انھوں نے پہلے تو اپنی زندگی، انتہائی نسل پرست ملک میں سیاہ فام لوگوں اور دیگر اقلیتوں کی آزادی کے لیے وقف کر دی۔ 1970 کی دہائی میں اسلام کا مطالعہ کرنے اور اسے اپنانے کے بعد، وہ اٹلانٹا، جارجیا میں ایک روحانی رہنما اور بہت بااثر لیڈر بن گئے۔ وہ خدا کے دین کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

وہ شخص جو کبھی ایچ ریپ براؤن(3) کے نام سے جانا جاتا تھا اور جس کی باتیں جذبات کا طوفان بھڑکا سکتی تھیں، ایک ایسے امام میں تبدیل ہو گیا جو طوفان کو بھی پرسکون کر دیتا تھا، جیسا کہ ان کی مسجد کے اطراف کے محلوں میں دیکھا جا سکتا تھا۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں جنوب مغربی اٹلانٹا، امریکا کے بہت سے سیاہ فام محلوں کی طرح جرم، منشیات اور موت سے آلودہ جگہ بن گیا۔ یہ، امریکی حکومت کی منصوبہ بند کیمپینز کا نتیجہ تھا تاکہ سیاہ فام لوگوں میں ایک بار پھر 1960 کی دہائی کی طرح، سیاہ فاموں کی آزادی کی تحریک(4) کے تحت انقلابی جذبہ پیدا نہ ہو جائے۔ کریک، کوکین اور ہتھیار جان بوجھ کر ان محلوں میں پہنچائے گئے تاکہ ان کے ذریعے تفرقے، لالچ اور جرائم میں اضافہ ہو۔

تاہم اس محلے کی مسجد(5) کے آس پاس، جو امام جمیل کی کوششوں سے تعمیر ہوئی تھی، ایک الگ ہی طرح کا ماحول تھا۔ یہاں تک کہ منشیات کے اسمگلر بھی ان کا اور ان کے ماضی کا احترام کرتے تھے اور اس احترام کے تحت اس محلے کے مسلمانوں کو گزند نہیں پہنچاتے تھے۔ سبھی جانتے تھے کہ اس مسجد اور اس محلے کے رہنے والے ان کے حمایت یافتہ ہیں اور کسی کو بھی انھیں نقصان پہنچانے کا حق نہیں ہے۔

اس احترام کی کئی وجوہات تھیں: پہلی وجہ وہ شخصیت تھی جو امام جمیل الامین کو اسلام قبول کرنے کے بعد حاصل ہوگئی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ وہی شخص تھے، جو وہ ہمیشہ سے تھے، یہاں تک کہ جب وہ "ایچ ریپ براؤن" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہوبرٹ جیرالڈ براؤن(6) (ایچ ریپ براؤن) چار اکتوبر 1943 کو لوئیزیانا ریاست میں پیدا ہوئے۔ یہ ریاست جنوبی امریکا(7) کے مرکز میں واقع ہے۔ وہ اس زمانے میں بڑے ہوئے جب نسلی تقسیم(8) اپنے عروج پر تھی اور وہ جوانی سے ہی امریکا کی نسل پرستانہ پالیسیوں سے بخوبی واقف تھے اور ہائی اسکول کے زمانے میں ہی ایک سماجی کارکن بن گئے تھے۔

براون ایک باصلاحیت مقرر اور امریکا میں سیاہ فام افراد اور دیگر اقلیتوں کے لیے مساوات کی اہمیت کے لیے پرعزم تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں وہ "اسٹوڈنٹ نان وائلنٹ کوآرڈینیٹنگ کمیٹی (SNCC)"(9) میں شامل ہوگئے، جو ایک سول اور تشدد مخالف اسٹوڈنٹ تنظیم تھی جس کا مقصد نسلی تقسیم کا خاتمہ اور سیاہ فام افراد پر ظلم کے خلاف مزاحمت تھا۔ اس گروپ کے اراکین دھرنوں، مظاہروں اور دیگر پرامن احتجاج کے ذریعے نسل پرستی اور نسلی امتیاز کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے تھے اور حکمراں نسل پرست نظام کو بدلنے کی کوشش کرتے تھے۔

1960 کی دہائی کے اواسط میں، جب سفید فاموں کی جانب سے سیاہ فاموں کی سرکوبی بدستور جاری تھی، ایچ ریپ براؤن، جو اس وقت تک SNCC کے صدر بن چکے تھے، بلیک پینتھر پارٹی(10) کے بھی رکن بن گئے کیونکہ اس پارٹی کا نقطۂ نظر زیادہ جدوجہد والا اور عسکری نوعیت کا تھا۔ انھوں نے اس پارٹی میں "مرد انصاف" کا عہدہ سنبھالا۔

بلیک پینتھرز کا ماننا تھا کہ سیاہ فام لوگوں کو اپنی تاریخ سے آگاہی کے لیے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ انھوں نے مفت ناشتے کے پروگرام شروع کیے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کو کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ انھیں تعلیم بھی دی۔ اس پارٹی نے صحت کے کلینک بھی قائم کیے اور ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ سیاہ فام لوگوں کے خلاف پولیس کے امتیازی سلوک اور تشدد کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے محلّوں کا انتظام انھیں خود چلانا چاہیے۔ وہ اپنے محلوں سے پولیس کے باہر نکلنے کا مطالبہ کرتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ان سیاہ فام بستیوں کے لیے اصل خطرہ خود پولیس تھی۔

ایچ ریپ براؤن ایک سرگرم اور بااثر مقرر تھے، اسی وجہ سے وہ "ریپ" کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اپنی انقلابی تقریروں کے ذریعے اپنے سامعین میں جوش پیدا کر سکتے تھے۔ وہ فوجی-صنعتی کمپلیکس(11) کے بارے میں بات کرتے تھے اور یہ کہ امریکا پر حکمراں نظام کے پاس اصلاح کے لیے انقلاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ موجودہ نظام کے ڈھانچے کے پیش نظر، اگر کوئی سیاہ فام شخص امریکا کا صدر بھی بن جائے، تب بھی سیاہ فام لوگوں کی حالت نہیں بدلے گی کیونکہ وہ صدر بھی اسی نظام کے دائرے میں کام کرنے پر مجبور ہوگا جس نے اسے صدر بننے دیا تھا۔ لہٰذا یہ پورا نظام مکمل طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔

براؤن کہتے تھے کہ لوگ اکیلے ہی امریکا کے سیاسی نظام میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے کیونکہ یہ پورا ڈھانچہ ہی فوجی-صنعتی کمپلیکس کے زیر تسلط کام کر رہا ہے۔ وہ ایک کرشمائی لیڈر تھے جو نوجوانوں کو بھی اور بڑی عمر کے لوگوں کو بھی اپنی طرف مائل کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ سفید فام برتری(12) کی ذہنیت رکھنے والی حکومت کے نشانے پر آ گئے۔ 1967 میں ایف بی آئی کی ایک خفیہ رپورٹ میں، جو بعد میں سامنے آئی، انھیں نیوٹرلائزڈ کرنے کا مطالبہ کیا گيا تھا۔ براؤن سیاہ فام انقلابیوں کا ایک اہم چہرہ تھے جنھیں ایف بی آئی مختلف طریقوں سے نشانہ بنا رہی تھی۔

"کو انٹیل پرو"(13) ایف بی آئی کی جانب سے چلایا جانے والا ایک غیر قانونی پروگرام تھا جس نے آخرکار سیاہ فاموں کی تحریک آزادی(14) کو ختم کر دیا؛ چاہے لوگوں کو قتل کر کے، چاہے ان کی شبیہ بگاڑ کر اور چاہے کارکنوں کو جیل میں ڈال کر۔ اس پروگرام کے تحت ہر وہ کام کیا گیا جس کے ذریعے لوگوں اور سبھی حریت پسند تحریکوں کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ 1970 کے عشرے میں براؤن کو جیل میں ڈال دیا گیا اور انھوں نے وہیں پر مطالعہ شروع کیا اور آخر کار اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے اپنا نام جمیل الامین رکھا اور رہائی کے بعد اٹلانٹا میں "محلے کی مسجد" کی بنیاد رکھی جو "ویسٹ اینڈ کی مسجد"(15) کے نام سے بھی مشہور ہے۔

ان کے پیروکاروں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی اور امام جمیل نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ مسجد کے اطراف میں آ کر رہیں، وہیں کام کاج کریں اور ایک کمیونٹی بنائيں تاکہ اٹلانٹا کے جنوب مغربی محلے میں اسلامی طرز زندگی قائم ہو جائے۔ انھوں نے اسی کے ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور علاقے میں جرائم اور منشیات کے خلاف بہت مؤثر کردار ادا کیا۔ شاید پہلی نظر میں، ایسا مذہبی چہرہ جو جرائم اور منشیات کے خلاف جدوجہد کر رہا ہو، پولیس کی نظر میں آئيڈیل دکھائی دیتا ہو لیکن حقیقت میں معاملہ بالکل الٹا تھا۔ وہ لوگوں کو بتاتے تھے کہ یہ امریکا کا فاسد سسٹم ہے جو چاہتا ہے کہ لوگ منشیات کے عادی ہو جائیں تاکہ ان کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں جو ان پر ظلم ڈھا رہے تھے۔

اقتدار میں بیٹھے لوگ چاہتے تھے کہ سیاہ فام لوگوں کے محلوں میں ہمیشہ جرائم اور برائیاں باقی رہیں اور ان میں انقلابی جذبہ پھر کبھی بیدار نہ ہو۔ امام جمیل لوگوں کو بہتر سے بہتر بننے کی تعلیم دیتے تھے اور ان کی تعلیمات کے زیر اثر بہت سے لوگ مشرف بہ اسلام بھی ہوئے۔ امریکی نظام ہمیشہ انھیں اپنے لیے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھتا رہا اور اسی وجہ سے ایف بی آئي ان پر سخت نظر رکھتی تھی۔ انھیں کئی بار"کو انٹیل پرو" کے تحت پکڑا گیا تاکہ ان کی شبیہ بھی خراب کی جا سکے اور لوگوں میں ان کے اثرات کو بھی کم کیا جا سکے کیونکہ وہ مطلق آزادی کے داعی تھے کہ جو اللہ تعالیٰ کے سامنے پوری طرح سر تسلیم خم کرنے سے عبارت ہے۔

امام جمیل الامین اپنی پاکیزہ زندگي اور بہترین روش کے باوجود، جو بہت سے لوگوں کے لیے نمونہ تھی، ایک ایسے نظام کی بھینٹ چڑھ گئے جو کسی شجاع اور بااثر مسلمان لیڈر کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ مارچ 2000 میں انھیں ایک پولیس اہلکار کو قتل اور ایک دوسرے کو زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گيا۔ انھوں نے اپنی زندگي کے آخری لمحے تک اس الزام کو بے بنیاد بتایا۔ ہتھیار پر ان کی انگلیوں کے نشانات بھی نہیں ملے۔ اس پولیس اہلکار نے جو زخمی ہوا تھا، دعوی کیا کہ امام جمیل نے اس پر فائر کیا تھا تاہم ایک گواہ موجود تھا جس نے واضح الفاظ میں کہا کہ امام جمیل نے فائر نہیں کیا تھا۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ ایک دوسرے شخص نے جرم کا اعتراف کیا اور واقعے کی تمام تفصیلات بیان کیں لیکن عدالت نے اس کے اقبالیہ بیان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

بات بالکل واضح تھی کہ امام جمیل الامین بھی اپنے سے پہلے والے کئی سیاہ فام انقلابیوں کی طرح امریکی سسٹم کے جال میں پھنس گئے تھے۔ یہ سسٹم ہر طرح کے حربے استعمال کر کے امریکا کے سیاہ فام سماج سے بیداری اور حریت کی آواز کو کچلنے کے درپے ہے۔ بہرحال امام جمیل نے اپنی جان قربان کر دی تاکہ دوسروں کو حقائق سے آگاہ کر سکیں۔ انھوں نے جیل کے دوران ناقابل بیان ایذائیں اور صعوبتیں برداشت کیں۔ انھیں آٹھ سال تک کال کوٹھری میں رکھا گيا تاکہ وہ دوسروں سے مل نہ سکیں۔ پھر انھیں کینسر کے علاج کی اجازت نہیں دی گئی اور اس طرح 23 نومبر 2025 کو 82 سال کی عمر میں انھیں ابدی آزادی حاصل ہو گئی جو انھیں اس دنیا میں کبھی نہیں ملی تھی۔

جو کچھ امریکی حکومت نے ان کے ساتھ کیا وہ، اس سے اس نے ایک بار پھر انسانی حقوق کے اس کے کھوکھلے دعووں کو ثابت کر دیا۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: انسانی حقوق کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جو جیلوں اور دنیا بھر کے علاقوں حتی خود اپنی قوم کے اندر بنیادی ترین انسانی حقوق کو پامال کرتے ہیں اور ایذا رسانی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں۔ کیا ایک ملک کے لئے یہ شرم سے ڈوب مرنے کی بات نہیں ہے!؟ کیا یہ شرم کی بات نہیں ہے کہ ایک ملک قیدیوں کی ایذا رسانی کو قانونی حیثیت دے اور اسے قانونی طور پر منظور کرے؟ پھر یہ لوگ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، انسانی وقار کی بات کرتے ہیں! اس پر کون یقین کرے گا؟! (فضائیہ کے کمانڈر، عہدہ داروں اور جوانوں سے ملاقات، 2012/2/8)

امام جمیل ایک ایسے ہیرو بن گئے جس نے اپنی جان قربان کر کے، آزادی و حریت کے حقیقی معنی دنیا کے سامنے پیش کیے۔ خدواند عالم انھیں غریق رحمت کرے۔

تحریر: مرضیہ ہاشمی، صحافی اور ڈاکیومینٹری ساز

 

  1. Imam Jamil al-Amin
  2. Minister of Justice
  3. H. Rap Brown
  4. Black Liberation Movement
  5. Community Masjed
  6. Hubert Gerold Brown
  7. Deep South
  8. Segregation
  9. Student Nonviolent Coordinating Committee (SNCC)
  10. Black Panther Party
  11. Military-Industrial Complex
  12. White Supremacist
  13. COINTELPRO
  14. Black Liberation Organization
  15. West End Masjed