اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔
دشمن کے پاس پیسے ہیں، ہتھیار ہیں، وسائل ہیں، عالمی پروپیگنڈہ ہے، لیکن اس کے باوجود جو فاتح ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا مجاہد ہے۔ فلسطینی مزاحمت فاتح ہے۔ حزب اللہ فاتح ہے۔
اگر پوری دنیا کے دو ارب مسلمان متحد ہو جائیں، متحد رہیں تو صیہونی حکومت کا انجام کیا ہوگا؟ صیہونی حکومت کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ یقیناً وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گي۔
ہمارے لیے پیغمبر کی حیات طیبہ کے سب سے بڑے دروس میں سے ایک، امت کی تشکیل ہے۔ امت مسلمہ کا، جس کی بنیاد ایک امت کی حیثیت سے پیغمبر اکرم نے مدینے میں رکھی تھی، آج فقدان ہے۔
آپ دیکھیے کہ صیہونی حکومت کیا کر رہی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو جرائم کر رہے ہیں وہ بڑی ڈھٹائي سے، بغیر چھپائے ہوئے، غزہ میں کسی طرح، غرب اردن میں دوسری طرح، لبنان میں کسی اور طرح، شام میں کسی اور طرح۔
آج ہمیں امت مسلمہ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ سیاستداں، علماء، دانشور، پروفیسر، بارسوخ طبقے، صاحبان فکر، شعراء، مصنفنین، سیاسی و سماجی تجزیہ نگار، یہ لوگ اس سلسلے میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
امت مسلمہ کی اندرونی طاقت، صیہونی حکومت کو، کینسر کے اس خبیث پھوڑے کو اسلامی معاشرے کے دل یعنی فلسطین سے دور کر سکتی ہے، زائل کر سکتی ہے اور اس خطے میں امریکا کے رسوخ، تسلط اور منہ زوری والی مداخلت کو ختم کر سکتی ہے۔
ایک اور چیز جو اس سال اولمپک کے مقابلوں میں نمایاں تھی وہ عالمی اسپورٹس کے مسائل پر حکمراں ملکوں کی دوہری پالیسی ہے۔ واقعی انھوں نے دکھا دیا کہ ان کے رویوں پر دوہری اور دشمنانہ پالیسیاں حکمفرما ہیں۔