رہبر انقلاب اسلامی نے 8 فروری 2022 کو اپنی تقریر میں زور دیکر کہا کہ اس عظیم اور تاریخ ساز کارنامے کے زندۂ جاوید بن جانے اور اس کے اثرات کے دوام کا سبب، میڈیا کا کام اور فنکارانہ طریقے سے اس واقعے کی صحیح تشریح تھی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں کئی اہم موضوعات پر گفتگو کی۔ (1)

 

بسم ‌اللّہ ‌الرّحمن‌ الرّحیم

 و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

میڈیکل کے ماہرین کی رائے پر توجہ دینے کی ضرورت

برادران عزیز اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے فعال اور سرگرم دوستوں اور جوانوں کا خیر مقدم ہے۔ کورونا کے نامساعد حالات نے اس نشست کو اس طرح منعقد نہیں ہونے دیا، جیسا ہم چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ یہاں آپ عزیزوں کی زیادہ تعداد سے ملاقات کریں اور زیادہ اطمینان سے اور مزید بہتر طریقے سے بات کریں۔ لیکن میں ان پروٹوکولز پر عمل کا پابند ہوں جن کا ڈاکٹر اعلان کرتے ہیں۔ میں ان چیزوں کی پابندی کرتا ہوں۔ یعنی ان چیزوں پر عمل کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں اور عمل کرتا بھی ہوں۔ وہ لوگ ماسک پر زور دیتے ہیں، میں نے ویکسین کی تیسری ڈوز بھی لگوا لی ہے۔ البتہ کچھ عرصے پہلے، کئي مہینے پہلے میں نے یہ کام کر لیا تھا۔ مطلب یہ کہ ڈاکٹر حضرات جن چیزوں کو مصلحت سمجھتے ہیں، ضروری سمجھتے ہیں، میں ان کی انجام دہی کا پابند ہوں۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز عوام اس میدان کے ماہرین اور صاحب رائے افراد کی باتوں کو سنیں اور ان پر توجہ دیں۔ وہ جو مصلحت سمجھیں اور ضروری سمجھیں اسے انجام دیں۔ بہرحال آج کی نشست اس طرح سے منعقد ہوئي ہے۔ آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ سب کو کامیاب کرے۔

خدا کے حضور گریہ و زاری اور نفس کی پاکیزگي کے لیے ماہ رجب موقع غنیمت

ماہ رجب کے ایام ہیں۔ آپ سے میری پہلی عرضداشت یہ ہے کہ ہمیں اس مہینے اور ان ایام کی قدر جانی چاہیے۔ رجب کا مہینہ، توسل کا مہینہ ہے، خدا کے حضور گریہ و زاری کا مہینہ ہے، دعا کا مہینہ ہے، نفسانی اور روحانی پاکیزگي کا مہینہ ہے۔ دلوں کو خدا سے قریب کرنا چاہیے۔ خاص کر آپ جوانوں کو، ان جوانوں کو جو اس نشست میں ہیں اور فوجی ہیں۔ خدا سے اپنا رابطہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہم سب کو ہے اور ماہ رجب کے یہ ایام، اس ضرورت کے مد نظر الہی و معنوی فیوض کا منبع ہیں۔

آٹھ فروری کی بیعت، شخص نہیں بلکہ اہداف سے بیعت

آج انیس بہمن (آٹھ فروری) کا دن ہے۔ یعنی فضائیہ کی متحیر کن بیعت کا دن، فضائيہ کی جانب سے ایک تاریخی اقدام اور فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کا دن۔ شاید فضائیہ کی موجودہ نسل میں سے اس دن کوئي بھی موجود نہ رہا ہو۔ بہت سے جوان تو شاید اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے ہوں گے لیکن میرا ماننا ہے کہ وہ سبھی لوگ جو آج ذمہ داری کے احساس کے ساتھ فضائيہ میں کام کر رہے ہیں، بیعت کے اس اعلان میں شریک ہیں۔ یہی آپ لوگ جو اس دن نہیں تھے یا شاید فوج میں نہیں تھے – یعنی آپ کی سروس کی مدت اتنی نہیں ہے– لیکن اس دن جو کام انجام پایا، اس دن کے افتخار اور اس دن کی فضیلت میں آپ بھی شریک ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس دن جو جوان آئے تھے، فوجی افسران، بڑے رینک والے افسران اور زیادہ تر شاہی فضائیہ کے افسران اور انھوں نے اس دن کی نشست اور اس عجیب ملاقات میں شرکت کی اور بیعت کی، وہ بیعت کسی شخص سے بیعت نہیں تھی۔ وہ بیعت، اہداف سے بیعت تھی، امنگوں سے بیعت تھی، اس مقدس جہاد سے بیعت تھی، جس کے طاقتور کمانڈر امام خمینی تھے۔ وہ لوگ آئے اور فضائیہ کو اس طاقتور، باعظمت اور حیران کر دینے والی کمان کے تحت لے آئے۔ یہ ایک معنوی کام تھا اس لیے اب بھی جاری ہے۔ یہ کام کوئي ایسا کام نہیں تھا کہ اس دن ہوا اور پھر ختم ہو گيا، نہیں یہ کام جاری ہے۔ جو بھی، جس دور میں تھی، ان اہداف کی راہ میں آگے بڑھے وہ اس کام میں شریک اور حصہ دار ہے۔ بنابریں آپ لوگ بھی ان افراد میں سے ہیں جو آٹھ فروری کے پرافتخار کارنامے سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔

فضائيہ کی بیعت، پہلوی حکومت کے تابوت میں آخری کیل

فضائيہ کا اس دن کا اقدام،  وہ آخری ضرب تھی جو پہلوی حکومت کے بوسیدہ پیکر پر پڑی اور اس نے منحوس پہلوی حکومت کا کام تمام کر دیا۔ یہ اقدام، مؤثر اقدام تھا، بہت زیادہ اثر انگیز تھا۔ اسی دن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہی افراد سے گفتگو کرتے ہوئے جو وہاں آئے تھے(2) کہا کہ آپ لوگوں نے فوج کو آزاد کرا دیا، فوج کو طاغوت کی خدمت سے نکال کر اسلام کی خدمت میں لگا دیا؛ آج تک آپ طاغوت کی خدمت میں تھے، اب آپ نے فوج کو اسلام کی خدمت میں لگا دیا ہے۔ وہ لوگ نعرے لگا رہے تھے "ہم آپ کے سپاہی ہیں" امام خمینی نے کہا: آپ لوگ امام زمانہ کے سپاہی ہیں، قرآن اور اسلام کے سپاہی ہیں اور اس راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ حقیقت میں بھی ایسا ہی تھا۔

وقت کی ضرورت کے ادراک کی اہمیت

اس سلسلے میں کچھ باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ یہ قدم، اس لمحے کی ضرورت تھا۔ میں اس بات پر بہت تاکید کرتا ہوں اور میں نے بارہا اس پر زور دیا ہے۔(3) ہمیں ہمیشہ اپنے کاموں میں اس لمحے کی ضرورت کو سمجھنا چاہیے۔ کچھ ایسے کام ہیں کہ اگر آپ انھیں ابھی انجام دیں گے تو وہ ہدف حاصل کر لیں گے لیکن اگر اسی کام کو آپ نے اس وقت کے علاوہ کبھی اور انجام دیا تو وہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ وقت اور لمحے کی ضرورت کیا ہے؟ آپ ہمیشہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر فضائیہ میں، یہ دیکھیے کہ آج فضائيہ کو کس چیز کی ضرورت ہے، اس کام کو اسی صحیح لمحے میں انجام دیجیے۔ میرے خیال میں امام خمینی سے بیعت کرنے والے ان افراد کا ایک سب سے اہم اور ذہانت آمیز کام یہی تھا ورنہ اگر وہ لوگ یہ طے کرتے کہ مثال کے طور پر دس دن بعد، بیس دن بعد یہ کام کریں، تو قطعی طور پر اس کا یہ اثر نہیں ہوتا۔ اس دن اس کام کا یہ اثر یہ تھا، انھوں نے لمحے کی ضرورت کو سمجھا۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے۔

دشمنوں کے غلط اندازے، خدا کے سچے وعدے کی ایک نشانی

ایک اور بات کہ جو عبرت آموز نکتہ ہے اور اس سے بھی عبرت اور سبق حاصل کرنا چاہیے، یہ ہے کہ فضائیہ کے اس اقدام میں، طاغوتی حکومت پر ایک ایسی جگہ سے ضرب لگي جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہاں سے اس پر وار ہو سکتا ہے۔ اسی بات کی طرح جو قرآن مجید میں سورۂ حشر میں یہودی قبائل کے بارے میں آئی ہے: فاتاھم اللہ من حیث لم یحتسبوا(4) خداوند عالم نے انھیں ایسی جگہ سے ضرب لگائي جس کے بارے میں وہ سوچتے بھی نہیں تھے، ایسا ہوا تھا۔ طاغوتی حکومت کے افراد میں سے کوئي یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ، اس پر فوج کی طرف سے اور وہ بھی فضائیہ کی طرف سے وار ہو سکتا ہے۔ شاہی حکومت نے فضائيہ پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی تھی، اس کے امریکی حامیوں کو بھی تعجب ہوا۔ امریکیوں نے ہائزر(5) کو، جو ایک امریکی جرنیل تھا اور اس وقت نیٹو کا دوسرا سب سے بڑا آدمی تھا، تہران بھیجا تاکہ وہ یہاں آ کر فوج کو منظم کرے اور جس طرح سے بھی ممکن ہو، ایک خونیں بغاوت کے ذریعے، حکومت کو گرنے سے بچائے۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو تہران میں لاکھوں افراد کا قتل کروا دے گا۔ مطلب یہ کہ ہائزر اس نیت سے تہران آيا تھا لیکن وہ ناکام رہا اور نامراد واپس لوٹا۔ یہی ہائزر اپنی سوانح حیات میں لکھتا ہے – البتہ میں نے خود یہ کتاب نہیں دیکھی ہے، مجھے بتایا گيا ہے– کہ فضائیہ ایسی جگہ تھی جہاں ہمیں کم ترین بدامنی کا بھی خدشہ نہیں تھا کیونکہ کمان اور ٹریننگ کے لحاظ سے امریکا سے اس کا قریبی رابطہ تھا۔ اس عظیم تاریخی واقعے میں جو لوگ شریک تھے شاید ان میں سے بہت سے وہی لوگ تھے جنھوں نے تعلیم اور ٹریننگ امریکا سے حاصل کی تھی اور امریکی کلچر سے آشنا تھے لیکن طاغوتی حکومت کو وہیں سے چوٹ پہنچی۔ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ خداوند عالم نے فرمایا ہے:  انھم یکیدون کیدا و اکید کیدا(6) دشمن چال چلتے ہیں اور میں بھی ان کے مقابلے میں منصوبہ بندی کرتا ہوں۔ ایک دوسری جگہ پر کہا گيا ہے: فالّذین کفروا ھم المکیدون(7) حق و باطل کے ٹکراؤ کے معاملے میں یہ باطل کا محاذ ہے جو شکست کھاتا ہے اور ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔ اس معاملے میں بھی امریکیوں کے اندازے غلط نکلے۔ یعنی انھوں نے طاغوتی حکومت کی فضائیہ کے بارے میں ایک خاص اندازہ لگا رکھا تھا، وہ اندازہ غلط ثابت ہو گيا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

امید اور کوشش، فتح اور پیشرفت کی شرط ہے میدان نہ چھوڑنا

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں بھی حق کا لشکر، اسلام کا لشکر، کفر کے مقابلے میں میدان میں اترے، وہاں دشمن اپنے تمام تر ظاہری رعب و دبدبے کے باوجود کہ جن کا کوئي باطن اور مغز نہیں ہے، اپنے اندازوں میں غلطی کرتے ہیں۔ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔ خود انقلاب کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے، انقلاب کے اوائل میں بھی ایسا ہی ہوا اور ان چالیس پینتالیس برسوں میں بھی یہی ہوا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اندازے لگائے، ہمیشہ یہ سوچا کہ وہ آخری ضرب لگا رہے ہیں لیکن خود انھی کو چوٹ پہنچ گئي۔ اگر آپ میدان جہاد میں، چاہے کوئي بھی جہاد ہو، ہر زمانے میں ایک طرح کا جہاد ضروری ہے، فوجی جہاد ہے، علمی و سائنسی جہاد ہے تحقیقاتی جہاد ہے، ہر طرح کے جہاد میں، اگر آپ کی موجودگي جاری ہو اور آپ سرگرم ہوں تو دشمن کو شکست دے دیں گے؛ کیوں؟ اس لیے کہ خداوند متعال نے ایسا نظام بنایا ہے کہ دشمن کے اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں، وہ صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا، صحیح پیش گوئي نہیں کر سکتا۔ آج خود امریکا بھی "فاتاھم اللہ من حیث لم یحتسبوا" کی اس مشکل میں دوچار ہے۔ آج امریکا پر ایسی جگہ سے ضرب پڑ رہی ہے جس کا اس نے ہرگز اندازہ نہیں لگایا تھا۔ آج امریکا کے دو سربراہان مملکت یعنی پچھلے صدر(8) اور موجودہ صدر(9) نے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے ہے کہ امریکا کی رہی سہی عزت کو بھی نیلام کر دیں! اور وہ نیلام کر رہے ہیں؛ وہ ایک طرح سے اور یہ ایک دوسری طرح سے۔ کیا انھوں نے اس کا اندازہ لگایا تھا؟ اس کے بارے میں سوچا تھا؟ روز بروز وہ خود ہی خود کو کمزور کرتے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تو یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ اگر آپ میدان میں موجود رہتے ہیں، سرگرم رہتے ہیں، امید کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں تو یقینی طور پر فتح اور پیشرفت آپ کی ہے۔

فضائيہ میں جہادی اقدامات کا تسلسل، امام خمینی سے شاہی فضائيہ کی بیعت کی گہرائي کی علامت

ایک دوسری بات یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سوچے کہ اس دن ان جوانوں کا وہ اقدام، عارضی اور ہیجانی کیفیت کی بنیاد پر تھا، ایسا نہیں تھا۔ بے شک یقینی طور پر اس طرح کے کاموں میں جذبات دخیل ہوتے ہیں لیکن یہ کام پہلے سے طے شدہ تھا، اس میں گہرائي تھی، یہ کام سوچا سمجھا تھا۔ اس سلسلے میں میری تو بہت ساری یادیں ہیں لیکن اس کی گہرائي کی علامت یہ ہے کہ یہ کام، فضائيہ میں جاری رہا۔ اگر یہ اچانک کیا جانے والا اقدام ہوتا تو جاری نہیں رہتا۔ یہ اقدام فضائيہ میں جاری رہا۔ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی دنوں میں ہی فوجیوں کے خود انحصاری کے جہاد کی یونٹ، فضائیہ میں تیار ہو گئي، جبکہ ابھی فوج میں یا ملک میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی ادارے میں خود کفالت کے جہاد کا وجود نہیں تھا؛ فضائیہ کے دیندار اور انقلابی جوانوں نے خود کفیلی کے جہاد کی تشکیل کی اور پہلے ہی دن سے کام کرنا اور کوشش کرنا شروع کر دیا اور آج تک بڑے بڑے کام انجام پا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائيہ کے جہادی یونٹس نے، خود فضائیہ میں بھی بڑے بڑے کام انجام دیے ہیں۔

سن انیس سو اناسی میں جو کام سب سے پہلے انجام پائے، ان میں سے ایک تبریز کی چھاؤنی میں سازش کو ناکام بنانا تھا۔ اس وقت شہید فکوری، تبریز چھاؤنی کے کمانڈر تھے؛ تبریز کی چھاؤنی میں ایک سازش شروع ہوئي، یہاں تک کہ ان شر پسند افراد نے اس شہید کا بھی ایک طرح سے محاصرہ کر لیا تھا؛ گرفتاری کی طرح، خود فضائیہ کے انقلابی جوانوں نے کہیں سے مدد مانگے بغیر جا کر ان افراد کو منتشر کر دیا اور شہید فکوری کو لے کر تہران آ گئے؛ یہ سن نواسی کے اوائل کے مسائل میں سے ایک ہے۔

ہمدان کی چھاؤنی – شہید نوژہ چھاؤنی - بغاوت کے معاملے میں، جو شخص اس بات کا سبب بنا کہ یہ بغاوت، جس کی ہر چیز تیار تھی – امریکیوں کی مدد سے اس بغاوت کی تمام تفصیلات تیار کر لی گئي تھیں - ناکام ہو جائے، ایک نوجوان فوجی افسر تھا جس نے آ کر خبر دی اور فورا متعلقہ ادارے سپاہ کے افراد، سیکورٹی کے افراد اور اسی طرح کے دوسرے افراد متحرک ہو گئے اور انھوں نے سازش کو ناکام بنا دیا اور بغاوت کو ختم کر دیا۔ خود فضائیہ کے جوانوں نے یہ کام کیا؛ ایک نوجوان فوجی افسر،  ایک نوجوان پائلٹ نے آ کر اطلاع دی۔ مطلب یہ کہ یہ کام خود فضائیہ کے جوانوں نے انجام دیا۔ ديگر مسائل میں بھی ایسا ہی ہوا۔

مقدس دفاع کے آغاز میں، ابتدائي دنوں میں ہی سب سے نمایاں کام، فضائیہ نے انجام دیا؛ یعنی فضائيہ کی جانب سے کچھ ہی دنوں میں جس تعداد میں پروازیں انجام دی گئيں، وہ بے نظیر تھیں۔ میں اس وقت رکن پارلیمنٹ تھا اور ساتھ ہی  مسلح افواج میں امام خمینی کا نمائندہ بھی تھا۔ میں نے پارلیمنٹ میں رپورٹ دی، سبھی اس رپورٹ کی اہمیت سے حیرت زدہ ہو گئے۔ صرف تین یا چار دن میں فضائیہ کے طیاروں نے کئي سو پروازیں کی تھیں۔ دوسرے ادارے اور شعبے ابھی سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا کیا جانا چاہیے؛ جبکہ فضائيہ میدان میں آ گئی تھی۔

فضائيہ کی بیعت اور اقدام میں بصیرت کا عنصر

یہ سب اسی پہلے اقدام کا تسلسل ہے۔ یہ جو میں کہتا ہوں کہ یہ اقدام، کوئي ہیجانی اقدام نہیں تھا، وہ اس وجہ سے ہے کہ یہ اقدام فضائيہ میں جاری رہا ہے۔  یہی بصیرت اور یہی جذبہ اس بات کا موجب بنا کہ فضائيہ میں بھی اور پوری فوج میں بھی، نمایاں شہداء اپنا چہرہ آشکار کریں: شہید صیاد شیرازی، شہید بابائي، شہید ستاری، شہید کلاہدوز وغیرہ اور دیگر ہزاروں شہداء – ان میں نمایاں یہ لوگ ہیں، بہت سارے لوگ ہیں جو نمایاں ہیں – یہاں تک کہ فوج کے اندر بھی شاہی حکومت کے زمانے کے بعض فوجی افسران بھی شہداء کی صف میں قرار پائے جیسے شہید فلاحی، فلاحی شاہی حکومت کے دور میں فوج کے بریگيڈیر جنرل تھے لیکن انقلاب کی صورتحال، فوج کی صورتحال اور وہ عظیم تبدیلی اس بات کا سبب بنی کہ شہید فلاحی، 'شہید' بن جائيں؛ شہید فلاحی۔ شہید فکوری بھی ایسے ہی تھے۔ یہ لوگ، انقلاب سے پہلے کے اعلی فوجی افسر تھے۔ تو یہ بصیرت تھی، یہی اس بات کا سبب بنی کہ فضائيہ کے افسران کا وہ گروہ آئے اور وہ عظیم کام، وہ تاریخی بیعت انجام دے، اس میں ایک گہرائي تھی، ایک بصیرت تھی جس کی وجہ سے یہ کام انجام پایا۔

امریکی فوجی مشیروں کی جانب سے فضائیہ کے افسروں کی بے عزتی، ان کی بیداری کا ایک سبب

اب سوال یہ ہے کہ اس بصیرت کا سبب کیا تھا؟ کیوں دوسروں میں یہ بصیرت نہیں تھی؟ اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ممکنہ طور پر اس بصیرت کا ایک اہم عنصر یہ تھا کہ فضائيہ کے جوان، قریب سے امریکی فوجی مشیروں کی ڈکٹیٹرشپ اور ان کے تسلط کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ فوج میں کسی بھی جگہ امریکی فوجیوں کا ایسا تسلط نہیں تھا؛ دسیوں ہزار فوجی مشیر تھے؛ ایران میں امریکا کے تقریبا پچاس ہزار فوجی مشیر تھے؛ انھوں نے ایرانی فضائيہ کو اپنا اڈہ بنا لیا تھا؛ ان کا پورا قبضہ تھا، ایرانی کمانڈروں کی بے عزتی کی جاتی تھا، ایرانی فوجیوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی - ان کو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا تھا؛ درباری افراد سے ان کے روابط تھے اور وہ فوجیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے – ساز و سامان بیچتے تھے لیکن ٹیکنکل کام کرنے والوں کو ان سامانوں اور پرزوں کو سمجھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے؛ نہ تو ٹیکنکل آفیسرز اور اعلی رینک والے افسروں کو اور نہ ہی شاہی فضائيہ کے افراد کو، جن کا کام ہی یہی تھا، کل پرزوں اور ساز و سامان کی شناخت کی اجازت نہیں دیتے تھے، اسپیئر پارٹس کی ریپیئرنگ نہیں کرنے دیتے تھے، کئی پرزوں سے مل کر بنے ہوئے اسپیئر پارٹ کو کھولنے نہیں دیتے تھے؛ اسے ہوائي جہاز میں ڈال کر امریکا لے جاتے تھے، وہاں سے بدل کر ایک دوسرا لے آتے تھے اور اس کے پیسے لیتے تھے؛ ایرانیوں کی اس طرح سے بے عزتی کرتے تھے۔ فضائیہ کے جوان قریب سے ان چیزوں کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ کچھ اخلاقی برائياں بھی تھیں جنھیں بیان نہیں کیا جا سکتا؛ بڑے عجیب کام کیا کرتے تھے؛ واقعی ایرانی فوج میں امریکیوں کی موجودگي ایک غم انگیز اور تکلیف دہ داستان ہے۔

ممکنہ طور پر ہمارے نوجوان اس بات کو نہیں جانتے کہ امریکا اور برطانیہ نے ہماری فوج کو کئي بار، دیگر اقوام کی سرکوبی کے لیے استعمال کیا ہے؛ جیسے ویتنام میں۔ ہمارے طیاروں کو ویتنام لے گئے تاکہ ان ویت کانگز(10) پر جنگلوں میں بمباری کریں جو حملہ آور اور جارح امریکا سے لڑ رہے تھے؛ ایسا ہوتا تھا۔ دوسری جگہوں پر بھی ایسا کیا گيا تھا، مجھے یہاں تک بتایا گيا ہے کہ، قریب سے پختہ اطلاعات تو نہیں ہیں، لیکن ایسے ٹھوس دستاویز موجود ہیں جن کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کے فینٹم طیارے صیہونی حکومت کے حوالے بھی کیے جاتے تھے۔ وہ ان سے کیا کرنا چاہتی تھی؟ یقینیا فلسطینیوں کی سرکوبی کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی یا پھر اس وقت کی استقامت کرنے والی عرب حکومتوں، مصر، شام اور ایسی ہی دوسری حکومتوں سے مقابلے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ مطلب یہ کہ جو ادارے ایران سے اور اسلام سے متعلق تھے وہ مظلوم کی سرکوبی اور ظالم کی مدد کے لیے امریکا اور امریکی اہداف کی خدمت میں تھے۔ واقعی یہ سب بہت اہم مسائل ہیں جن کا علم ہونا چاہیے۔ پہلوی حکومت کی خیانت، ایک دو معاملوں تک تو محدود تھی نہیں لیکن یہ بھی اس حکومت کی اہم خیانتوں میں سے ایک ہے؛ یہ فوج سے بھی غداری تھی اور قوم سے بھی غداری تھی کیونکہ وہ قوم کا سرمایہ، امریکا کی خدمت میں استعمال کر رہی تھی، اسی طرح یہ دیگر مسلم اقوام کے حق میں بھی مجرمانہ فعل تھا۔

تشریح کا جہاد، دشمنوں کی جانب سے حقائق کی تحریف کے سد باب کا حتمی اور فوری فریضہ

وہ بات جس پر میں زیادہ تاکید کرنا اور آپ اور یہ باتیں سننے والے دیگر افراد کی توجہ جس کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں، 'بیان و تشریح کا جہاد' ہے جسے میں نے بار بار دوہرایا ہے۔(11) میں کہنا چاہتا ہوں کہ 8 فروری کو ہونے والے اس تاریخی واقعے کا، جو امام خمینی کے سامنے انجام پایا، اگر اس واقعے کی وہ تصویر شائع نہ ہوئی ہوتی، یعنی تشریح اور بیان کا یہ کام انجام نہ پاتا تو نہ یہ واقعہ اس طرح سے جاوداں ہوتا اور نہ اتنا موثر ہوتا، یہ بھی بہت سے دیگر واقعات کی طرح کا ایک واقعہ ہوتا اور بھلا دیا جاتا۔ اس واقعے کے زندۂ جاوید اور مؤثر ہونے کا سبب، تصویر کا وہی ہنرمندانہ فریم تھا جو شائع ہوا۔ حقیقت کا بیان یہی ہے، تشہیر کرنا اور دکھانا اسی کو کہتے ہیں۔ میڈیا کے ایک محدود اور چھوٹے سے کام کی برکت سے – ان دنوں، میڈیا کے وسائل آج کی طرح نہیں تھے بلکہ بڑے محدود تھے – آٹھ فروری کو فضائيہ کی بیعت جیسا اقدام، تاریخ ساز بن جاتا ہے، جاوداں بن جاتا ہے، بااثر بن جاتا ہے، تغیر آفریں بن جاتا ہے؛ صحیح روایت یا واقعے کا صحیح بیان اور صحیح تشریح یہی ہے، واقعات کی صحیح تبیین، جس پر میں تاکید کرتا ہوں، یہ ہے کہ آج ذرائع ابلاغ کے فروغ کے ساتھ ہی - اگر ہم اس دن کے مقابلے میں آج کی صورتحال کو دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیکڑوں گنا نہیں بلکہ ہزاروں گنا زیادہ بدل چکا ہے کیونکہ اس وقت سائبر اسپیس، سوشل میڈیا، سیٹیلائٹ چینل وغیرہ جو آج ہیں، اس دن نہیں تھے – اس موضوع کی اہمیت بھی اسی طرح سے زیادہ ہو چکی ہے۔

آج اسلامی جمہوریہ اور اسلام کے دشمن ذرائع ابلاغ کی حتمی پالیسی یہ ہے کہ حقائق کی تحریف کی جائے اور وہ یہی کر رہے ہیں۔ لگاتار کام کر رہے ہیں، حقائق کی تحریف کر رہے ہیں، دروغگوئي سے کام لے رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ سے متعلق خبروں کو طرح طرح کے جھوٹ سے، پیشہ ورانہ جھوٹ سے، ایسے جھوٹ سے جس پر بیٹھ کر انھوں نے کام کیا ہے، مخلوط کر رہے ہیں اور طاغوتی حکومت کے کریہہ اور بدعنوان چہرے کا میک اپ کر کے اسے حسین دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے ہزاروں جرائم اور غداریوں کو چھپا رہے ہیں۔

طاغوتی حکومت کی خفیہ ایجنسی ساواک وہ ادارہ تھا جہاں اسرائیل اور امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی طرح طرح کی ایذاؤں اور ٹارچر کے طریقوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا تھا۔ شاید بعض ایذاؤں کو ٹیسٹ کیا جاتا تھا اور بہت سی ایذا رسانیوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا تھا۔ جن لوگوں نے وہ ایذائيں برداشت کی ہیں ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی زندہ ہیں اور اس ایذا رسانی کے آثار اب بھی ان کے جسموں پر باقی ہیں۔ وہ اب بھی درد سہہ رہے ہیں۔ ساواک کے اس سراپا جرم تصویر کا بھی وہ میک اپ کر رہے ہیں اور اسے اچھا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! یعنی اس وقت کا ساواک کا ایک ایجنٹ، جو شاید ملک کا سب سے بدنام چہرہ تھا، آپ بیتی لکھتا ہے اور اس طرح بات کرتا ہے گویا ساواک، یعنی ٹارچر اور ظلم کے مرکز کا ایک روشن اور منور چہرہ ہے۔ اس کے مقابلے میں انقلاب کے بارے میں جتنا ان سے ممکن ہے انقلاب کی شبیہ کو، امام خمینی کی شبیہ کو، ان چالیس برسوں کی سرگرمیوں کی شبیہ کو بگاڑ کر پیش کرتے ہیں اور ان سے جتنا ہو سکتا ہے، اس کی تحریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ ایران کی پیشرفت، اس کی مثبت باتوں اور اس کے مضبوط پہلوؤں کے سلسلے میں مغربی میڈیا کے اس آمرانہ گروہ میں کچھ بھی نہیں پائيں گے، یعنی حقیقت کی پردہ پوشی۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئي کمزور پہلو ہے – جو یقینی طور پر ہوگا کیونکہ کوئي بھی ملک اور کوئی بھی نظام، کمزور پہلو سے خالی نہیں ہے – تو وہ ایک چھوٹے سے کمزور پہلو کو سو گنا بڑا کر کے پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک عجیب کام ہے جو آج ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے بیان اور تشریح کا جہاد ایک فریضہ ہے۔ بیان اور تشریح کا جہاد ایک حتمی فریضہ اور فوری فریضہ ہے اور جس میں بھی اس کی استطاعت ہے اسے اقدام کرنا چاہیے۔ میں یہ بھی عرض کروں گا کہ اس سلسلے میں حکام پر زیادہ ذمہ داری ہے۔

میڈیا سمیت مختلف میدانوں میں مغربی طاقتوں کی آمریت

مغربی طاقتیں آمریت کے لیے مشہور ہی ہیں یعنی یہی لوگ جو بزعم خود اور اپنے دعوے کے مطابق دنیا کی آمریتوں سے لڑ رہے ہیں، خود سب سے بڑے آمر ہیں؛ سیاسی میدان میں، معاشی میدان میں پوری دنیا پر ڈکٹیٹرشپ کرتے ہیں۔ آج انھوں نے ڈکٹیٹرشپ کا ایک شعبہ بڑھا دیا ہے اور وہ میڈیا ڈکٹیٹرشپ ہے؛ ابلاغیاتی آمریت۔ اس کی مثال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ شہید قاسم سلیمانی کا نام نہیں لے سکتے، یہ لوگ اسے ڈلیٹ کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے اور جو ان کے فرمان کے تحت کام کرتا ہے، انھیں شہید سلیمانی کا نام برداشت نہیں ہے، ان کی تصویر کو یہ لوگ برداشت نہیں کر سکتے؛ آج ایسا ہے۔ البتہ پہلے بھی اس طرح کی آمریت تھی۔ مرحوم الحاج احمد خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں بتایا تھا کہ امام خمینی نے ایک تفصیلی پیغام دیا تھا – میرے خیال سے حج کا پیغام تھا – الحاج احمد صاحب نے کہا کہ میں نے سوچا کہ امریکا کے کسی اخبار میں، جہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں اظہار رائے کی آزادی ہے، امام خمینی کے اس پیغام کو شائع کرایا جائے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے وہاں رہنے والے اپنے کچھ دوستوں کو پیغام دیا اور کہا کہ اسے شائع کرانے کے لیے جتنی رقم کی ضرورت ہوگي میں دوں گا - اس اشتہار کی طرح جو پیسے دیکر شائع کرائے جاتے ہیں – انھوں نے بتایا کہ اظہار رائے کی آزادی کے دعوے کے باوجود کوئي بھی اخبار اسے شائع کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ تہران میں امریکا کے جاسوسی کے اڈے (سفارتخانے) کے بارے میں ایک کتاب لکھنے والے مصنف نے، جنھوں نے جاسوسی کے اس اڈے کی تفصیلات لکھی تھیں اور وہیں کے تھے، بتایا کہ ہم نے امریکا میں جس ناشر سے بھی اس کتاب کو شائع کرنے کے لیے رابطہ کیا، وہ تیار نہیں ہوا؛ یہاں تک کہ آخرکار میں کینیڈا گیا اور وہاں ایک ناشر کو تلاش کیا جو اسے شائع کرنے کے لیے تیار ہو گيا۔ پھر اسے فیصلہ بدلنے کے لیے مجبور کرنے لگے، ٹیلی فون کر کے، دھمکا کر اور اسی طرح کے دوسرے کاموں کے ذریعے۔ یہ ہے میڈیا ڈکٹیٹرشپ، اور پھر دعوے کرتے ہیں کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے طرفدار ہیں! آج ہر وہ چیز اور ہر وہ لفظ جو مغرب کی پالیسیوں سے متصادم ہو یا ان کے مطابق نہ ہو، اس کے شائع یا نشر ہونے پر پابندی ہے لیکن اسی پلیٹ فارم سے وہ لوگ اسلامی جمہوریہ کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے یا اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلامی مفاہیم کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے یا ان کی شبیہ بگاڑنے کے لیے زیادہ سے  زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور سبھی کے کندھوں پر ایک ذمہ داری ڈالتی ہے۔

مختلف مراکز اور پلیٹ فارمز سے بیان و تشریح کے جہاد کے عناوین

میں نے عرض کیا کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے، چاہے وہ قومی میڈیا ہو یا دوسرے مختلف ذرائع ابلاغ، چاہے سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا ہو یا اخبارات و جرائد، سبھی پر فرض ہے کہ اس میدان میں اتریں اور اس سلسلے میں ہر وہ شخص ذمہ دار ہے جس کے پاس معاشرے کی رائے عامہ سے بات کرنے کا کوئي مرکز یا پلیٹ فارم ہے۔ ملک میں ہزاروں کارنامے ہوتے ہیں؛ ان برسوں کے دوران، ان چار عشروں میں ملک میں کتنے بڑے بڑے کام انجام پائے ہیں، کتنے کارنامے ہوئے ہیں؟! ان سب کو بیان کیا جانا چاہیے؛ دشمن انھیں چھپاتا ہے، انھیں نشر کیے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ سماجی میدانوں میں، معاشی میدانوں میں، تعمیراتی میدانوں میں، تعلیمی میدانوں میں، صحت و طب کے میدانوں میں، صنعت میں، صنعت کے میدان میں! ابھی کچھ دن پہلے صنعت کاروں اور مینو فیکچررز کا ایک گروپ یہاں تھا(12) ان میں سے کچھ نے رپورٹ دی، ان کی رپورٹ کے ساتھ یہاں اس امام بارگاہ میں ان کاموں کی تصویر بھی دکھائی جا رہی تھی، حیرت انگيز چیز تھی، واقعی متحیر کن چیز ہے؛ اس کے بارے ملک کے پورے میڈیا میں کوئي خبر نہیں ہے؛ یہ بہت عجیب چیز ہے۔ اتنا سارا کام ہو رہا ہے، اتنے اہم کام، اتنے مفید کام، یہ سب کارنامے ہیں۔ آبادیاتی میدانوں میں، دین و ثقافت کے میدانوں میں، دفاع اور سیکورٹی کے میدانوں میں۔

آپ تو فضائيہ کے مسائل اور پیشرفت سے واقف ہیں، آپ نے کچھ  چیزوں کی پیداوار کی ہے، کچھ کی تعمیر کی ہے، ان میں سے کسے معاشرے میں متعارف کرایا گيا ہے؟ تو اس معاملے میں صحیح طریقے سے کام نہیں ہو رہا ہے، واقعی کم کام ہوا ہے۔ ابھی جن میدانوں کا میں نے ذکر کیا، سماجی میدان، معاشی سرگرمی کے میدان، سفارتی و سیاسی سرگرمیوں کے میدان، آبادیاتی سرگرمیوں کے میدان، ملک میں تعمیراتی شعبے میں اتنا زیادہ کام ہوا ہے، ان میں سے ہر موضوع، بیان و تشریح کے جہاد کی فعالیت کے لیے ایک مستقل عنوان بن سکتا ہے۔ ہمیں بعض مشکلات کو – ہر ملک میں مشکلات ہوتی ہیں؛ اقتصادی مشکلات ہیں، معیشتی مشکلات ہیں – ان کارناموں پر دھول بٹھانے اور عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ یہ مشکلات اپنی جگہ ہیں اور انھیں برطرف کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، اس میں کوئي شک نہیں ہے لیکن مختلف میدانوں میں ان اہم کاموں، اہم پیشرفتوں، اہم تعمیرات اور گرانقدر سرگرمیوں کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

دشمن محاذ کے کثیر الجہتی حملے کے مقابلے میں ایسے ہی اقدام کی ضرورت

میری آخری بات یہ ہے کہ ہمارے دشمن نے، دشمن محاذ نے – کیونکہ دشمن ایک محاذ ہے؛ ایک بہت بڑا محاذ ہے – آج ایک کثیر الجہتی حملہ شروع کیا ہے؛ دشمن کا حملہ ایک کثیر الجہتی حملہ ہے؛ اس میں معاشی پہلو ہے، اس میں سیاسی پہلو ہے، اس میں سیکورٹی کا پہلو ہے، اس میں میڈیا کا پہلو ہے، سفارتی پہلو ہے – انھوں نے ہر سمت سے ایک اجتماعی و کثیر الجہتی یلغار شروع کر دی ہے – ہمیں بھی اس کے مقابلے میں کثیر الجہتی اقدام کرنا چاہیے؛ ہمیں ہر جہت سے کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں دفاع کرنا چاہیے لیکن ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں نہیں رہ سکتے؛ اس پر توجہ ہونی چاہیے۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ ہمیں دفاع کرنا چاہیے تو دفاع ایک ضروری کام ہے لیکن ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں نہیں رہا جا سکتا؛ دشمن حملہ کرتا ہے تو ہمیں بھی یلغار کرنی چاہیے؛ مختلف میدانوں میں؛ میڈیا کے میدانوں میں بھی، معاشی میدانوں میں بھی اور سیکورٹی کے میدانوں میں بھی۔ اس سلسلے میں اہل فکر ذمہ دار ہیں؛ جو لوگ اہل فکر ہیں، اہل اقدام ہیں، خاص طور پر حکام، ان میں سے جس میدان میں بھی وہ کام کر سکتے ہیں، انھیں اس کی کوشش کرنی چاہیے اور ان شاء اللہ جیسا کہ دشمن کی خواہش اور دشمن کے آشفتہ تصورات کے برخلاف، اسلامی جمہوریہ پچھلے چالیس سال سے زائد عرصے میں پوری طاقت سے آگے بڑھتا رہا ہے اور روز بروز زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا گيا ہے، مستقبل میں ایسا ہی کرتا رہے گا؛ میرے خیال میں اور ان شاء اللہ خداوند عالم کی توفیق سے ہم ماضی سے بھی بہتر طریقے سے آگے بڑھیں گے، پیشرفت حاصل کریں گے اور دشمن ناکام رہے گا لیکن ہم میں سے ہر کسی کو ہر میدان میں اپنی  ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے۔

فضائيہ میں آپ کے پاس بہت سے کام ہیں، بہت سے اہم کام ہیں جنھیں آپ کو انجام دینا چاہیے؛ محکمہ جاتی میدان میں بھی، ٹریننگ کے میدان میں بھی اور آپریشنل میدان میں بھی؛ مختلف میدانوں میں بہت سی ذمہ داریاں ہیں جنھیں ان شاء اللہ آپ انجام دیں گے، ان میں سے بعض کا ذکر میں نے محترم کمانڈر سے کر دیا ہے اور انھیں بتا دیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ ان پر عمل کریں گے اور ملک کا مستقبل، ان شاء اللہ ملک کے موجودہ دور سے کہیں بہتر ہوگا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1)    اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر بریگيڈیر حمید واحدی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2)    صحیفۂ امام، جلد 6، صفحہ 101، شاہی فضائیہ کے اسٹاف کے درمیان تقریر، 8/2/1979

(3)    تبریز کے عوام کے قیام کی سالگرہ کی مناسبت سے مشرقی آذربائيجان کے عوام سے خطاب، 18/2/2019

(4)    سورۂ حشر، آيت 2، اور خدا نے انھیں ایسی جگہ سے آ لیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر رہے تھے۔

(5)    جنرل ہائزر، امریکی فضائيہ کا کمانڈر تھا جو چار جنوری سن انیس سو اناسی کو اسلامی انقلاب کو روکنے کے لیے بغاوت اور شاہی فوج کی قیادت کرنے ایران آیا تھا اور ایک ماہ بعد بغاوت کی سازش کی ناکامی کے بعد ایران سے فرار ہو گيا۔

(6)    سورۂ طارق، آیات 15 اور 16

(7)    سورۂ طور، آیت 42

(8)    ڈونلڈ ٹرمپ

(9)    جو بائيڈن

(10)  جنوبی ویتنام اور کمبوڈیا کی مسلح انقلابی و سیاسی تنظیم National Liberation Front of South Vietnam

(11)  مداحان اہلبیت سے ملاقات میں تقریر، 23/1/2022

(12) ملک کے بعض مینوفیکچررز اور صنعت کاروں سے ملاقات میں تقریر، 30/1/2022