ کام ضروری ہیں اور کچھ کام مضر ہیں۔ تبیین (بیان کرنا) ضروری ہے۔ ان مغالطوں کو دور کرنا ضروری ہے جو بعض اوقات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن غیر ضروری اعتراضات اور چھوٹے چھوٹے مسائل کے بارے میں بحث اور ہنگامہ کرنا مضر ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ خود مغالطہ دور کرنے کی جو بات میں نے عرض کی، یہ کام بھی مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام ایسی بہترین شکل میں کیا جائے کہ ملک کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ 

 زبان سے اور بیان  میں نظام کی وفاداری کا اظہار مفید اور ضروری ہے۔ ضروری بھی ہے اور مفید بھی ہے۔ اسی موضوع میں جس کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے، نظام کی مجموعی پالیسیوں کی تائید اور حمایت اور اس کو قبول کرنا ضروری ہے لیکن افراد میں جو نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں، ان کو گہرا کرنا اور یہ کہنا کہ اس کا تعلق اس دھڑے سے ہے، یہ اس دھڑے سے ہے، یہ بات اس طرح ہے، یہ مضر ہے۔ بنابریں کچھ کام ضروری ہیں اور بعض کام مضر ہیں۔ ہمیں انہیں الگ کرنا ہوگا۔

 عوامی جوش و خروش ضروری ہے۔ آج ایرانی عوام میں ایک جوش وخروش پایا جاتا ہے، بالخصوص نوجوانوں میں یہ جوش  وخروش زیادہ ہے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ ضروری ہے۔ لیکن جلدبازی مضر ہے۔ جلدبازی کریں اور شور مچائيں کہ جناب  یہ کیوں نہیں ہوا؟ یہ کام کیوں نہیں کیا؟ کوئی اقدام کیوں نہیں کیا؟ یہ مضر ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کون سا کام کرنا چاہئے اور کون سا کام نقصان دہ ہے۔ اسی لئے یہ باتیں اور سفارشات میں نے عرض کی ہیں۔

 میری آخری سفارش یہ ہے کہ آج الحمد للہ ذمہ دار ادارے جو کام کر رہے ہیں، چاہے وہ فوجی ادارے ہوں یا ڈپلومیسی کے میدان میں کام کرنے والے ادارے ہوں، دونوں ہی، صحیح شکل میں اور صحیح سمت میں کام کر رہے ہیں، دونوں کی فعالیت ضروری ہے۔ دونوں کو پوری تندہی سے اپنا کام کرنا چاہئے لیکن صحیح جہت اور سمت پر توجہ رہے۔ خاص طور پر ڈپلومیسی کے میدان میں صحیح جہت اور سمت پر توجہ بہت اہم ہے۔ اس پر بھرپور توجہ دی جائے۔ دقت نظر سے کام لیا جائے۔ ان شاء اللہ۔

ممکن ہے کہ کسی کو کسی فوجی یا ڈپلومیسی کے کسی مسئلے میں، کسی عہدیدار پر اعتراض ہو، میں یہ نہیں کہتا کہ اعتراض نہ کریں، کیوں نہیں! لیکن اعتراض اور تنقید کا لہجہ قابل قبول ہونا چاہئے۔ دوسرے تحقیق کے بعد، اطلاع حاصل کرنے کے بعد اعتراض یا تنقید کی جائے۔ بعض اوقات اخبارات میں یا دوسری جگہوں پر میں کچھ باتیں دیکھتا ہوں، بعض لوگ کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ایسے اعتراضات کرتے ہیں جو ان کی بے خبر ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہی نہيں کہ کون سا کام ہوا ہے، کیا ہونا چاہئے تھا اور نہیں ہوا اور مثال کے طور پر اس کو انجام پانا چاہئے۔ اس کی انہیں اطلاع نہیں ہے۔  صحیح اطلاع حاصل کریں اور پھر مناسب لہجے میں اپنے نظریات بیان کریں۔ حکام پورے جذبے اور قوت سے ان شاء اللہ اپنے کام جاری رکھیں اور سبھی، سبھی جان لیں کہ اس آیہ کریمہ کے مطابق جو ان صاحب (2) نے ابھی پڑھی ہے کہ: لینصرنّ اللہ من ینصرہ" (3)  خداوند عالم نے اسلام نظام اور قرآن اور اسلام کے سائے میں، ملت ایران کے لئے، اس نصرت کی ضمانت دی ہے اور ایرانی عوام یقینا کامیاب ہوں گے۔   

 

 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1۔ اس جلسے میں عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین غلام حسین مسحنی اژہ ای نے رپورٹ پیش کی

2۔ جناب علی رضا سبحانی

3۔ سورہ حج آیت نمبر 40