وہ انسان جو پرہیزگار ہے یعنی اپنی طرف سے ہوشیار ہے، خود کو خدا کی یاد دلاتا رہتا ہے، کسی شر، ظلم و ستم، فساد، سرکشی اور برائی کا مرتکب نہیں ہوتا، مسلسل خدا کا ذکر اس کو (برائیوں سے) روکتا رہتا ہے، اس کو برابر ٹہوکا دیتا رہتا ہے، ’’الصلواۃ تنھی‘‘ تنھی یعنی روک دیتی ہے، نہ یہ کہ انسان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیتی ہے بلکہ بے جا خواہشوں پر قابو پیدا کر دیتی ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں؛ ’’ الصلوۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر نماز پڑھ لی تو گویا فحشا و منکر کا خاتمہ ہو جائے گا، نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز پڑھ لی تو آپ کے اندر موجود وہ وعظ و نصیحت کرنے والا جذبہ جو نماز کے ساتھ فعال ہوجاتا ہے بار بارآپ کو فحشاؤ منکر سے روکتا ٹوکتا رہتا ہے، برائی واضح کر دیتا ہے اور یہ بار بار کہنا اور دہراتے رہنا دل میں اتر جاتا ہے، اور اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دل میں خضوع و خشوع کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ نمازیں بار بار پڑھتے رہنے کا حکم ہے، ملک کے جوان معاشرے کو دوسروں سے زیادہ نماز کی طرف توجہ اور اہمیت دینا چاہئے، نماز کے ذریعے جوان کا دل منور ہو جاتا ہے اور امید کی کرن پیدا ہو جاتی ہے، روح میں شادابی اور بالیدگی آ جاتی ہے، راحت و فرحت کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ حالات عموماً جوانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

امام خامنہ ای

19 / نومبر / 2008