بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

سلام و درود و صلوات خداوندی ہو نبی مکرم کے فرزند صالح اور دین نبوی کا احیاء کرنے والی ہستی یعنی ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) پر۔ آج ہم اس با عظمت ہستی کی جاں گداز رحلت کی برسی منا رہے ہیں اور آج کے دن اس عظیم ہستی کی یاد میں عقیدت مندوں اور مشتاق افراد کا یہ اجتماع منعقد ہوا ہے۔ ہم اس بارے میں اور اسی طرح کچھ دیگر ضروری مسائل کے بارے میں چند باتیں ‏عرض کریں گے۔

عزیز بھائیو اور بہنو! میری آج کی تقریر بنیادی طور پر مشتمل ہے ایسے چند نکات پر جو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے متعلق ہیں اور انقلاب سے مربوط ہیں۔ اگر آخر میں کچھ وقت بچا تو چند باتیں اختصار کے ساتھ داخلی سیاست اور خارجہ سیاست کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔ البتہ ان برسوں کے دوران امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں اس غیر معمولی ہستی کے بارے میں باخبر افراد بہت سے مطالب بیان کر چکے ہیں۔ تا ہم پہلی بات تو یہ ہے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں اور انقلاب کے بارے میں، کہ جو آپس میں ایک دوسرے سے متصل ہیں، امام خمینی کا نام اور ان کا تذکرہ انقلاب سے الگ نہیں ہے، جو کجھ بیان کیا گیا ہے وہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اور انقلاب کی ساری باتیں نہیں ہیں۔ ایسی بہت سی ان کہی باتیں ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے علم میں لائی جانی چاہئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں اور انقلاب کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، ہم نے بیان کیا ہے اور بار بار دہرایا ہے، اسے آئندہ بھی بیان کیا جانا چاہئے، بار بار دہرایا جانا چاہئے۔ اس لئے کہ اگر کسی حقیقت کو بار بار بیان نہ کیا جائے اور اس کی تمام تفصیلات و فروعات کا تذکرہ نہ ہو تو وقت گزرنے کے ساتھ اس حقیقت میں تحریف کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ میں اکثریت کو معلوم ہے کہ امام خمینی کی شخصیت میں اور انقلاب میں جو امام خمینی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، تحریف کے عزائم موجود ہیں۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے باب میں اور انقلاب کے باب میں جو حقائق بیان کرتے رہے ہیں انھیں بار بار دہرائیں تاکہ تحریف کرنے والوں کو تحریف کا موقع نہ ملے۔

مقدس شریعت کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے، تاریخی حقائق کے بارے میں بھی یہی صورت ہے حال ہے۔ ہمیں بہت سے دینی معارف کے بارے میں مامور کیا گیا ہے کہ بار بار دہرائیں۔ مثال کے طور پر تلاوت قرآن کو ہمیں دائمی طور پر دہراتے رہنا چاہئے کہ قرآنی حقائق ذہنوں سے محو نہ ہونے پائیں۔ اسی طرح تاریخ کو، حقیقی اور صحیح تاریخ کو بھی چاہئے کہ ہم بار بار بیان کریں۔ اگر ہماری قوم نے عاشورا کے واقعے کو برسوں بلکہ صدیوں سے اصرار کے ساتھ بار بار بیان نہ کیا ہوتا، ذکر نہ کیا ہوتا تو ممکن تھا کہ یہ عظیم واقعہ لوگوں کے ذہنوں سے دور ہو جاتا یا جس آب و تاب کے ساتھ آج یہ واقعہ منعکس ہوتا ہے وہ آب و تاب باقی نہ رہ پاتی۔ آج کی تقریر میں بنیادی طور پر میرا خطاب آپ عزیز نوجوانوں سے ہے۔ اس وجہ سے کہ نوجوانوں نے ان عظیم شجاعانہ کارناموں کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہے؛ انقلاب کی کامیابی کا زمانہ، مقدس دفاع کا زمانہ، علاحدگی پسندوں کے مقابلے میں انجام  پانی والی عظیم جدوجہد اور پیکار کا زمانہ، نوجوانوں نے دیکھا نہیں ہے بلکہ ان کے بارے میں سنا ہے، یہ واقعات ان نوجوانوں کے لئے تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ان کے لئے ان واقعات کی اور تشریح پیش کی جائے، انھیں مزید بیان کیا جائے۔ یہ تو رہی پہلی بات۔

 دوسری بات یہے کہ نوجوانوں کے اذہان تحریف کے لئے کوشاں عناصر کی تحریفی کوششوں کی آماجگاہ ہیں۔ آج دشمن ہمارے نوجوانوں کے ذہن پر زیادہ کام کر رہے ہیں تاکہ ملک کے اندر نوجوانوں کی اس وسیع نسل کو بہت سے حقائق سے آگاہ ہونے کا موقع نہ دیں۔ اس لئے آج میرا یہ خطاب نوجوانوں سے ہے۔ میں عرض کرنا چاہوں گا؛ پیارے نوجوانو! اسلامی انقلاب جو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے ہاتھوں رونما ہوا اور ان کے دست تدبیر سے ارادہ خداوندی نے جسے عملی جامہ پہنایا، صرف سیاسی منتقلی سے عبارت نہیں تھا کہ ایک گروہ اقتدار سے ہٹے اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آکر اقتدار سنبھال لے، ایسا نہیں تھا۔ بلکہ انقلاب ایک عمیق تبدیلی سے عبارت تھا۔ یہ ملک کی سیاست میں بھی آنے والی عمیق تبدیلی تھی، سیاسی میدان کی عمیق تبدیلی تھی اور ایرانی معاشرے کی اصلیت میں بھی بنیادی تبدیلی تھی۔ سیاست کے میدان میں یہ تبدیلی اس معنی میں تھی کہ ایک موروثی اور دشمنوں سے وابستہ ڈکٹیٹر نظام کو جو ملک میں حکمرانی کر رہا  تھا، اغیار کے اشارے پر کام کرنے والے نظام کو، ان اوصاف کی مالک حکومت کو عوام پر استوار حکومت میں تبدیل کر دیا جو عوام پر منحصر ہے اور خود مختار ہے، سربلند ہے اور اپنا خاص تشخص رکھتی ہے۔ سیاست کے میدان میں یہ عظیم تبدیلی رونما ہوئی۔

معاشرے کی اصلیت کی سطح پر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ تشخص سے عاری معاشرہ بن کر رہ گيا تھا۔ علم و ثقافت کے میدان میں درخشاں ماضی رکھنے والا ایران، عظمتوں کا مالک ایران، مفکرین کا گہوارا، فلسفے کا مرکز، انسانی علوم کا سرچشمہ ایران مغرب کے نقش قدم پر چلنے والا ایک سماج بن کر رہ گیا تھا جس کا اپنا کوئي تشخص نہ ہو۔ انقلاب کا ہدف اس حالت کو بدلنا تھا کہ معاشرہ تبدیل ہوکر صاحب تشخص معاشرہ بن جائے، جو خود مختار ہو، جس کی اپنی خاص ماہیت ہو، جو اختراعی توانائیوں کا مالک ہو، نئے نظریات کی پیشکش کرنے والا ہو۔ یہ اسلامی انقلاب اس طرح کی گہری تبدیلی سے عبارت تھا۔ عوام کی مدد سے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس انقلاب کو فتح سے ہمکنار کیا۔ جب ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) ان اہداف کو اپنی تقاریر میں اور اپنے بیانوں میں پیش کرتے تھے تو گویا بہت زیادہ بڑے اہداف پیش کر رہے ہوتے تھے اور بدگمانی میں مبتلا اور شک و تردد پیدا کرنے والے افراد کو یہ اہداف بہت بعید معلوم پڑتے تھے۔ ان کی نظر میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے لئے ان اہداف کو حاصل کر  پانا محال تھا۔ یہاں تک کہ سیاسی رہنما بھی (یہی سمجھتے تھے)۔ ہمارے ایک معروف، معتبر اور محترم سیاستداں نے خود مجھ سے کہا کہ جس دن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے ملک سے سلطنتی نظام کی بساط لپیٹ دینے کی بات کہی، ہم نے تعجب کا اظہار کیا کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کیوں اس طرح کی بات کہہ رہے ہیں۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ یعنی یہاں تک کہ پختہ، فداکار و مجاہد سیاستداں بھی یہ سوچ رکھتے تھے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے بہت اونچا ہدف طے کیا۔ آپ اس اعلی ہدف کا موازنہ آئینی انقلاب کے ہدف سے کیجئے! سلطنتی نظام کو آئینی بنانے کی تحریک کا ہدف یہ تھا کہ شاہ کے اختیارات میں پارلیمنٹ کے ذریعے کچھ کمی کی جائے۔ یا آپ اس کا موازنہ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک سے کیجئے! تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہم تیل کی صنعت کو جو برطانیہ کے اختیار میں تھی، اس سے لیکر اپنی حکومت کے اختیار میں دے دیں! آپ ان کمترین درجے کے ہدف کا موازنہ کیجئے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے اعلی ہدف سے جنھوں نے عمیق اور بنیادی تبدیلی کو اپنا مطمح نظر قرار دیا۔ یہ تحریکیں جو کمترین ہدف کے تحت وجود میں آئیں، کامیاب نہیں ہو سکیں۔ مگر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اپنے اس اعلی اور بلند ترین ہدف و مطمح نظر کے ساتھ کامیاب ہو گئے۔ ان تحریکوں کو ابتدا میں کچھ محدود کامیابیاں ملیں، لیکن آگے جاکر انھیں شکست ہو گئی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو فتح بھی ملی اور وہ اس فتح کی حفاظت میں بھی کامیاب رہے، اسے پائیدار بنانے میں بھی کامیاب رہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ وہ کیسے اس عظیم تحریک کو فتح کی منزل تک پہنچانے میں بھی کامیاب ہوئے اور پھر اس کو محفوظ رکھنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ حقیقت میں تو یہ ارادہ خداوندی تھا، لیکن ظاہری پیمانوں کے اعتبار سے اور فتح کے ظاہری اسباب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کا راز یہ تھا کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) پورے سماج کو، ملک کے عوام کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو میدان میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔ کسی بھی تحریک میں اور کسی بھی ملک میں اگر عوام الناس میدان عمل میں اتر آئیں، ثابت قدمی کا مظاہر کریں اور استقامت کا مظاہرہ کریں، تو ان کے اہداف کا پورا ہونا یقینی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور پوری تاریخ میں کبھی بھی اس کے برخلاف صورت حال نہیں دیکھی گئی ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس عظیم ہنرمندی کا مظاہرہ کیا اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ سماج کے افراد کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو میدان میں اتارا اور انھیں میدان میں باقی رکھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو یہ توانائی کہاں سے حاصل ہوئی۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر میں خاص طور پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گا اور یہ آج ہمارے اور آپ کے لئے سبق آموز ہے۔ امام خمینی کی شخصیت میں بھی ایک خاص کشش تھی اور آپ کے نعروں میں بھی الگ کشش تھی، یہ کشش اتنی قوی تھی کہ مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوان میدان عمل میں اتر پڑے۔ حالانکہ جدوجہد کے دور میں بھی اور انقلاب کی فتح کے بعد پہلے عشرے میں بھی نوجوانوں کے سامنے الگ الگ رجحانات، الگ الگ نظریات و افکار تھے۔ بائیں بازو کے رجحانات تھے، سرمایہ دارانہ نظام سے تعلق رکھنے والے نظریات بھی تھے، یہ حلقے بھی رنگ برنگی باتیں کرتے تھے، گوناگوں باتیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عام زندگی کی کشش بھی نوجوانوں کے سامنے موجود تھی۔ نوجوان ان راستوں کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔ مگر نوجوانوں نے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا انتخاب کیا، امام کے راستے کا انتخاب کیا، تحریک کا، جدوجہد کا اور انقلاب کا انتخاب کیا۔ کیوں؟ اسی مقناطیسیت کی وجہ سے جو امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے اندر تھی۔ کچھ مقناطیسی خصوصیات خود امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی شخصیت سے تعلق رکھتی تھیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بڑی مستحکم اور توانا شخصیت کے مالک تھے، دشواریوں کا سامنا کرنے والے منفرد جذبہ استقامت کے مالک تھے۔ امام خمینی دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہتے تھے اور صداقت کا پیکر تھے، ہمیشہ سچ بات کہتے تھے۔ ہر سننے والا شخص امام خمینی کی باتوں میں سچائی کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ یہ سب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پرکشش خصوصیات تھیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ پر ایمان اور توکل آپ کے عمل اور بیان میں مساوی طور پر نمایاں تھا۔ ان کا عمل اور ان کا قول دونوں ہی اللہ تعالی پر ان کے ایمان اور توکل کا آئینہ تھے۔ یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی مقناطیسی خصوصیات تھیں۔ ان خصوصیات کے علاوہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی کشش کا ایک حصہ ان اصولوں سے متعلق تھا جو آپ نے متعارف کرائے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عوام کے سامنے جو چیزیں پیش کیں ان میں ایک اسلام تھا، خالص محمدی اسلام۔ خالص اسلام یعنی وہ اسلام جو نہ تو رجعت پسندی کا اسیر ہے اور نہ خوشہ چینی میں مبتلا ہے۔ امام خمینی نے ایسے دور میں جب رجعت پسندی بھی تھی اور خوشہ چینی کا سلسلہ بھی  تھا، حقیقی اسلام پیش کیا۔ یہ چیز مسلم نوجوانوں کے لئے پرکشش تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعلانیہ اصولوں میں خود مختاری، آزادی، سماجی انصاف، اقتصادی مساوات تھی۔ یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے اصول تھے جنھیں وہ برملا بیان کرتے تے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا ایک اصول امریکی تسلط کے چنگل سے رہائی پر تاکید تھی۔ یہ امام خمینی کے اصول تھے، یہ سب پرکشش اصول ہیں۔ یہ ایرانی نوجوان کے لئے پرکشش اصول تھے اور میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ آج بھی امریکی تسلط اور بالادستی سے باہر نکل جانا، ان ملکوں کے نوجوانوں کے لئے بھی پرکشش ہے جنھوں نے امریکہ کی فرماں برداری کے طویل المیعاد معاہدے کئے ہیں۔ مثلا سعودی عرب جیسے ملک میں جو امریکی مفادات کی خدمت پر خود کو مامور سمجھتا ہے، آپ اگر نوجوانوں سے پوچھئے تو آپ دیکھیں گے کہ سارے نوجوان امریکہ کی غلامی سے متنفر ہیں اور اس ظالمانہ تسلط سے نجات کے خواہش مند ہیں، اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔

امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے جو اصول اور جو نعرے متعارف کرائے ان میں سے ایک عوامی بالادستی تھی۔ یعنی ملکی اقتدار عوام کے ہاتھوں میں رہے؛ عوام انتخاب کریں، وہ اپنی مرضی سے طے کریں، زندگی کے تمام شعبوں میں عوام اپنے ارادے کے مطابق عمل کریں۔

امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا ایک اور نعرہ ملت کی خود اعتمادی کا نعرہ تھا۔ یعنی وہ عوام کو تلقین کرتے تھے اور بار بار دہراتے تھے کہ آپ کے اندر توانائی ہے، آپ کے اندر صلاحیت ہے۔ علم کے میدان میں، صنعت کے میدان میں، بنیادی کاموں کے شعبے میں، ملک کے انتظام و انصرام میں، ملک کے اہم اور حساس شعبوں کے مینیجمنٹ میں، معیشت وغیرہ جیسے میدانوں میں آپ حود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی توانائی رکھتے ہیں۔ یہ سب امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے پرکشش پہلو تھے جن کی وجہ سے نوجوان مائل ہوئے۔ نوجوان آگے بڑھ کر ہمارے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی تحریک سے جڑ گئے اور انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔

انقلاب جب کامیاب ہو گیا تو ظاہر ہے یہ دنیا میں ایک عظیم زلزلہ ثابت ہوا اور حقیقت میں دنیا کے بڑے حصے میں ایک تقسیم دیکھنے میں آئی۔ انقلاب کے حامیوں اور انقلاب کے دشمنوں کی تقسیم۔ انقلاب کی دشمن اس زمانے کی بڑی طاقتیں یعنی امریکہ، سابق سوویت یونین، اسی طرح دوسرے رجحانات جیسے صیہونی رجحان، بڑی کمپنیوں کے حلقے جو مغربی ممالک میں حکومتیں بنواتے اور گرواتے ہیں اور اساسی مسائل کے فیصلے اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ یہ سب انقلاب کے دشمن بن گئے۔ انقلاب کے دشمنوں کی ایک طویل صف تیار ہو گئی۔ انھیں خطرے کا احساس ہوا۔ لیکن دوسری جانب بہت سی قومیں، مسلمان اقوام، حتی بعض غیر مسلم اقوام بھی جنھیں انقلاب کے امور سے واقفیت حاصل ہو گئی تھی، انقلاب کی شیدائی، حامی اور بعض تو بہت سرگرم حامی بن گئیں۔ ہم نے مختلف ممالک میں اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ رد عمل بھی ظاہر ہے کہ شروع ہو گيا، رد عمل پہلے ہی دن سے شروع ہو گیا تھا۔ البتہ شروع میں تو بڑی طاقتیں چکرا کر رہ گئیں، ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے؟! جب انھیں ہوش آیا، جب ان کے حواس بجا ہوئے تو انھوں نے انقلاب کے خلاف دشمنی و عناد شروع کر دیا اور اڑتیس سال کے اندر جو کچھ معاندانہ اقدامات ہوئے ان کی منصوبہ بندی کی گئی۔ البتہ اور بھی دشمنانہ منصوبے ہیں جن کی ابھی رونمائی انھوں نے نہیں کی ہے، اپنے خاص حلقوں میں وہ اس پر غور کر رہے ہیں اور روز اول سے تاحال وہ اس کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ میں اختصار سے بس اتنا کہوں گا کہ اس دشمنی میں بحمد اللہ انھیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ملت ایران دشمنوں کے تمام معاندانہ اقدامات کے مقابلے میں فتحیاب رہی ہے اور آئندہ بھی فتحیاب رہے گی۔

میں بین القوسین یہ نکتہ اور بھی عرض کرتا چلوں جو سنہ 1980 کی دہائی سے متعلق ہے۔ 80 کی دہائی یعنی انقلاب کی کامیابی کے بعد کی پہلی دہائی جو ہمارے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی بابرکت حیات کی دہائی ہے۔ عزیز بھائیو اور بہنو! 80 کی دہائی مظلومیت کی دہائی ہے، ایران اور ایرانیت کے مستقبل کے سلسلے میں فیصلہ کن دہائی ہے، حد درجہ اہم اور حساس لیکن ساتھ ہی ناشناختہ دہائی ہے۔ حالیہ دنوں کچھ پلیٹ فارموں سے اور کچھ پلیٹ فارموں کے مالکان کی طرف سے اس عشرے کو حملوں کی اماجگاہ بنایا گيا ہے۔ انیس سو اسی کا عشرہ بڑے سخت امتحانوں اور بہت بڑی کامیابیوں کا عشرہ ہے۔ انیس سو اسی کا عشرہ ملک کے اندر ہولناک دہشت گردانہ واقعات کا عشرہ ہے۔ چند سال کے اندر عوام الناس کے اندر سے، حکام کے اندر سے، مختلف طبقات کے اندر سے ہزاروں افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کر دئے گئے۔ ایک معمولی مزدور سے لیکر اعلی رتبہ شخصیات تک لوگوں کو شہید کیا گيا، میں کسی خاص تعداد پر زور نہیں دینا چاہتا تاہم شہیدوں کی تعداد سترہ ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ یعنی سترہ ہزار اہم، باشرف اور قیمتی جانیں سنہ اسی کے عشرے میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ان میں شہید مطہری اور شہید بہشتی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔ ایسی شخصیات جو بڑا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاید ہی کسی ملک میں پیدا ہوتی ہیں اور ملکوں کی تقدیر بدل دیتی ہیں۔ سنہ اسی کا عشرہ مسلط کردہ جنگ کا عشرہ ہے۔ یعنی اس عشرے کے آٹھ سال، ہمارے عزیز امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی حیات طیبہ کے آخری عشرے کے آٹھ سال اس جنگ میں صرف ہو گئے جو ملت ایران پر مسلط کر دی گئی تھی۔ آپ غور کیجئے یہ کتنا سخت مرحلہ تھا۔ 80 کی دہائی سخت ترین پابندیوں کی دہائی ہے۔ ہر چیز پر پابندی لگا دی گئی تھی، ملک کے خلاف، ہمارے اقتصادی مراکز کے خلاف، ہماری حکومت کے خلاف پے در پے پابندیاں لگائی گئيں۔ ساتھ ہی یہ بڑے عظیم افتخارات کی دہائی بھی ہے۔ 

80 کا عشرہ علاحدگی پسندی کے خلاف جدوجہد کا عشرہ ہے، ملک کے اطراف سے ہمارے ملک کے اندر کچھ گروہوں کو اکسایا گيا، پیسہ دیا گيا، اسلحہ دیا گيا کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کی جان کو آ جائیں، ملک کے ٹکڑے کر دیں! سنہ 80 کی دہائی اس طرح کے بڑے واقعات کی دہائی ہے۔ 80 کے عشرے میں ہماری قوم، ہمارے نوجوان ثابت قدمی کی تصویر بن گئے اور ان تمام مشکلات پر غالب آئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ جو لوگ اہل نظر ہیں، اہل تدبر ہیں انھیں میں سفارش کروں گا کہ سنہ 80 کی دہائی کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت شہید اور جلاد میں خلط ملط نہ کریں۔ 80 کے عشرے میں ملت ایران بہت مظلوم واقع ہوئی۔ دہشت گردوں نے، منافقین نے اور ان کے پشت پناہوں نے، ان طاقتوں نے جنھوں نے ان کی تشکیل کی  تھی اور دائمی طور پر انھیں اکساتی رہتی تھیں، ملت ایران پر ظلم کیا، اس قوم کے ساتھ برا سلوک کیا۔ ملت ایران دفاعی پوزیشن میں آ گئی تاہم اس نے دفاع کیا اور کامیاب ہوئی اور بحمد اللہ وہ ساری سازشیں ناکام ہو گئیں۔ یہ چند جملے سنہ 1980 کے عشرے کے بارے میں تھے۔ ہمارے نوجوانوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا، ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اپنے اس نورانی چہرے کے ساتھ، اللہ پر گہرا ایمان رکھنے والے اپنے دل کے ساتھ اور اپنے عزم راسخ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور ان تمام مشکلات پر غلبہ حاصل کیا۔

اس کے بعد امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے انتقال فرمایا تو امام کے انتقال کے بعد کچھ حلقوں کو یہ امید ہو گئی کہ شاید اب وہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریک کو منحرف کر سکتے ہیں۔ مگر بحمد اللہ وہ کامیاب  نہیں ہوئے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد کئی سال گزرے اور اس دوران کچھ عناصر ملک کے باہر اور ان کے کچھ آلہ کار ملک کے اندر اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ شاید انقلاب سے کوئی غفلت ہو جائے، انقلاب پر بڑھاپا آ جائے، انقلاب ناکارہ ہو جائے تو وہ حملہ ور ہو جائیں اور انقلاب سے پہلے والے حالات کو دوبارہ ملک میں بحال کر دیں۔ مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس ناکامی کی وجہ کیا ہے؟  اس کی وجہ ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی وہی کشش اور مقناطیسیت تھی۔ ملک کے اندر امام کے اصولوں کی کشش تھی۔ میں بعد میں بھی اس پر بات کروں گا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا جسم ہمارے درمیان سے چلا گیا ہے، لیکن امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح زندہ ہے، امام کی روح آج بھی زندہ ہے، امام کا راستہ زندہ ہے، ہمارے معاشرے میں امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی سانسوں کی گرمی موجود ہے۔ وہ کشش جو آپ کی ظاہری زندگی کے زمانے میں عوام الناس کو، نوجوانوں کو، دلوں کو مقناطیس کی مانند اپنی جانب کھینتی تھی، آج بھی موجود ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا نام مشکلوں کو حل کرنے والا ہے، اس کے علاوہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بند گرہوں کو وا کرنے والے تھے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اصول بھی جو کبھی کہنہ یا ختم ہونے والے اصول نہیں ہیں، آج بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آج بھی سماجی و اقتصادی مساوات کا نعرہ، خود مختاری کا نعرہ، آزادی کا نعرہ، جمہوریت کا نعرہ، امریکی تسلط  سے آزاد رہنے کا نعرہ ہمارے نوجوانوں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے۔

البتہ بعض نعروں پر عمل آوری کے میدان میں ہم ہنوز پیچھے ہیں۔ ہم سماجی مساوات کے میدان میں پیچھے ہیں، بعض اسلامی اصولوں اور ضوابط کے نفاذ میں پیچھے ہیں، ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ تاہم ہمارا حوصلہ، ہمارا ہدف اور ہماری آرزو وہی ہے۔ نوجوان نسل کے لئے اس میں خاص کشش ہے۔ بلکہ دیگر ممالک خاص طور پر اسلامی ممالک کے نوجوانوں کے لئے بھی اس میں خاص کشش ہے۔ یہ انقلاب کی تنظیمی توانائی ہے۔ میں یہ عرض کروں گا کہ ملک کے حکام اور سیاسی کارکن انقلاب کی اس مقناطیسی توانائی سے غفلت نہ برتیں۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمارے ملک کے پاس اور ہماری قوم کے پاس یہ نعمت موجود ہے۔ انقلاب کے اندر لوگوں کو مجتمع کر لینے کی صلاحیت ہے۔ یہ توانائی نوجوانوں کو، پرعزم انسانوں کو، صاحب ارادہ اور اچھے انسانوں کو اعلی اہداف کی سمت گامزن کر سکتی ہے، حرکت میں لا سکتی ہے اور آگے لے جا سکتی ہے۔ انقلاب اور انقلابی نعروں سے زیادہ طاقتور اور عظیم کوئی بھی مقناطیسی قوت نہیں ہے۔ ہمیں آج  بھی اس کی ضرورت ہے اور برسوں تک اس کی ضرورت پڑتی رہے گی۔

ہمارے دشمن بھی نچلے نہیں بیٹھے ہیں۔ میرے عزیزو، میرے بھائیو اور بہنو! دشمن بیکار نہیں بیٹھا ہے۔ بے شک تاحال دشمن ہم  پر کوئی کاری ضرب نہیں لگا سکا ہے، ہم آگے بڑھتے رہے ہیں، ہم نے پیشرفت کی ہے، بہ کوری چشم دشمن ہم نے کارہائے نمایاں سرانجام دئے ہیں، مگر دشمن آج بھی گھات میں ہے۔ آپ دیکھئے کہ ہمارے دشمن کی بے شرمی کس حد تک بڑھ گئی ہے! امریکہ کا صدر ایک دقیانوسی، پست قبائلی سسٹم میں قبیلے کے سردار کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے اور شمشیر کا رقص کرتا ہے اور دوسری طرف ایران کے آزادانہ اور شفاف انتخابات میں عوام کے چار کروڑ ووٹوں میں خامیاں گنواتا ہے۔ ہمارے مد مقابل ایسے پست، بے غیرت اور بے حس دشمن ہیں جو یمن کے کوچہ و بازار میں بے گناہوں کو شب و روز قتل کرنے والے مجرمین کے پہلو میں کھڑے ہوکر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی بے شرمی کچھ ہو سکتی ہے؟! تقریبا ڈھائی سال کا عرصہ ہو رہا ہے کہ شب و روز وہ یمن پر بمباری کر رہے ہیں، یمن کے فوجی مراکز پر نہیں بلکہ کوچہ و بازار پر، مساجد پر، عوام کے مکانات پر اور بے گناہوں کا قتل عام کر رہے ہیں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر رہے ہیں! اور یہ ہیں کہ جاکر ان کے پہلو میں کھڑے ہو جاتے ہیں! ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں، انسانی حقوق کا راگ الاپتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پر انسانی حقوق کے ناطے پابندیاں لگاتے ہیں، اس سے بڑی بے حیائی کیا ہوگی؟! ایسے دشمن کے مقابلے میں ہمیں انقلاب کی کشش اور ایک نقطے پر مجتمع کر دینے والی مقناطیسیت درکار ہے۔

انقلاب کو خراج عقیدت پیش کیجئے، اس کا احترام کیجئے۔ آپ جو ملک و قوم کے ہمدرد ہیں، انقلاب کے اقدار کو حقیقی معنی میں زندہ کیجئے، ان کا احیاء کیجئے۔ ملک کو اس کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کوتاہ مدتی اہداف کے لئے، روز مرہ کے زود گزر سیاسی مسائل کی خاطر ان اقدار کو فراموش کر دیں، انقلاب کو فراموش کر دیں۔ آج اگر ہمیں علم کے میدان میں آگے بڑھنا ہے، سیاست کے میدان میں سبقت لے جانا ہے، اقتصادیات کے میدان میں بلندی پر پہنچنا ہے، اگر بڑے کام انجام دینے ہیں تو ہمیں اس جرئت اور خود اعتمادی کی ضرورت ہے جو انقلاب سے کسی بھی قوم کو ملتی ہے اور ہماری قوم کو بھی ملی ہے۔ اس جرئت مندی اور خود اعتمادی کو ختم نہ کیجئے، اسے کمزور نہ کیجئے۔ آج ملت ایران کو اس خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ آج بھی ہمارے نوجوان بڑے کارناموں کے راستے پر قدم بڑھانے اور بڑے منصوبوں کے لئے سینہ سپر ہو جانے کی خاطر آمادہ ہیں، میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ملک کے اندر دسیوں لاکھ نوجوان ہیں جو سنہ 1980 جیسے حالات پیش آنے کی صورت میں آج بھی پوری طاقت سے، پورے وقار سے، بھرپور عزم اور شجاعت کے ساتھ میدان میں اتریں گے اور ملک کی حفاظت کریں گے، وطن عزیز کی پاسبانی کریں گے۔

بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ انقلاب کے نعروں کے مقابلے میں معقولیت اور خرد پسندی کی بات کرتے ہیں۔ گویا معقولیت و خرد پسندی کچھ اور ہے اور انقلاب اس کے مد مقابل کوئی شئے ہے! جی نہیں، یہ بالکل غلط ہے۔ حقیقی معقولیت انقلاب پسندی میں ہے۔ انقلابی سوچ ہی ہمیں حقائق سے روشناس کراتی ہے۔ آپ دیکھئے کہ امام خمینی نے کتنا عرصہ قبل امریکہ کو شیطان بزرگ اور ناقابل اعتماد حکومت قرار دے دیا تھا؟ امام نے ہمیں، اس ملت کو سمجھا دیا تھا۔ آج تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد یورپی ممالک کے سربراہان کہہ رہے ہیں کہ امریکہ ناقابل اعتماد ہے۔

آنچه در آینه جوان بیند - پیر در خشت خام آن بیند (ایک نوجوان جو حقیقت آئینے میں دیکھتا ہے، سن رسیدہ شخص وہی تصویر کچی اینٹ پر نظر ڈال کر دیکھ لیتا ہے۔)

یہ ہے معقولیت پسندی۔ معقولیت یہ ہے کہ یورپی ممالک کے سربراہان آج جو بات کہہ رہے ہیں اور امریکہ کو غیر قابل بھروسہ مان رہے ہیں، امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے تیس سال قبل بلکہ اس سے بھی زیادہ پہلے بیان کر دیا تھا۔ ہم نے خود بھی اس کا تجربہ کیا ہے، آزمایا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ امریکی ناقابل اعتماد ہیں۔ تمام مسائل میں ناقابل اعتماد ہیں۔ میں ان شاء اللہ دوسرے مواقع پر اس بارے میں ممکن ہے کہ مزید کچھ باتیں بیان کروں! عقل پسندی یہ ہے۔ عقل پسندی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اصلیت سے باخبر رہے۔ معقولیت عوام پر تکیہ کرنا ہے، معقولیت داخلی وسائل اور توانائیوں پر تکیہ کرنا ہے، معقولیت اللہ پر تکیہ اور توکل کرنا ہے۔ یہ معقولیت ہے۔ معقولیت یہ نہیں ہے کہ انسان امریکہ اور استکبار کے تسلط سے آزاد ہونے کے بعد دوبارہ ان کی قربت حاصل کرے، یہ معقولیت نہیں ہے۔ معقولیت امام کی روش میں تھی۔ معقولیت کی تعلیم ہمیں انقلاب سے ملتی ہے۔

میں اپنی بات مختصر کر رہا ہوں؛ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ہمیں سب سے بڑا جو سبق دیا وہ انقلابی جذبے، انقلابی سوچ اور انقلابی عمل کا درس ہے۔ اسے ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کوئی ثقافتی ورثہ نہیں ہیں! بعض لوگ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو ثقافتی ورثے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) زندہ ہیں، وہ ہمارے امام ہیں، وہ ہمارے پیشوا ہیں، امام ہمارے سامنے ہیں۔ بے شک امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا جسم ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن ان کی باتیں، ان کا راستہ، ان کی فکر اور ان کی سانسیں آج بھی زندہ ہیں۔ ہمیں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو اس نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور ان سے سیکھنا چاہئے۔ 

کچھ لوگ اس میں معقولیت دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کی ناراضگی مول لینے کی قیمت چکانی پڑتی ہے! جو کہ بالکل غلط ہے! جی ہیں ناراضگی مول لینے کی قیمت چکانی پڑتی ہے لیکن ان سے آشتی کرنے کی بھی قیمت چکانی پڑتی ہے۔  آپ غور کیجئے! سعودی حکومت نئے امریکی صدر سے آشتی و مفاہمت کے لئے اپنے زر مبادلہ کے ذخیرے کا نصف سے زائد حصہ امریکہ کے مقاصد کے لئے اور اس کی مرضی کے مطابق صرف کرنے پر مجبور ہو گئی۔ کیا یہ قیمت چکانا نہیں ہے؟ تو مفاہمت کی بھی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ جبکہ چیلنج کرنے کی روش عقل و منطق سے ہم آہنگ ہو، اگر منطقی اصولوں سے ہم آہنگ ہو اور اگر خود اعتمادی سے آراستہ ہو تو اس کی قیمت آشتی و مفاہمت سے بدرجہا کم ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا اور بعد میں بھی ان شاء اللہ اس بارے میں بات کروں گا، کہ ایسا نہیں ہے کہ سازشی  اور جارح طاقتیں کسی خاص حد تک پہنچ کر مطمئن ہو جائیں گی۔ ہم نے ان چند برسوں کے تجربات میں اس کا مشاہدہ کر لیا ہے۔ وہ پہلے ایک حد کا تعین کرتی ہیں، مگر جب آپ وہاں تک پسپائی اختیار کر لیتے ہیں تو پھر وہ نیا مطالبہ اور نیا دعوی پیش کر دیتی ہیں۔ آپ کو پھر اسی دباؤ کے ذریعے یہ نیا مطالبہ ماننے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے، یہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

انقلابیت یعنی یہ کہ ملک کے حکام کا ہدف استکباری طاقتوں کو خوش کرنا نہ ہو، ملک کے عہدیداران عوام کی خوشنودی حاصل کرنے، داخلی توانائیوں کو بروئے کار لانے، ملک کے اندر مصروف خدمت حلقوں کو تقویت پہنچانے کو اپنا مقصد قرار دیں، یہ ہے انقلابی ہونا۔ انقلابی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ملک اور حکام کسی بھی دھونس میں نہ آئیں، کہیں بھی کمزوری کا مظاہرہ نہ کریں، خود اعتمادی میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔ فریق مقابل کی نہ تو غنڈہ گردی برداشت کریں اور نہ ہی اس کے فریب میں آئیں۔ اس لئے کہ بڑی طاقتیں غنڈہ گردی کرتی ہیں بیجا مطالبات منوانا چاہتی ہیں، ان کے ہاتھوں میں ہتھیار ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ فریب دہی کا کوئی موقع بھی نہیں چوکتیں، جہاں بھی ممکن ہوتا ہے وہ دھوکا دیتی ہیں، فریب دیتی ہیں، یہ ان کا مزاج ہے۔ تو انقلابی ہونے کا مفہوم یہ ہے۔

میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ برادران عزیز، خواہران گرامی، عزیز نوجوانو اور ملک کے محترم عہدیداران! سب یاد رکھیں کہ آج ہمیں انقلابی جذبے سے، انقلابی روش سے، انقلابی نعروں سے اور امام خمینی کے اصولوں اور انقلاب کی بنیادوں سے آشنائی کی سخت ضرورت ہے۔ آج یہ ملک کی ضرورت ہے۔ انقلابیت پر انتہا پسندی وغیرہ جیسے لیبل چسپاں کرکے اس کی نفی کرنے کی کوشش نہ کیجئے۔ ہمیں بزرگوار امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے یہی سبق ملا ہے، اس سبق سے ہمیں استفادہ کرنا چاہئے۔ یہ میری پہلی اور سب سے کلیدی بحث ہے۔

ملکی مسائل کے تعلق سے بھی چند جملے عرض کرنا چاہوں گا؛ ایک انتہائی اہم موضوع صدارتی انتخابات کا تھا جو دو ہفتہ قبل منعقد ہوئے۔ 41 ملین سے زائد لوگوں نے پولنگ مراکز پر پہنچ کر اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ میں ایک ایک فرد کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ واقعی بہت عظیم عمل انجام پایا، ملک کا اعتبار بڑھا، اسلامی جمہوری نظام کا اعتبار بڑھا، یہ اسلامی جمہوری نظام پر عوام کے بھرپور اعتماد کا آئنہ قرار پایا۔ اگر 70 فیصد سے زائد اکثریت آکر اسلامی جمہوری نظام کی حمایت کا اعلان کرے، اس کی تائید کرے، اس پر اعتماد کااظہار کرے تو یہ بہت اہم بات ہے۔ افسوس ہے کہ کچھ افراد اپنی کج فہمی کی وجہ سے یا نہیں معلوم اسے کیا نام دیا جائے، انکار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ عوام کے ووٹوں کا اسلامی جمہوری نظام سے اور اسلامی نظام کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیسے تعلق نہیں ہے جناب! یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو ممکن ہے کہ دل میں اسلامی نطام سے گلہ شکوہ رکھتے ہوں وہ بھی جب اس نظام کے دائرے میں ہونے والی ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس سسٹم کو قبول کرتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں، اسے کارآمد و کارساز مانتے ہیں، اسی لئے تو اس کے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تقریبا بیالیس ملین ووٹ، ستر فیصد سے زائد ووٹنگ اسلامی نظام کی حمایت اور اسلامی نظام پر اظہار اعتماد تھا۔ بہت اہم واقعہ تھا۔

خوشی کا مقام ہے کہ نگراں کونسل نے انتخابات کی صحتمندی کی تصدیق کی۔ البتہ بتایا گیا اور ہمیں بھی رپورٹ ملی تھی کہ کچھ خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، ان خلاف ورزیوں کے بارے میں جانچ ہونا چاہئے۔ حالانکہ ان خلاف ورزیوں کا انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے، لیکن پھر بھی خلاف ورزی تو خلاف ورزی ہے، یہ اسلامی جمہوری نظام کے شایان شان نہیں ہے۔ حکام کو چاہئے کہ ان خلاف ورزیوں کے سلسلے میں پوری سنجیدگی سے تحقیقات کریں، خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والوں کا تعین کریں تاکہ ہمارے دیگر انتخابات میں، ظاہر ہے اس قوم کو ابھی اور بھی انتخابات میں شرکت کرنی ہے، خلاف ورزی کے امکانات ختم ہو جائیں اور ہمارے یہاں اس طرح کی خلاف ورزیاں انجام نہ پائیں۔ اگر ہم اپنی آنکھیں بند کر لیں گے، صرف نظر کر لیں گے، چشم پوشی کریں گے تو خلاف ورزیاں پھر دہرائی جائیں گی۔ خلاف ورزی کا سد باب ہونا چاہئے۔ میں ملک کے عہدیداران کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے ان انتخابات کا انعقاد کروایا اور اس کی نگرانی کا کام انجام دیا۔

البتہ انتخابی کیمپین میں اور مناظروں میں ایسی باتیں بھی کہی گئيں، اور کچھ بد اخلاقیاں بھی ہوئیں، ملک کے بعض اداروں پر الزامات بھی عائد کئے گئے جو بالکل مناسب نہیں تھا۔ بہرحال ماضی تو گزر چکا ہے یہ سلسلہ اب اور آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔ سب توجہ دیں۔ انتخابات میں منفی چیزیں ہوئیں انھیں نظر انداز کریں اور یہ غلطیاں دہرانے سے بچیں۔ یعنی عوام الناس خواہ وہ افراد ہوں جن کا کینڈیڈیٹ جیت گیا ہے یا اس امیدوار کے حامی ہوں جو الیکشن ہار گيا ہے، سب اعلی ظرفی کا مظاہرہ کریں، بردباری کا مظاہرہ کریں، بردباری یعنی اعلی ظرفی، کم ظرفی کا مظاہرہ نہ کریں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی قضیئے میں فتح ملنے پر بھی اور شکست ہونے پر بھی کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہیں، بے بضاعتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مناسب یہ ہوتا ہے کہ انسان اگر اپنا ہدف پورا کرنے میں کامیاب ہو گيا ہے تب بھی اور اگر کامیاب نہیں ہوا ہے تب بھی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرے۔ خوشی کی بات ہے کہ اس سال انتخابات میں اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا گيا۔ جنھیں کامیابی نہیں ملی انھوں نے بھی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا، برخلاف 2009 کے الیکشن کے، جس میں ملک کے لئے مشکلات کھڑی کر دی گئیں۔

میں یہاں ایک بات اختصار کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں، بعد میں اس پر ان شاء اللہ ممکن ہوا تو مزید تفصیل سے گفتگو کروں گا، وہ بات یہ ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ داخلی مسائل میں خاص توجہ پیداوار بڑھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر مرکوز کرے۔ آئین کے مطابق ہمارے ملک میں صدر جمہوریہ کو وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں، وہ بہت سے کام انجام دے سکتا ہے، اس کے پاس جو وسائل مہیا ہوتے ہیں، انھیں بروئے کار لاتے ہوئے، داخلی صلاحیتوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے فی الفور عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے پر کام شروع کر دے۔ عہدیداران کا انتخاب، مختلف شعبوں کے لئے حکام کا انتخاب، اب بارہویں حکومت میں، اس انداز سے کیا جائے کہ وہ محنتی، مضبوط اور کام سے دلچسپی رکھنے والے افراد ہوں، توانائی رکھتے ہوں۔ یعنی ان کی توانائی ایسی ہو کہ کاموں کو آگے لے جا سکیں۔ اگر اقتصادی یا غیر اقتصادی کسی بھی شعبے میں کوئی حصہ ناکارہ ثابت ہو تو اس کو اسلامی نظام کی عدم افادیت مانا جائے گا، جبکہ یہ نا انصافی ہے۔ اسلامی نظام پوری طرح کارآمد اور نتیجہ بخش ہے۔ مختلف شعبوں کو یہ  امکانات فراہم کرائے جائیں کہ وہ اسلامی نظام کے ساتھ ساتھ خود بھی آگے بڑھ سکیں۔ حکام کو چاہئے کہ وطن عزیز کو امریکی پابندیوں کے سامنے مستحکم بنانے کے لئے کام کریں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی آئے دن بڑی بے شرمی سے کوئی نیا بیان داغ دیتے ہیں، ہر روز نیا راگ الاپتے ہیں۔ وہ جو اقدامات کر رہے ہیں ان کے مقابلے میں ہمیں اپنے ملک کو مستحکم بنانا ہے اور استقامت کی قوت بڑھانا ہے۔ اقتصادی، ثقافتی، سیاسی اور ہمہ جہتی استحکام پر حکام کی توجہ ہونا چاہئے۔

عالمی مسائل میں ملک کے اندر سے یکساں آواز بلند ہونی چاہئے۔ اس پر تمام محترم عہدیداران توجہ دیں۔ اہم بین الاقوامی مسائل میں ملک کے اندر سے 'صدائے واحد' بلند ہونی چاہئے۔ حکام کی الگ الگ آواز نہیں سنائی دینی چاہئے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی مصنف یا سائيبر اسپیس میں سرگرم کوئی قلمکار مختلف موقف اختیار کرے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تاہم ملک کے حکام کی طرف سے ایک ہی آواز سنائی دینی چاہئے۔

چند جملے خارجہ مسائل کے تعلق سے عرض کرتا چلوں۔ افسوس کا مقام ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے میں بعض ملکوں میں ہمارے بھائی مشکلات سے دوچار ہیں؛ یمن میں، شام میں، بحرین میں، لیبیا میں مسلمان روزے کی حالت میں ان بڑی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یمن میں سعودی حکومت شب و روز بمباری کر رہی ہے، عوام کو پریشان کر رہی ہے، البتہ وہ بہت بڑی بھول کر رہی ہے۔ میں یہیں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سعودی حکومت بخوبی سمجھ لے! اگر وہ آئندہ دس سال تک یا بیس سال تک بھی یمن کے عوام کے خلاف اسی روش پر کام کرتی رہی تب بھی یمن کے عوام پر فتحیاب نہیں ہو پائے گی۔ یہ کھلا ہوا جرم ہے جو ایک ملک کے بے گناہ عوام اور بے آسرا عوام کے خلاف انجام دیا جا رہا ہے اور ہرگز کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ یہ لوگ دنیا میں رائے عامہ کے سامنے اور اسی طرح اللہ تعالی کی بارگاہ میں اور 'کرام الکاتبین' کے سامنے اپنے گناہوں کا بوجھ سنگین تر کر رہے ہیں اور اپنے خلاف زیادہ سخت انتقام الہی کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔

بحرین میں بھی یہی صورت حال ہے۔ بحرین میں بھی سعودی حکومت کی موجودگی بالکل غیر منطقی ہے۔ بحرین کے مسائل کا تعلق اس ملک کے عوام سے ہے۔ بحرین کے عوام خود اپنی حکومت سے بیٹھ کر بات کریں اور کسی نتیجے پر پہنچیں۔ کوئی دوسری حکومت وہاں اپنی فوج کیوں بھیجے؟! ان کے امور میں کیوں مداخلت کرے اور ان کے لئے پالیسی کیوں طے کرے؟! یہ غیر منطقی اور غیر عاقلانہ کام ہیں جن سے اقوام کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ یہ جو اپنی مرضی کسی قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سراسر غلط ہے۔ یہ روش عملی طور پر ناکام ثابت ہو چکی ہے اور سرانجام ایسی کوشش کرنے والوں کی روسیاہی کا باعث بنتی ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اگر وہ سیکڑوں ارب ڈالر کی رشوت دیکر امریکہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے تب بھی کوئی نتیجہ نہیں حاصل کر سکیں گے۔

شام کے مسائل بھی ایسے ہی ہیں۔ شام میں وہاں کی حکومت اور عوام کی مرضی کے برخلاف دیگر ملکوں کی موجودگی غلط ہے۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ شام کا مسئلہ بھی گفتگو سے حل ہونا چاہئے۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ شام میں بھی، بحرین میں بھی، یمن میں بھی اسی طرح دنیائے اسلام میں ہر جگہ دشمن طاقتیں نیابتی جنگ کی آگ بھڑکاتی ہیں، عوام کو ایک دوسرے سے متصادم کر رہی ہیں۔ راہ حل یہ ہے کہ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں، گفتگو کریں، مذاکرات کریں، دوسرے مداخلت نہ کرنے پائیں، اس انداز سے، جو آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے، دوسرے ممالک ہتھیاروں کی سپلائی نہ کریں۔ آج داعش اپنی جائے پیدائش یعنی عراق اور شام سے فرار ہونے پر مجبور ہے، یہ تنظیم دیگر ملکوں کا رخ کر رہی ہے، افغانستان، پاکستان حتی فلپائن، یورپی ممالک اور دیگر جگہوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو انھوں نے (مغربی ممالک نے) خود لگائی ہے اور آج اسی آگ میں خود ان کا دامن جل رہا ہے۔

توفیق خداوندی سے ملت ایران ان تمام مسائل میں منطق کی طاقت سے، عقل پسندی کی روش سے، پختہ عزم کی طاقت سے اپنا کام انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔ آئندہ بھی توفیق الہی، ہدایت الہیہ اور اذن خداوندی سے ملک کے تمام سیاسی امور اس قوم کی امنگوں اور فتح کی سمت آگے بڑھیں گے۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ ماضی کے اڑتیس سال کے تجربات سے ظاہر ہے کہ اس قوم کا مستقبل اس کے حال سے ان شاء اللہ بدرجہا بہتر ہوگا۔

پالنے والے! رمضان کے مہینے میں یہ عصر کا وقت ہے، یہاں جمع روزے داروں پر، بھوکے شکم اور پیاسے ہونٹوں پر اپنی رحمت نازل فرما! پروردگارا! بحق محمد و آل محمد ملت ایران کو تمام اہم میدانوں میں کامیاب و سربلند فرما۔ پالنے والے! ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو جن کی روح، جن کی جان اور جن کی سانسیں ہمارے درمیان ہنوز زندہ ہیں، روز بروز اور زیادہ زندہ جاوید بنا! پالنے والے! اس قوم کے عزیز شہیدوں کو، اس قوم کے فداکار نوجوانوں کو، اپنے لطف و فضل کے سائے میں رکھ۔ پالنے والے! ملک کے حکام کو اس عظیم قوم کی خدمت کی توفیق عطا فرما۔ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ پالنے والے! مولا کی دعاؤں کو ملت ایران اور اس حقیر کے شامل حال کر دے۔ حضرت کی زیارت عطا کرکے ہماری آنکھوں کو منور فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

۱) یہ پروگرام ماہ رمضان المبارک کی 9 تاریخ کو منعقد ہوا۔