بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

بڑی شیریں، بابرکت، دلنشیں اور منفعت بخش نشست رہی۔ ماہ رمضان آپ سب کو، تمام اہل قرآن کو مبارک ہو۔ اس مبارک مہینے کی اہم ترین خصوصیات میں قرآن کا نزول، قرآن سے انسیت اور تلاوت کلام پاک ہے اور آج ہم یہاں قرآن پاک کی آیات کریمہ کی  تلاوت کے ساتھ اس مہینے کے سرآغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ واقعی انصاف سے دیکھا جائے تو ہم نے کسب فیض کیا، استفادہ کیا۔ میں ان برادران عزیز کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس نشست کا انعقاد کیا اور اس کا اہتمام کیا، بہت اچھا پروگرام رہا۔

بحمد اللہ ایران نامی اس پورے وسیع گلستاں میں قرآنی غنچے ایک ایک کرکے کھل رہے ہیں اور نمایاں ہو رہے ہیں۔ اس سرزمین میں قرآن کے بیج بوئے جا چکے ہیں، یہ انقلاب کی ہنرمندی کا نتیجہ ہے، یہ اسلامی نظام کا کارنامہ ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ ہمارے بچپن اور نوجوانی کے ایام میں حقیقت میں اس ملک کے اندر قرآن 'مہجور' (متروک) تھا۔ البتہ گوشہ و کنار میں کچھ لوگ تھے بڑی محنت اور لگن سے قرآن سیکھنے، قرآن کی تعلیم دینے اور قرآن سے انس حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، مگر مجموعی طور پر ملک کا ماحول قرآن سے بیگانہ تھا۔ آج جیسے حالات نہیں تھے۔ آج بحمد اللہ ملک کا عمومی ماحول قرآن سے آشنا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ نوجوان اور مختلف عمر کے بچے، ملک کے مختلف خطوں میں قرآن سے بہت مانوس ہیں، قرآن سے سروکار رکھتے ہیں، تلاوت کرتے ہیں، تدبر کرتے ہیں، غور و خوض کرتے ہیں۔

وطن عزیز میں قرآن کی تلاوت کی پیشرفت بھی بہت اچھی رہی۔ ہم اوائل انقلاب سے اپنے اچھے قاریوں کی  تلاوت کا مشاہدہ کر رہے ہیں، پیشرفت باقاعدہ طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ ہماری جو آرزوئیں تھیں کہ قرآن کی تلاوت کرنے والے، قاریان قرآن اس طرح سے کام کریں، اس طرح سے تلاوت کریں، اس طرح آیات پر غور و فکر کریں، آیات کا ادراک اس انداز سے ہو، آیتوں کو اس انداز سے پیش کریں، یہ ہمیشہ سے ہماری آرزوئیں رہی ہیں، بحمد اللہ یہ آرزوئیں ایک ایک کرکے پوری ہو رہی ہیں۔ اچھے اساتذہ، اچھی تلاوت کرنے والے افراد، اچھے نوجوان، بہترین تلاوت کرنے والے نئی عمر کے بچے، اس پر خدا کا شکر ہے، البتہ یہ ہنوز ابتدائی منزل ہے۔ قرآن سے انس اور قرآن سے کسب فیض کے میدان میں ہماری پسماندگی بہت زیادہ ہے۔ اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ ابتدائی قدم ہیں۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے اور ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ جلسے، یہ نشستیں اور یہ سفارشات جو کی جاتی ہیں، یہ سب اس کا مقدمہ ہیں کہ ملک کا ماحول اور ملک میں عام ذہنیت قرآنی ہو جائے، اذہان قرآن سے مانوس ہو جائیں، عوام کے اذہان قرآنی مفاہیم سے مانوس ہو جائیں، یہ بہت اہم ہے۔

اگر ہم قرآن سے مانوس ہو جاتے ہیں تو پھر سازگار ماحول پیدا ہوگا اس بات کا کہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے صاحبان فکر قرآنی نکات پر غور کریں، قرآن سے کسب فیض کریں، استنباط و استدلال کریں، ادراک کریں اور گوناگوں سوالوں کے جواب دیں۔ سوالات سے میری مراد شبہات نہیں ہیں۔ میری مراد زندگی سے متعلق سوالات ہیں، طرز زندگی سے متعلق سوالات ہیں۔ آج ہمارے سامنے لاکھوں سوال ہیں۔ جب ایک معاشرہ اپنے ایک نظام حکومت کے ساتھ زندگی کو اعلی اہداف کی جانب لیکر جا رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے تو اس سماج کو لاکھوں سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا؛ باہمی روابط کے بارے میں، طرز سلوک کے بارے میں، موقف کی کیفیت کے بارے میں، دوستی و دشمنی کی نوعیت کے بارے میں، مالی امور کے بارے میں، دنیاوی امور کے بارے میں، یہ سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور ان سارے سوالوں کے جواب موجود ہیں۔ بشریت گمراہی و بدبختی میں غرق ہو گئی اس لئے کہ ان سوالوں کے صحیح جواب نہیں تلاش کئے گئے۔ آج دنیا اور بشریت کی بدبختی یہی ہے کہ وہ ان سوالوں کے صحیح جوابات سے آگاہ نہیں ہے، اس نے سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے غلط جوابات، منحرف جوابات، گمراہ کن جوابات حاصل کئے، اپنے ذہنوں میں بٹھائے اور انھیں پر عمل کیا، نتیجتا آج اس کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ دنیا میں امن و سلامتی نہیں ہے، صفا و پاکیزگی ندارد ہے، روحانیت ناپید ہے، روحانی طمانیت عنقا ہے، سماج میں لوگوں کے دل ایک دوسرے سے صاف نہیں ہیں، آج دنیا کی یہ حالت ہے، ساری دنیا کی یہی حالت ہے۔

انسانوں کو باہمی رابطے کی غرض سے پیدا کیا گیا ہے۔ دلوں کو ایک دوسرے سے وابستہ رہنا چاہئے، آپس میں محبت ہونی چاہئے، ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ہونا چاہئے۔ دنیا میں تمام انسانوں کو پیکر واحد کی مانند ہونا چاہئے۔ بشر کی تخلیق ہی اسی نہج پر ہوئی ہے، اس کے بارے میں یہی انتظام کیا گیا ہے، مگر آج آپ دیکھئے کہ ہر جگہ جنگ، ہر جگہ بدامنی، ہر جگہ خوف و ہراس، ہر جگہ گمراہی، ہر جگہ دلوں کی ایک دوسرے سے دوری، خاندانوں کا بکھراؤ، واضح طبقاتی فاصلے، کچھ لوگ بہرہ مند اور مالامال اور بقیہ بالکل محروم، یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ زندگی کے سوالوں کے صحیح جواب نہیں دئے گئے ہیں، جوابات کو غلط طریقے سے سمجھا گیا ہے، نتیجتا دنیا میں یہ ٹیڑھے اور کج اقتصادی و سیاسی نظام تشکیل پا گئے اور بشریت اسی میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ اربوں انسان اس بری حالت میں پھنسے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ افراد بھی جو وسائل سے بہرہ مند ہیں وہ بھی مبتلا ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ طبقاتی فاصلے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مثلا وہ شخص جو امریکی معاشرے کے اس 'ایک فیصدی متمول حصے' میں شامل ہے، وہ بہت آرام سے ہے اور بہت خوش ہے۔ نہیں، وہ بھی اپنی زندگی میں بے شمار فکری و روحانی مشکلات، بدبختیوں اور مسائل سے گھرا ہوا ہے جو بسا اوقات ایک غریب و نادار آدمی کی مشکلات سے زیادہ ہوتی ہیں۔ یعنی سب الجھے ہوئے ہیں۔ جو معاشرہ راہ راست سے آشنا نہ ہو، صراط مستقیم سے آگاہ نہ ہو، اللہ سے وابستہ نہ ہو، ایسا ہی ہوگا! افسوس کی بات ہے کہ آج یہ انسانی معاشرے ایسی گمراہی و ضلالت میں مبتلا ہیں۔ یہ جو آپ بار بار دہراتے رہتے ہیں اور بار بار دہراتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے؛ «اِهدِنَا الصِّراطَ المُستَقیم‌»،(۲) اس کا فلسفہ یہی ہے۔ صراط مستقیم یعنی وہ راستہ جس میں یہ مشکلات اور یہ آفتیں نہ ہوں۔ یہ صراط مستقیم کا مطلب ہے۔ آپ دائمی طور پر اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ آپ کی ہدایت فرمائے، یہ ہدایت قرآن میں ہے۔ اگر ہم نے خود کو قرآن سے مانوس بنا لیا، اگر ہم نے قرآن کو صحیح طریقے سے سمجھا، اگر قرآن کے بارے میں تدبر کیا تو زندگی کے سوالوں کے صحیح جواب ہمیں ملیں گے۔ ہمیں اس سمت میں آگے بڑھنا ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ عزیز نوجوانو! آپ جیسے جیسے قرآن سے زیادہ مانوس ہوں گے، یہ حقائق آپ کے لئے اور بھی واضح ہوتے جائیں گے اور آپ اس خوش ذائقہ شربت کو جتنا زیادہ پئیں گے آپ کا اشتیاق اتنا ہی زیادہ بڑھتا جائے گا، تشنگی اتنی ہی بڑھتی جائے گی، قرآن کی یہ خاصیت ہے۔

دیگر معاشروں کی طرح اسلامی سماج بھی آج مشکلات میں گرفتار ہے۔ آپ دیکھئے کہ عالم اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟! عالم اسلام میں کچھ پست، نااہل اور بے وقعت انسان بعض اسلامی معاشروں کی تقدیر پر مسلط ہیں۔ جیسے یہی حکومتیں جو آپ دیکھ رہے ہیں، سعودی وغیرہ۔ یہ سب قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے، یہ قرآنی حقا‍ئق سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ البتہ کچھ عدم آگاہی ہے اور کسی حد تک ایمان کی کمی کا نتیجہ ہے۔ بظاہر قرآن پر عقیدہ رکھنے والے ہیں، دسیوں لاکھ کی تعداد میں قرآن شائع کرواتے ہیں اور چار سو مفت تقسیم کرواتے ہیں، مگر قرآن کے مشمولات سے، قرآن کے مفاہیم سے، قرآن کے مضمون سے انھیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے؛ «اَشِدّآءُ عَلَى الکُفّارِ رُحَمآءُ بَینَهُم‌»،(۳) مگر یہ تو «اشدّاء علی المؤمنین، رحماء مع الکفّار» کے مصداق ہیں۔ آپ غور کیجئے آج ان کی کیا حالت ہے؟! کفار سے بہت مانوس ہیں، ان سے خاص وابستگی رکھتے ہیں، ان پر اپنی قوم کی دولت لٹاتے ہیں، اس لئے کہ ان کے پاس اپنا پیسہ نہیں ہے، جو دولت ان کے پاس ہے اور ان کے بینک کھاتوں میں بھری پڑی ہے، یہ بے پناہ دولت، یہ کس کی ملکیت ہے، یہ دولت کہاں سے آئی؟ یہ آباء و اجداد کا ورثہ تو نہیں ہے، یہ تیل کا پیسہ ہے، زیر زمین معدنیات کا پیسہ ہے، قومی اثاثے سے ملنے والا پیسہ ہے، عوام کی زندگی میں بہبودی لانے پر خرچ کرنے کے بجائے یہ پیسہ ان (حکام) کے کھاتوں میں جمع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ذاتی امور پر اسے خرچ کرتے ہیں۔ عوام کا یہ پیسہ وہ کفار کو دے رہے ہیں، عوام کے دشمنوں کو دے رہے ہیں۔ وَ اتَّخَذوا مِن دونِ اللهِ ءالِهَةً لِیَکونوا لَهُم عِزًّا * کَلّا سَیَکفُرونَ بِعِبادَتِهِم وَ یَکونونَ عَلَیهِم ضِدًّا؛ (۴) یہ احمق اس خیال میں ہیں کہ پیسہ دیکر، (مالی) مدد کرکے اور اس طرح کی چیزوں سے دشمنان اسلام کا التفات حاصل کر لیں گے، جبکہ کسی طرح کا کوئی التفات نہیں ہے، ان کے بارے میں وہ خود کہہ چکے ہیں کہ یہ تو دودھ دینے والی گائے کی مانند ہیں، وہ ان کا دودھ دوہتے رہیں گے اور جب دودھ ختم ہو جائے گا تو پھر انھیں ذبح کر دیں گے۔ آج دنیائے اسلام کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ ان (دشمنان اسلام) کے ساتھ تو ان لوگوں کا یہ رویہ ہے اور یمن کے عوام کے ساتھ، بحرین کے عوام کے ساتھ ان کا یہ سلوک ہے، دین مخالف رویہ ہے۔ البتہ یہ نابود ہو جانے والے ہیں۔ ظواہر جو آپ دیکھتے ہیں تو ان ظواہر سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ یہ جانے والے ہیں، یہ سرنگوں ہونے والے ہیں، یہ نابود ہو جانے والے ہیں۔ اِنَّ الباطِلَ کانَ زَهُوقًا (۵) یہ باطل کے مظاہر ہیں جن کا زوال، سقوط، بدبختی اور نابودی یقینی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ عمل دو چار روز جلدی یا تاخیر سے انجام پائے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ مومنین، صاحب ایمان معاشرہ کس طرح عمل کرتا ہے۔ اگر درست انداز میں عمل کر رہا ہے تو یہ سقوط جلدی ہو جائے گا اور اگر درست انداز میں عمل نہیں کرتا ہے تو اس میں دو چار دن کی تاخیر ہوگی۔ لیکن یہ ہونا یقینی ہے۔ یہ بھی اور جن سے انھوں نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ بھی سرنگوں ہونے والے ہیں۔

مستقبل اگر کسی کا ہے تو وہ اسلام کا ہے، قرآن کا ہے، آپ صاحب ایمان نوجوانوں کا ہے، مستقبل آپ مومن نوجوانوں کا ہے۔ ابھی اس آیت کی تلاوت ہوئی؛ «وَ مَن اَصدَقُ مِنَ اللهِ قیلًا»؛(۶) کون ہے جو اللہ سے زیادہ سچا ہے؟!!  کون ہے جو مستقبل کے بارے میں اللہ سے زیادہ جانتا ہے؟!! اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مستقبل تو مومنین کا ہے، صالح بندوں کا ہے، مجاہدین فی سبیل اللہ کا ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اب اگر اس کے بعد بھی کوئی شک اور وسوسے میں مبتلا ہے، اللہ کے ان وعدوں سے اسے اطمینان نہیں ہو رہا ہے، سکون نہیں مل رہا ہے تو تجربات سے اس کے دل کو سکون مل جانا چاہئے۔ میں یہ بات بارہا عرض کر چکا ہوں اور اس پر دل کی گہرائیوں سے میرا ایمان ہے کہ اگر ہم سے کوئی بھی وعدہ نہ کیا گيا ہوتا تب بھی پچھلے تیس چالیس سال سے ملت ایران کو جو تجربات حاصل ہوئے ان سے بھی یہ یقین آ جانا چاہئے کہ مستقبل اس قوم کا ہے، اسے یقین آ جانا چاہئے کہ فتح اسی کی ہوگی۔ ہم اس ملک کے رہنے والے ہیں جہاں ایسی حکومت تھی جس سے امریکی وہی میٹھی میٹھی باتیں کرتے تھے جو آج وہ فکری و عقلی اعتبار سے دیوالیہ ہو چکے ان حکام سے کر رہے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت دکھاتے تھے۔ وہ صریحی طور پر کہتے تھے کہ آپ خلیج فارس میں ہمارے پہرے دار ہیں۔ ہمارے ملک کی طاغوتی حکومت سے امریکی یہی باتیں کرتے تھے۔ ان حکام کی عقل بھی ان (عرب حکام) سے زیادہ تھی اور ان کی توانائیاں بھی وسیعتر تھیں۔ ہمارے ملک کے ان طاغوتی حکام پر امریکیوں کا بھروسہ بھی زیادہ تھا اور روابط بھی زیادہ مستحکم تھے۔ یہاں ایسی حکومت اقتدار میں تھی، مگر اس کے باوجود ملت ایران نے اپنے ایمان کی طاقت سے، اپنی جدو جہد سے، اپنی قربانیوں سے اس حکومت کو عالمی سطح پر اسے حاصل تمام تر پشت پناہی کے باوجود سرنگوں کر دیا اور اس کی جگہ پر ایسا نظام قائم کر دیا جسے استکباری طاقتیں دیکھنے کی تاب نہیں رکھتیں، یعنی اسلامی جمہوری نظام، یہ ایک تجربہ ہے۔ اس سے بہتر تجربہ کیا ہو سکتا ہے؟ وَلاتَهِنوا وَلاتَحزَنوا وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنین (7) اگر ایمان کی طاقت مل گئی تو آپ برتر ہیں۔ راہ ایمان میں مستحکم رہئے، صراحت سے کام لیجئے، ثابت قدم رہئے۔ میری تاکید ہے کہ اسلامی اصولوں کے ذکر کے سلسلے میں عوام الناس بھی اور ملک کے حکام بھی صریحی موقف اختیار کریں۔ یہی آیات جن کی تلاوت اس خوش الحان گروپ نے ابھی کی؛ قَد کانَت لَکُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فی اِبرٰهیمَ وَ الَّذینَ مَعَهُ اِذ قالوا لِقَومِهِم اِنّا بُرَءٰؤُا مِنکُم وَ مِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللهِ کَفَرنا بِکُم وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَةِ و البَغضآءُ اَبَدَاً حَتّی تُؤمِنوا بِاللهِ وَحدَه؛(8) یہ ہونا چاہئے، صریحی طور پر کہتے ہیں«کَفَرنا بِکُم» اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس فکر میں ہیں اور انھیں یہ تشویش ہے کہ حکومت کو عالمی روابط رکھنا ہوتے ہیں۔ میں بھی اس کا قائل ہوں اور اس رجحان کی حمایت کرتا ہوں، لیکن اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ انسان اپنے اصولوں کو اور اپنے موقف کو صراحت کے ساتھ بیان کرے، آگے بڑھے اور بین الاقوامی روابط سمیت زندگی کے گوناگوں میدانوں میں کامیابیاں بھی حاصل کرے۔ یہ سارے کام انجام دئے جا سکتے ہیں۔ میدان میں اتریں، قدم آگے بڑھائیں، اللہ پر توکل کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ ممکن ہے۔ یہی تو تجربات ہیں۔

اس دن یہاں جو نشست ہوئی اس میں میں نے کہا (9) کہ حضرت ابراہیم نے، بڑی عظمتوں کے مالک پیغمبر نے اللہ تعالی سے فرمایا کہ میں مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالی نے فرمایا؛ قالَ اَوَ لَم تُؤمِن، قالَ بَلىٰ؛ کیوں نہیں، ایمان تو ہے یعنی میں پوری طرح قبول کرتا ہوں، اس کی تصدیق کرتا ہوں، دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتا ہوں؛ وَ لٰکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبی، (10) مگر اس لئے کہ ذہن میں کسی طرح کا تلاطم باقی نہ رہے، میرا دل مطمئن ہو جائے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد اللہ  تعالی نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم یہ کام انجام دو تاکہ اپنی آنکھ سے دیکھو کہ اللہ کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ ہم نے بھی اپنی آنکھ سے دیکھا۔ ہم نے خود مشاہدہ کیا کہ ایک قوم مسلط کردہ جنگ میں خالی ہاتھ فتحیاب ہو گئی۔ یہ قوم سیاسی و بین الاقوامی مسائل میں نو وارد ہونے کے باوجود دشمن کی سازشوں پر غالب آ گئی۔ مد مقابل طاقتور مادی محاذ تشکیل پا جانے کے باوجود جو پشت سے خنجر مارتا ہے، سامنے سے تلوار کھینچتا ہے، ہنگامہ آرائی کرتا ہے، چیخ پکار کرتا ہے اور نہ جانے کیا کیا کرتا ہے، ہمارے خلاف چالیس سال سے لگاتار سازشیں کر رہے ہیں اور چالیس سال سے سازشیں بار بار ناکام ہوتی جا رہی ہیں، کیا ہم ان حقائق کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ یہی ہمارے تجربات ہیں۔ ہمیں ان تجربات کو مد نظر رکھنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ پائيدار، مقتدرانہ، با وقار اور کامیاب پیشرفت کا راستہ ہے قرآن سے رابطہ۔ ان تمام خوبیوں کی کنجی ہے یہ کتاب الہی جس سے بحمد اللہ آپ آشنائی رکھتے ہیں، مانوس ہیں، آپ میں کچھ اس کے حافظ ہیں، کچھ قاری ہیں، تلاوت کرنے والے ہیں، کچھ استاد ہیں، کچھ سننے والے ہیں۔ تو سب سے بنیادی چیز ہے یہ قرآن۔

قرآنی محافل میں اضافہ کیجئے۔ جہاں تک ممکن ہو قرآن کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ بڑھائیے۔ قرآن کے معانی، قرآن کے مفاہیم، ان چیزوں کی ترویج کیجئے۔ میں اپنے عزیز قاریوں سے جن میں بعض نے آج یہاں تلاوت کی اور اس چیز کو ملحوظ بھی رکھا، سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ تلاوت کے اپنے انداز سے قرآنی آیات کے مفاہیم کی تصویر کشی کیجئے۔ جس طرح ایک اچھا اور خوش زبان سخنور مثال کے طور پر اگر کوئی شعر پڑھتا ہے تو کلمات کو اس انداز سے ادا کرتا ہے کہ اس کلام کے تمام معانی سامعین کے سامنے مجسم ہوکر آ جاتے ہیں، جیسے ہمارے آج کے ناظم صاحب ہیں (11)۔ جب اچھے انداز سے بیان کیا جائے گا، اچھے انداز سے شعر پیش کیا جائے گا، اچھے انداز سے بات پیش کی جائے گی، کلمات کو مناسب لہجے میں ادا کیا جائے گا تو ان کلمات میں جو بھی معانی و مضامین ہیں سب مکمل طور پر سامعین تک منتقل ہوں گے اور وہ ان مفاہیم کو حاصل کریں گے۔ قرآن کی تلاوت بھی اسی انداز سے ہونی چاہئے۔ لفظ کے اندر جو مضمون ہے وہ بلند آواز میں پڑھنے، آہستہ ادائيگی، آواز کے اوج پر جانے اور نیچے آنے، آواز میں تبدیلی اور ادائیگی کے انداز سے مخاطب تک پہنچ جائے۔ البتہ ان لوگوں کے لئے جو قرآن کے معانی سے آشنائی رکھتے ہیں۔ لہذا قرآن کی زبان سیکھنا ضروری ہے۔ جہاں تک ممکن ہو قرآن کی زبان سے زیادہ سے زیادہ انسیت حاصل کی جائے۔ جو لوگ قرآن سے مانوس ہیں ان میں بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جنھوں نے عربی زبان کی تعلیم حاصل نہیں کی ہے، مگر جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو آیات کے معانی سمجھ لیتے ہیں۔ ہم نے بہت سے ایسے افراد دیکھے ہیں جنھوں نے باقاعدہ کلاس اور پروگرام میں شرکت کرکے عربی زبان نہیں سیکھی ہے، لیکن قرآن سے اپنی خاص انسیت کی وجہ سے، آيات قرآنی کی بار بار تلاوت کے نتیجے میں وہ جب بھی قرآن کھولتے ہیں اور کوئی ایک آیت پڑھتے ہیں تو اس کا مفہوم بھی سمجھ لیتے ہیں۔ بہت زیادہ انسیت کے نتیجے میں آیتوں کے مفاہیم کو سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن سے ہمارا رابطہ بڑھنا چاہئے۔

پالنے والے محمد و آل محمد کا واسطہ قرآن سے ہمارے رابطے، ہمارے قلبی و روزمرہ کے رابطے میں روز بروز اضافہ فرما۔ ہمیں قرآن کی برکتوں سے، قرآن کی نعمتوں سے اور قرآن کے رزق سے بہرہ مند فرما۔ ہمیں ان لوگوں میں قرار نہ دے جو قرآن کے صرف الفاظ سمجھتے ہیں اور اسی پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ پروردگارا! اس ملک پر، اس قوم پر اپنے لطف و کرم کا سایہ قائم رکھ اور اسے اس کے اہداف تک دشمنوں پر فتح کی منزل تک پہنچا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح کو ان کے اولیا کے ساتھ محشور فرما، ہمارے عزیز شہیدوں کی ارواح کو ان کے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ جہاں بھی مومنین جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہیں، خواہ وہ کسی بھی قسم کا جہاد ہو، انھیں ان کے دشمنوں پر فتحیاب فرما۔

والسّلام علیکم و رحمة‌ الله و برکاته

۱)  اس ملاقات کے آغاز میں جو ماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو ہوئی، کچھ قاریوں نے تلاوت کلام پاک کی اور کچھ ٹیموں نے گروہی شکل میں نعتیہ نظم پڑھی۔

۲) سوره‌ فاتحه، آیه‌ ۶؛ «ہمیں راہ راست کی ہدایت فرما»

۳) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «...کفار کے سلسلے میں سختگیر اور آپس میں مہربان ہیں۔  »

۴) سوره‌ مریم، آیات ۸۱ تا ۸۲؛ « اور انھوں نے اللہ کے سوا (کئی اور) معبود بنا لئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت ہوں، ہرگز (ایسا) نہیں ہے، عنقریب وہ (معبودان باطلہ خود) ان کی پرستش کا انکار کر دیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے

۵) سوره‌ اسراء، آیت نمبر ۸۱ کا ایک حصہ؛ «...بے شک باطل تو نابود ہو جانے والا ہے»

۶) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۱۲۲ کا ایک حصہ؛ «...بیان میں اللہ سے زیادہ سچا کون ہے؟!»

7) سوره‌ آل‌عمران، آیت ۱۳۹؛ «اگر تم مومن ہو تو سست نہ پڑ جاؤ، غمگین نہ ہو تم برتر ہو۔»

8) سوره‌ ممتحنه، آیت نمبر ۴‌ کا ایک حصہ؛ « تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا "ہم تم سے اور تمہارے اِن معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ"...»

9) خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کے موقع پر مورخہ 22 مئی 2017 کو مختلف عوامی طبقات سے خطاب

10) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۶۰ کا ایک حصہ؛ «...کہا کہ کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟ کہا؛ کیوں نہیں، لیکن اس لئے کہ دل کو اطمینان ہو جائے۔»

11) جناب مجید یراق ‌بافان