اتنے سارے نقائص والے اسی معاہدے کو بھی فریق مقابل نے تباہ کر دیا، خلاف ورزی کی، پھاڑ دیا۔ اس طرح کی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے، اس سے مذاکرات کرنا عقلمندی نہیں ہے۔
ایرانی قوم میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ امریکا جارح ہے، امریکا جھوٹا ہے، امریکا فریبی ہے، امریکا سامراجی ہے۔ دوسرے بھی سمجھتے ہیں کہ امریکا انسانی اصولوں میں سے کسی بھی اصول کا پابند نہیں ہے لیکن ان میں اسے بیان کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
سفارتکاری کی مسکراہٹوں کے پیچھے اس طرح کی دشمنیاں، اس طرح کے کینے، اس طرح کے خبیث باطن چھپے ہوئے ہیں، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا سامنا کس سے ہے، ہم کس سے ڈیل کر رہے ہیں، کس سے بات کر رہے ہیں۔
مزاحمت، اسی بعثت کی ایک کرن ہے۔ مزاحمت ایران اسلامی سے شروع ہوئي، اس نے مسلم اقوام کو بیدار کیا۔ بعض مسلم اقوام کو میدان میں لے آئي، عمومی طور پر اس نے مسلم اقوام کو بیدار کیا اور بہت سے غیر مسلموں کے ضمیروں کو بھی بیدار کر دیا۔
آج سارے سیاسی و مادی تخمینے، جنوبی لبنان کے مومن و مخلص عوام سے مغلوب ہو گئے جو غاصب صیہونی فوج کو ہیچ سمجھتے ہوئے جذبۂ ایثار اور وعدۂ الہی پر یقین کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آ گئے۔
امام خامنہ ای
اب وہی ظالم اور سفاک صیہونی حکومت، اسی حماس کے ساتھ جسے وہ نابود کرنا چاہتی تھی، مذاکرات کی میز پر بیٹھی ہے اور جنگ بندی پر عمل کے لیے اس کی شرطیں مان چکی ہے۔ غزہ فتحیاب ہوا۔