آپ دیکھیے کہ صیہونی حکومت کیا کر رہی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو جرائم کر رہے ہیں وہ بڑی ڈھٹائي سے، بغیر چھپائے ہوئے، غزہ میں کسی طرح، غرب اردن میں دوسری طرح، لبنان میں کسی اور طرح، شام میں کسی اور طرح۔
آج ہمیں امت مسلمہ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ سیاستداں، علماء، دانشور، پروفیسر، بارسوخ طبقے، صاحبان فکر، شعراء، مصنفنین، سیاسی و سماجی تجزیہ نگار، یہ لوگ اس سلسلے میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
امت مسلمہ کی اندرونی طاقت، صیہونی حکومت کو، کینسر کے اس خبیث پھوڑے کو اسلامی معاشرے کے دل یعنی فلسطین سے دور کر سکتی ہے، زائل کر سکتی ہے اور اس خطے میں امریکا کے رسوخ، تسلط اور منہ زوری والی مداخلت کو ختم کر سکتی ہے۔
ایک اور چیز جو اس سال اولمپک کے مقابلوں میں نمایاں تھی وہ عالمی اسپورٹس کے مسائل پر حکمراں ملکوں کی دوہری پالیسی ہے۔ واقعی انھوں نے دکھا دیا کہ ان کے رویوں پر دوہری اور دشمنانہ پالیسیاں حکمفرما ہیں۔
اس سال کی کارکردگي بڑی نمایاں تھی، بہت اچھی تھی۔ آپ نے قوم کو خوش کر دیا۔ ایرانی قوم کے اندر افتخار کا احساس پیدا کر دیا۔ میں میڈل جیتنے والے سبھی کھلاڑیوں کا دل کی گہرائي سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میرے خیال میں آج ایک حتمی فریضہ، غزہ اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ہے۔ یقیناً یہ ان واجبات میں سے ایک ہے جس پر اگر ہم نے عمل نہ کیا تو اس کے بارے میں خداوند عالم ہم سے قیامت میں سوال کرے گا۔
اس گرگ صفت خونخوار دشمن، غاصب دہشت گرد حکومت کے جرائم کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ حکومت نہیں ہے، یہ ایک مجرم گينگ ہے، ایک قاتل گینگ ہے، ایک دہشت گرد گینگ ہے۔
اگرچہ ان کی حکومت بے حد ظالم تھی اور بہت سختی کرتی تھی لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام اس طرح کامیاب رہے۔ مطلب یہ کہ غریب الوطنی کے ساتھ ہی اس وقار اور اس عظمت کو بھی دیکھنا چاہیے۔
امیر المومنین علیہ السلام تاریک اور اندھیری رات میں پیغمبر کے بستر پر سونے کے لیے تیار ہو گئے تاکہ پیغمبر اس گھر اور اس شہر سے باہر نکل جائيں۔ اس رات، اس بستر پر سونے والے کا مارا جانا، قریب قریب یقینی اور قطعی تھا۔