بسم ‌اللہ ‌الرّحمن‌ الرّحیم

شہید صدر مرحوم واقعی نابغہ روزگار تھے۔ یہ بہت عظیم خصوصیت ہے۔ دینی علوم کے مراکز میں غیر معمولی صلاحیت کی مالک ہستیوں کی تعداد کم نہیں ہے جو اپنا مخصوص فکری رجحان رکھتی تھیں، بے پناہ محنت کرتی تھیں اور ان ہستیوں نے بڑی عظیم خدمات بھی انجام دیں۔ ہمارے بزرگ علما جیسے ایران اور عراق میں گزشتہ سو سال کے دوران جو عظیم مراجع تقلید گزرے ہیں، یہ سب بڑے عظیم افراد تھے۔ صاحب استعداد تھے۔ مگر نابغہ شخصیت کے اندر کچھ منفرد خصوصیات ہوتی ہیں جو دیگر افراد اور دوسرے انسانوں کے اندر نہیں ہوتیں۔ جناب صدر مرحوم رضوان اللہ علیہ میری نظر میں واقعی نابغہ روزگار تھے۔ یعنی جو کام وہ انجام دے دیتے تھے وہ دینی علوم کے مراکز کے بہت سے علما و فقہا کے بس سے باہر ہوتے تھے۔ بڑی وسیع نظر، دنیائے اسلام کی ضرورتوں کا گہرا ادراک، ضرورت اور مطالبے کے مطابق فوری جواب۔ آپ نے اپنی کتاب «البنکُ اللّاربوى» (سود سے عاری بینک) پاکستان کی حکومت کی درخواست پر لکھی۔ جیسا کہ میں نے سنا ہے پاکستانی عہدیدار چاہتے تھے کہ اس نہج پر کام کریں تو آپ نے یہ کتاب لکھ دی اور انھیں ارسال بھی کی۔ وہ واقعی نابغہ روزگار تھے، مسائل کا پورا ادراک رکھتے تھے اور پہلے سے ہی درست اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔

نجف میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے بہت زیادہ روابط نہیں تھے۔ بیت امام خمینی سے اور امام خمینی کے نیٹ ورک سے آپ کا رابطہ بہت گہرا نہیں تھا، لیکن جیسے ہی اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور امام خمینی ایران واپس آئے، شہید صدر نے اپنا وہ معروف جملہ اپنے شاگردوں کے درمیان استعمال کیا کہ 'امام خمینی میں اس طرح ضم ہو جائیے جس طرح وہ اسلام میں ضم ہو گئے ہیں۔' آپ کا یہ جملہ بہت مشہور ہے۔ ایسا جملہ کہنے کے لئے گہری شناخت کی ضرورت ہے، حالات کے گہرے ادراک کی ضرورت ہے، انسان کو مکمل علم ہونا چاہئے کہ انقلاب کا معاملہ کیا ہے۔ ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو تقریبا چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہنوز بخوبی نہیں سمجھ سکے ہیں کہ انقلاب کیا تھا، کیا ہوا اور اس سے کیا  تبدیلی آئی، مگر یہ شخص اسی وقت انقلاب کو، انقلاب کے مفاہیم کو اور انقلاب کے امور کو سمجھ گیا۔ یہ نابغہ ہونے کی پہچان ہے۔ یعنی حالات کا بخوبی علم، گرد و پیش کا مکمل ادراک، علم کی شناخت، طرز بیان کی شناخت، بیان کی کیفیت کی شناخت، تاثیر کی شناخت۔

نظریہ پردازی کا مسئلہ جس کا ذکر جناب شکوری صاحب نے کیا، واقعی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ حکومت اور سماجی نظام، نظرئے کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ پائيدار رہے۔ سب سے پہلے تو اس کی تشکیل کا مرحلہ ہوتا ہے، اس کے بعد بقا اور نمو کا مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ شخص واقعی ایک نظریہ پرداز شخص تھا۔ یہ بہت عظیم انسان تھا۔ میری نظر میں شہید صدر کی شخصیت اگر بے نظیر نہیں تو کم نظیر ضرور تھی۔ دینی تعلیمی مراکز میں بحمد اللہ صاحب استعداد افراد کثرت کے ساتھ ملیں گے۔ قم میں بھی ہم جانتے ہیں، پہچانتے ہیں کہ بہت سے افراد ہیں، لیکن نابغہ ہونا ایک الگ خصوصیت ہے جو شہید صدر کے اندر موجود تھی۔

بہرحال میری نظر میں یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ اس پہلو پر کام کر رہے ہیں، ان شاء اللہ آپ کا یہ نیک عمل بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت پائے گا، اس میں برکت ہوگی اور ان شاء اللہ "کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃ" کی مانند ہوگا یعنی "اَصلُھا ثابِت وَ فَرعُھا فِى السَّمآء تُؤتى اُکُلَھا کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رَبِّھا" مستقبل میں اسے نمو اور ارتقاء حاصل ہوگا۔

اللہ تعالی اس عالی قدر شہید کے درجات بلند کرے۔ اللہ تعالی نے اس عظیم ہستی کو اپنی خاص عطا سے نوازا جو شہادت ان کا مقدر بنی وہ بھی ایسی دشوار شہادت جس سے وہ روبرو ہوئے! دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ان کی روح کو اپنا قرب عطا فرمائے، ان کے درجات کو بلند کرے اور انھیں ان کے اجداد کے ساتھ محشور فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌