ایک قوم چاہے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، کتنی ہی دولتمند کیوں نہ ہو، اگر اس کے افراد کے درمیان اختلافات نے اپنی جڑیں پھیلالیں اور تفرقے کی آگ بھڑک اٹھی ناکام و بدبخت اور بے بس و لاچار ہوکر رہ جائے گی، اختلافات، کہ جس کا ذکر ہوا ہے، اس کا مطلب طریقہ ؤ روش کا اختلاف نہیں ہے اگر خط و راہ ، رخ اور سمت یا مذاق و طبیعت کا فرق ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اختلافات کا مطلب سیاسی مقابلہ آرائیوں تک پہنچ جانا جو فضا اور ماحول کو خراب اور متشنج کردیتی ہیں ... یہ قوم وہ قوم ہے کہ جس نے ’’اتحاد‘‘ سے ایک انقلاب برپا کردیا ’’متحد ‘‘ ہوکر، تھوپی گئی جنگ کی مانند عظیم مصیبت کو سر کرلیا، اتحاد و یکجہتی سے کام لیکر اب تک بڑی طاقتوں کی دشمنی کے خلاف خالص طور پر امریکی حکومت کی دشمنیوں کے مقابلے میں، جو اس قوم، اس حکومت اور اس نظام کا شدیدترین مخالف ہے، ثابت و استوار اپنی جگہ قائم ہے، آئندہ بھی اپنا اتحاد باقی رکھئے اور دشمن کو اجازت نہ دیجئے کہ وہ منحرف قسم کے نعرے بلند کرکے، جھوٹی دلکشیاں ایجاد کرکے یا مصنوعی چہرے سامنے لاکر آپ کے درمیان آپس میں دشمنی پیدا اور جھگڑے کرائے۔

امام خامنہ ای 

25 / دسمبر / 1998