امریکا، غزہ کی جنگ کا اصلی شریک جرم ہے، بلاشبہہ۔ خود ٹرمپ نے اپنی باتوں میں اعتراف کیا، کہا کہ غزہ میں ہم نے ساتھ میں کام کیا، اگر وہ نہیں کہتے تب بھی واضح تھا۔
خطے اور حتیٰ کہ دنیا کے لیے اسرائیل کے آئندہ منصوبوں کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔ اگرچہ وہ ایک چھوٹی اقلیت ہیں لیکن وہ بڑی طاقتوں کے سہارے خطے اور دنیا پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے آج ہی سے مزاحمت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ایک یہ کہ خود انحصاری کی حفاظت کرے، دوسرے یہ کہ جنگوں کے نئے عنصر پر جو انفارمیشن اور ادراکی (Cognitive) جنگ ہے، تسلط حاصل کرے تاکہ دشمنوں کا جواب دے سکے، تیسرے یہ کہ عوام پر بھروسے اور قومی یکجہتی کی، جو معاشرے میں پیدا ہوئی ہے، بدستور حفاظت کرے۔
صدر مملکت اور وزیر خارجہ کے اسی حالیہ دورۂ نیویارک میں بہت کوشش کی گئی کہ آخر لمحات میں ہی سہی، صحیح مذاکرات ہوں اور نتیجہ تک پہنچیں لیکن مخالف فریق نہیں مانے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری منطق مضبوط ہے۔