بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین. اللّهمّ صلّ على فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها عدد ما احاط به علمک، اللّهمّ صلّ على ولیّک علىّ بن موسى‌ الرّضا عدد ما احاط به علمک، صلاةً دائمةً بدوام ملکک و سلطانک، اللّهمّ سلّم على ولیّک علىّ بن موسى‌ الرّضا عدد ما احاط به علمک سلاماً دائماً بدوام مجدک و عظمتک و کبریائک. اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و على آبائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّاً و حافظاً و قائداً و ناصراً و دلیلاً و عیناً حتّى تسکنه ارضک طوعاً و تمتّعه فیها طویلا.

اللہ تعالی نے ہمیں مزید ایک سال اور مزید ایک موقع عنایت فرمایا کہ علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے مقدس آستانے پر آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کے درمیان حاضر ہو سکوں اور جوش و جذبے سے معمور اس عطیم مجمعے کی آواز سے اپنی آواز ملا سکوں اور ہمدلی کے اس ماحول میں وطن عزیز اور اسلامی انقلاب سے متعلق اہم مسائل اور بنیادی امور آپ کے سامنے بیان کر سکوں۔ اس توفیق پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اس پاکیزہ رواق (2) میں اور اس جگہ کے اطراف میں مشہد مقدس کے محترم زائرین اور خدام جو ہمارے امام کی زیارت کے شوق میں اس علاقے میں، اس صوبے میں اور اس شہر میں تشریف لائے ہیں، سب کی خواہش ہے کہ مختلف امور کے بارے میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کا موقف سنیں! میں اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جو چیزیں بیان کرنا لازمی ہے انھیں حتی المقدور بیان کروں گا اور دعا کرتا ہوں کہ ہمارا یہ عمل مورد خوشنودی الہی اور مقبول بارگاہ رب العزت قرار پائے اور ہدایت الہیہ ہمارے شامل حال رہے۔

عزیز بھائیو اور بہنو! موجودہ سال ملک کے لئے بہت اہم سال ہے۔ ملک کو درکار اہم اقتصادی رونق کے اعتبار سے بھی جس کے بارے میں ملک کے عہدیداران غور و فکر کریں اور مجوزہ صدارتی اور بلدیاتی انتخابات کے اعتبار سے بھی۔ ان انتخابات کی اپنی جگہ پر خاص اہمیت ہے۔

سنہ 1395 ہجری شمسی (مارچ 2016 الی مارچ 2017) میں یعنی گزشتہ سال کے دوران ملک کو اقتصادی مشکلات کا سامنا رہا لیکن ملت ایران نے دو اعتبار سے شاندار کامیابی حاصل کی؛ انقلاب اور اسلامی نظام کے اقدار سے وفاداری کے اعتبار سے بھی جس کا مظہر 11 فروری کو جشن انقلاب میں عوام کی پرجوش شرکت تھی، یہ انقلاب سے ملت ایران کی قلبی وابستگی کی علامت ہے۔ اسی طرح دین و ایمان کے امور سے وفاداری کے اعتبار سے بھی۔ اس سال کے دوران ملک بھر سے ماہ رمضان میں، ماہ محرم میں، اسی طرح صفر اور دیگر مہینوں میں معتبر ذرائع سے دینی پروگراموں کی جو اطلاعات ملیں ان کے مطابق دینی امور کے تعلق سے عوام کے اندر جوش و جذبہ اور قلبی وابستگی میں اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب سے متعلق تقاریب اور پروگراموں میں بھی اور دینی تقریبات میں بھی عوام کا جوش و جذبہ اور ہمت و حوصلہ نمایاں رہا۔ یہ بہت اہم بات ہے، اس لئے کہ اس طرح دوست اور دشمن سب کی نظر میں ملت ایران کی پیش قدمی کی سمت اور ملت ایران کی شناخت اور بھی نمایاں ہوتی ہے۔ یعنی نہ تو 11 فروری کو انقلاب کی سالگرہ کا جلوس کسی مخصوص سیاسی طبقے سے متعلق ہے اور نہ ہی ماہ محرم کی مجالس، رمضان کی نشستیں، اعتکاف اور چہلم کے جلوس کسی خاص سیاسی صنف سے مختص ہیں۔ ان کا تعلق تمام ملت ایران سے ہے، ان کا تعلق ملک کے تمام رجحانات و طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہے۔ لہذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملت ایران کس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، یہ پتہ چلتا ہے کہ انقلابی و دینی سمت میں پیش قدمی ہو رہی ہے۔ یہ سمت کسی بھی سیاسی حلقے سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس سے ملت ایران کی شناخت دوست اور دشمن سب کی نگاہ میں ایک بار پھر نمایاں ہوئی۔ یہ رہی ایک بات، دوسری بات یہ ہے کہ عوام کے عمومی اجتماعات سے قومی اتحاد و یکجہتی کا عندیہ بھی ملتا ہے۔ اگر آپ سنہ 1395  ہجری شمسی (مطابق 21 مارچ 2016 الی 20 مارچ 2017) کا جائزہ لیں تو تمام مسائل میں یہ دو اہم علامتیں صاف نظر آئیں گی۔ فروعی اور سیاسی مسائل میں الگ الگ رجحانات کے باوجود کلیدی و اساسی مسائل میں عوام کی یکجہتی نظر آئے گی، انقلاب اور اسلامی نظام کی جو سمت ہے عوام کی پیش قدمی اس سے ہم آہنگ نظر آئے  گی، دوسرے یہ کہ انقلاب اور اسلامی نظام سے اسی طرح دین و ایمان سے عوام کے قلبی لگاؤ کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چیز دنیا میں نمایاں ہو چکی ہے، دوست اور دشمن سب اس سے واقف ہو چکے ہیں۔ یہ رہی سنہ 1395 ہجری شمسی سے متعلق ایک اہم بات۔

البتہ اس سال کے دوران کچھ تلخ واقعات بھی رونما ہوئے، جن میں تازہ ترین واقعہ فائر بریگیڈ کے عملے کے عزیز اہلکاروں کو پیش آنے والا سانحہ تھا، جنھوں نے جذبہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا، یہ بھی بڑا تلخ سانحہ تھا۔ تلخ واقعات بھی ہمیشہ رونما ہوتے رہتے ہیں،  تاہم بنیادی چیز یہ ہے کہ عوام کی ہمت، عوام کی قوت ارادی اور عوام کا رخ نوید بخش اور پیشرفت کا مظہر ہو۔ بحمد اللہ یہ چیز موجود رہی۔

میں یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ قوم کی یہ ضرورت اس سال بھی اسی طرح قائم ہے۔ اس سال بھی ملت ایران کو ملی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہے، انقلاب، اسلامی نظام اور دینی امور سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرنا ہے، اسے ثابت کرنا ہے، عوام کو چاہئے کہ ایران کے دشمنوں، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں اور ملت ایران کے دشمنوں کو اپنے رجحان و میلان سے آگاہ کریں۔ میں نے اسی مناسبت سے آج کی اس بحث کا انتخاب کیا ہے۔

آج کی ہماری گفتگو دو موضوعات کے بارے میں ہے؛ ایک تو ملک کے معاشی امور کا معاملہ ہے، اہل فن کی اصطلاحات سے الگ ہٹ کر میں اقتصادی امور کے بارے میں وہ باتیں عرض کرنا چاہوں گا جن سے ہمارے عزیز عوام کا باخبر ہونا، جن پر عوام کا توجہ دینا اور حکام سے جن چیزوں کا مطالبہ کرنا ضروری ہے، اسی طرح  انتخابات کے بارے میں بھی جو ہماری آج کی بحث کا دوسرا موضوع ہے کچھ باتیں عرض کروں گا۔

عزیز بہنو اور بھائیو! اقتصادیات کا مسئلہ ملک کا ترجیحی مسئلہ ہے، صرف اس سال نہیں بلکہ کئی سال سے یہ ملک کی اولیں ترجیحات میں شامل ہے اور حالیہ چند برسوں میں صحیح شکل میں اور صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ اقتصادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت صاف طور پر محسوس کی گئی ہے۔ کچھ کام بھی انجام دئے گئے ہیں جن کا میں ابھی ذکر کروں گا۔ آج ملت ایران کی بنیادی ترجیح ہے معیشت۔ آپ یہ بھی توجہ رکھئے کہ دشمن کی بھی پہلی ترجیح معیشت ہی ہے۔ یعنی آج اسلامی جمہوریہ کے دشمن ایران کے بارے میں، ایرانیوں کے بارے میں اور اسلامی جمہوریہ کے تعلق سے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقتصادی حربوں کی تلاش میں ہیں، بلکہ یوں کہا جائے کہ ملت ایران کی معیشت پر وار کرنے کے مواقع کی تاک میں ہیں۔ دشمن کا مقصد یہ ہے کہ اقتصادی دباؤ ڈال کر ملت ایران کو اسلامی نظام کے تعلق سے اور اسلامی جمہوریہ کے تعلق سے سرد مہری میں مبتلا کر دے، بیزار کر دے، ملت ایران اور اسلامی نظام کے درمیان فاصلہ پیدا کر دے اور اس طرح اپنے اہداف پورے کرے۔ البتہ میں آپ سے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارے احمق اور بے دین دشمن برسوں سے ملت اور اسلامی نظام میں جدائی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن انھیں کامیابی نہیں مل رہی ہے، آئندہ بھی اللہ نے چاہا تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ دشمن کو تو کامیابی ملنے والی نہیں ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ اس موضوع کو زیر بحث لائیں، اس کی حد درجہ اہمیت کی وجہ سے، عہدیداران کی توجہ اس پر مبذول کرانے کی غرض سے، اقتصادی شعبے میں عوام اور حکام کے درمیان تعاون کا رشتہ قائم کرنے کی غرض سے۔ اس لئے کہ اقتصادیات کا مسئلہ، عوام کی معیشت کا مسئلہ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ میں اس بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ البتہ آغاز سال کے پیغام میں اجمالی طور پر کل میں نے ملت ایران کی خدمت میں اپنی بات پیش کی، آج قدرے تفصیل سے اس بارے میں گفتگو کروں گا۔ امام سجاد علیہ السلام اپنی دعا میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں؛ وَ نَعوذُ بِکَ مِن تَناوُلِ الاِسرافِ وَ مِن فِقدانِ الکَفاف (۳) اس سے اقتصادی مسائل کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں، اللہ کی پناہ مانگتے ہیں فضول خرچی اور اس صورت حال سے جس میں لوگوں کے پاس معیشتی وسائل بہ قدر کافی موجود نہ ہوں۔ اس سے اقتصادی مسئلے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لہذا ہمیں اس بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ  اصلی بحث کا آغاز کرنے سے قبل میں دو نکات پر خاص طور سے تاکید کرنا چاہتا ہوں، آپ حضرات جو یہاں تشریف فرما ہیں، اسی طرح وہ لوگ جو بعد میں اس تقریر کو سنیں گے سب کی توجہ ان دو نکات پر مبذول کرانا چاہتا ہوں۔

پہلا نکتہ؛ دشمن اپنی وسیع تشہیراتی مہم کے تحت اس کوشش میں ہے کہ ملک کی اقتصادی و معیشتی مشکلات کو اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کی دین قرار دے۔ یہ دشمن کی سازش ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلامی نظام ملت ایران کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کی توانائی نہ تو پہلے رکھتا تھا اور نہ آج اس پر قادر ہے، وہ ملت ایران کی بنیادی مشکلات کو حل کرنے اور راستے کی رکاوٹیں دور کرنے سے قاصر ہے۔ اسلامی نظام کی شبیہ مسخ کرنے کے لئے یہ حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اسلامی نظام سے ان کے بغض و کینے اور عداوت کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقت سے عاری الزام ہے۔ اس مدت میں اسلامی نظام نے اور اسلامی جمہوریہ نے ایران اور ملت ایران کی جو خدمت کی ہے وہ بے حد نمایاں اور غیر معمولی ہے۔ اگر آپ اسلامی نظام سے پہلے یعنی طاغوتی (شاہی) دور کے حالات کا موازنہ ملک اور عوام کی موجودہ صورت حال سے کیجئے تو پتہ چلے گا کہ اسلامی نظام نے کیا عظیم خدمات انجام دی ہیں۔ بے شک خامیاں بھی ہیں، ان کمزوریوں کا تعلق ہماری انتظامی توانائيوں سے ہے، ان کا تعلق ان عہدیداروں کی خامیوں اور کمزوریوں سے ہے جو مختلف شعبوں میں مصروف عمل ہیں۔ اسلامی نظام نے اپنے اندر توانائیوں کو  پروان چڑھایا ہے، عہدیداروں کی تربیت کی ہے جنھوں نے بڑے عظیم کارنامے اس مدت میں سرانجام دئے ہیں، حالانکہ تقریبا چار عشرے کی اس مدت میں ملت ایران پر ہر طرف سے دشمنوں کی پابندیوں کا ہجوم اور اقتصادی دباؤ رہا ہے۔

میں اس کی کچھ مثالیں دینا چاہتا ہوں؛ البتہ یہ صرف چند نمونے ہیں ورنہ اسلامی جمہوری نظام کی خدمات کی فہرست بہت طولانی ہے، ان چیزوں سے کہیں زیادہ خدمات انجام دی گئی ہیں۔ آپ دیکھئے کہ اوائل انقلاب کی نسبت اس وقت ہماری آبادی دگنا ہے۔ یعنی تقریبا چار کروڑ کی آبادی آج تقریبا آٹھ کروڑ ہو گئی ہے، لیکن جو تبدیلیاں ہوئیں اور مختلف میدانوں میں جو کام انجام پائے وہ دگنا اور تین گنا نہیں بلکہ ان کے اعداد و شمار غیر معمولی ہیں، حد درجہ نمایاں ہیں۔

انفراسٹرکچر کے میدان میں اگر دیکھا جائے تو ملک میں جو  کام انجام پائے ہیں وہ کوالٹی اور مقدار دونوں اعتبار سے دیگر ملکوں کی نسبت بہت بڑے اور عظیم کام ہیں۔ مثال کے طور پر اس عرصے میں ملک میں سڑکوں میں چھے گنا کا اضافہ ہوا ہے، اس مدت میں ملک کی بندرگاہوں کی گنجائش میں بیس گنا کا اضافہ ہوا ہے، پینے اور زراعت کے پانی کی سپلائی کے لئے بنائے جانے والے بند تیس گنا تک پہنچ گئے ہیں، ملک میں بجلی کی پیداوار میں چودہ گنا اضافہ ہوا ہے، ملک کی غیر پیٹرولیم برآمدات کی مقدار ستاون گنا بڑھی ہے۔ انقلاب سے پہلے یعنی طاغوتی (شاہی) دور میں ملکی برآمدات تقریبا پیٹرولیم اشیاء تک ہی محدود تھیں، بہت مختصر مقدار میں کچھ دوسری چیزیں بھی برآمد کی جاتی تھیں جو پیٹرولیم برآمدات کے مقابلے میں ہیچ تھیں، مگر آج غیر پیٹرولیم برآمدات میں 57 گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ پیٹروکیمیکل اشیاء کی پیداوار میں تیس گنا اور اسٹیل پروڈکٹس میں پندرہ گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر سے متعلق کام ہیں۔ جو ملک بھی آگے بڑھنا چاہتا ہے، اقتصادی ترقی کرنا چاہتا ہے، اسے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ سارے کام انقلاب کے بعد انجام دئے گئے ہیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اگر دیکھا جائے تو اوائل انقلاب سے اب تک یونیورسٹی طلبہ کی تعداد پچیس گنا تک پہنچ چکی ہے۔ اوائل انقلاب میں ملک کے یونیورسٹی طلبہ کی کل تعداد دو لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ آج وطن عزیز میں تقریبا پچاس لاکھ یونیورسٹی طلبہ زیر تعلیم ہیں، ریسرچ پیپرز کی تعداد میں سولہ گنا کا اضافہ ہوا ہے، دوسری بھی بے پناہ سائنسی و تحقیقاتی سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں۔

سماجی و انسانی نمو کے میدان میں انڈیکیٹر کافی اونچائی پر ہیں۔ عوام کو سروسیز فراہم کرنے کے میدان میں جیسے گیس، بجلی، ٹیلی فون، آبادی اور گاؤوں کو دی جانے والی دیگر خدمات کے اعداد و شمار بہت اچھے اور حوصلہ بخش ہیں، عسکری سرگرمیوں کے میدان میں بھی اعداد شمار غیر معمولی ہیں۔ جو ملک اسلامی انقلاب کی فتح سے قبل فوجی میدان میں دیگر ممالک کا محتاج تھا، امریکا جیسے دشمنوں پر اس کا پورا انحصار تھا، وہ آج دفاعی پیشرفت کے میدان میں اتنا نمایاں ہے کہ دشمن کی آنکھیں خیرہ ہوکر رہ گئی ہیں، دشمن غضبناک اور پریشان ہے۔

یہ سب اسلامی نظام کی ہنرمندی کا نتیجہ ہے، یہ وہ ثمرات ہیں جو اسلامی نظام نے دئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اگر میں اس فہرست کو بیان کرنا چاہوں تو بات بہت طولانی ہو جائے گی، یہ فہرست بہت طویل ہے۔ البتہ انقلاب کا سفر جاری ہے، پیشرفت کا عمل رکنے والا نہیں ہے، ابھی بہت سے کام ایسے ہیں جنھیں انجام دینا باقی ہے، اللہ کی نصرت و مدد سے یہ کام بھی انجام پائیں گے۔ اسلامی نظام کی کلی پالیسیوں میں ان امور کا ذکر بھی ہے جنھیں مستقبل میں انجام دیا جانا ہے، وہاں بتایا گيا ہے کہ ابھی ان کاموں کی انجام دہی باقی ہے۔

البتہ ہنوز کمزوریاں بھی ہیں جو کم نہیں ہیں۔ میں خود اپنی ذات سمیت ملک کے عہدیداروں کی کارکردگی کی خامیوں سے باخبر ہوں۔ بہت سی خامیاں موجود ہیں جو ہماری انتظامی کمزوری کی دین ہیں، یہ اسلامی نظام کی پیش قدمی کے عمل کا نتیجہ نہیں ہیں۔ جہاں بھی ہمیں پر جوش، سرگرم عمل اور انقلابی مینیجمنٹ ملا ہے وہاں امور انجام پائے ہیں، جہاں بھی انتظامی سطح پر کمزوری، مایوسی، بے عملی، انقلاب سے لا تعلقی نظر آئی ہے وہاں امور انجام نہیں پا سکے ہیں، یا ان کی سمت بدل گئی ہے۔ یہ ایک مشکل ہے جو موجود ہے، یہ بڑی خامی ہے، ایک کمزوری ہے جو موجود ہے۔ ہمارے عہدیداروں میں جوش و جذبہ ہونا چاہئے، انھیں خود کو زیادہ کارآمد بنانا چاہئے، مزید سعی و کوشش کرنا چاہئے، ان شاء اللہ مستقبل میں ایسا ہی ہوگا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر ملک کے اندر مختلف شعبوں میں عہدیداران متدین ہوں، انقلابی ہوں، کام کرنے والے ہوں تو ملک کی تمام مشکلات کو دور کیا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں کوئی بھی مشکل ایسی نہیں ہے جسے حل نہ کیا جا سکتا ہو۔ یہ تھا پہلا نکتہ جو میں نے عرض کر دیا۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وطن عزیز کے اندر موجود صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں، ہمارے ملک میں توانائیوں اور استعداد کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یعنی اگر ہم مستقبل کے تعلق سے جو بہت زیادہ پرامید ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کام انجام پانا چاہئے یا یہ کہتے ہیں کہ یہ کام انجام پائیں گے تو ایسا کہنے کی بنیاد ملک کے اندر موجود توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں۔ ہمارا ملک افرادی قوت کے اعتبار سے بھی، قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی، معدنیاتی ذخائر کے اعتبار سے بھی اور دیگر ذرائع کے اعتبار سے بھی دنیا کے ثروت مند ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ افرادی قوت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم نے ابھی عرض کیا کہ ملک کے اندر پچاس لاکھ یونیورسٹی طلبہ کی موجودگی وطن عزیز کے لئے ایک بڑا سرمایہ ہے، اس کے علاوہ ہمارے ملک میں تقریبا ایک کروڑ افراد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں جو گوناگوں کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں 'کام کرنے والی عمر' کے یعنی 15 سے 40 سال کے بيچ کی عمر کے تین کروڑ تیس لاکھ نوجوان ہیں۔ یعنی ہمارا ملک نوجوان آبادی والا ملک ہے جس کے پاس اتنی وسیع توانائیاں ہیں اور جو کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اہل نظر اور ماہرین کا نظریہ ہے کہ کام کی توانائي رکھنے والے انسان کے لئے کارکردگی دکھانے کا بہترین دور 15 سال سے 40 سال کی عمر کا درمیانی دور ہوتا ہے، یہ چیز مرد اور عورت دونوں کے بارے میں صادق آتی ہے۔ اس اعتبار سے ہمارے ملک کی حالت کافی اچھی ہے۔ ملک کی آبادی میں تین کروڑ تیس لاکھ افراد عمر کے اسی دور میں ہیں جو بہترین انداز میں کام کر سکتے ہیں، اپنے دوش پر ذمہ داری کا سنگین بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ زیر زمین وسائل اور معدنیات کے اعتبار سے ہم دنیا کے پیشرفتہ ملکوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میں نے ایک موقع پر کہا تھا (4) کہ ہمارے ملک کی آبادی دنیا کی آبادی کا تقریبا سواں حصہ ہے، لیکن ہمارے تمام بنیادی وسائل اور ذخائر ایک فیصدی سے زیادہ ہیں، بعض ذخائر تو دو فیصدی تک ہیں، بعض تین فیصدی تک اور بعض پانچ فیصدی تک ہیں۔ یعنی وسائل و ذخائر کے اعتبار سے ہمارے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ آغاز سال کے اسی اجتماع میں میں نے ایک دو سال قبل (5) کہا تھا کہ تیل اور گیس کے ذخائر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو ہمارا ملک دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ یعنی تیل اور گیس کے ذخائر کو ملا کر دیکھا جائے تو ہمارا ملک دنیا کا سب سے اچھا اور دولت مند ملک ہے، میں نے کہا تھا کہ ہم پہلے نمبر پر ہیں۔ حال ہی میں مجھے جو اعداد و شمار ملے اس سے واضح ہوا کہ صرف گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دیکھا جائے تب بھی ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ یعنی کسی بھی ملک کے پاس ہمارے ملک جتنی گیس اور تیل نہیں ہے اور صرف گیس کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس ہمارے ملک جتنی گیس نہیں ہے جو آج دنیا میں انرجی کا بہت اہم سرچشمہ سمجھی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک دولت مند ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دشمن یعنی تسلط پسند طاقتیں امریکہ وغیرہ اس ملک پر حریصانہ نظریں گاڑے ہوئے ہیں، اس ملک کو اپنے تسلط میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہ ان کی دائمی تمنا رہی ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی، یہ آرزو ان کے ساتھ قبر میں جائیگی۔

اب ہم اقتصادیات کی بحث کا آغاز کریں گے کیونکہ وقت بہت محدود ہے اور اسی کے اندر مجھے وہ ساری باتیں اختصار سے ہی سہی عرض کرنا ہیں جن کا میں نے ارادہ کیا ہے۔

دیکھئے ہم ملک کے لئے اور اپنی قوم کے لئے کیا چاہتے ہیں؟ ہم ملک اور قوم کو کہاں پہنچانا چاہتے ہیں؟ ہم ملت ایران کے لئے قومی سلامتی چاہتے ہیں، قومی وقار چاہتے ہیں، عمومی صحت و سلامتی چاہتے ہیں، رفاہ عامہ چاہتے ہیں، ہمہ جہتی پیشرفت چاہتے ہیں، تمام عالمی طاقتوں کے تسلط سے خود مختاری چاہتے ہیں، توانائیوں کا نشونما چاہتے ہیں، سماجی برائیوں جیسے نشہ اور کرپشن وغیرہ سے نجات چاہتے ہیں، ہم ملک کے لئے یہی چیزیں چاہتے ہیں۔ ہم مادی مسائل کے میدان میں وطن عزیز کے لئے یہ چیزیں چاہتے ہیں اور ان کے لئے کوشاں ہیں۔ قوم کو رفاہ و آسائش تب ملے گی جب ملک کے اندر یہ ساری چیزیں اس کے لئے مہیا ہوں۔ ان چیزوں کو کیسے مہیا کیا جا سکتا ہے؟ قومی وقار، قومی سلامتی، قومی اقتدار اعلی اور ہمہ جہتی پیشرفت کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک ملک کے پاس مستحکم معیشت نہیں ہوگی یہ چیزیں حاصل نہیں ہو پائیں گی۔ ہماری ضرورت ہے مستحکم معیشت، مستحکم پیداوار اور درست مینیجمنٹ۔ یہ ہیں ہماری ضرورتیں۔ مضبوط و مستحکم، قابل اعتماد اور خود منحصر معیشت جس میں دوسروں کی جانب دست نیاز دراز کرنے کی ضرورت نہ ہو، بلکہ ہمارے پاس انتخاب کا اختیار ہو، اپنی مرضی سے آگے بڑھیں، اپنی مرضی سے اقدام کریں، تیل کی قیمت پر اپنا اثر ڈال سکیں، ملکی کرنسی کی قدر بڑھا سکیں، عوام کی قوت خرید اوپر لے جا سکیں، اس طرح کی مستحکم و مضبوط معیشت کے بغیر نہ تو ہمیں دائمی وقار حاصل ہوگا اور نہ پائیدار سلامتی حاصل ہوگی۔ ان چیزوں کا حاصل ہونا ضروری ہے۔ یہ ہے معیشت کی اہمیت۔ البتہ قومی اتحاد و یکجہتی کے بغیر یہ معیشت وجود میں آنے والی نہیں ہے، اسلامی نظام سے ملت کی عمومی وابستگی کے بغیر یہ اہداف پورے نہیں ہو سکیں گے، انقلابی ثقافت کے بغیر یہ اہداف حاصل نہیں ہوں گے، شجاع، محنتی اور فعال عہدیداروں کے بغیر یہ مطالبات پورے نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ان ساری چیزوں کی ضرورت ہے، ہمیں یہ ساری چیزیں فراہم کرنا ہیں اور ہم فراہم کر سکتے ہیں۔ تو اس وقت ملک کی ایک بنیادی مشکل ہے معیشت کا مسئلہ ہے۔

ہم نے استقامتی معیشت کا موضوع اٹھایا اور کہا کہ مجریہ اور ملک کے دیگر شعبوں میں کام کرنے والے عہدیداران نے توجہ سے اس مسئلے پر کام کیا، منصوبہ بندی کی اور کچھ کام بھی انجام دئے۔ یہ کام بہت اچھے ہیں، ان میں سے میں بعض کی جانب اشارہ بھی کرنا چاہوں گا، لیکن آج جو چیز ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور ہم جسے اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اقتصادی میدان میں موجود خلا بہت بڑا ہے۔ ایک تو بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کی بے روزگاری کا مسئلہ ہے، بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری کا معاملہ ہے۔ یہ ایک بڑا خلا ہے، یہ بڑا گڑھا ہے، اسے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کمزور طبقات کا معیشتی مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ ہم دائمی طور پر اطلاعات پر نظر رکھتے ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں عوام کی زندگی کے حالات سے باخبر رہتے ہیں، معیشت کے اعتبار سے عوام مشکلات میں ہیں۔ بے روزگاری کی مشکل ہے، سخت زندگی کی مشکل ہے، اسی طرح ثقافتی و سماجی مشکلات ہیں جو اس بڑی مشکل کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہیں۔

ہم نے عرض کیا کہ دشمن کی نگاہیں بھی انھیں چیزوں پر مرکوز ہیں اور اسی موضوع کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ زہریلا پروپیگنڈا کرتا ہے۔ اقتصادی امور کے ماہرین، وہ افراد جو اقتصادیات میں صاحب نظر ہیں، یہ مانتے ہیں کہ سب سے بڑی مشکل کساد بازاری اور بے روزگاری سے  پیدا ہوتی ہے۔ یہ لوگ حق بجانب ہیں۔ ایک مسئلہ بے روزگاری کا ہے اور دوسرا اہم مسئلہ ملک کے اندر کساد بازاری اور پیداوار میں کمی کا ہے۔ یہ ساری چیزیں استقامتی معیشت میں مد نظر رکھی گئی ہیں لیکن استقامتی معیشت ایک مکمل سسٹم ہے۔ اگر ہم اس نظام کو کچھ حصوں میں تقسیم کریں اور مناسب موقع پر اس کے بعض اہم مسائل پر خاص توجہ  کے ساتھ ملک کے اندر کام کریں تو یقینا اس سے آچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

سنہ 1395 ہجری شمسی (مارچ 2016 الی مارچ 2017) کے اندر بہت اچھے کام انجام پائے ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہم محترم عہدیداروں کی مساعی پر توجہ دیں اور ان کی قدر کریں۔ گزشتہ سال کے اوائل میں آغاز سال کی اسی نشست میں چھوٹی اور اوسط درجے کی پیداواری یونٹوں کے بارے میں خاص طور سے تاکید کی گئی تھی تو عہدیداران نے چھوٹی اور میانہ سطح کی پیداواری یونٹوں کو سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا پندرہ ہزار ارب تومان کا بجٹ مختص کیا تقریبا بیس ہزار چھوٹی یونٹوں کو متحرک کرنے کے لئے، انھیں جمود سے باہر نکالنے کی کوشش کی، اقدامات انجام دئے، البتہ قدرے تاخیر سے یہ کام شروع ہوا لیکن بہرحال انجام پایا۔ یہ بہت اچھا اقدام  تھا، تاہم ہر اچھے کام کے سلسلے میں نظارت اور تسلسل کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کام کو بخوبی جاری نہ رکھا جائے اور دائمی طور پر اس کی نگرانی نہ کی جائے تو کام انجام تک نہیں پہنچ پاتا اور اگر پہنچتا بھی ہے تو اس سے وہ مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہو پاتا۔ میں نے متعلقہ عہدیداروں سے تفصیلات مانگیں اور مختلف طریقوں اور ذرائع کی مدد سے زمینی سطح پر حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ کام تو ہوا ہے لیکن اتنا نہیں جتنے اخراجات ہوئے۔ اس کام میں پیشرفت تو ہوئی ہے لیکن اس طرح سے نہیں جو مد نظر تھی، اس انداز سے کام نہیں ہوا جس انداز سے ہونا چاہئے تھا۔ ہمیں ایسا کچھ کرنا ہوگا کہ حکام کی تدابیر اور پالیسیاں مطلوبہ نتائج تک پہنچ سکیں۔

آج بعض انڈیکیٹرز کے سلسلے میں ہماری مشکلات کافی زیادہ ہیں۔ بعض انڈیکیٹرز تو اچھے ہیں، مثال کے طور پر افراط زر کا انڈیکیٹر یہ دکھاتا ہے کہ اس کی شرح میں کمی آئی ہے، یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن بے روزگاری کا انڈیکیٹر اس کی شرح میں اضافہ دکھاتا ہے، بے روزگاری بڑھی ہے۔ یہ خود عہدیداروں کے تیار کردہ اعداد و شمار ہیں۔ اسی طرح اقتصادی ترقی کی شرح میں اضافہ دکھائی دیتا ہے مگر سرمایہ کاری کی شرح میں کمی نظر آتی ہے، یہ ایک بڑی اور بنیادی خامی ہے۔ اسی طرح مثال کے طور پر بعض شعبوں میں جیسے پیٹرولیم کے شعبے میں پیشرفت ہوئی ہے مگر معدنیات اور رہائشی مکانات کے شعبے میں ہم پیچھے ہیں۔ یعنی سرکاری اعداد و شمار سے انسان کو یہ اطمینان نہیں ہوتا کہ مجموعی سرگرمیوں کا عمل اقتصادی مشکلات کے ازالے پر مرکوز ہے۔

ماضی کو عبور کرتے ہوئے ہم مستقبل پر توجہ دیتے ہیں! مستقبل کے تعلق سے میں جس نکتے کو ترجیحی اور کلیدی نکتہ سمجھتا ہوں وہ ہے پیداوار، قومی پیداوار، جی ڈی پی۔ اس حقیر کی سفارش، اس حقیر کی گزارش، اس حقیر کا مطالبہ یہ ہے کہ قومی پیداوار کو بنیاد قرار دیا جائے۔  قومی پیداوار مشکلات کی کنجی ہے۔ یہ باتیں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایک تو میری یہ گفتگو ملت ایران سے ہے، عہدیداران بھی اس پر توجہ دیں  اور اسے اپنے اقدامات کی بنیاد قرار دیں اور دوسرے یہ کہ رائے عامہ کی سطح پر بھی مطالبات اسی سمت میں مرکوز ہوں، عوامی مطالبات اسی سمت میں ہوں جس پر آج ہم گفتگو کر رہے ہیں۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ملکی معیشت کے موجودہ مرحلے کے لئے سب سے بنیادی چیز ہے قومی پیداوار۔ یہ کلیدی نکتہ ہے۔ اس کلیدی نکتے سے گوناگوں عناوین نکلتے ہیں۔ اگر ہم قومی پیداوار میں رونق لانے میں کامیاب ہو گئے تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، بے روزگاری کی مشکل دور ہوگی، کیونکہ آج ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی مشکل بے روزگاری ہے، بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے، اس طرح یہ مشکل ختم ہوگی یا کم ہو جائے گی۔

میں نے یہاں اس کی چند خصوصیات نوٹ کی ہیں، البتہ ان میں سے ہر فصل کے لئے تفصیلی بحث درکار ہے، مگر میں مجبورا صرف فہرست وار بیان کر دینے پر اکتفا کروں گا۔ ایک اہم فصل ہے روزگار، اسی طرح ایک اور اہم فصل جو قومی پیداوار کے فروغ کی صورت میں پیدا ہوگی، نوجوانوں کی استعداد کا نمو اور اختراعی صلاحیتوں کا نکھار۔ جب پیداوار کا شعبہ فروغ پائے گا تو نوجوانوں کی استعداد پروان چڑھے گی اور اختراعی توانائیاں نکھر کر سامنے آئيں گی۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ خاص اہمیت کا حامل زر مبادلہ استعمال کی چیزوں پر صرف نہیں ہوگا، خرچ نہیں ہوگا۔ اسی طرح جو سرمایہ منجمد پڑا ہوا ہے اور لوگوں نے جو رقم جمع کر رکھی ہے وہ بھی پیداوار کے شعبے کی رونق کی صورت میں گردش کرنے لگے گی اور لوگ خود ہی ملک کے لئے سرمایہ پیدا کریں گے۔

برآمدات میں اچھال پیدا ہوگا۔ اگر پروڈکشن ہوگا تو برآمدات میں اچھال یقینی ہے، اس سے بھی ملک کو نیا سرمایہ حاصل ہوگا۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ غیر ملکی برانڈ کی نمائش کی مقابلہ آرائی ختم ہوگی۔ آج ہماری ایک بڑی سماجی اور اخلاقیاتی برائی یہ ہے کہ ہم غیر ملکی برانڈ کی نمائش میں لگے رہتے ہیں، اس کی مدد سے برتری جتاتے ہیں، یہ لباس، یہ جوتے، یہ پرس، یہ پروڈکٹ فلاں معروف غیر ملکی کارخانے کا ہے! میں دوسرے کو دکھاتا ہوں اور دوسرا کسی اور کو دکھاتا ہے، اس طرح یہ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ہم اس ثقافتی مصیبت اور ثقافتی برائی کو ملک میں پیداواری شعبے میں رونق پیدا کرکے کم کر سکتے ہیں یا اس کا سد باب کر سکتے ہیں۔

قومی پیداوار بڑھنے کا ایک اور فائدہ سماجی مشکلات اور برائیوں میں کمی ہے۔ بے روزگاری بدعنوانی پھیلنے کا باعث بنتی ہے، شادی میں تاخیر کا سبب بنتی ہے، نشے کی برائی پھیلنے کا سبب بنتی ہے۔ اگر بے روزگاری نہ ہو تو یہ مشکلات بھی ختم ہو جائیں گی، قومی پیداوار میں نمو سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

قومی امید و نشاط کا جذبہ بھی ایک اہم ثمرہ ہے۔ جب ملک میں قومی پیداوار کو فروغ ملے گا تو ایک عمومی ملی امید و نشاط کا جذبہ متلاطم ہوگا جو اپنے آپ میں ملک کی پیشرفت میں بہت موثر عنصر ہے۔ ملک کی معدنیاتی توانائیاں متحرک ہو جائیں گی جن کے تعلق سے ابھی ہم کافی پیچھے ہیں، ہم ان خداداد وسائل کو بروئے کار لا سکتے ہیں جو اللہ تعالی نے اس قوم کو عطا فرمائے ہیں۔ یہ چند فصلیں اور موضوعات ہیں، اگر آپ غور کریں تو دوسرے بھی بہت سے ابواب سامنے آ سکتے ہیں، یہ سب ملک کے اندر قومی پیداوار کے فروغ کے ممکنہ ثمرات و نتائج ہیں۔

ہم جب پیداوار، قومی پیداوار یا داخلی پیداوار کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کے لئے وسائل درکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ضروری وسائل ہمارے پاس موجود ہیں یا ہم انھیں مہیا کر سکتے ہیں؟ اس حقیر کا جواب اثبات میں ہے۔ یہ وسائل ہمارے پاس آج بھی موجود ہیں، بعض ہمارے ہاتھ میں ہیں اور بعض دیگر وسائل کو ہم مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ وسائل بنیادی طور پر افرادی قوت، مہارت، سرمایہ اور پیشرفتہ آلات  اور مشینیں ہیں۔ یہ چیزیں کسی بھی ملک میں قومی پیداوار کے فروغ کے لئے لازمی ہوتی ہیں۔ میرا یہ خیال ہے کہ ان میں بعض وسائل ہمارے پاس مجود ہیں، ملک کے اندر بعض وسائل اس وقت بھی مہیا ہیں اور بعض دیگر وسائل کو بغیر کسی خاص دشواری کے مہیا کیا جا سکتا ہے۔

اگر ہم افرادی قوت کی بات کریں تو ہم نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کی آبادی میں تین کروڑ تیس لاکھ افراد کام کرنے کی عمر میں ہیں۔ یعنی ان کی عمریں پندرہ سے چالیس سال کے درمیان ہیں۔ البتہ کام کی توانائی رکھنے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 15 سال سے 65 سال کی عمر کے افراد کی تعداد ساڑھے  پانچ کروڑ ہے، 65 سال کو ریٹائرمنٹ کی عمر مانا جاتا ہے۔ تاہم جنھیں نوجوان کہا جاتا ہے اور جو کام کے میدان میں باقاعدہ سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں، ان کی تعداد کم از کم تین کروڑ تیس لاکھ ہے۔ ہمارے پاس یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کی تعداد ایک کروڑ ہے، یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد پچاس لاکھ کے قریب ہے۔ یہ سب ملک کا سرمایہ ہی تو ہے۔ جو باخبر افراد ہیں انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے ملک میں انجینیئرنگ کے ماہرین کی تعداد اتنی ہے کہ انجینیئروں کی تعداد کے اعتبار سے ہمارا ملک دنیا کے صف اول کے ممالک میں ہے۔ بنابریں افرادی قوت کے اعتبار سے ہمارے پاس یہ وسائل موجود ہیں۔

اب سرمائے سے متعلق کچھ باتیں؛ قومی پیداوار بڑھانے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ صنعت کاروں کو پیداواری سرگرمیوں کی ترغیب دلائیں۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں رکھتا۔ افراد کے پاس جو ذاتی وسائل موجود ہیں ان کے علاوہ حکومت نے بھی قومی ترقیاتی فنڈ قائم کیا ہے۔ میں قومی ترقیاتی فنڈ کے بارے میں تھوڑی تشریح کرنا چاہتا ہوں؛ یہ ان پالیسیوں کا حصہ تھا جو چند سال قبل کلی پالیسیوں کے تحت پیش کی گئی تھیں، حکومتوں کے لئے ضروری ہو گیا کہ قومی ترقیاتی فنڈ کو اپنے منصوبوں میں شامل کریں۔ قومی ترقیاتی فنڈ ہے کیا؟ قومی ترقیاتی فنڈ کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیل کے کنؤں سے جو تیل نکالتے ہیں اور بغیر ایڈڈ ویلیو کے اسے خام شکل میں فروخت کر دیتے ہیں، تو خام تیل کی اس فروخت سے جو رقم حاصل ہو رہی ہے اس کا کچھ فیصدی حصہ الگ کر دیا جائے تاکہ تیل پر ملکی معیشت کا انحصار کم ہو۔ پہلے ہم نے کہا کہ بیس فیصدی حصہ الگ رکھا جائے، پھر ہر سال اس میں تھوڑا اضافہ ہوا یعنی تین فیصدی کا اضافہ کیا گيا، اگر ہر سال تین فیصدی کی شرح سے اضافہ ہوتا رہتا تو اس سال یہ مقدار تیل کی آمدنی کا 36 فیصدی حصہ ہوتی اور اسے قومی ترقیاتی فنڈ کو دیا جاتا، یعنی قومی ترقیاتی فنڈ میں یہ رقم رکھی جاتی تاکہ اسی مقدار میں  تیل کی آمدنی پر ملکی معیشت کا انحصار کم ہوتا! اگر یہ سلسلہ اسی طرح چند سال جاری رہے تو ایک دن وہ آئے گا کہ ملکی معیشت کا تیل کی آمدنی پر انحصار پوری طرح ختم ہو جائے گا جو وطن عزیز کے لئے بہت اہم مقام ہوگا اور اسے بہت بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔ ہمارے ملک اور اسی طرح بعض دیگر ممالک کی ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی معیشت تیل پر منحصر ہے اور تیل کے امور کے اختیارات تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں، صارف ملکوں کے ہاتھ میں ہیں، عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہیں۔ قیمت کا تعین یہی طاقتیں کرتی ہیں، کبھی قیمت بڑھا دیتی ہیں، کبھی کم کر دیتی ہیں، اس معاملے میں تیل پیدا کرنے والے ممالک بڑی طاقتوں کے سامنے بے دست و پا ہیں۔ اگر کوئی ملک تیل کی دولت سے مالامال ہو لیکن ساتھ ہی تیل پر اپنی معیشت کا انحصار ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ یکبارگی کئی گنا ترقی کرے گا۔ قومی ترقیاتی فنڈ اسی مقصد کے تحت قائم کیا گيا ہے۔ البتہ سنہ 1394 میں (مارچ 2015 تا مارچ 2016) میں حکام نے کہا کہ تیل کی آمدنی کافی کم ہو گئی ہے، فروخت کی مقدار بھی کم ہو گئی ہے اور قیمت میں بھی گراوٹ آئی ہے، لہذا انھوں نے مطالبہ کیا کہ رہبر انقلاب کے خاص اختیارات کو بروئے کار لایا جائے اور صرف 20 فیصدی آمدنی ہی اس فنڈ کو دی جائے، بیس فیصدی سے زیادہ اس فنڈ کو نہ دیا جائے۔ ہم نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور حکومت کو یہ اجازت دے دی کہ صرف بیس فیصدی آمدنی ہی اس فنڈ میں جمع کرے۔ یہ فنڈ اس لئے ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کو یعنی داخلی صنعت کاروں کو رقم فراہم کرے اور اسے پیداواری سرگرمیاں انجام دینے اور پیداواری یونٹیں چلانے میں مدد دے۔ تو یہ سرمایہ موجود ہے۔ یعنی قومی ترقیاتی فنڈ کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کی تقویت بہت ضروری ہے۔ قومی ترقیاتی فنڈ کو ملک کے لئے بہت اہم انتظام تصور کیا جانا چاہئے۔ یہ بندوبست قومی پیداوار کے فروغ میں اپنا رول ادا کر سکتا ہے، اسے پیداوار کے فروغ کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ یعنی ملک کے اندر پیداواری سرگرمیوں میں مصروف افراد کو حکومت کی صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے اس فنڈ سے مدد ملنی چاہئے۔ تو ہمارے پاس ایسی ماہر افرادی قوت موجود ہے اور یہ سرمایہ بھی فراہم ہو سکتا ہے۔

آلات اور مشینیں؛ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس جدید آلات اور مشینیں نہیں ہیں،  پیشرفتہ مشینیں نہیں ہیں، مگر میرا یہ کہنا ہے کہ جو ایرانی نوجوان مختصر سی مدت میں یورینیم کی افزودگی کی سطح ساڑھے تین فیصدی سے بیس فیصدی تک پہنچا سکتا ہے، کہ جو واقعی ملک کے اندر انجام پانے والا بہت عظیم کارنامہ ہے، میں اپنی تقریر(6) میں کہہ بھی چکا ہوں کہ یورینیم کی افزودگی کی سب سے زیادہ پیچیدگی تین یا ساڑھے تین فیصدی کے گریڈ سے بیس فیصدی کے گریڈ کے درمیان ہوتی ہے، جب کوئی ملک یورینیم کو بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ کرنے پر قادر ہو جاتا ہے تو بڑی آسانی سے وہ افزودگی کو ننانوے فیصدی کے گریڈ تک پہنچا سکتا ہے، ساری دشواری اور پیچیدگی اسی مرحلے میں ہوتی ہے، اس مشکل اور پیچیدہ مرحلے کو ہمارے نوجوان سائنسدانوں نے بڑی مختصر سی مدت میں مکمل کر لیا اور یہ منزل سر کر لی، یورینیم کی افزودگی کو ساڑھے تین فیصدی سے بیس فیصدی کے گریڈ تک پہنچا دیا، جو نوجوان اس قسم کے عظیم سائنسی کارنامے انجام دے سکتے ہیں، اسی طرح سخت ترین بین الاقوامی پابندیاں عائد ہونے کے باوجود میزائل اور طیارے بنانے میں ملک کو اس منزل پر پہنچا سکتے ہیں کہ صیہونی افسر، صیہونی فوجی عہدیدار (7) بھی بیان دیتا ہے کہ میں ایرانیوں کا دشمن ہوں لیکن انھوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کی تعریف سے خود کو نہیں روک سکتا، انھوں نے واقعی بہت بڑا کام سرانجام دیا ہے! تو جو ایرانی نوجوان ایسے میزائل بنا سکتا ہے، ایسے طیارے بنا سکتا ہے، پیشرفتہ اسلحے بنا سکتا ہے، دشمن کو لرزہ براندام کر سکتا ہے، یورینیم کی افزودگی کو ساڑھے تین فیصدی کے گریڈ سے بیس فیصدی کے گریڈ تک پہنچا سکتا ہے، کیا وہ گاڑیاں بنانے یا ایسے کسی اور کام کو انجام دینے پر قادر نہیں ہے؟ کیسے قادر نہیں ہے؟! ہمارے نوجوانوں میں یہ صلاحیت موجود ہے۔ ہماری  افرادی قوت، جفا کش، ذی فہم، تعلیم یافتہ اور صاحب استعداد ایرانی نوجوان کا دماغ ایسے تمام کاموں کے لئے پوری آمادگی رکھتا ہے، ہم بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نوجوانوں کو پلیٹ فارم فراہم کریں، نوجوان ہماری بہت سی بڑی مشکلات کو حل کر سکتے ہیں، بند گرہوں کو کھول سکتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیاں صنعتی اداروں سے تعاون کی مشتاق ہیں۔ میں کئی سال سے صنعت اور یونیورسٹی کے باہمی تعاون کی سفارش کرتا آ رہا ہوں۔ البتہ کسی حد تک اس سلسلے میں کام بھی ہوا ہے، عسکری شعبے میں تو بہت اچھی طرح اس پر عمل ہوا ہے، اسی طرح کچھ دوسرے شعبوں میں بھی اس پر عمل کیا گیا ہے۔ ہماری یونیورسٹیاں مدد کر سکتی ہیں۔ یہ یونیورسٹیوں کے لئے بھی بہت اچھا ہے، سائنسی پیشرفت کے لئے بھی بہت اچھا ہے اور صنعتی شعبے کے لئے بھی بہت اچھی چیز ہے۔ مختصر یہ کہ پیداواری شعبے میں ہمارے سامنے وسائل کے فقدان جیسی کوئی مشکل نہیں ہے۔ ہمارے پاس افرادی قوت بھی ہے، پیشرفتہ وسائل اور آلات بھی ہم مہیا کر سکتے ہیں، قومی ترقیاتی فنڈ اور خود عوام الناس کے سرمائے کے ذریعے ہم سرمایہ کاری بھی کر سکتے ہیں۔ لہذا پیداوار کو فروغ دینا امکان میں ہے اور پیداوار کے جملہ وسائل ملک کے اندر موجود ہیں۔

البتہ اس کے کچھ لازمی تقاضے بھی ہیں، کچھ فرائض بھی ہیں جو ہمارے ذمے ہیں۔ عوام الناس کی بھی ذمہ داریاں ہیں، حکومتی عہدیداران کی بھی ذمہ داریاں ہیں، عدلیہ کے عہدیداران کی بھی ذمہ داریاں ہیں، پارلیمنٹ کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، کچھ تقاضے ہیں اور یہ تقاضے پورے کئے جانے چاہئے تاکہ پیداواری شعبے کو فروغ ملے۔ میں ان تقاضوں میں سے بعض کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ میں رائے عامہ کو آگاہ کرنے اور باخبر کرنے کی غرض سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے لئے دروازے بند نہیں ہیں، ہمارے سامنے کوئی ایسا راستہ نہیں ہے جس پر سفر کرنے کی توانائی ہمارے اندر نہیں ہے۔ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، بس ہمیں خود کو ذرا متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم تقاضا ہے کارآمد، فرض شناس اور دیندار مینجمنٹ۔ ملک کے اعلی حکام ان شعبوں کے لئے جن کا تعلق قومی پیداوار سے ہے، کارآمد اور کارساز عہدیداروں کا  انتخاب کریں، جوش و جذبے سے سرشار، قوی جذبات رکھنے والے عہدیداروں کو منصوب کریں۔ یہ اہم تقاضا ہے جو ملک کے اعلی عہدیداروں کے ہاتھ میں ہے۔

ایک اور اہم تقاضا ہے کہ پیداواری سرگرمیوں میں عوام کو بھرپور طریقے سے دخیل کرنا، پیداواری کاموں میں عوام کی  بھرپور شراکت ہونی چاہئے۔ ہم نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن چند سال قبل جاری کیا تھا۔ اقتصادی میدان کے تمام ماہرین نے اس وقت کہا تھا کہ یہ سیاسی میدان میں ایک بڑا انقلاب ہے، چلئے آپ انھیں پالیسیوں کو نافذ کیجئے، عوام کو شامل کیجئے! ملک کے دفاع، سرحدوں کے دفاع اور جنگ کے امور عام طور پر عوام کے ذمے نہیں ہوتے بلکہ فوج اور حکومت کی ذمہ داری کے دائرے میں آتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ نے صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے اور صحیح فیصلون کے ذریعے عوام کو منظم کر دیا، دفاع کے میدان میں اترنے پر آمادہ کر دیا۔ جب سرحدوں کی حفاظت کے لئے عوام الناس میدان دفاع میں اتر پڑے، یعنی اس میدان میں اتر پڑے جس کی ذمہ داری حکومت او فوج پر ہوتی ہے تو وہ بہت آگے گئے، عسکری شعبے کی ہماری بہت سی اہم شخصیات انھیں عوامی اور رضاکار گروہوں سے ملی ہیں۔ بنابریں اگر ہم اقتصادی میدان میں عوام کی شراکت بڑھاتے ہیں اور انھیں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیتے ہیں تو اقتصادیات اور پیداوار کے شعبے میں بھی یقینی پیشرفت حاصل ہوگی۔ یہ دوسرا اہم تقاضا ہے۔

ایک اور اہم تقاضا برآمدات کا فروغ ہے جس کے لئے حکومتی عہدیداران کو محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے حکومتی عہدیداروں سے ایک رپورٹ ملی۔ بد قسمتی سے اس رپورٹ کے مطابق ہماری برآمدات بلکہ ہمارا پورا ایکسپورٹ امپورٹ اور تمام تجارتی لین دین بنیادی طور پر پانچ یا چھے ملکوں کے ساتھ انجام پا رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ غلط ہے، یہ استقامتی معیشت کے اصولوں کے منافی ہے۔ استقامتی معیشت کے اہم نکات میں ہم نے اس بات پر بھی تاکید کی ہے۔ استقامتی معیشت کی ایک پالیسی یہی ہے کہ ایکسپورٹ کو فروغ دیا جائے ایکسپورٹ کے سلسلے میں اپنے فریقوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ اب اگر ہم پانچ یا چھے ملکوں پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اور خود کو محدود کر لیتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ اس ہدف کے لئے عہدیداران کو خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور اہم تقاضا ہے سرمایہ کاری کی حفاظت کی گیرنٹی۔ یہ عدلیہ کے عہدیداروں اور سیکورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے۔ انھیں ایسی تیاری کرنا چاہئے کہ سرمایہ کاری کا تحفظ یقینی بنے۔ ایک اور اہم کام ہے پالیسیوں میں استقلال اور پائیداری۔ قوانین بار بار تبدیل نہ کئے جائیں۔ یہ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی ذمہ داری ہے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ رکاوٹ بننے والے اور الجھاؤ پیدا کرنے والے ضوابط اور قوانین کو ختم کیا جائے، دوسرے یہ کہ قوانین میں استقلال پیدا کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ آئے دن کوئی نیا قانون بنتا رہے اور سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاری نہ کر سکیں۔

میں نے اقتصادی سیکورٹی اور سرمایہ کاری کی سیکورٹی کی جو بات کہی ہے وہ بہت اہم ہے۔ ہم ان شعبوں میں کوتاہی کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ملک کے کسی حصے میں کچھ سرمایہ کاری ہوتی ہے تو اس پر تھوڑا بہت شور شرابا بھی ہوتا ہے، قومی نشریاتی ادارہ بھی اس پر توجہ دیتا ہے، تشہیرات کی جاتی ہیں۔ عوام اپنا پیسہ، گھر میں رکھا سونا، رہائشی مکانات بھی سرمایہ کاری میں لگا دیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دھوکہ دیا گيا ہے۔ یہ اقتصادی سیکورٹی کے برخلاف ہے۔ پیداوار کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ تو یہ پیداوار کے سلسلے میں اہم تقاضے ہیں۔

قومی پیداوار کے سلسلے میں ایک اور بڑا اہم مسئلہ عوام الناس کے احساس ذمہ داری کا ہے۔ میں عوام کی جانب ہوں۔ میں عوام کے مطالبات اور ان کی خواہش بیان کر رہا ہوں، لیکن اپنے عزیز عوام سے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ  کام صرف عہدیداران کے ذمے نہیں ہے، بلکہ خود عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔ جب ہم قومی پیداوار کے فروغ پر زور دیتے ہیں تو ظاہر کہ ملک کے اندر داخلی مصنوعات کے استعمال کی توقع بھی ہے۔ عوام کیوں ملک کے اندر تیار کی جانے والی مصنوعات کے سلسلے میں بے رغبتی دکھاتے ہیں؟ البتہ حالیہ عرصے میں اس تعلق سے کچھ اہم کام انجام دئے گئے ہیں، بعض شاپنگ سینٹر صرف ایرانی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں۔ ملک کے اندر صارفین کو چاہئے کہ ایران میں بننے والی اشیاء کے استعمال کو ترجیح دیں اور غیر ملکی برانڈ  کے پیجھے نہ بھاگیں! ہمیں عوام سے اس بات کی توقع ہے۔

ہماری ایک توقع یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان حقیقت میں کام کی تلاش میں رہیں، لا ابالی پن اور لا تعلقی کی کیفیت اپنے اندر پیدا نہ ہونے دیں۔ عوام کے ذمے ایک اہم کام یہی ہے کہ وہ ذمہ داری کا احساس کریں، اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔ غیر ذمہ دارانہ برتاؤ کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارے یہاں سے ایکسپورٹ کی جانے والی چیزوں میں جس کی اطلاع ہمیں ملتی ہے، کبھی کبھی بعض ایکسپورٹر ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ دیگر ممالک میں موجود صارف بدگمانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پھلوں کی پیٹی میں اوپر رکھے گئے سنترے تو بہت اچھے اور بڑے ہوتے ہیں، لیکن نیچے جو سنترے رکھے جاتے ہیں وہ چھوٹے اور خراب سنترے ہوتے ہیں! ہم جو کچھ ایکسپورٹ کرتے ہیں وہ ایرانیوں کے حسن عمل، ایمانداری اور درست کارکردگی کا آئینہ ہونا چاہئے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم نے یہ غیر ذمہ دارانہ عمل انجام دیا ہے۔ جب ہم خراب مال بھیجیں گے تو ظاہر ہے کہ بازار ہاتھ سے نکل جائے گا۔ میں صنعت کاروں اور پیداواری سرگرمیاں انجام دینے والے افراد کو دعوت دیتا ہوں کہ پیداوار اور کام کے شعبے میں سرگرمیاں بڑھائیں! ان شاء اللہ اس شعبے میں کام انجام پائے گا۔

قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے سلسلے میں دو اہم مسائل موجود ہیں؛ ایک ہے درآمدات کا مسئلہ اور دوسرے اسمگلنگ کا مسئلہ۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، متنبہ کر چکا ہوں اور آج ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ ملک کے اندر جو سامان ضرورت بھر تیار کیا جا رہا ہے اس کو دیگر ممالک سے امپورٹ کرنا شرعا اور قانونا حرام سمجھنا چاہئے، جو مصنوعات ملک کے اندر تیار ہو رہی ہیں انھیں دیگر ممالک سے  ہرگز نہ خریدا جائے۔ ہم اگر دیکھتے ہیں کہ استعمال کی اشیا، جس میں خورد و نوش کی چیزیں، لباس، گھر میں استعمال کے سامان، عورتوں کے پرس، جوتے، اسی طرح اسکولوں میں استعمال ہونے والی اسٹیشنری، قلم کاپیاں وغیرہ دیگر ملکوں سے امپورٹ کی جا رہی ہیں تو یہ شرم کی بات ہے! واقعی شرم آنا چاہئے۔ ملک کے اندر پیداواری سرگرمیوں میں مصروف افراد کے سامنے بھی شرم کا احساس ہونا چاہئے اور اس شخص کے سامنے بھی ہمیں شرم آنا چاہئے جو دیگر ممالک سے ہمارے لئے یہ سامان بھیج رہا ہے۔ ملک کے اندر بے پناہ وسائل موجود ہونے کے پیش نظر ہمیں موجودہ صورت حال کو ہرگز جاری نہیں رہنے دینا چاہئے، درآمدات کو حقیقی معنی میں کنٹرول کیا جانا چاہئے۔ بعض بنیادی ضرورت کی چیزیں ہیں جو ملک کے اندر تیار کی جا سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں دوسرے ملکوں سے خریدا جا رہا ہے، ہم یہ چیز باہر سے لانے کے بجائے ملک کے اندر تیار کر سکتے ہیں، بے شک آج ہم یہ مصنوعات نہیں بنا رہے ہیں لیکن بنانے کی توانائی رکھتے ہیں۔ چند سال قبل میں نے سنا کہ دیگر ملکوں سے چارہ امپورٹ کیا جا رہا ہے۔ ہم نے کہا کہ ملک میں اتنی چراگاہیں اور کھیت ہونے کے بعد بھی دوسرے ملکوں سے چارہ امپورٹ کرنے کا کیا تک ہے؟ جواب ملا کہ صاحب! چارہ تیار کرنے کے لئے فلاں خام مال کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے کہا کہ اگر ملک میں پیدا نہیں ہوتا تو پیدا کیجئے! ایک زرعی فصل تھی، میں نے اس چیز کا نام نوٹ کرکے رکھا ہے، اس کا نام واضح ہے، اس وقت میں اس کا نام ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے کہا تھا کہ اس کی تو پیداوار کی جا سکتی ہے تو آپ اس کی پیداوار کیجئے تاکہ آپ کو دوسرے ممالک سے گوسفند کا چارہ نہ خریدنا پڑے۔ تو ایک اہم مسئلہ درآمدات کا ہے جو بہت کلیدی ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ اسمگلنگ کا ہے۔ سامان اور مصنوعات کی اسمگلنگ کا قضیہ بہت اہم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسمگلنگ کے ذریعے 15 ارب ڈالر تک کا سامان خریدا جاتا ہے۔ یہ کمترین اعداد و شمار ہیں جو اس وقت پیش کئے جاتے ہیں، جبکہ یہ رقم بھی اپنے آپ میں بہت بڑی ہے۔ بتاتے ہیں کہ یہ رقم بیس پچیس ارب ڈالر تک بھی پہنچتی ہے! یہ ملکی معیشت پر پڑنے والی ضربیں ہیں۔ اسمگلنگ کا سد باب کیا جانا ضروری ہے۔ اسمگلنگ کے سد باب پر جو افراد مامور ہیں وہ غلط جگہ پر اپنی  توانائی صرف نہ کریں! ہم کہتے ہیں کہ جائیے! اسمگلنگ مافیاؤں کا مقابلہ کیجئے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ جب ملک کے رسمی اور قانونی راستوں سے اسمگلنگ کا سامان اندر آ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص اسمگلنگ کی روک تھام پر مامور ہے وہ خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے، بلکہ اس سے کوتاہی سرزد ہوتی ہے، وہ خیانت نہیں کر رہا ہے۔ مجھے رپورٹ ملی کہ ایک بندرگاہ سے، ایک مخصوص بندرگاہ کے بارے میں یہ رپورٹ تھی کہ وہاں سے روزانہ تین ہزار سے پانچ ہزار تک کنٹینر ملک کے اندر آتے ہیں۔ ان تین ہزار یا پانچ ہزار کنٹینروں میں سے صرف ڈیڑھ سو کنٹینروں کی جانچ کی جاتی ہے! اس کی کیا وجہ ہے؟ باقی کنٹینروں کو چیک نہیں کیا جاتا۔ جب یہ کنٹینر ملک کے اندر آ جاتے ہیں اور گوداموں میں پہنچ جاتے ہیں تب معلوم ہوتا ہے کہ اسمگلنگ کا سامان ان میں بھرا ہوا تھا اور یہ سارے کنٹینر قانونی راستے سے ملک کے اندر لائے گئے۔ غیر قانونی راستوں سے جو سامان آتا ہے اس کا قضیہ تو الگ ہی ہے، اسی طرح ملک کے فری ڈیوٹی علاقوں سے جو سامان آتا ہے وہ بھی الگ ہے۔ تو اسمگلنگ کا سد باب کیا جانا چاہئے اور ہم یہ کام کر سکتے ہیں۔ میں نے صدر محترم سے بھی کہا اور یاد دہانی کرائی کہ جو ماہر افراد ہیں انھوں نے کہا ہے کہ ہم ایسے وسائل کا انتظام کر سکتے ہیں یہ سارے کنٹینر کسی جگہ پر روکے بغیر راستے سے گزرتے ہوئے بھی چیک کئے جا سکتے ہیں۔ یہ وسائل فراہم کئے جانے چاہئے، اگر ضرورت پڑے تو انھیں خریدا جائے اور اگر ممکن ہے تو ملک کے اندر ہی تیار کیا جائے! ہم اسمگلنگ کا سد باب کر سکتے ہیں۔ تو ایک اہم مسئلہ اسمگلنگ کا ہے۔ ہمارے مد نظر یہ چیز ہے۔ یہ نہیں کہ چھوٹی موٹی چیزوں پر نظر رکھی جائے! کوئی جاکر مشہد کے بازار رضا میں کسی دوکاندار سے کہے کہ تم نے چاندی کی انگوٹھیاں اسمگل کی ہیں! یا سرحد پر کسی کنبے کے پاس جائیں جو مختصر سا سامان سرحد کے اس طرف سے دوسری طرف لے جاتا ہے اور اسی طرح اپنی روزی روٹی چلاتا ہے، مشکل یہ نہیں، مشکل بڑے پیمانے پر ہونے والی اسمگلنگ ہے۔

وقت گزر گیا اور ہماری گفتگو بھی کافی طولانی ہو گئی۔ میں اقتصادیات کی بحث کو یہیں پر ختم کرتا ہوں۔ البتہ اس بارے میں کہنے کے لئے ابھی بہت کچھ بچا ہے۔ حکام سے جو کچھ کہنا ہے وہ میں ان سے کہہ چکا ہوں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کہتا رہوں گا۔ جو باتیں میں نے عرض کیں ان کی تفصیلات بیان کی جا سکتی ہیں، تشریح کی جا سکتی ہے، جو لوگ اس میدان کے ہیں انھیں چاہئے کہ یہ کام انجام دیں۔

اب انتخابات کا موضوع؛ عزیز بھائیو اور بہنو! ہمارے ملک میں انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ صرف صدارتی انتخابات نہیں بلکہ پارلیمانی انتخابات اور دیہی و شہری کونسلوں کے انتخابات بھی نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ انتخابات دینی جمہوریت کے دو ستونوں میں سے ایک ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔ دینی جمہوریت دو ستونوں پر استوار ہے۔ ان دونوں ستونوں میں سے ایک ہے عوام کا ووٹ، عوام کا انتخاب۔ ہم اپنے انتخابات پر ساری دنیا میں ناز کرتے ہیں۔ دشمن ملت ایران کو کچلنے اور اسلامی جمہوریہ کو دبانے کے لئے ہمارے انتخابات کو نظر انداز کرتے ہیں، ان کے بارے میں غلط پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انتخابات کی کتنی اہمیت ہے؟ (8)، انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ انتخابات ملی افتخار کا ذریعہ ہے، ملت ایران کی تقویت کا راستہ ہے، ملت ایران کی آبرو کی ضمانت ہے۔ انتخابات کے بارے میں آئندہ دنوں میں بھی میں گفتگو کروں گا۔ تاہم آج انتخابات کے بارے میں بس یہ عرض کرنا ہے کہ یہ ایک اقتدار آفریں عمل ہے۔ دنیا کے لوگ، دنیا کے اہل نظر، دینی جمہوریت کے نظرئے کے شیدائی ہوتے جا رہے ہیں۔ لبرلزم، کمیونزم، فاشزم وغیرہ جیسے نظریات کے مقابلے میں ہمارے عظیم قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے دنیا کے سامنے دینی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا جو اسلامی جمہوریہ سے عبارت ہے۔ آپ نے اپنے دنیا کے گوشہ و کنار میں تمام اقوام کو اپنے اس نظرئے کا گرویدہ کر لیا۔ دینی جمہوریت کا ستون ہے الیکشن، انتخابات میں ملت ایران کو واقعی شاندار شراکت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس حقیر کی نظر میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ  ہے انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت۔ جو لوگ بھی قانونی طور پر حق رائے دہی رکھتے ہیں وہ انتخابات میں ضرور شرکت کریں اور اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کریں۔ یہ ہمارا سب سے بنیادی اور سب سے اہم مطالبہ ہے۔

میں انتخابات کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جو قانون کی روح ہے اس پر عمل ہونا چاہئے، روح قانون پر عمل ہونا ضروری ہے۔ انتخابات کا پھر جو بھی نتیجہ نکلے وہ معتبر ہوگا، یہ قانون ہے۔ میں انتخابات میں کوئی مداخلت نہیں کرتا، میں نے کبھی بھی عوام سے نہیں کہا اور نہ کہوں گا کہ فلاں شخص کو ووٹ دیجئے اور فلاں شخص کو منتخب نہ کیجئے! میں اس وقت مداخلت کرتا ہوں جب یہ دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ عوامی مینڈیٹ کے مد مقابل اور عوامی انتخاب کے مد مقابل آ کھڑے ہوئے ہیں اور مخالفت کرکے عوامی مینڈیٹ کو اور عوامی فیصلے کو منسوخ کر دینا چاہتے ہیں۔ جو بھی ملت ایران کے مینڈیٹ کے مد مقابل کھڑا ہوگا میں اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوں گا۔ گزشتہ برسوں میں اور گزشتہ انتخابات میں بھی یہی ہوا ہے۔ سنہ 97 میں، سنہ 2005  میں سنہ 2009 میں اور سنہ 2013 میں بعض واقعات عوام کے سامنے آئے اور وہ ان سے آگاہ بھی ہیں تاہم  بعض سے عوام باخبر نہیں ہو سکے لیکن اس حقیر کو بخوبی معلوم ہے۔ ان تمام برسوں میں جن کا میں نے ذکر کیا کچھ لوگ عوامی مینڈیٹ کے مقابلے میں کھڑے ہو جانا چاہتے تھے، سنہ 2009 میں یہ چیز بالکل آشکار ہو گئی، یہ افراد سڑکوں پر اتر آئے، کیمپنگ کرنے لگے، تاہم دیگر برسوں میں یہ عمل الگ انداز سے انجام پایا۔ ان تمام مواقع پر میں نے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا اور صریحی طور پر کہہ دیا کہ عوام کا فیصلہ جو بھی ہو نافذ ہونا چاہئے۔ یہ ایسے مواقع ہیں جب میں انتخابات کے معاملے میں مداخلت کرتا ہوں اور عوامی مینڈیٹ کے مخالفین کا مقابلہ کرتا ہوں۔ بقیہ امور میں میری مداخلت نہیں ہوتی۔ روح قانون پر عمل ہونا چاہئے، عوام خود فیصلہ کریں اور اقدام کریں۔

میرا اندازہ یہ ہے کہ توفیق خداوندی سے ہمارے انتخابات بہت پرجوش طریقے سے انجام پائیں گے، بڑے وسیع پیمانے پر انجام پائیں گے۔ دعا کرتا ہوں کہ کونسلوں کے انتخابات میں بھی اور صدارتی انتخابات میں بھی وہی نتیجہ آئے جو رضائے پروردگار اور ملت ایران کی خوش بختی کا باعث بنے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ انتخابات کا بہترین انداز میں انعقاد کیا جائے، ملت  ایران سرخرو ہوگی، ملت ایران اپنے انتخابات سے پیشرفت حاصل کرے گی اور توفیق خداوندی سے دشمن ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائے گا۔

پروردگارا! ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اسے اپنی نظر کرم سے قبول فرما! پروردگارا! ہمارے شہیدوں کی ارواح طیبہ کو اور ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو صدر اسلام کے شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کے ساتھ محشور فرما! اے پروردگار! ان پاکیزہ اور مطہر ارواح کو ہم سے راضی و خوشنود فرما! پالنے والے! امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما، ہمیں حضرت کے سپاہیوں میں قرار دے! پالنے والے! ہماری زندگی اور ہماری عمر کو بہترین انجام پر ختم فرما، اس حقیر کے لئے اور جو بھی چاہت رکھتا ہے شہادت کو زندگی کا آخری زینہ قرار دے۔

و السّلام علیکم  و رحمة الله و برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں آستانہ امام رضا علیہ السلام کے متولی حجّت ‌الاسلام والمسلمین سیّد ابراهیم رئیسی نے اپنی تقریر میں کچھ نکات بیان کئے۔

۲) رواق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ

۳) صحیفه‌ سجّادیّه، دعائے هشتم

۴) منجملہ ملک کے اعلی حکام سے مورخہ 14 جون 2016 کا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

۵) منجملہ  سال نو کے آغاز پر مورخہ 21 مارچ 2014 کا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

6) یونیورسٹیوں، تحقیقاتی مراکز اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارکوں کے سربراہوں سے مورخہ 11 نومبر 2015 کا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

7) اسرائیل کے میزائلی دفاعی پروگرام کے سابق ڈائریکٹر یوزی رابن

8) حاضرین نے 'هیهات منّ الذّلّه' کے نعرے لگائے جس پر رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر یہاں ھیھات کا نعرہ لگانا ہے تو ھیھات از عدم انتخابات کا نعرہ لگائیے۔