امریکا کی سامراجی فطرت اور انقلاب کی خود مختارانہ فطرت آپس میں میل نہیں کھاتی تھی۔ اسلامی جمہوریہ اور ایران کا اختلاف ایک ٹیکٹکل اختلاف نہیں ہے، ایک جزوی اختلاف نہیں ہے، بلکہ ایک بنیادی اختلاف ہے۔
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے لیکن کیا امریکا سے ہمارے تعلقات بھی ابد تک نہیں ہوں گے؟ جواب یہ ہے کہ اول تو امریکا کی سامراجی ماہیت، سرینڈر کے علاوہ کسی بات کو تسلیم نہیں کرتی۔
اگر امریکا پوری طرح سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی ختم کر دے، اس علاقے سے اپنی فوجی اڈوں کو ختم کر دے، اس خطے میں مداخلت بند کر دے تب اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ایرانی میزائلوں کے حملوں نے صرف مادی تباہی نہیں مچائی بلکہ ایرانی میزائيلوں کا ہر وار، اس حکومت کی حیثیت پر ایک کاری ضرب اور محفوظ جزیرے کی اس تصویر پر سوالیہ نشان لگا رہا تھا۔
نرس بیمار کے لئے فرشتۂ رحمت ہے۔ یہ حقیقی تعبیر ہے، اس میں کسی طرح کا مبالغہ نہیں ہے۔ نرس حقیقت میں مریض کے لیے غمگسار، شفیق اور باعث آسودگی ہے۔ یہ بہت اہم کردار ہے۔
میرزا نائینی ایک حکومت کا خاکہ پیش کرتے ہیں اور اسے سیاسی فکر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگر ہم آج کے دور کی اصطلاح میں اس اسلامی اور عوامی حکومت کو بیان کرنا چاہیں تو وہ "اسلامی جمہوریہ" کہلائے گی۔
ہماری مسلح فورسز کے پاس یہ میزائیل پہلے سے تیار تھے، انھوں نے انھیں استعمال کیا، ان کے پاس مزید میزائيل ہیں، ضروری ہوا تو وہ کسی اور وقت بھی انھیں استعمال کریں گی۔