رہبر انقلاب اسلامی: خدا رحمت کرے، مرحوم جناب خوشوقت پر، انھوں نے بتایا کہ ایک عارف نے ایک #مکاشفے کے دوران دیکھا کہ ایک بلندی ہے۔ کچھ نوجوان وہاں آتے ہیں اور ایک ہی چھلانگ میں اس بلندی پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس عارف نے بھی کئي بار چھلانگ لگائي، لاکھ کوشش کی، لیکن اس بلندی پر نہیں پہنچ سکا اور زمین پر گر گيا۔ بعد میں اس کی سمجھ میں آيا کہ وہ #نوجوان ہیں اور وہ خود بوڑھا ہے۔ روحانیت اور معنویت کی دنیا بھی ایسی ہی ہے، عرفان کی دنیا بھی ایسی ہی ہے، خدا کے جمال کی دید اور اس کا مشاہدہ بھی ایسا ہی ہے؛ وہاں بھی جوان کی تیاری زیادہ ہے؛ وہ بہتر طریقے سے پرواز کر سکتا ہے اور زیادہ اونچے راستوں پر چھلانگ لگا سکتا ہے۔ بوڑھے جب تک کوشش کر کے آگے بڑھیں گے تب تک وقت گزر چکا ہوگا اور پھر ان کی توانائي بھی جواب دے جائے گي۔ 9 نومبر 2016
اس مقصد کے لئے کہ انسان جب ماہ رمضان میں وارد ہو تو کھلی آنکھوں کے ساتھ وارد ہو، غافل نہ رہے، بلکہ ہمارے اور آپ کے اندر اس کی آمادگی پیدا ہو جائے، رجب اور شعبان کے ان مہینوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ رجب زیادہ سے زیادہ نمازوں کا مہینہ ہے، شعبان زیادہ سے زیادہ دعاؤں اور روزے کا مہینہ ہے۔
امام خامنہ ای
4 اکتوبر 2004
دعا کی صرف یہ تاثیر نہیں کہ انسان اپنا دل اللہ کے قریب کر لیتا ہے، یہ تو حاصل ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ہی اسے علم حاصل ہوتا ہے۔ دعا میں تعلیم بھی ہے اور تزکیہ بھی۔
رجب کے مہینے کا ہر دن ایک نعمت خداوندی ہے۔ اگر انسان عقلمند، ہوشیار اور آگاہ ہو تو اس کے ہر لمحے سے کوئی ایسی شئے حاصل کر سکتا ہے جس کے سامنے دنیا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔ یعنی رضا و لطف و عنایت و توجہ پروردگار حاصل کر سکتا ہے۔
امام خامنہ ای
8 فروری 1991
رہبر انقلاب اسلامی نے تبریز کے عوام کے 29 بہمن سن 1356 بمطابق 18 فروری سن 1978 کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر جمعرات 17 فروری 2022 کی صبح صوبہ مشرقی آذربائيجان کے عوام کو ویڈیو لنک کے ذریعے مخاطب کیا۔ انھوں نے تبریز کے عوام کے قیام کو ایرانی قوم کی عظیم تحریک کا تسلسل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تمہید قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی نے تبریز کے عوام کے 29 بہمن سن 1356 بمطابق 18 فروری سن 1978 کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر جمعرات کی صبح صوبہ مشرقی آذربائيجان کے عوام کو ویڈیو لنک کے ذریعے مخاطب کیا۔ انھوں نے تبریز کے عوام کے قیام کو ایرانی قوم کی عظیم تحریک کا تسلسل اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تمہید قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی تبریز کے عوام کے 29 بہمن سن 1356 بمطابق 18 فروری سن 1978 کے قیام کی سالگرہ کے موقع پر مشرقی آذربائيجان کے عوام سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔
تین مہینے یعنی رجب، شعبان اور رمضان پورے سال میں خود سازی کے مواقع اور زندگی و تقدیر کے عظیم سفر کے لئے ضروری زاد راہ اور توانائی حاصل کرنے کے مہینے ہیں۔
امام خامنہ ای
13 جنوری 1993
علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت ایسی شخصیت ہے کہ اگر آپ شیعہ ہیں تب بھی ان کا احترام کریں گے، اگر سنی ہیں تب بھی ان کا احترام کریں گے، مسلمان نہیں ہیں تب بھی اگر آپ اس شخصیت سے واقف ہیں اور ان کے حالات زندگی سے آشنا ہیں تو ان کا احترام کریں گے۔
امام خامنہ ای
20 ستمبر 2016
امام محمد تقی الجواد علیہ السلام سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ منافق اور ریاکار طاقتوں کا سامنا ہو تو ہمت سے کام لیں اور ان طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام کے اندر بیداری پیدا کریں۔ امام جواد سلام اللہ علیہ نے مامون کے چہرے سے ریاکاری اور فریب دہی کی نقاب ہٹانے کے لئے کام کیا اور کامیاب ہوئے۔
امام خامنہ ای
10 اکتوبر 1980
اسلامی انقلاب کی تینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی اردو ویب سائٹ urdu.khamenei.ir نے بر صغیر کے ممتاز علماء و اسلامک اسکالرز حجت الاسلام و المسلمین آقا سید حسن الموسوی، حجت الاسلام و المسلمین عالی جناب مولانا روح ظفر رضوی، حجت الاسلام و المسلمین علامہ شہنشاہ نقوی سے انٹرویو کئے۔ تینوں دانشوروں کے تاثرات ملاحظہ فرمائيے۔
تغیر و تبدیلی الہی ادیان کی بنیادی ترین ذمہ داریوں میں سے ایک رہی ہے۔ عاشورہ کا اہم پیغام بھی تغیر اور تبدیلی کا پیغام ہے۔ امام حسین تبدیلی لانے والے اور انقلابی امام ہیں۔
ہمارے دور میں اس تبدیلی کی ایک مثال، ایران کا اسلامی انقلاب ہے۔ انقلاب اسلامی کے رہبر کبیر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے تبدیلی کے اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے نہ صرف ایران بلکہ عالم اسلام میں بھی امت کو تبدل کر دیا۔
ملت ایران کا نعرہ تکبیر اپنا خاص انداز رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ پیغمبر کا نعرہ تکبیر ہے، یہ بت شکن نعرہ تکبیر ہے، یہ طاقت و ثروت کے بتوں کو ہیچ اور بے وقعت قرار دینے والا نعرہ ہے، یہ عالمی استکبار کے مد مقابل ایک ملت کی شجاعت و بہادری کا نعرہ ہے۔
امام خامنہ ای
28 اگست 1985
اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کی سالگرہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے عام اور انقلابی عدالتوں اور مسلح افواج کے عدالتی ادارے سے، اسی طرح محکمہ جاتی کارروائی کے تحت سزا پانے والے تین ہزار تین سو اٹھاسی افراد کو معافی دینے یا ان کی سزائیں کم کرنے کی تجویز کو منظوری دی ہے۔
عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محسنی اژہ ای نے اسلامی انقلاب کی پرشکوہ کامیابی کی سالگرہ کے موقع کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو ایک خط لکھ کر 3388 قیدیوں کی سزا معاف کرنے یا ان کی سزا میں کمی یا تبدیلی کی تجویز پیش کی تھی، جس سے انھوں نے اتفاق کیا ہے۔ معافی کے مخصوص کمیشن میں ان افراد کی فائلوں کا جائزہ لیا گيا تھا اور انھیں معافی یا سزا میں کمی کا مستحق پایا گیا۔ آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے یہ تجویز آئین کی دفعہ ایک سو دس کی گيارہویں شق کے تحت منظور کی ہے۔
8 فروری 1979 کو سابق شاہی فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائيہ اور ائير ڈیفنس کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس حیرت انگیز بیعت کو ایک فیصلہ کن موڑ بتایا۔
آٹھ فروری سن انیس سو اناسی کو سابق شاہی فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائيہ اور ائير ڈیفنس کے بعض کمانڈروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس حیرت انگیز بیعت کو ایک فیصلہ کن موڑ بتایا۔
امیر المومنین اپنے ان چچا، بھائي اور چچا زاد بھائي کے ساتھ بیٹھے اور ایک بات کا عہد کیا کہ ہم شہادت حاصل ہونے تک جہاد کرتے رہیں گے۔ اس کے بعد امیر المومنین فرماتے ہیں کہ یہ لوگ یعنی میرے تین ساتھی مجھ سے آگے بڑھ گئے اور میں انتظار کی گھڑیاں گن رہا ہوں۔
اسلام ایک ضابطہ حیات ہے، جو صرف عبادات اور شخصی و انفرادی امور تک محدود نہیں بلکہ معاشرہ سازی اور نظام سازی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا عملی ثبوت پیش کرنے میں ایران کس حد تک کامیاب ہوا؟
پندرہویں صدی عیسوی میں دنیا میں مسلمان اور مسیحی طاقتوں کے درمیان ایک طرح کا بنیادی توازن پایا جاتا تھا۔ یعنی مادی طاقت کے لحاظ سے ان دونوں تمدنوں میں سے کسی کو بھی دوسرے پر واضح برتری نہیں تھی لیکن بعد میں یہ توازن بگڑ گیا۔ سولہویں صدی اور اس کے بعد مغربی دنیا میں جو تبدیلیائي آئيں ان کے تحت مغربی دنیا کو مادی طاقت کے لحاظ سے برتری حاصل ہو گئي۔ دور سے وار کرنے والے ہتھیاروں، بندوق، توپ وغیرہ کی ایجاد، توازن کی اس تبدیلی کا بنیادی سبب تھی۔ فزکس اور ریاضی جیسے علوم کا فروغ اور سائنسی علوم کا دوسری راہ پر چل پڑنا - وہ راستہ جسے نیوٹن نے شروع کیا اور ریاضی دانوں اور فزکس دانوں نے اسے جاری رکھا - فطرت پر مغربی دنیا کے زیادہ تسلط میں مؤثر ثابت ہوا۔
20 ویں صدی، سنہ 1979 تک کہ جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سال ہے، دنیا میں مسلمانوں کی ناکامیوں کی صدی ہے۔ سیاہ اور تلخ صدی، مسلسل شکستوں کی صدی اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے زوال کی صدی ہے۔
20 ویں صدی میں خاص طور پر اس کے نصف دوم میں، دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی ممالک کو ظاہری خودمختاری حاصل ہو گئی لیکن ان تبدیلیوں سے عالم اسلام کو عملی طور پر کوئي بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ یعنی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلیاں، دنیا میں کسی بھی جگہ اسلامی طاقت کی بحالی پر منتج نہیں ہوئيں۔ بیسویں صدی میں عالم اسلام میں جو سب سے اہم واقعہ رونما ہوا وہ عثمانی سلطنت کا خاتمہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ ایک ایسی طاقت تھی جس کے قبضۂ اختیار میں آج کا پورا مشرق وسطی، شمالی افریقا اور خلیج فارس و بلقان کے کچھ حصے تھے اور یہ طاقت یورپ میں ویانا کے دروازے تک پہنچ چکی تھی لیکن پہلی جنگ عظیم میں اسے شکست ہوئي اور پھر وہ واقعہ رونما ہوا جس کے نتائج آج بھی مسلمان بھگت رہے ہیں۔
یونیورسٹیاں، خاص طور بشریات کی یونیورسٹیاں مغربی نظریوں کے کنٹرول میں تھیں اور کوئي بھی اسلامی ملک، مغربی تمدن میں پیدا ہونے والے اور اسلامی ملکوں میں انڈیل دئے جانے والے بشریات کے علوم کے علاوہ یونیورسٹی میں کسی دوسری طرح کے انسانی علوم کو تیار کرنے کی فکر اور جذبہ نہیں رکھتا تھا۔
اس موضوع کی اہمیت کو بہتر طریقے سے اجاگر کرنے کے لیے میں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کے ایک حصے کو چنا ہے جو انھوں نے 9 ستمبر سنہ 1964 کو قم میں کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں: "مسلمان وہ تھے جن کی عظمت پوری دنیا پر چھائی ہوئي تھی، ان کا تمدن، تمام تمدنوں پر بھاری تھا، ان کی معنوی چیزیں، تمام معنویات سے بالا تھیں، ان کی ہستیاں، تمام ہستیوں میں سب سے زیادہ نمایاں تھیں، ان کی مملکت کی توسیع، تمام ملکوں سے زیادہ تھی، ان کی حکومت کا دائرہ پوری دنیا تک پھیلا ہوا تھا، ان لوگوں نے دیکھا کہ اس دائرۂ حکومت اور اسلامی حکومتوں کے اس اتحاد کی وجہ سے ان پر وہ چیزیں مسلط نہیں کی جا سکتیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ان کے خزانوں پر، ان کے کالے سونے پر، ان کے پیلے سونے پر اور دوسری چیزوں پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا، تو انھوں نے اس کے لیے چارہ اندیشی کی۔ طریقہ یہ تھا کہ اسلامی ممالک کے درمیان تفرقہ پیدا کر دیں۔
شاید بہت سے لوگوں کو، آپ میں سے بعض کو عالمی جنگ یاد ہو، پہلی عالمی جنگ میں مسلمانوں اور بڑی عثمانی حکومت کے ساتھ کیا کیا گيا؟ سلطنت عثمانیہ ان حکومتوں میں سے ایک تھی کہ جو اگر سوویت یونین سے ٹکرا جاتیں تو عین ممکن تھا کہ اسے زمین بوس کر دیتیں۔ دوسری حکومتیں، میدان میں اس کی حریف نہیں تھیں۔ عثمانی حکومت، ایک اسلامی حکومت تھی جس کا دائرۂ اقتدار تقریبا مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس اسلامی حکومت کا، جو اتنی طاقتور ہے، کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا، اس کے خزانوں کو لوٹا نہیں جا سکتا۔ جب اس جنگ میں، اس طرح سے انھوں نے غلبہ حاصل کر لیا تو عثمانی حکومت کو بہت چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے بھی ہر ایک کے لیے یا تو امیر مقرر کر دیا، یا سلطان معین کر دیا یا پھر صدر طے کر دیا۔"
البتہ ناکامیاں، سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے تک محدود نہیں تھیں۔ تاہم سب سے اہم ناکامی عثمانی حکومت کا شیرازہ بکھرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام خمینی، عثمانی سلطانوں کے تمام کاموں کو اسلام کے مطابق مانتے تھے۔ ان باتوں سے الگ، امام خمینی کا ایک اور نظریہ تھا۔ ایک دوسرا واقعہ بھی رونما ہوا جو بیسویں صدی کا ایک دوسرا خسارہ تھا اور وہ روس میں مارکسسٹ انقلاب کی کامیابی اور سوویت یونین کا وجود میں آنا تھا جو اس بات کا سبب بنا کہ قفقاز، تاجکستان، ترکمنستان، قزاقستان، قرقیزستان اور وسطی ایشیا کے کروڑوں مسلمان، دین مخالف اور الحادی مارکسسٹ حکومت کے تحت آ جائيں اور اسلام اور عالم اسلام سے ان کا رابطہ ستّر سال کے لیے کٹ جائے۔
ایک دوسرا تباہ کن واقعہ، سن انیس سو اڑتالیس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطی میں اسرائيل کے نام سے ایک جعلی حکومت کا وجود میں آنا تھا جو ایک خنجر کی طرح عالم اسلام کے جسم میں گھس گيا اور جو امام خمینی کے الفاظ میں 'کینسر کا پھوڑا' تھا۔ اس جعلی و غاصب حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد کے ان برسوں میں، فلسطینی عوام، عربوں اور مسلمانوں پر کیا کیا مصائب ڈھائے گئے ہیں اور عالم اسلام کو کیا کیا مصیبتیں برداشت کرنی پڑی ہیں۔
عالم اسلام کے مشرق میں رونما ہونے والا ایک دوسرا واقعہ، مملکت پاکستان کا تشکیل پانا تھا۔ پاکستان کے بانیوں کی نیت یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان ملک بنائيں اور مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے اقتدار میں پہنچائيں لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئي۔ افسوس کہ پاکستان ایک طاقتور اسلامی ملک میں تبدیل نہیں ہوا۔ ہندوستان سے پاکستان کی علیحدگي کے آغاز سے ہی دونوں ملکوں کی سرحدیں، امن کی سرحدیں نہیں تھیں بلکہ جنگ کی سرحدیں تھیں۔ کشمیر کا یہ پرانا زخم بدستور ٹکراؤ کا سبب ہے۔ دشمنوں نے نہیں چاہا کہ یہ مسئلہ حل ہو۔
ہندوستان، سوویت یونین کی طرف جھک گيا جبکہ پاکستان، امریکا کے جال میں پھنس گيا۔ اس کے بعد خود پاکستان کے بھی دو حصے ہو گئے، مشرقی پاکستان، بنگلادیش کے نام سے مغربی پاکستان سے الگ ہو گيا اور ایک بار پھر علیحدگي اور تفرقہ سامنے آیا۔
ان حالات میں عالم اسلام کے ایک بڑے ملک اور ایک نسبتا بڑی آبادی والے ملک یعنی ایران میں، قدیمی ایران میں، تاریخی ملک ایران میں مغربی دنیا کی مبہوت نظروں کے سامنے سنہ 1979 میں ایک عالم دین، ایک فقیہ اور ایک مرجع تقلید کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے نام سے ایک انقلاب کامیاب ہوا۔
یہ انقلاب، اسلامی افکار کی بنیاد پر ایک ایسی تحریک تھا جو سامراج مخالف تھی، ظلم کے خلاف تھا، حریت پسندانہ تھی لیکن اپنے آپ پر منحصر تھی، فکری و ثقافتی لحاظ سے بھی اور جدوجہد کے طریقوں کے لحاظ سے بھی۔ یہ وہ انقلاب تھا جسے امام خمینی نے فتح سے ہمکنار کیا تھا اور جو مشرق و مغرب سے کسی طرح وابستہ نہیں تھا۔ 'لاشرقیہ و لاغربیہ' کا نعرہ اس انقلاب کی فکری و سیاسی خودمختاری کو اس وقت کی حکمراں طاقتوں کے سامنے عیاں کر رہا تھا اور تمام اسلامی ملکوں کو بتا رہا تھا کہ یہ انقلاب، 'ازم' کے مختلف مغربی عناوین کے ساتھ اسلامی ملکوں میں سامنے آنے والے تمام قیاموں اور تحریکوں سے پوری طرح الگ ہے۔ یہ مشرقی کمیونزم کا بھی مخالف ہے اور مغربی سرمایہ داری کے بھی خلاف ہے۔
امام خمینی نے جدوجہد کی روش میں سرمایہ دارانہ مغرب اور کمیونسٹی مشرق میں رائج اور جانے پہچانے طریقوں کی پیروی نہیں کی؛ انھوں نے نہ تو مغرب کے پارٹی سسٹم کا اتباع کیا اور نہ ہی کمیونسٹ ملکوں کے مزدوروں، چھاپہ ماروں، کسانوں، نچلے طبقوں، انڈر گراؤنڈ رہ کر کام کرنے والوں اور مسلحانہ جدوجہد کی روش اپنائي۔ اللہ پر توکل کرنا، تمام عوامی گروہوں کی حمایت اور خالی ہاتھ جدوجہد، امام خمینی کی روش تھی۔ پھر جب انقلاب کامیاب ہو گيا تو انھوں نے فرمایا: "اسلامی جمہوریہ! نہ ایک لفظ کم، نہ ایک لفظ زیادہ۔"
ناامیدی سے بھری اس دنیا میں، ناکامیوں سے پر اس صدی میں، اس دور میں اسلامی دنیا کے افق پر جب کہیں سے کوئي بھی کرن مسلم نوجوان کے دل کی ڈھارس نہیں بن رہی تھی، امام خمینی کا کام یہ تھا کہ انھوں نے دنیا میں دینی حکومت کا احیاء کیا۔ یہ وہ نظریہ تھا جسے مغرب چار سو سال پہلے ختم شدہ اعلان کر چکا تھا اور اسے نظریات کی تاریخ کے حوالے کر چکا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک بار پھر دین، مسند حکومت پر براجمان ہو جائے گا۔ امام خمینی نے، دینی حکومت کا اعلان کیا اور جہاد و شہادت کی ثقافت کو پھر سے زندہ کر دیا۔ انھوں نے جہاد اور شہادت کے بھلائے جا چکے احکام کو ایک بار پھر زندہ کر دیا۔ انھوں نے جو کام کیا وہ اس ہمہ گير دین مخالف نظریے کی نفی تھی جو مشرق و مغرب اور اسلام ملکوں میں شرق و غرب زدہ افراد کے افکار پر چھایا ہوا تھا۔ امام خمینی نے اسلام کی سیاسی طاقت کا احیا کیا اور ساتھ ہی دینی حکومت کے نظریے کی تدوین کی اور اس نظریے میں عوام اور خدا کے رابطے، وحی اور احکام الہی کی پوزیشن، عوام کے مقام اور عوام کے کردار کو نظریاتی طور پر بیان کیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ انھوں نے عملی طور پر ایک حقیقی نمونہ ایجاد کیا۔ انھوں نے ایک حکومت کو وجود بخشا تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ یہ باتیں عملی جامہ نہیں پہن سکتیں اور صرف کاغذ پر ہیں اور کتابوں کی الماریوں کو زیب دیتی ہیں۔
اب دیگر مسلمانوں کے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ دین کے ساتھ حکومت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے؛ اب سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے اپنے ملکوں میں یہ کام کر سکتے ہیں اور اس ممکن کام کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟
پابندیوں، دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی استقامت اور اسلامی جمہوریہ میں ہونے والی سائنسی و صنعتی پیشرفت اور مختلف طرح کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر نظاموں کی تشکیل، تمام مسلمانوں کے لیے پیغام ہے۔
معروف اسلامک اسکالر، نظریہ پرداز، مصنف اور سیاستداں ڈاکٹر غلام علی حداد عادل کی تقریر کے چند اقتباسات
واقعی حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مظلوم اصحاب میں سے ایک ہیں۔ وہ ناشناختہ ہیں، ان کی زندگي کے حالات کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے، ان کی خصوصیات لوگوں کو نہیں معلوم، واقعی وہ مظلوم ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی حتمی ہدف و مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ہماری حتمی منزل حیات طبیہ ہے۔
اس بیان کی روشنی میں حیات طیبہ کی
➖ایسے انسان تھے جو اپنی راہ کی حقانیت پر سو فیصدی یقین و اعتقاد رکھتا ہو۔ جیسا کہ قرآن میں پیغمبر کے بارے میں آیا ہے: «امن الرسول بما انزل الیه من ربّه»(بقرہ 285)۔ سچے اور صاف گو انسان تھے۔ سیاست بازی سے دور تھے۔ بڑے با ہوش اور دور اندیش انسان تھے۔
امام خامنہ ای،
۲ فروری ۱۹۹۹
امام خمینی ایک عوامی شخصیت تھے اور عوام پر انھیں بڑا اعتماد تھا۔ 1962 کی بات ہے جب امام خمینی اس قدر مشہور بھی نہیں ہوئے تھے، انہوں نے قم میں اپنی ایک تقریر میں حکومت وقت کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو قم کے بیابان کو عوام الناس سے پر کر دوں گا۔ چند مہینے ہی گزرے تھے کہ امام خمینی نے مدرسہ فیضیہ میں تاریخی خطاب کیا۔ عوام بندوقوں اور ٹینکوں کے مد مقابل کھڑے ہو گئے۔
امام خامنہ ای،
2 فروری 1999
امام محمد باقر علیہ السلام کو 'باقر العلم' کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی حقائق و مفاہیم جن پر دروغ، فریب، ریاکاری اور تحریف کی پرتیں چھا گئی تھیں، امام نے ان پرتوں کو شگافتہ کیا اور اس اصلی حقیقت اور مغز کو تشنگان حق و حقیقت کے سامنے پیش کر دیا۔ یہ ہمارے ائمہ علیہم السلام کے عظیم جہاد کا ایک اور پہلو ہے۔
امام خامنہ ای
کتاب ہمرزمان حسین صفحہ 142
بسماللّہالرّحمنالرّحیم.
والحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی محمّدٍ و آلہ الطّاہرین۔ و لعنۃاللّہ علی اعدائہم اجمعین۔
میں واقعی آپ حضرات کا بہت شکر گزار ہوں جنھوں نے اس بارے میں سوچا اور یہ بڑا اقدام انجام دیا۔ البتہ یہ ایک تمہید ہے۔ یعنی آپ کا یہ اقدام اور جناب حمزہ سلام اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ اجلاس، یہ تمہیدی کام ہے، اگلے کاموں کے لیے آئيڈیل معین کرنے والا کام ہے۔ اصل کام تو ہنر کو انجام دینا ہے۔ اس کام کے لیے پرفارمنگ، لسانی اور ویجوول (visual) آرٹس کو استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ حضرت حمزہ جیسی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مقصد پورا ہو سکے۔ ورنہ صرف خراج عقیدت پیش کرنے کے اجلاس سے، گو کہ ممکن ہے کہ میڈیا سے نشر ہو اور ایک مدت تک اس اہم شخصیت کا نام نشر ہوتا رہے، لیکن آپ جو کام کرنا چاہ رہے ہیں، ثقافت سازی کرنا چاہ رہے ہیں، آئيڈیل سازی کرنا چاہ رہے ہیں، وہ ہنری کام کے بغیر پوری طرح سے انجام نہیں پا سکتا، ادھورا رہ جائے گا۔ بنابریں آپ کا کام بہت اچھا ہے۔ آپ جو بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ آپ نے اشارہ بھی کیا ہے، صحیح ہے، اعتقاد پر بھروسہ کیجیے اور کام کی کوالٹی بہتر سے بہتر بنائیے۔ یہ اس بات کا سبب بنے گا کہ جو، ہنری کام کرنا چاہتا ہے اس کے پاس ضروری مآخذ اور ٹھوس دستاویزات موجود رہیں گی۔ کچھ جملے جناب حمزہ علیہ السلام کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا۔
واقعی حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مظلوم اصحاب میں سے ایک ہیں۔ یعنی ان کا جو کردار رہا ہے، چاہے ایمان لانے کے وقت، ایمان لانے کی وہ کیفیت کہ اس عظیم شخصیت نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں اور ابن اثیر کے بقول ابو جہل کی خوب پٹائي کے بعد انھوں نے اسلام کا اعلان کیا۔ اُسدُالغابہ میں ابن اثیر نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ہجرت کا مسئلہ، مدینے پہنچنے کا مسئلہ، اسلام کی پرشکوہ عمارت کی تعمیر میں، جسے پیغمبر اس چھوٹے سے ماحول میں انجام دینا چاہتے ہیں، حضرت حمزہ کی شخصیت کا بڑا اثر تھا۔ پھر ایک روایت کی بنیاد پر رسول خدا نے جس پہلے سریّے(1) میں روانہ کیا تھا، وہ حضرت حمزہ کا سریہ تھا۔ آپ نے ان کے لیے پرچم تیار کیا اور انھیں جنگ کے لیے بھیجا۔ پھر جنگ بدر اور وہ عظیم کارنامہ جو انھوں نے اور ان دو بزرگوں نے انجام دیا اور پھر جنگ احد۔ جنگ بدر میں، بظاہر جنگ بدر میں ہی ایک قیدی نے پوچھا کہ وہ کون تھا جو لڑتے وقت اپنے ساتھ ایک علامت لئے ہوئے تھا؟ - حضرت حمزہ اپنے لباس میں کوئي علامت رکھتے تھے - اس قیدی کو بتایا گيا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب تھے۔ اس نے کہا کہ ہم پر جو بھی مصیبت آئی، وہ انہی کے ذریعے آئي۔ انھوں نے ہی جنگ بدر میں لشکر کفار کا بیڑا غرق کر دیا۔ مطلب ان کی اس طرح کی شخصیت تھی۔ ان سب کے باوجود، وہ ناشناختہ ہیں، ان کا نام نمایاں نہیں ہے، ان کی زندگي کے حالات کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے، ان کی خصوصیات لوگوں کو نہیں معلوم، واقعی وہ مظلوم ہیں اور میں کہتا ہوں کہ خدا رحمت کرے مصطفی عقاد پر اور ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی فلم 'الرسالۃ' (The Message) میں اس عظیم شخصیت کو، ایک معرکۃ الآرا فلم میں، واقعی معرکۃ الآرا فلم ہے، خاص طور پر حضرت حمزہ سے متعلق حصے میں، اور اس کردار کا اداکار بھی غیر معمولی طور پر مشہور اور اہم ہے اور اس کا ایک خاص جلوہ ہے، کسی حد تک اس عظیم شخصیت کی تصویر کشی کرنے میں کامیابی حاصل کی، البتہ کسی حد تک ہی۔ یہ کام ہونا چاہیے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اصحاب کے سلسلے میں بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ عمار کے بارے میں بھی یہ ہونا چاہیے، جناب سلمان کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، جناب مقداد کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، مقداد کو کون پہچانتا ہے؟ کون جانتا ہے کہ انھوں نے کیا کیا ہے؟ یہاں تک کہ پیغمبر کے اول درجے کے اصحاب کے بارے میں ہے کہ 'حاص حیصۃ'(1) سوائے مقداد کے، صرف وہی تھے جن میں بالکل بھی لغزش نہیں آئي، یہ چیزیں بڑی اہم ہیں، انھیں سامنے لانا چاہیے، ان کا احیاء ہونا چاہیے۔ یا جناب جعفر بھی اسی طرح کے ہیں، خاص طور پر حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زندگي میں ہنری صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں۔ وہ حبشہ کا سفر، سفر کی کیفیت، سفر پر جانا اور واپس آنا، یہ بڑی معیاری چیزیں ہیں اور ہنری لحاظ سے ان پر بڑا اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔ خیر تو پہلے مرحلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب حمزہ کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی مظلوم ہے کہ انھیں کما حقہ نہیں پہچانا گيا۔
ان کاموں کے علاوہ امیر المومینن علیہ السلام کا وہ فرمان، وہ روایت جو نور الثقلین نے خصال کے حوالے سے نقل کی ہے، البتہ میں نے خصال میں نہیں بلکہ نور الثقلین میں دیکھی ہے، حضرت حمزہ کے بارے میں، میرے خیال میں اہم روایت ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، امیر المومنین کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا، یہ تفصیلی روایت ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے: "لَقَدْ كُنْتُ عَاھَدْتُ اللَّہَ تعالی وَ رَسُولَہُ اَنَا وَ عَمِّي حَمْزَۃُ وَ اَخِي جَعْفَرٌ وَ ابْنُ عَمِّي عُبَيْدَۃُ" ان عبیدہ ابن حارث کو بھی کوئي نہیں جانتا، یہ عظیم شخصیت بھی ناشناختہ ہے۔ یہ وہ ہیں جو جنگ بدر میں گئے تھے، ان تین افراد میں سے ایک تھے اور پھر شہید ہوئے تھے، بعد میں شہید ہوئے تھے۔ کسی کو بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ حضرت امیر ان کا نام لیتے ہیں، میں، میرے چچا حمزہ، میرے بھائي جعفر اور میرے چچا زاد بھائي عبیدہ۔ فرماتے ہیں کہ "عَاھَدْتُ اللَّہَ تعالی اَنَا" میں نے اور ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا " عَلَى اَمْرٍ وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی علیہ و آلہ" ایک بات پر آپس میں اتفاق کیا، خدا اور اس کے پیغمبر سے عہد کیا، مطلب یہ کہ بیٹھے اور یہ طے کیا۔ جوان امیر المومنین اپنے سن رسیدہ چچا کے ساتھ، جو پیغمبر سے دو سال بڑے تھے، ایک روایت کے مطابق حضرت حمزہ عمر کے لحاظ سے رسول خدا سے دو یا چار سال بڑے تھے اور وہ پیغمبر کے رضاعی بھائي بھی تھے۔ تو امیر المومنین اپنے ان چچا، بھائي اور چچا زاد بھائي کے ساتھ بیٹھے اور ایک بات کا عہد کیا اور بات "جہاد حتی الشہادۃ" یعنی شہادت تک جہاد سے عبارت تھی۔ یعنی یہ کہ ہم اس راہ میں شہادت تک بغیر ڈرے آگے بڑھتے رہیں گے، شہادت حاصل ہونے تک جہاد کرتے رہیں گے۔(2) اس کے بعد امیر المومنین فرماتے ہیں: "وَفَيْنَا بِہِ لِلَّہِ وَ لِرَسُولِہِ صلّی اللّہ عَلَیْہِ وَ آلِہ فَتَقَدَّمَنِي أصْحَابِي" یہ لوگ یعنی میرے تین ساتھی مجھ سے آگے بڑھ گئے "وتَخَلَّفتُ بَعْدَھُم(3) لِمَا اَرَادَ اللَّہُ تَعالی فَاَنْزَلَ اللَّہُ فِينَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجالٌ صَدَقُوا ما عاھَدُوا اللَّہَ عَلَيْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضى نَحْبَہ" آيت کے آخر تک، پھر کہتے ہیں کہ حمزہ، جعفر اور عبیدہ، جن لوگوں نے، قضی نحبہ، یعنی جنھوں نے اپنے عہد کو پورا کیا، وہ یہ تین لوگ ہیں۔ "و انا واللہ المنتظر" اور خدا کی قسم میں منتظر ہوں۔ یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ امیر المومنین کی زبان سے یہ بات اس طرح بیان ہوئي ہے۔ اس طرح سے لوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے، ان کی عظمت بیان کی جائے اور ان کی شخصیت کو نمایاں کیا جائے، یہ اس موضوع کی عظمت اور اس شخصیت کی عظمت کا غماز ہے۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حمزہ کی شہادت کے لمحے سے ہی انھیں رول ماڈل بنانا چاہا۔ آپ نے انھیں سید الشہداء کا لقب دیا، پھر مدینے لوٹے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں، کیونکہ جنگ بدر میں بہتّر لوگ شہید ہوئے تھے، چار افراد مہاجرین میں سے تھے اور اڑسٹھ انصار میں سے شہید ہوئے تھے، تو انصار کی عورتیں رو رہی تھیں، گریہ و زاری کر رہی تھیں، بین کر رہی تھیں، پیغمبر نے کچھ دیر تک سنا اور پھر فرمایا کہ حمزہ پر کوئي رونے والی نہیں ہے۔ یہ بات مدینے کی خواتین تک پہنچی اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے شہید پر رونے سے پہلے حمزہ پر گریہ کریں گي، پیغمبر نے انھیں اس کام کی ترغیب دلائي تھی نا، یعنی انھوں نے پورے مدینہ کو حضرت حمزہ پر رونے کی ترغیب دلائي، پورے مدینے میں کہرام مچ گيا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے رسول اللہ، جناب حمزہ کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سید الشہداء ہیں اور وہ ہیں جن پر سبھی کو گریہ کرنا چاہیے۔ یہ رول ماڈل بنانا ہے۔ اور یہ چیز صرف اسی دن کے لیے نہیں ہے، ہمیشہ کے لیے اور پوری تاریخ کے لیے ہے، تمام مسلمانوں کے لیے ہے، بنابریں آپ کا کام صرف ملک کے اندر اور ایران کا نہیں ہے، آپ ایسا کام کر رہے ہیں جو ان شاء اللہ اگر اچھے سے ہو گيا اور مجھے پوری امید ہے کہ یہ کام اچھے سے ہو جائے گا، تو پھر یہ سبھی اسلامی ملکوں، سبھی عرب ملکوں اور دیگر زبان کے ملکوں کی ایک خدمت ہوگي۔ اس سے سبھی کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور ان شاء اللہ سبھی فائدہ اٹھائيں گے۔ شاید ان کے فنکار پیشقدمی کریں اور بڑے بڑے کام انجام دیں۔
خیر، اب ہمیں جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر کا تعین کریں۔ یعنی ایک بڑا کام یہ ہے کہ اس شخصیت کے ساتھ کیا ہوا، کس خصوصیت نے انھیں اس حد تک عظمت عطا کی۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم کام ہے، پھر یہ ہم لوگوں کے لیے آئيڈیل بن جائے تاکہ خود ہم لوگ بھی اور دوسرے بھی، اس سے استفادہ کریں۔ میرے خیال میں حضرت حمزہ کی شخصیت کو تشکیل دینے والے عناصر میں سے دو یہ ہیں: ایک عزم مصمم اور دوسرے شناخت؛ شناخت کی طاقت۔ ان چیزوں کی ہمیں زیادہ سے زیادہ ترویج کرنی چاہیے۔ عزم مصمم، ٹھوس ارادہ؛ کبھی انسان کسی بات سے مطلع ہوتا ہے، کسی بات کو مانتا بھی ہے، اس پر عقیدہ بھی رکھتا ہے لیکن کمزور ارادے کے سبب اس کے مطابق عمل نہیں کر پاتا۔ ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم یہاں پر ایک فیصلہ کن عنصر ہے کہ اس پرعزم شخصیت نے، جس دن حضرت حمزہ نے اپنے اسلام کا اعلان کیا، بعثت کے آٹھویں سال انھوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا، وہ دن پیغمبر کے سخت ترین ایام میں سے ایک تھا، کیونکہ اسلام آشکار ہو چکا تھا اور ادھر ادھر سے پیغمبر پر حملے ہو رہے تھے، رسول خدا کے اصحاب پر حملے ہو رہے تھے، یہ سختیاں جو ہم نے سنی ہیں، انھیں برسوں سے متعلق ہیں۔ انھیں سخت برسوں میں، ایسے حالات میں جب مسلمان انتہائي سختی میں زندگی گزار رہے ہیں، اس شخصیت نے مسجد الحرام میں، کعبے کے قریب چیخ کر کہا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں، سبھی جان لیں کہ میں ان کے دین پر ایمان لے آيا ہوں۔ یہ وہی شجاعت ہے، وہی ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم ہے اور صحیح شناخت ہے اور یہ صحیح شناخت بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اپنے عوام کو یہ سکھانا چاہیے کہ مسائل کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچیں اور صحیح تعین کریں۔ قالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ ما كُنَّا في اصحابِ السَّعيرِ"(4) فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِھِم(5) (کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کی سزا پانے والوں میں نہ شامل ہوتے۔" تو اس طرح وہ اپنے قصور کا اعتراف کر لیں گے۔) یہ کہ ہم نہ سنیں، نہ سوچیں، غور نہ کریں، یہ گناہ ہے، قرآن مجید، اس طرح صراحت کے ساتھ اسے بیان کرتا ہے۔
تو یہ بزرگ شخصیت امام محمد باقر علیہ السلام کے مطابق امیر المومنین کے حوالے سے "صدقوا ما عاھدوا اللہ"(6) کی مصداق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ "صدقوا ما عاھدوا اللہ" یعنی عہد الہی کو صداقت کے ساتھ پورا کر دکھانا، یہ کیسے ہوتا ہے؟ اس کی مکمل اور کامل شکل یہ ہے کہ انسان، الہی تعلیمات، الہی احکام اور خدا کی معین کردہ راہ کے لیے خود کو آئيڈیل بنا دے، خود کو اس کا مصداق بنا لے۔ ان شاء اللہ ہمیں یہ سیکھنا چاہیے۔ اگر معاشرے کی سرکردہ شخصیات اس طرح کی شخصیات تیار کرنے کی کوشش کریں تو ان میں سے ہر ایک، حساس مواقع پر سماج کو نجات دے سکتی ہے۔ واقعی ایسا ہی ہے۔ ہم اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ کچھ ایسے لوگوں کی تربیت کریں یا وعظ و نصیحت کریں یا ایسا ہی کچھ اور کریں کہ نتیجتا وہ اچانک ہی کوئي بھی بات تسلیم کر لیں، نہیں، کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایسی ایک پوری مشینری ہو۔ بحمد اللہ جامعۃ المصطفی(7) اس سلسلے میں ایک سرگرم مرکز ہو سکتا ہے۔ قم میں بعض مراکز، جنھیں بحمد اللہ حال میں اعلی دینی تعلیمی مرکز کی کارآمد منتظمہ نے وجود عطا کیا ہے، اس طرح کی چیزوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ کچھ تشہیراتی ادارے بھی اس سلسلے میں اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہم ایسی شخصیتیں تیار کریں جو خود الہی تعلیمات، اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام کی مصداق ہوں۔ اگر اس طرح کی شخصیات تیار ہو گئيں تو پھر اسلامی تمدن کی تشکیل، ایک یقینی بات ہوگي، یعنی پھر اس میں کوئي شک و شبہ نہیں رہ جائے گا۔
ان شاء اللہ خداوند عالم آپ لوگوں کو اجر عطا کرے، آپ کو کامیاب کرے تاکہ آپ اس کام کو اور اگلے کاموں کو ان شاء ا للہ بہترین طریقے سے انجام دے سکیں۔ اس اجلاس کے انعقاد میں شامل آپ تمام حضرات کا میں اپنے طور بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) سریہ اس جنگ کو کہا جاتا ہے جو رسول خدا کے زمانے میں ان کی براہ راست شرکت کے بغیر ہوتی تھی اور اس جنگ کی کمان آپ کے کسی صحابی کو سونپی جاتی تھی۔ جس جنگ میں حضور خود براہ راست شرکت کرتے تھے، اسے غزوہ کہا جاتا تھا۔
(2) رہبر انقلاب اسلامی کا گریہ
(3) رہبر انقلاب اسلامی کا گریہ
(4) سورۂ ملک، آيت 10
(5) سورۂ ملک، آيت 11
(6) سورۂ احزاب، آيت 23
(7) قم شہر میں غیر ملکی طلبہ کا اعلی دینی تعلیمی مرکز
امام خمینی نے عوام کے لئے اسلامی تعلیمات کی تشریح کی۔ حکومت کا مفہوم بیان کیا اور انسان کا مفہوم سمجھایا اور عوام کو یہ بتایا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا اور کیا ہونا چاہئے۔ جن حقائق کو زبان پر لانے کی لوگ جرئت نہیں کرتے تھے، امام خمینی نے ان حقائق کو سرگوشیوں میں نہیں بلکہ کھلے عام بیان کیا۔
امام خامنہ ای
2 فروری 1999
عشرۂ فجر کی آمد اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تینتالیسیوں پرشکوہ سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای پیر کو علی الصباح اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر پہنچے اور ایرانی قوم کے عظیم الشان قائد کو خراج عقیدت پیش کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح 28 جون 1981 کے سانحے کے شہداء کے مزاروں پر حاضر ہو کر خداوند متعال سے ان کے درجات کی بلندی کی دعا کی۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای اس کے بعد گلزار شہدا گئے اور انھوں نے اسلام اور ایران کا دفاع کرنے والے شہیدوں کی پاکیزہ ارواح پر درود و سلام بھیجا۔
2022/01/31
ہمارا انقلاب ایسی حکومت کے خلاف عظیم عوامی انقلاب تھا جو ایک قابل مذمت حکومت کی تمام خصوصیات کی حامل تھی۔ بد عنوان بھی تھی، بیرونی طاقتوں کی پٹھو بھی تھی، بغاوت کے ذریعے مسلط ہوئی تھی اور نا اہل بھی تھی۔
امام خامنہ ای،
2 فروری 1999
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کرکے فقیہ اعلی مقام اور بابصیرت مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمی الحاج شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
ہماری بات یہ ہے: "انقلاب، بعثت پیغمبر کا تسلسل تھا۔" (3/4/2019) آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے اس جملے کو اسلامی انقلاب کی ماہیت کے بارے میں سب سے جامع و مانع جملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ انقلاب کہ جس میں "قوم، امام خمینی جیسی ایک عظیم شخصیت کے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے۔ کئي ہزار سالہ ایک بوسیدہ طاغوتی اور خبیث عمارت کو خطے کی اہم ترین جگہ یعنی ایران میں مسمار کر دیتی ہے اور اسلامی عمارت تعمیر کرتی ہے، یہ پیغمبر کی بعثت کا تسلسل ہے۔" (3/4/2019) بعثت کی ماہیت میں دو بنیادی عناصر ہیں: 'دینی ہونا اور طاغوت مخالف ہونا۔'
اب یہ بھی اہم ہے کہ طاغوت کا مصداق بیان کیا جائے۔ "ہمارا انقلاب اور نظام، بنیادی طور پر امریکا کے خلاف تشکیل پایا۔ صحیح ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے پہلوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا لیکن یہ جنگ، صرف پہلوی سلطنت کے خلاف نہیں تھی، امریکا کی موجودگي اور امریکیوں کے تسلط اور اثر و رسوخ کے خلاف بھی جنگ تھی جو اس قوم کی ہڈیوں کے گودے تک میں گھسے ہوئے تھے۔" (26/7/2000)
اس تشریح کی بنیاد پر کہ طاغوت کا اصل مصداق امریکا ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ "انقلاب، بعثت پیغمبر کا تسلسل تھا۔" تو اس کا مطلب یہ ہے کہ "عوام کے قیام کا دینی پہلو بھی تھا اور امریکا مخالف پہلو بھی تھا۔" (8/1/2021) کیونکہ "امریکا ہمارے ملک میں فرعونیت کر رہا تھا ... زمانے کے موسی آئے، اس فرعون اور اس کے حواریوں کا تخت و تاج الٹ دیا اور ختم کر دیا ... اور ان لوگوں کے توسط سے امریکا کو اس ملک سے نکال باہر کیا۔" (9/9/2015)
اگر ہم سنہ انیس سو ترپن سے انیس سو اٹھہتر تک امریکا کی کارکردگي پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس پچیس برس کے عرصے میں پیش آنے والی تمام مشکلات، سختیوں، جلاوطنیوں، ایذا رسانیوں، موت کی سزاؤں، لوٹ مار، غارتگری اور المیوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکا کا کردار رہا ہے۔ درحقیقت "اگرچہ ظاہری فریق طاغوت کی ظالم حکومت اور پہلوی سلطنت تھی لیکن امریکی اس حکومت کی پشت پر تھے؛ وہی اس حکومت کی حمایت کر رہے تھے اور اس کے ذریعے ہمارے ملک کے تمام امور پر مسلط ہو گئے تھے۔" (31/10/2012) مطلب یہ کہ "ایران پوری طرح امریکا کی مٹھی میں تھا ... ملک کے وجود کے تمام اصلی ستون، امریکیوں کی مرضی سے کام کرتے تھے۔" (9/9/2015) بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ "امریکی، براہ راست ملک کے مسائل میں دخل انداز کرنے لگے تھے اور انھوں نے امام خمینی کو ملک بدر کر دیا۔" (31/10/2012)
اس درمیان جو چیز عوامی جدوجہد کے 'امریکا مخالف' ہونے کو زیادہ واضح کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ "قم کے عوام کے قیام سے ایک ہفتے پہلے، امریکی صدر نے -اس وقت کارٹر تھے- تہران میں پہلوی حکومت اور محمد رضا کے سلسلے میں اپنی سو فیصد حمایت اور پشت پناہی کا اعلان کیا۔" (8/1/2021) اس کے بعد ہی عوام نے سامراج اور امریکا کے خلاف ہمہ گیر قیام اور تحریک کو اوج پر پہنچا دیا اور ایک سال کے اندر، ان کا کام تمام کر دیا۔
ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی اصل وجہ
انقلاب کے بعد ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کا اصل راز بھی یہی مسئلہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا زور دے کر کہا ہے کہ "اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے ملک پر سے امریکا کے تسلط کا خاتمہ کر دیا، ساری بات یہی ہے ... انھیں نوکر چاہیے؛ اسلامی جمہوریہ نے ان کے سامنے اپنی عزت نفس کا مظاہرہ کیا اور یہ لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔" (9/5/2018) ایرانی قوم سے ان کی دشمنی کی وجہ "اسلام کی طرفداری اور اسلامی نظام پر ڈٹے رہنا اور اس کا بھرپور دفاع کرنا ہے۔" (9/1/2003) یہی وجہ ہے کہ "امریکیوں، ان کے حلیفوں اور ساتھیوں کی طرف سے جو اقدام بھی کیا جاتا ہے وہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے اور اس کی تحقیر کے لیے ہوتا ہے۔" (8/2/2015)
اس کے علاوہ امریکیوں کو "نظام سے قطع نظر، ملک کی خودمختاری سے بھی مشکل ہے۔" (12/6/2017) اس کی واضح مثال تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک تھی۔ یہ چیز قومی خودمختاری سے وابستہ تھی لیکن امریکیوں کی بغاوت سے اس کی سرکوبی کر دی گئي۔
انقلاب کی ماہیت کی تحریف کے لیے مغرب پرستوں کا مغالطہ
اس کے برخلاف "کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم سے جو عداوتیں کی جا رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تنازعہ کھڑا کیا ہے؛ ہم نے ہمیشہ انھیں اکسایا ہے۔" (14/6/2016) یہ غلط خیال، تاریخ سے لاعلمی کے سبب ہے۔ امریکا کی عداوتوں کی تاریخ پر ایک نظر اور ایرانی قوم کے تجربوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب امریکا سے ایران کا کوئي تنازعہ نہیں تھا، تب بھی وہ ایران کے خلاف دشمنی اور سازش میں مصروف تھا۔ ایرانی قوم سے امریکا کی دشمن کی گہرائي کو عیاں کرنے والے تلخ تاریخی تجربات میں سے ایک یہ تھا کہ "اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائي مہینوں میں، امریکی سینیٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک سخت بل اور قرارداد منظور کی اور عملی طور پر دشمنی شروع کر دی۔ یہ ایسے عالم میں تھا کہ ابھی ایران میں امریکی سفارتخانہ کھلا ہوا تھا!" (3/11/2015)
مغرب پرست، اپنے مغالطے کو جاری رکھتے ہوئے امریکا سے تعلقات اور دوستی کو، اس کی دشمنی سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ وہی تاریخی تجربات بتاتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات کسی بھی صورت میں ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ سے اس کی دشمنی کو کم نہیں کریں گے۔ "جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکا سے تعلق، امریکا سے دوستی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان، امریکا کی شرپسندی سے محفوظ رہے، انھیں اس تاریخی تجربے پر نظر ڈالنی چاہیے۔" (3/11/2015)
ایرانی قوم، بدستور امریکا مخالف جدوجہد کی راہ پر
اس چھوٹے سے گروہ کے مغالطوں کے مقابلے میں ایرانی قوم، استقامت کے ساتھ اپنے اسی 'امریکا مخالف' نظریے پر اور اس بات پر یقین کے ساتھ کہ "اسلامی انقلاب میں یہ مغرب اور امریکا مخالف نظریہ، ایک صحیح تجربے اور صحیح و معقول رائے اور صحیح اندازے پر مبنی ہے" (23/7/2014) اسلامی انقلاب سے پہلے کی اسی جدوجہد کی سمت میں پوری طاقت سے آگے بڑھ رہی ہے اور چونکہ "انقلاب، ایک دائمی اور مسلسل عمل ہے ... ایک زندۂ جاوید حقیقت اور دائمی حقیقت ہے ... اور کبھی بھی ختم نہیں ہوگا" (16/9/2015) اس لئے طاغوت اور بڑے بت پر مکمل غلبے تک ایرانی قوم کی 'امریکا مخالف' جنگ بھی جاری رہے گي۔
عشرۂ فجر کی آمد اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی تینتالیسیوں پرشکوہ سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای پیر کو علی الصباح اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر پہنچے اور انھوں نے نماز پڑھ کر اور قرآن مجید کی تلاوت کرکے، ایرانی قوم کے عظیم الشان قائد کو خراج عقیدت پیش کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی اسی طرح اعلی مرتبہ شہداء بہشتی، رجائي، باہنر اور 7 تیر سنہ 1360 ہجری شمسی مطابق 28 جون 1981 کے سانحے کے شہداء کے مزاروں پر حاضر ہو کر خداوند متعال سے ان کے درجات کی بلندی کی دعا کی۔ آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای اس کے بعد گلزار شہدا گئے اور انھوں نے اسلام اور ایران کا دفاع کرنے والے شہیدوں کی پاکیزہ ارواح پر درود و سلام بھیجا۔
یہ جو 'سورۂ ھل اتی' میں خداوند عالم، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے گھرانے کے عمل کا ذکر تفصیل سے کرتا ہے، یہ بہت ہی اہم چیز ہے۔ یہ ایک پرچم ہے جو قرآن مجید بلند کرتا ہے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دروازے پر یہ پرچم لہراتا ہے۔