بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

بہت اچھی نشست رہی۔ میرے عزیز بچوں نے، طالب علم بھائیوں اور بہنوں نے جو باتیں یہاں بیان کیں بہت ممتاز اور قابل فخر نکات پر مشتمل تھیں۔ البتہ ممکن ہے کہ یہاں بیان کئے گئے نکات ملک کے تمام طلبہ کے اذہان میں موجود تمام باتوں کے عکاس نہ ہوں، یہ فطری بھی ہے، یہاں اس عزیز نوجوان نے جو بات کہی وہ بالکل درست ہے، میں اسے مانتا ہوں، سجمھ سکتا ہوں، جو کچھ بیان کیا گيا وہ طلبہ کے اذہان میں گردش کرنے والے افکار کا صرف ایک حصہ ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ مگر جو کچھ بیان کیا گیا وہ بہت متین، محکم اور نپی تلی باتیں تھیں۔ مجھے واقعی بہت اچھا لگا۔ بعض تقاریر میں بیان کی گئی بعض باتوں سے ممکن ہے کہ میں اتفاق رائے نہ رکھتا ہوں، لیکن بیان کی گئی باتوں کی پختگی، استحکام اور اذہان کی رسائی، جن اذہان نے ان نکات کو تیار کیا، ان کی خوبیوں کا تو منکر نہیں ہوا جا سکتا۔ عزیز بھائیوں اور بہنوں نے، دو طالبات نے بھی اور کچھ طلبہ نے بھی جو تقریریں کیں بہت اچھی تھیں۔ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے ان کی تشویش اور ان کا نقطہ نگاہ بالکل بجا اور صائب ہے۔ میں نے یہ باتیں بطور خلاصہ یہاں نوٹ کیں، تاہم تمام تقریریں ریکارڈ کر لی گئی ہیں جو ضبط تحریر میں لائی جائيں گی اور میں شاید مطالعہ کروں گا، امکانی طور پر میں ان تمام باتوں کو دوبارہ دیکھوں گا، یا تو پوری تقاریر کو یا پھر ان کے خلاصے کو، جو حصے میرے لئے قابل استفادہ ہیں ان شاء اللہ ان سے استفادہ کروں گا (ان پر عمل کروں گا)۔ تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس نشست میں جو محترم عہدیداران تشریف فرما ہیں خواہ وہ وزارت علوم سے ہوں یا اوپن یونیورسٹی سے ہوں یا پھر طلبہ کے امور سے وابستہ دیگر مراکز سے، وہ ان نوجوانوں کی باتوں پر عمل کریں، ان افکار کو اور ان اذہان کو استعمال کریں۔ باتوں کی سطح بہت بلند اور مفاہیم کا ادراک بہت مستحکم اور قوی ہے۔ اس سے انسان محظوظ ہو سکتا ہے۔ یہ نشست برسوں سے چلی آ رہی ہے، مجھے نہیں معلوم کتنے سال سے جاری ہے، کافی وقت سے یہ سلسلہ ہے۔ ہر سال طلبہ کے ساتھ ہماری نشست ہوتی ہے۔ شاید بیس سال یا اس سے کچھ کم یا پھر کچھ زیادہ عرصے سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔ میں نے بالکل واضح طور پر محسوس کیا ہے کہ طلبہ کی صنف کی فکری سطح میں نمو اور ارتقاء آیا ہے اور ہمیں یہی توقع بھی ہے، ہمیں اس کی ضرورت بھی ہے۔ البتہ یہ نوجوان ہیں، ان کی کچھ توقعات ہیں، کچھ مطالبات ہیں۔ ان میں بہت سے مطالبات شاید پورے بھی نہ ہوں، ظاہر ہے کچھ شکوے بھی ہیں، یہ سب اپنی جگہ پر، لیکن یہ باتیں اور یہ فکریں اپنا اثر ضرور چھوڑتی ہیں۔ یہ خیال نہ پیدا ہو کہ یہ تو چند باتیں تھیں جو بیان کر دی گئیں اور وہیں پر سارا قصہ تمام ہو گیا! ایسا ہرگز نہیں ہے، ان باتوں کا یقینا اثر ہوتا ہے یونیورسٹی کے مستقبل پر بھی اور ملکی سطح پر بھی۔ اسی طرح عوامی فکری سطح پر بھی ان کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ میں نے بھی چند باتیں نوٹ کی ہیں جو بیان کروں گا، البتہ میری باتیں انھیں عزیزوں کی باتوں کی تکمیل کے طور پر ہیں۔

میری ایک بحث تو طالب علم اور یونیورسٹی کے باب میں ہے، یونیورسٹی اور طالب علم کے بارے میں ہماری جو سوچ ہے، یونیورسٹی اور طالب علم سے ہماری جو توقعات ہیں، میں وہ عرض کروں گا۔ ایک بحث طلبہ یونینوں کے بارے میں بھی ہے، اس لئے کہ جن احباب نے یہاں تقریریں کیں وہ طلبہ یونینوں کے نمائندے ہیں، لہذا کچھ باتیں یونینوں کے بارے میں عرض کرنا ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تمہیدی گفتگو ہے۔

ہماری سیاسی ادبیات میں ایک اہم  'کی ورڈ' ہے 'تسلط پسندانہ نظام'۔ یہ 'کی ورڈ' بہت پرمغز اور با معنی ہے۔ تسلط پسندانہ نظام کیا ہے؟ میں چاہوں گا کہ اس کے ماضی اور جڑوں پر ایک سرسری نظر ڈالوں اس کے بعد آج کی صورت حال پر گفتگو ہو۔ تسلط پسندانہ نظام سے مراد ہے ملکوں کے درمیان دو قطبی عالمی نظام۔ ملکوں کے درمیان واضح اور روز افزوں دو قطبی نظام، یہ تسلط پسندانہ نظام ہے۔ ایک قطب اور محور تسلط پسند ملکوں کا ہے اور دوسرا محور تسلط کے شکار ملکوں کا ہے۔ یہ دو قطبی نظام ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس لفظ اور اس 'کی ورڈ' کے ذیل میں بہت سی باتیں بیان کرنے والی ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران حقیر نے کچھ باتیں بیان کی ہیں۔ لیکن آپ طلبہ کو چاہئے کہ فکری و تجزیاتی نشستوں میں بیٹھیں، غور کریں تو آپ اس 'کی ورڈ' کے ذیل میں مزید بہت سی نئی باتیں اور افکار تلاش کر سکتے ہیں۔ بہرحال دو، تین صدی قبل سے لیکر بعد کے دور تک دنیا کے ممالک دو حصوں میں تقسیم ہو گئے؛ تسلط پسند اور تسلط کا شکار۔ کچھ ممالک تسلط پسند تھے جو بنیادی طور پر یا عموما یورپی ممالک تھے۔ اب اس کی اپنی وجوہات بھی ہیں کہ یہ ممالک کیونکر تسلط پسند بن گئے، کیا حالات تھے جن کا یہ نتیجہ نکلا؟ کیا تخلیق کے اعتبار سے انھیں کوئی خاص انفرادیت حاصل تھی؟ کیا ذہنی و فکری اعتبار سے انھیں برتری حاصل تھی؟ یا یہ کہ نہیں، کچھ حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ دنیا کے کسی ایک خطے کو یا کسی ایک ملک کو دیگر ممالک پر برتری حاصل ہو گئی؟ بہرحال اس کی کچھ وجوہات ہیں، تاہم اس وقت میں ان وجوہات کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، یعنی ہماری آج کی بحث کا موضوع یہ وجوہات نہیں ہیں۔ تو یہ صورت حال پیش آئی اور ممالک تسلط پسند اور تسلط کا شکار ملکوں میں منقسم ہو گئے۔

کچھ دوہرے قسم کے حالات و مسائل ہیں جو پیش آئے۔ منجملہ پیشرفت اور جمود کے دو رخی حالات۔ یعنی تسلط پسند ممالک تو مسلسل روز افزوں رفتار کے ساتھ روز افزوں پیشرفت حاصل کرتے رہے، ان کی پیشرفت کی رفتار مسلسل بڑھتی رہی جبکہ تسلط کا شکار ممالک جمود میں اور پسماندگی میں مبتلا رہے۔ یہاں بہت اہم نکتہ مضمر ہے۔ یہ تصور نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ تسلط کے شکار ممالک یعنی ایشائی ممالک یا افریقی ممالک یا لاطینی امریکہ کے بعض ممالک جو تسلط پسندی کے شکار تھے وہ شروع ہی سے علم و ثقافت اور تہذیب و تمدن سے بے بہرہ تھے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ آپ ذرا ایک نظر ڈالئے (پنڈت جواہر لعل) نہرو کی کتاب Glimpses of World History پر (2)۔ نہرو تشریح کرتے ہیں کہ جب انگریز ہندوستان میں پہنچے تو اس وقت ہندوستان میں صنعتیں تھیں، اس زمانے کے اعتبار سے پیشرفتہ صنعتیں تھیں۔ یہ بات نہرو نے اپنی کتاب 'تاریخ جہان پر ایک نظر' میں ذکر کی ہے۔ یعنی ہندوستان اس وقت کی پیشرفتہ صنعتی مصنوعات تیار کرتا تھا۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال تھی۔ انگریز جب ہندوستان پہنچے تو انھوں نے اسے بند کروا دیا۔ یعنی ایسے اقدامات انجام دئے کہ ہندوستان کی مقامی صنعت ٹھپ ہوکر رہ گئی، پسماندگی میں چلی گئی تاکہ اس طرح لوگوں کو برٹش مصنوعات اور امپورٹڈ اشیا کی ضرورت پڑے۔ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ یہی ہر جگہ ہوا۔ ایران میں بھی اسی منصوبے پر کام ہوا۔ ہندوستان اور دیگر ممالک سے ایران کا فرق یہ ہے کہ ایران میں رسمی طور پر استعمار نہیں تھا، ایران نو آبادی نہیں تھا، جبکہ ہندوستان باقاعدہ طور پر نوآبادیات میں شامل تھا۔ پیشرفت اور جمود کی دوہری پالیسی۔ اختراع اور تقلید کی دو رخی پالیسی یعنی تسلط پسند ممالک زندگی میں، علم کے میدان میں، وسائل کے میدان میں آئے دن کوئی نئی ایجاد کرتے رہیں، لیکن تسلط کے شکار ممالک خود کوئی بھی اختراع کرنے کے بجائے اور اختراع کے لئے سازگار ماحول تک رسائی کے بجائے ہمیشہ تقلید کرتے رہیں۔ انھوں نے مسلسل اختراعات و ایجادات کیں اور یہ ممالک فقط تقلید کرتے رہے۔

خود مختاری و انحصار کی دو رخی پالیسی، سیاسی خود مختاری اور سیاسی انحصار کی پالیسی۔ برطانیہ جیسا چھوٹا سا ملک خود مختار تھا اور ایک بر صغیر جیسا عظیم علاقہ جس میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سب شامل تھے سیاسی اعتبار سے اس پر منحصر اور اس کی مٹھی میں تھا۔ یا ایران جیسا عظیم ملک جس کی اتنی پرانی ثقافت ہے، سیاسی اعتبار سے قاجاریہ دور کے اواخر میں بھی اور پہلوی دور میں بھی، منحصر تھا کس پر؟ مثال کے طور پر برطانیہ جیسے چھوٹے سے ملک پر۔ یعنی اس طرح کی دو رخی پالیسی عمل میں آئی۔ سیاسی خود مختاری اور سیاسی انحصار۔

خود اعتمادی اور احساس کمتری؛ یہ بھی دو رخی پالیسی ہے۔ تسلط پسند ممالک جذبہ خود اعتمادی سے بھرے ہوئے تھے، اپنی بات کہتے تھے، ان کی  توقعات ہوتی تھیں، ساری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتے تھے، جبکہ تسلط کے شکار ممالک جن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ بڑے ممالک تھے، احساس کمتری کا شکار تھے، کمزور قوت ارادی کی مشکل سے دوچار تھے۔

آئیڈیالوجی، کلچر اور رسومات و عادات کی ترویج؛ اس تسلط پسندانہ نظام کے لوازمات اور عواقب میں سے ایک یہ ہے کہ جن ممالک کے پاس اختراعات ہیں، پیشرفت ہے، خود اعتمادی ہے، وہ اپنے عادات و اطوار اور اپنے نظریہ کائنات کو تسلط کے شکار ممالک میں پھیلاتے ہیں اور یہ ممالک قبول کر لیتے ہیں؛ کتاب کی شکل میں، ریسرچ کی شکل میں اسی طرح دوسرے گوناگوں طریقوں سے، جن کے واضح اور بین تاریخی شواہد موجود ہیں۔ اگر آپ مطالعے کا شوق رکھتے ہیں اور اس نکتے پر غور کریں تو آپ کو واضح طور پر یہ حقیقت نظر آ جائے گی۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ ایک منصوبہ بندی یہ ہوتی ہے کہ یہی حالات جاری رہیں۔ یعنی جو تسلط پسند ممالک ہیں، انھوں نے بڑی توجہ کے ساتھ علمی منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ یہی صورت حال قائم رہے، دائمی ہو جائے، اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ دنیا میں اس طرح کی حالت پیدا ہوئی اور یہ حالت دو تین صدیوں تک جاری رہی۔

البتہ اس بیچ کچھ اہم تبدیلیاں بھی ہوئیں اور بعض ممالک خود کو اس دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے، پوری طرح سے نہیں لیکن کسی حد تک کامیاب ہو گئے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ برطانوی استعمار اور تسلط کا نشانہ بنا، مگر سیاسی اعتبار سے، اقتصادی اعتبار سے، اس نے خود کو اس دلدل سے نکال لیا، تاہم ثقافتی اعتبار سے نہیں، ثقافتی اعتبار سے آج بھی وہ یورپ کے زیر اثر ہے اور اس کے مقابلے میں بے اختیار ہے۔ یہ صورت حال اسی طرح چلتی رہی اور آج بھی جاری ہے۔ یا مثال کے طور پر ہندوستان نے سیاسی اعتبار سے تو خود کو نجات دلائی، اقتصادی اعتبار سے بھی وہ کافی حد تک چنگل سے باہر نکل گیا، لیکن ثقافتی اعتبار سے نہیں، ثقافتی اعتبار سے خود کو نجات نہیں دلا سکا، آج بھی بہت سی چیزیں موجود ہیں۔ میں نے ہندوستان کے ایک شہر کے بیچ میں واقع اسکوائر پر ایک مجسمہ دیکھا۔ میں نے سوال کیا کہ یہ کس کا مجسمہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ انگریز سردار کا مجسمہ ہے جو اس شہر پر حکومت کرتا تھا۔ خدا کی پناہ!! آپ نے جس ظالم کے خلاف برسوں جدوجہد کی اور اسے باہر نکالا اس کا مجسمہ اب تک آپ نے نصب کر رکھا ہے؟! اس کا مجسمہ وہاں تھا، شاید آج بھی ہے۔ ہندوستان کی ایک جنوبی ریاست کی بات ہے۔ میں نے افریقا میں بھی ایسی ہی چیزیں دیکھیں۔ ایک افریقی ملک میں، ایک سیاحتی جنگل میں، ایسا جنگل جسے دکھانے کے لئے ہمیں لے جایا گیا تھا، میں نے وہاں بھی دیکھا کہ ایک مجسمہ نصب ہے۔ میں نے سوال کیا کہ یہ کس کا مجسمہ ہے؟ بتایا گیا کہ یہ برطانیہ کی طرف سے اس ملک پر مامور کیا گیا حکمراں تھا۔ اس کا نام بھی وہاں لکھا ہوا ہے، جنگل کا نام بھی اسی کے نام پر ہے۔ یعنی ثقافتی اعتبار سے وہ ہنوز خود کو نجات نہیں دلا سکے ہیں۔ یہ ہے دنیا کی حالت!

 ہمارا انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام اس صورت حال کے خلاف سینہ سپر ہو گیا اور اس نے ایران کو اس دلدل سے باہر نکال لیا، پوری طرح باہر کھینچ لیا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ آپ یہ نہ کہئے کہ "آپ پوری طرح کیسے کہہ سکتے ہیں جبکہ مغربی ثقافت کے بہت سے عناصر ہنوز ہمارے ملک پر حکمفرما ہیں۔" ہاں ایسا ہے، لیکن یہ خلاف ورزی ہے۔ اسلامی انقلاب آئيڈیالوجی کے اعتبار سے، فکری اعتبار سے، ثقافتی اعتبار سے، اقتصادی اعتبار سے، سیاسی اعتبار سے، ملک کے انتظام و انصرام کے تمام امور کے اعتبار سے، مغرب کے مد مقابل کھڑا ہے۔ یہ جو 'نہ مشرقی نہ مغربی' کا نظریہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے نعرے کے طور پر پیش کیا، اس کا مطلب یہی تھا کہ تسلط پسندی کا کوئی عنصر اس میں نہیں ہے۔ البتہ ایسا ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر کوئی قانون بنایا گیا ہے، وضع کیا گيا ہے لیکن کہیں کہیں اس قانون کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے، یہ ایک الگ صورت ہے اور سرے سے قانون ہی نہ ہو تو یہ بالکل الگ بات ہوگی۔ اسلامی جمہوریہ میں یہ ضابطہ اور قانون بنا کہ تسلط کے شکار ملک پر تسلط پسند نظام کی جانب سے جو چیزیں مسلط کی جاتی ہیں ان سے باہر نکلنا اور نجات حاصل کرنا ہے، مسلمہ اور یقینی اصول ہے۔

اسلامی جمہوریہ اپنی مزاحمت میں کامیاب رہی، استقامت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہی۔ یعنی واقعی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام حربے آزمائے گئے۔ ان عزیز دوستوں اور ان عزیز نوجوانوں کے بقول، جنھوں نے آج کے سانحے (4) کے بارے میں گفتگو کی اور واقعی بہترین انداز میں گفتگو کی، آج کی نسل اور تہرانی شہری بھی دیکھے کہ دہشت گردی کیا ہوتی ہے؟ دہشت گردانہ کارروائی کیسی ہوتی ہے؟ کیسے دو، تین یا  پانچ لوگ کسی سانحے میں بے گناہ مارے جاتے ہیں اور حملہ کرنے والے افراد کون ہیں؟ یہ صورت حال دو تین سال تک پورے ملک میں حکمفرما رہ چکی ہے۔ دشمن نے اس حربے کو بھی استعمال کیا، جنگ کو استعمال کیا، بغاوت کا حربہ بھی استعمال کیا، تشہیراتی وسائل کا بھی سہارا لیا، پابندیوں کو بھی آزمایا، اس نظام کے خلاف، اس انقلاب کے خلاف، اس عظیم تحریک کے لئے انھوں نے سارے حربے استعمال کئے لیکن کامیاب نہیں ہو پائے جبکہ اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، اس تحریک نے خود کو آگے بڑھایا، عالمی حالات میں اپنے لئے جگہ بنائی، اسلامی نظام کو وجود بخشا۔

کچھ لوگ بدبداتے ہیں کہ 'اسلامی نظام کارآمد نہیں ہے' کیوں؟ اس لئے کہ فلاں وزارت کی کارکردگی خراب رہی! جی نہیں، اگر یہ نظام کارآمد نہ ہوتا تو اب تک دس دفعہ نگلا جا چکا ہوتا، ختم ہو چکا ہوتا۔ اس نظام کی افادیت کا سب سے بڑا ثبوت اس کی بقا اور اس کا وجود ہے۔ اگر کوئی سسٹم ثابت قدمی سے کھڑا ہے، اپنا موقف صریحی طور پر بیان کر رہا ہے، کسی مروت اور رواداری میں نہیں پڑتا بلکہ اپنا موقف دو ٹوک انداز میں ساری دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے، جبکہ ہمیں دشمنیوں کا بھی علم ہے، ہم ان دشمنیوں سے غافل نہیں ہیں، نظام کے عمائدین، نظام کے حکومتی اور عوامی ادارے اس سے با خبر ہیں، لیکن اس کے باوجود ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ بہت عجیب ڈیولپمنٹ ہے۔ اس نظام کے کارگر ہونے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اسی سمت و جہت کے ساتھ اس نے اپنا وجود قائم رکھا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس نے جو وسیع پیمانے پر پیشرفت حاصل کی ہے وہ اپنی جگہ ہے، جس کا ذکر بعض برادران گرامی نے کیا۔ میری ایک اہم سفارش یہی ہے کہ مومن اور انقلابی نوجوان کو اسلامی نظام کی حصولیابیاں اور کامیابیاں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اسلامی نظام کی کامیابیاں ایک دو نہیں ہزاروں ہیں۔ ابھی ذکر ہوا کہ ماضی میں مثال کے طور پر ہمارے ملک میں بڑی تعداد میں ہندوستانی اور فلپائنی ڈاکٹروں کی خدمات لی جاتی تھیں۔ مگر آج بہترین ڈاکٹر، بہترین اسپیشلسٹ اور ماہرین ملک میں موجود ہیں۔ یہ تو صرف ایک گوشہ ہے، ایسے نمونے اور اس طرح کی کامیابیوں کے درجنوں بلکہ سیکڑوں شعبے ہیں جو توجہ طلب ہیں۔

بہرحال اس انقلاب نے ہمیں ہماری شناخت دلائی، اعلی اہداف دئے، یہ بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی شناخت کا علم ہوا، ہمیں معلوم ہوا کہ ہم کیا ہیں، ہمیں معلوم ہوا کہ ہم عالمی سیاست اور تسلط پسندانہ نظام کے ہاضمے میں ضم ہو جانے والی قوم نہیں ہیں، ہم اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں، اپنے الگ اہداف رکھتے ہیں، انقلاب نے ہمیں اہداف عطا کئے ہیں، بہت سے اہداف عطا کئے ہیں جن کا میں ابھی ذکر کروں گا۔

یہ شرمناک حصار توڑ دیا گیا تو ظاہر ہے کہ مجبورا ایک مقابلہ آرائی بھی شروع ہو گئی۔ جب اس طرح  کی صورت حال پیدا ہو تو فریق مقابل کون لوگ ہوتے ہیں؟ میں نے اس دن (امام حمینی کے) مزار پر کہا (5) کہ بڑی طاقتیں، بااثر حلقے اور بااثر سیاسی مراکز جو آج امریکہ میں اور یورپ میں حکومتوں کو اقتدار میں لاتے ہیں اور اقتدار سے بے دخل کرتے ہیں! کسی حکومت کو اقتدار دلاتے ہیں اور کسی کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر کر دیتے ہیں، یہ سارے حلقے اور مراکز اسلامی جمہوریہ کے خلاف صف بستہ کھڑے ہو گئے، انھوں نے اپنا زور آزمایا، اپنے وار کئے، ایک مقابلہ آرائی شروع ہو گئی، فوجی مقابلہ آرائی، نیم فوجی مقابلہ آرائی، فکری مقابلہ آرائی۔ فوجی، نیم فوجی اور فکری مقابلہ آرائی ہوئی۔ اس مقابلہ آرائی کا ایک میدان یونیورسٹیاں بھی تھیں۔

طالب علم روز اول سے ہی عمدا یا نہ چاہتے ہوئے اس پیکار کا حصہ بن گيا! تحریک کے دوان طلبہ جدوجہد میں شامل تھے۔ جب اسلامی نظام کی تشکیل عمل میں آ گئی، انقلاب کامیاب ہو گیا تب بھی یونیورسٹی دخیل رہی۔ اس جدوجہد نے بہتوں کو اپنے اندر شامل کر لیا تاہم ان میں ایک اہم مرکز اور صنف یونیورسٹی اور طلبہ کی صنف تھی۔ اس زمانے میں دشمن کی نظر یونیورسٹی اور طلبہ پر تھی اور اوائل انقلاب میں یونیورسٹی پر غلبہ حاصل کر لیا۔ یعنی دشمن، یونیورسٹی پر مسلط ہو گیا۔ آپ میں سے بہت سے لوگ اس وقت شاید پیدا بھی نہیں ہوئے ہوں گے، اگر تھے بھی تو یونیورسٹی میں تو یقینا نہیں پہنچے ہوں گے۔ البتہ میں اس زمانے میں ہر ہفتہ یونیورسٹی میں ایک جلسہ کرتا تھا۔ ہر ہفتہ تہران یونیورسٹی کی مسجد میں جاتا تھا، نماز، تقریر اور پھر سوال و جواب کا دور۔ طلبہ اکٹھا ہوتے تھے، سوال کرتے تھے، شبہات بیان کرتے تھے، اپنی بات رکھتے تھے، ہم جواب دیتے تھے۔ یونیورسٹی میں اس وقت واقعی جنگ تھی، تہران یونیورسٹی میں فائرنگ کے واقعات ہوتے تھے۔ ایک دفعہ تو ایسا ہو گیا کہ میں حسب معمول پیر یا اتوار کو جاتا تھا، جب میں یونیورسٹی کے سامنے پہنچا تو کچھ لوگوں نے آکر کہا کہ آپ اندر نہ آئیے۔ یونیورسٹی کے اندر حالات خطرناک ہیں۔ ہمارے ساتھ کچھ محافظ تھے، انھوں نے بھی کہا کہ اندر نہ جائیے۔ میں نے کہا کہ نہیں، مجھے یونیورسٹی کے اندر جانا ہے، مسجد میں یقینا لوگ میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ہم یونیورسٹی کے اندر پہنچے، سناٹا تھا! فائرنگ ہوئی تھی، ایک دوسرے پر فائرنگ ہوتی تھی اسی تہران یونیورسٹی کےاندر! میں یونیورسٹی کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ کوئي نہیں ہے۔ طلبہ بھی نہیں آئے ہیں، وہ ڈر گئے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ جب نوجوان ڈر گئے ہیں تو ہم تو بہ درجہ اولی ڈریں گے۔ ہم لوٹ آئے (6)۔ یونیورسٹی کے اندر اس طرح کے حالات تھے۔ یونیورسٹی واقعی میدان جنگ بن گئی تھی۔ یہ دشمن کے تسلط کا نتیجہ تھا۔ یہ کون لوگ تھے؟ لیفٹسٹ بھی تھے اور سلطنتی نظام کے حامی بھی تھے! یہی جو ایک زمانے میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا تھے، اب انقلاب کے خلاف، اسلامی نظام کے خلاف اور امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے خلاف ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر متحد ہو گئے تھے، ایک ساتھ جمع ہو گئے تھے۔ ساواک (شاہی دور کی خوفناک خفیہ ایجنسی) سے وابستہ افراد بھی تھے۔ ساواک سے وابستہ افراد کے بھی بیوی بچے تھے، ان کے گھروں کے نوجوان اور طالب علم تھے۔ وہ بھی ساتھ ہو گئے تھے۔ مارکسسٹ لیفٹسٹ بھی تھے، 'فدائیان خلق' بھی تھے، مجاہدین اور یہی سب جن کو آپ پہچانتے ہیں، جن کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا، پڑھا ہوگا۔ یہ سارے کے سارے گروہ مسلمان طلبہ کے مد مقابل تھے۔

البتہ مسلمان انقلابی طلبہ نے یونیورسٹی پر غلبہ حاصل کیا۔ آپ یہ بات یاد رکھئے۔ یعنی بحثوں میں بھی انقلابی طلبہ نے یونیورسٹی کو فتح کیا اور مقابلہ آرائی میں بھی یہی ہوا، ان طلبہ نے یونیورسٹی کو فتح کیا۔ ان حالات کے نتیجے میں یونیورسٹی بند ہو گئی۔ لیکن بعد میں خود مسلمان طلبہ کے اندر داخلی مشکلات پیدا ہو گئيں۔ یعنی مسلمان طلبہ نے یونیورسٹی کو فتح کیا، انھوں نے جاسوسی کے مرکز (امریکی سفارت  خانہ) کو فتح کیا، لیکن خود داخلی طور پر مغلوب ہو گئے! یہ میری نظر میں بہت اہم نکتہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ تجزئے میں خامی تھی، فکری گہرائی میں کمی تھی، ہیجان بہت تھا، اس زمانے کے بعض طالب علم تو ہم لوگوں کو بھی جو نئے نئے جیل سے چھوٹے تھے، جلا وطنی وغیرہ کے مراحل سے گزر چکے تھے، انقلابی ہی نہیں مانتے تھے! یعنی جب ہمارے بارے میں رائے ظاہر کرتے تھے تو ہمیں غلط ٹھہراتے تھے۔ یہی لوگ جو آج بھی ہیں، ان میں سے بعض آج بھی موجود ہیں۔ یعنی واقعی آرتھوڈکس تھے۔ آرتھوڈکس انقلابی طالب علم جو اندر سے خالی تھا، فکر و ذہن میں مضمون کا خلا تھا، وہ حساس مقام پر پہنچ کر شکست کھا گیا۔ واقعات بہت سارے ہیں، میں یہاں ان واقعات کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، بس یونیورسٹی کے واقعات کی جڑ کی طرف اشارہ کرکے گزر جانا چاہتا ہوں۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان برسوں میں یونیورسٹی کو جدوجہد کے میدان سے خارج کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں، اس لئے کہ یونیورسٹی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یونیورسٹی اگر انقلاب کی خدمت کرے تو بہت اہم ہے، دوسرے مختلف طبقات سے اس کی تاثیر زیادہ ہے۔ اس لئے کہ ایک تو یہاں سب نوجوان ہیں، کام کے لئے آمادہ ہیں، فعال ذہن کے مالک ہیں، ذی فہم ہیں، یہ بڑی اہم خصوصیات ہیں۔ اپنے گرد و پیش کے ماحول پر وہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی انقلابی طالب علم اپنے گرد و پیش کے ماحول پر اپنا اثر ڈال سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو اپنے گھر پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کے بعد متعلقین پر، دوستوں پر اور پھر سماج پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لئے یونیورسٹی کو انقلابی ماہیت سے باہر نکالنے کے لئے بڑی محنت کی گئی، بڑا کام ہوا، اس میدان میں بڑی سیاسی کاوشیں انجام دی گئیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مواقع پر ملک کے اندر سے بھی ایسے عناصر کی مدد کی گئی جو یونیورسٹی سے انقلابیت کو دور کرنے کی کوشش میں تھے، یونیورسٹی سے اور طلبہ کے ماحول سے انقلاب پسندی و دینداری کے جذبے کو دور کرنے کی کوشش میں تھے۔ یہ تمہید تھی۔

میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں، ویسے مجھے معلوم ہے کہ ملک میں طلبہ کی پوری صنف ہے، جو تنظیمیں اور گروپ یونیورسٹیوں میں ہیں، جو رجحانات و فکری میلانات ہیں ان سب کے نمائندے یہاں نہیں ہیں۔ یہ مجھے معلوم ہے۔ آج ملک کی یونیورسٹیوں میں جو حالات ہیں ان سے میں بے خبر نہیں ہوں۔ تاہم میرا خطاب انقلابی حلقوں سے ہے، انقلاب کے امور سے دلچسپی رکھنے والے گروپس سے ہے۔ میرا خطاب ان سے ہے جو انقلاب سے محبت کرتے ہیں، ان سے ہے جو اسلامی انقلاب کو حقیقت میں ملک کی نجات کا ضامن اور مستقبل کا نگہبان مانتے ہیں۔ میرا خطاب ان سے ہے۔ میرا یہ کہنا ہے کہ آپ طلبہ کو چاہئے کہ خود کو اس پیکار میں فرنٹ لائن پر محسوس کیجئے۔ ایک مقابلہ آرائی ہے جو جاری ہے، ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، ممکن ہے کہ حال فی الحال ختم بھی نہ ہو، جاری رہے، آپ اس مقابلہ آرائی میں خود کو فرنٹ لائن کا حصہ سمجھئے اور خود کو فرنٹ لائن پر پہنچائیے۔ مقابلہ آرائی کے اس میدان کو دیکھئے۔ ایک بڑی کمی یہی ہے کہ بعض لوگ اس مقابلہ آرائی کو محسوس ہی نہیں کر پاتے، پیکار کے میدان کو نہیں دیکھ پاتے، انھیں احساس ہی نہیں کہ ہم کسی مقابلہ آرائی میں شامل ہیں۔ اس مقابلے سے اپنے رابطے کو مد نظر رکھئے۔ طالب علم کے اندر انسانی ذمہ داری کا احساس، ملی ذمہ داری کا احساس، دینی ذمہ داری کا احساس، سماجی ذمہ داری کا احساس اور بین الاقوامی ذمہ داری کا احساس بیدار رہنا چاہئے۔ طالب علم سے اس کی توقع کی جاتی ہے۔

ملکی مسائل پر طالب علم کی نظر؛ یہاں طلبہ نے جو ناقدانہ جائزہ پیش کیا اس کی میں سو فیصدی حمایت کرتا ہوں۔ ویسے ممکن ہے کہ بعض تنقیدیں صحیح نہ رہی ہوں، مجریہ کے تعلق سے کی گئی تنقیدیں، عدلیہ پر کی جانے والی تنقیدیں، رہبر انقلاب کے دفتر پر کی جانے والی تنقیدیں، ممکن ہے کہ پوری طرح درست نہ ہوں، لیکن ناقدانہ نگاہ سے مسائل کو دیکھنے کی میں حمایت کرتا ہوں۔ طلبہ اور یونیورسٹی کی فضا سے یہ ناقدانہ نظر ختم نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں ناقدانہ طرز نگاہ اور اعلی ہدف کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کی جانی چاہئے، طالب علم کو چاہئے کہ خامیوں کو دیکھے، عیوب کو دیکھے اور سوال کرے۔ اب ممکن ہے کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کا جواب نہ دینے کی معقول وجہ رکھتا ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سوال نہ کریں۔ سوال ضرور کیجئے۔ سوال کرنے کا جذبہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر طالب علم کے اقدار اور اہداف کا جز اور پسندیدہ جذبہ ہے۔

عارضی شکست سے طالب علم کو کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، اس پر آپ توجہ رکھئے۔ یہ سب باتیں کہ 'ہم نے فلاں موقع پر بہت کہا لیکن نہیں ہوا، فلاں موقع پر ہم فلاں چیز چاہ رہے تھے، حاصل نہیں کر سکے' آپ کو ہرگز مایوسی میں مبتلا نہ کرنے پائیں۔ اگر شکست سے مایوس ہونا ہوتا تو ہم تحریک انقلاب کے دوران اور آٹھ سالہ جنگ کے دوران سیکڑوں بار مایوسی میں مبتلا ہوتے اور پسپائی اختیار کر لیتے۔ رات کے وقت گھر پر دبش ڈالتے تھے اور بیوی بچوں کے سامنے ایک انسان کی پٹائی کرتے تھے، ہتھکڑیاں ڈالتے تھے اور لیکر چلے جاتے تھے، اس سے بھی زیادہ بہت کچھ پیش آتا تھا۔ اگر انسان کوئی ضرب پڑ جانے سے یا ہماری اس بیٹی کے بقول زدوکوب سے مایوس ہو جاتا، پریشان ہو جاتا تب تو جدوجہد کے اس دور میں جو لوگ تحریک کا حصہ تھے ان پر تو مایوسی ہی طاری ہو جانی چاہئے تھی۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ اگر وہ مایوس ہو جاتے تو تحریک کامیاب نہ ہو پاتی۔ جنگ میں بھی ایسا ہی تھا۔ جنگ میں بارہا ایسا ہوا کہ ہم جو تصور کر رہے تھے اور ہمارا جو اندازہ تھا عملی میدان میں وہ رونما نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر 'رمضان آپریشن' میں ہم یہ تصور کر رہے تھے کہ کارروائی آگے بڑھے گی، گرمی کا موسم بھی تھا، شدید گرمی پڑ رہی تھی، رمضان کا مہینہ تھا۔ ہمارے بہت سے جوان شہید ہو گئے اور آپریشن ناکام ہو گیا تو کیا ہم مایوس ہوئے؟ کیا وہ مایوس ہوئے؟ کربلا 4 آپریشن میں بھی یہی ہوا۔ مقدماتی و الفجر آپریشن میں بھی یہی ہوا۔ مقدماتی و الفجر آپریشن میں رضاکاروں کی بہت بڑی تعداد محاذ جنگ پر پہنچی۔ ایک علاقے کا پہلے سے تعین ہو چکا تھا اور تقریبا یقین تھا کہ اس آپریشن میں ہم آگے بڑھیں گے اور کامیاب ہوں گے۔ یہ آپریشن عراق کے عمارہ علاقے کے قریب ہونا تھا، لیکن آپریشن کی بات کھل گئي تھی اور بڑی عجیب شکست اٹھانی پڑی۔ اگر انسان وقتی شکست اور وقتی پسپائی یا اس طرح کی دیگر چیزوں سے مایوس ہو جائے تب تو کچھ بھی نہیں ہو پائے گا۔ ہرگز نہیں، اپنی زندگی میں وقتی اور عارضی ناکامیوں کی وجہ سے مایوسی نہیں آنی چاہئے۔

ایک اور نکتہ بھی ہے جس کی طرف میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں؛ تمام کامیابیاں اور تمام حصولیابیاں جن میں بعض تو واقعی بے نظیر ہیں، ہمیشہ آپ کے مد نظر رہیں۔ یعنی انقلاب پر آپ کو فخر ہونا چاہئے۔ میرے عزیزو! آج مغربی ایشیا کے خطے میں دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کی پالیسیاں فیل ہو چکی ہیں، کام نہیں کر رہی ہیں، خود ان کا اعتراف ہے کہ ایسا اسلامی جمہوریہ ایران  کی قوت اور اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ وہ عراق کی، شام کی یا علاقے کے کسی اور ملک کی جو درگت کرنا چاہتی تھیں نہیں کر پائیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ یہی تو چاہتے تھے، انقلاب یہی تو چاہتا تھا۔ انقلاب کی جو خواہش تھی وہ پوری ہوئی جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی یعنی اکیلے امریکہ نہیں، جو چاہتے تھے وہ نہیں کر پائے۔ یہ ایک مثال ہے۔ اس طرح کی بہت سی کامیابیاں، بہت سی توانائیاں، بہت سی پیشرفت ہے، اسے آپ کبھی فراموش نہ ہونے دیجئے۔ دشمن کی ایک چال یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے، آپ کو شکست ہو گئی، آپ سے کچھ ہونے والا نہیں ہے، آپ ختم ہو گئے، آپ کا کام تمام ہو گیا۔ یہ دشمن کا ایک حربہ ہے۔ اس حربے کو ہرگز کامیاب نہ ہونے دیجئے۔ البتہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ ہیں جو دشمن کی خواہشوں کو بہ آواز بلند یہاں بیان کرتے ہیں، ذکر کرتے ہیں۔ ملک میں ایسے افراد بھی ہیں کہ دشمن معاشرے کی رائے عامہ میں جو خیالات پیدا کرنا چاہتا ہے وہی اخبارات وغیرہ میں اور سوشل میڈیا کے میدان میں، ظاہر ہے اب سوشل میڈیا کا میدان بھی دستیاب ہے، پوری آواز سے بیان کرتے ہیں۔ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ جہاں تک فکرمند ہونے کی بات ہے، انتباہ دینے کی بات ہے، نظام کی مشکلات و مسائل کو شکایت آمیز انداز میں اٹھانے کی بات ہے تو میں اس کی سو فیصدی حمایت کرتا ہوں۔ 

البتہ یہ بات حاشئے کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ نظام کے اندر موجود مشکلات سے نمٹنے کا انداز معالجانہ اور طبیبانہ ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر ممکن ہے کہ کبھی اپنے مریض کو ڈانٹ بھی دے یا کوئی کڑوی بات بھی کہہ دے، لیکن اس کا ہدف علاج کرنا ہوتا ہے۔ دشمن کے معاملے میں ہمیشہ صریحی، ٹھوس اور خود اس کے برتاؤ یعنی معاندانہ روئے کے مطابق موقف اختیار کرنا چاہئے۔ لیکن ملک کے اندر اور نظام کے معاملے میں ایسا نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمدردانہ، معالجانہ انداز ہونا چاہئے۔ آپ بیرونی دشمن کے معاملے میں اپنا موقف طے کرنے، اپنی بات رکھنے کے لئے آزاد ہیں۔ البتہ سفارتی میدان میں کچھ رنگ و روغن ضروری ہوتا ہے، وہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہے، وہ جیسے چاہیں عمل کریں اور جس طرح چاہیں رنگ و روغن لگا کر اپنی بات رکھیں، تاہم آپ طالب علم کی حیثیت سے، طلبہ یونین کی حیثیت سے اپنی بات بلند آواز میں، صریحی اور ٹھوس انداز میں بیان کیجئے۔

ایک اہم نکتہ مجھے یونیورسٹی کے تعلق سے بھی عرض کرنا ہے کہیں بھول نہ جاؤں! وہ نکتہ یہ ہے کہ یونیورسٹی علم و دانش کا مرکز ہے۔ ہم نے اب تک جو باتیں بیان کیں، ان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یونیورسٹی علم و دانش کی جگہ نہیں رہ گئی ہے، بس وہاں سیاسی سرگرمیاں انجام دی جائیں گی۔ نہیں، یونیورسٹی کا اساسی ستون علم و دانش ہی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی میں علم کی بھی پیداوار ہونی چاہئے، صاحب علم کی بھی پیداوار ہونی چاہئے اور ساتھ ہی علم و صاحب علم کی سمت و جہت بھی درست ہونی چاہئے۔ یونیورسٹی میں یہ تینوں کلیدی نکات مد نظر رہنا چاہئے۔ صاحب علم کی تربیت جسے میں صاحب علم کی پیداوار کہتا ہوں اور علم کی پیداوار یعنی وہی جو میں کئی سال سے کہتا آ رہا ہوں، یعنی علم کی موجودہ حدوں کو عبور کرکے آگے بڑھ جانا، یہ کام ہم ابھی اس طرح سے نہیں کر سکے ہیں جو اسلامی جمہوری نظام کے شایان شان ہے۔ البتہ کچھ کام ہوئے ہیں، تاہم ہنوز ہم پیچھے ہیں۔ ہمیں علمی اعتبار سے آگے جانا ہوگا، جب علم و سائنس کے میدان میں ہم آگے بڑھیں گے تو ٹیکنالوجی کو بھی پیشرفت ملے گی، ٹیکنالوجی آگے جائے گی تو زندگی میں اس کی افادیت دکھائی دے گی، جب ٹیکنالوجی آگے بڑھے گی تو دنیا کی نگاہیں آپ کی جانب مرکوز ہوں گی، لوگوں کو آپ کی ضرورت پڑے گی، انسانوں کی زندگی میں اس کے مثبت اثرات نظر آئیں گے۔ یہ بڑے اہم مسائل ہیں۔ علم و سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے مسائل پر جیسا کہ میں بیان کرتا رہا ہوں، میری تاکید کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں فراموش نہ ہونے پائیں۔ یونیورسٹیوں کا پورا نظام جس میں یونیورسٹیوں کی انتظامیہ، وزیر محترم سے لیکر چانسلر، اساتذہ، طلبہ، نصاب کی کتب، تعلیمی سسٹم، تجربہ گاہیں وغیرہ سب شامل ہیں، اسی ہدف کے لئے اسی تناظر میں کام کرے۔ یعنی علم کی پیداوار، صاحب علم کی پیداوار اور صحیح سمت و جہت کے ساتھ۔ اس تیسرے نکتے پر توجہ رکھئے؛ علم و صاحب علم کو صحیح سمت دینا۔ مادہ پرست تمدن میں علم اور صاحب علم بدبختی کا ذریعہ بن گیا، ایٹم بم کی پیداوار کا ذریعہ بن گیا، کیمیکل ہتھیاروں کی پیداوار کا ذریعہ بن گیا، خطرناک وائرس کی پیداوار کا باعث بن گیا جنھیں آج بڑی طاقتیں افسوس کی بات ہے مختلف طریقوں سے استعمال کر رہی ہیں اور معاشروں کے اندر پھیلا رہی ہیں۔ علم کی یہ حالت ہو گئی، علم اپنے راستے سے منحرف ہو گيا۔ علم کی سمت صحیح ہونی چاہئے، انسانوں کے ارتقا اور مفاد کی سمت ہونی چاہئے۔ تو یہ بھی ایک نکتہ ہے طالب علم اور طلبہ سے متعلق مسائل کے بارے میں۔

جہاں تک طلبہ یونینوں کی بات ہے، البتہ میں بتا دوں کہ مجھے معلوم ہے کہ یونیورسٹی میں گوناگوں یونینیں ہیں، سال گزشتہ بھی میں نے کہا تھا ڈسپوزیبل یونینیں (7)! بعض یونینیں اس انداز کی بھی بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر انتخابات سے پہلے بنتی ہیں۔ کچھ اور یونینیں ہیں جو ڈسپوزیبل تو نہیں ہیں لیکن ان کی تشکیل انقلابی یونینوں اور دیندار حلقوں کی مخالفت کے لئے ہوتی ہے، ان سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے۔ میں ان یونینوں کی بات کر رہا ہوں جو کسی بھی نام سے تشکیل پائیں مگر انقلابی ہیں، دیندار ہیں، اسلامی نظام پر ایقان رکھتی ہیں اور اس عظیم جدوجہد پر عقیدہ رکھتی ہیں، اب خواہ وہ کسی بھی نام سے ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرا یہ خطاب ایسی یونینوں سے ہے۔

پہلی چیز تو یہ ہے کہ اعلی ہدف کو اپنے ذہن سے کبھی نکلنے نہ دیں، اسے کبھی نہ بھولیں۔ اعلی اہداف کیا ہیں؟ ایک منصف، آزاد، پیشرفتہ، دیندار، اطاعت شعار، آسائشوں سے بہرہ مند، متحد اور قوی و مستحکم سماج۔ یہ اعلی اہداف ہیں۔ یہ ایسے گراں قدر اہداف ہیں کہ انسان اس راہ میں، اللہ کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر دے تو حق بجانب ہے۔ اسی لئے سورہ نساء کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے؛ وَ ما لَکُم لا تُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ المُستَضعَفینَ مِنَ الرِّجالِ وَ النِّسآءِ وَ الوِلدان (۸) یہی تو ہے، یعنی ملک کو نجات دلانے کی خاطر، مستضعفین کی نجات کی خاطر، قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ البتہ یہ آیت قتال کی آیت ہے، اس پر توجہ رہے، ہمارے برادر عزیز نے اس آیت کو پیش کیا،  تاہم یہ قتال کی آیت ہے، جہاد کی آیت نہیں ہے اور قتال و جہاد میں فرق ہے۔ دونوں میں 'عموم خصوص مطلق' کی نسبت ہے۔ بنابریں اسلام کا یہ اصول ہے، اسلام کا یہ موقف ہے کہ اعلی اہداف کی راہ میں آگے بڑھنا چاہئے۔ میں نے جو اعلی اہداف گنوائے انھیں صفات کا حامل معاشرہ آپ کا نصب العین ہے۔ اعلی اہداف کو کبھی فرموش نہ کیجئے۔

حقیقت پسندی؛ حقیقت پسند بنئے! میں نے ایک بار یہیں پرماہ رمضان میں ملک کے اعلی عہدیداران کے اجلاس میں (9) کہا۔ ہم سے بار بار کہتے ہیں کہ حقیقت پسند بنئے، حقیقت پسندی سے کام لیجئے! حقیقت پسندی سے ان کی مراد یہ ہے کہ در پیش رکاوٹوں کو دیکھئے! تو میں بھی کہتا ہوں کہ حقیقت پسند بنئے، یعنی مثبت حقائق کو دیکھئے۔ نوجوان آبادی کو، با صلاحیت آبادی کو، غیر معمولی انسانی توانائیوں کو، ملت کی غیر معمولی استعداد کو، زیر زمین وسائل کو، جغرافیائی محل وقوع کو، اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت کو۔ انھیں دیکھئے، یہ حقائق ہیں۔ یہ ان حقائق کا جز ہیں جنھیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

حقائق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب آپ اعلی اہداف کے حامل ہیں اور ان اہداف کی جانب پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی توجہ اس بات پر بھی رہنی چاہئے کہ انسان کسی معجزے کی مدد سے ان اہداف تک خود کو پہنچا لے گا۔ نہیں، مشکلات در پیش ہوتی ہیں، رکاوٹیں آتی ہیں، ان رکاوٹوں کے درمیان سے آپ کو اپنا راستہ نکالنا ہے، اسے کہتے ہیں حقیقت پسندی۔ آپ نے بڑی اچھی چیزیں بیان کیں، رکاوٹوں کو بخوبی گنوایا، مگر سوال یہ ہے کہ ان رکاوٹوں کے درمیان کیا کوئی راستہ ہے جس سے آگے بڑھا جائے یا نہیں؟ چاروں طرف نظر دوڑائیے اور راستہ تلاش کیجئے! میں یہ عرض کر دوں کا راستہ یقینا موجود ہے، آپ کو وہ راستہ تلاش کرنا ہے۔ اسے کہتے ہیں حقیقت پسندی۔ البتہ یہ ساری بحثیں سنجیدہ فکری بحثیں ہیں جنھیں مغرب نواز افراد کے بقول 'تھیئوریٹیکل ڈسکشن' کہتے ہیں۔ یہ جو چیزیں میں عرض کر رہا ہوں ان پر فکری کام ہونا چاہئے۔

تیسری سفارش؛ طلبہ یونینیں تماشائی بننے کے بجائے سرگرم کردار ادا کریں۔ یونین کی روش یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کسی میدان میں پیشرفت حاصل ہوئی تو خوشیاں منائے اور اگر کسی مسئلے میں پیشرفت نہیں ہو سکی تو غمزدہ ہو جائے۔ نہیں، ہمیشہ سرگرم عمل رہنا چاہئے، دونوں ہی صورتوں میں سرگرم کردار ادا کرنا چاہئے۔ تماشائی نہیں بننا چاہئے۔

میری اگلی سفارش؛ طلبہ یونینوں کا ایک فریضہ یونیورسٹی میں انقلاب کے نظرئے کو بالادستی دلانا ہے۔ یہ نہ کہئے کہ اب تو یونیورسٹی میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ جناب اب یونیورسٹی میں کچھ کر پانا ممکن نہیں ہے۔ بالکل نہیں جناب! یونیورسٹی میں بہت کچھ کام کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی میں خوب کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی میں یہ کام کسے کرنا ہے؟ آپ کو۔ آپ طلبہ یونینوں کو یونیورسٹی میں کام کرنا ہے۔ البتہ میرا یہ خطاب اس جلسے کے باہر بھی تمام لوگوں سے ہے۔ میں ملک بھر میں تمام فکری، عملی اور ثقافتی اداروں سے مسلسل کہہ رہا ہوں کہ ہر کوئی کام کرے! اپنے طور پر کام کرے! میدان جنگ کی اصطلاح کے مطابق 'weapons free ' کی طرح عمل کیجئے۔ البتہ جنگ میں سینٹرل کمانڈ بھی ہوتی ہے جو احکامات صادر کرتی ہے، لیکن اگر سینٹرل کمانڈ سے رابطہ منقطع ہو جائے یا وہاں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو ایسی صورت میں کمانڈر 'weapons free ' کا حکم جاری کرتا ہے۔ ظاہر ہے آپ فکری جنگ کے افسران ہیں۔ آپ کو فکری جنگ کے کمانڈروں کی طرح عمل کرنا ہے۔ آپ کو جب بھی محسوس ہو کہ سینٹرل کمانڈ میں کوئی خرابی آ گئی ہے اور وہ امور کو بخوبی انجام دے پانے سے قاصر ہے تو وہاں آپ 'weapons free ' کی پوزیشن میں ہیں۔ یعنی خود فیصلہ کیجئے، خود غور کیجئے، خود عمل کیجئے اور  خود اقدام کیجئے!

 بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرکزی اداروں میں کچھ خلل واقع ہو گیا ہے، کام نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جب ملک میں متعدد اہم ثقافتی و علمی مسائل در پیش ہیں، میں شاید دس ثقافتی موضوعات ابھی گنوا سکتا ہوں جو مشکلات سے دوچار ہیں، مثال کے طور پر آپ فلمسازی کے شعبے کو لے لیجئے جو واقعی بہت اہم مسئلہ ہے، یعنی یہ بہت اہم ثقافتی مسئلہ ہے کہ فلمسازی کی صنعت کو کس انداز سے چلایا جا رہا ہے، اسے کہاں سے سپورٹ کیا جا رہا ہے، کبھی فلموں کو غیر ملکی سپورٹ بھی مل جاتا ہے، مگر ملک کے اس آرٹ اور فلمسازی کے شعبے کے انتظامی امور سنبھالنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، تو اسی طرح کے دس مسائل پیش کئے جا سکتے ہیں، لیکن اچانک آپ کیا دیکھتے ہیں کہ مثلا اس مسئلے کو کلیدی مسئلہ بنا دیا گیا ہے کہ فلاں صوتی کلپ افطار سے قبل نشر کی جائے یا نہ کی جائے، اسی ایشو پر مراسلہ نگاری شروع ہو جائے (10) تو صاف ظاہر ہے کہ اس ادارے میں کوئی خلل واقع ہو گیا ہے کہ اصلی  اور کلیدی مسائل کی شناخت نہیں کر پا رہا ہے اور ایک بالکل ہی غیر اہم اور فروعی مسئلے کو بنیادی اور محوری مسئلہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ جب مرکزی اداروں میں اس طرح کا خلل واقع ہو جائے تو ایسی صورت میں وہی 'weapons free ' کی نوبت آتی ہے جو میں نے ابھی ذکر کی (11)۔

حقیقی روش تخاطب پر توجہ؛ سائیبر اسپیس بہت اچھی چیز ہے، بہت بڑی سہولت ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ کچھ لوگ پیغام رسانی کے لئے بس ٹویٹر وغیرہ سے چپک کر رہ گئے ہیں۔ اس کا فائدہ نہیں ہے۔ حقیقی تخاطب ضروری ہے۔ گول میز کانفرنس ضروری ہے، تقریر ضروری ہے۔ جرائد ضروری ہیں، دو فریقی اور سہ فریقی مباحثہ ضروری ہے، تجزیاتی بحث کی نشست ضروری ہے، مخاطب افراد کے ساتھ اس انداز سے بیٹھئے اور اس طرح کے اقدامات کیجئے۔

میری اور ایک سفارش چند اہم 'کی ورڈ' کے بارے میں ہے جنھیں آپ فراموش نہ کیجئے!

حکومت میں عوام کے کردار کا موضوع ایک اہم 'کی ورڈ' ہے۔ یہ اہم باب ہے ۔ بعض اچھے انقلابی نوجوان کبھی تعجب کرتے ہیں کہ وہ تو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ انتخابات میں شرکت کیجئے، شرکت کیجئے۔ مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ کیوں ہمیشہ کہتے ہیں کہ آئیے انتخابات میں شرکت کیجئے۔ میرے بھائی! اس بات پر توجہ رکھئے کہ مصیبت کا دن وہ ہے جب عوام بیلٹ باکس سے برگشتہ ہو جائیں، یہ بڑی مصیبت ہے اور دشمن یہی چاہتا ہے۔ آپ نے شاید مجھ سے پہلے سنا ہوگا، میں نے بھی سنا کہ کچھ آوازیں بلند ہوئیں، وہ اس آرزو میں ہیں، اس انتظار میں ہیں کہ نوے فیصد لوگ ووٹنگ میں حصہ نہ لیں۔ اس وقت ان لوگوں نے یہ کہا کہ 20 فیصدی سے زائد رائے دہندگان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ پولنگ مراکز پر نہیں آئے۔ کہتے ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ 90 فیصدی رائے دہندگان پولنگ مراکز سے دور رہیں۔ تو مصیبت کا دن وہ ہوگا۔ میں یہ چیز دیکھ رہا ہوں؛ پولنگ میں عوام کی بھرپور شرکت بہت بڑی نعمت ہے۔ عوام کا اقتدار یہ بہت اہم ک یورڈ ہے۔ اسے ہرگز فراموش نہ کیجئے۔ آپ چاہتے ہیں کہ عوام فلاں کیلئے پولنگ مرکز پر آئیں اور فلاں کے لئے نہ آئیں۔ تو آپ محنت کیجئے تاکہ وہ نتیجہ نکلے جو آپ چاہتے ہیں۔ کبھی بھی پولنگ میں عوام کی شرکت کے عمل میں سد راہ نہ بنئے۔

خود مختاری کا مسئلہ بھی میں نے عرض کیا کہ حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہی 2030 دستاویز کا معاملہ، 2030 دستاویز کا قضیہ بھی ایسے ہی مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ خود مختاری کا معاملہ ہے۔ اب کچھ لوگ آکر کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اس دستاویز کی فلاں فلاں شق کو ہم تسلیم نہیں کرتے! جی نہیں، ہمیں اس سے بحث نہیں ہے۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ اس دستاویز میں اسلام سے صریحی طور پر تضاد رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہے، حالانکہ ایسی چیزیں اس میں موجود ہیں، ان لوگوں کا یہ خیال درست نہیں کہ ہمیں اس کی صحیح رپورٹ نہیں ملی ہے، ایسا نہیں ہے، ہمیں جو رپورٹ ملی ہے بالکل صحیح ہے، میرا موقف یہ ہے کہ تعلیمی نصاب ملک کے باہر نہیں لکھا جانا چاہئے، یہ میرا موقف ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر اس میں کچھ اسلام کے خلاف نہیں ہے، اسلام کے خلاف ہو یا نہ ہو! یہ ایران ہے، یہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہمارے تعلیمی نصاب کی نگارش یونسکو میں چار لوگوں کے ہاتھوں انجام پائے! کیوں؟! یہ بھی خود انحصاری کا مسئلہ ہے، خود مختاری کے دائرے کا پھیلاؤ یہاں تک ہے۔

تسلط پسندانہ نظام کی نفی کرنا، بنیادی باب ہے۔

آزادی کا موضوع بھی بنیادی باب ہے، آزادی کی صحیح تشریح کیجئے۔

انصاف و مساوات کا موضوع بھی بنیادی باب ہے۔ اسی طرح دیگر موضوعات۔

انھیں آپ بیان کیجئے۔ یعنی طلبہ یونینوں کو میری سفارش یہ ہے کہ ان کلیدی موضوعات کی صحیح طریقے سے تشریح کیجئے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے فرمودات وغیرہ سے اس کے لئے استفادہ کیجئے۔

ایک اور سفارش گفتار و رفتار میں دینداری اور بندگی پروردگار ہے۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گا کہ جب کئی سال پہلے میں نے سنا کہ طلبہ کا ایک گروپ جو ہم سے متعلق تھا اور بہت پرجوش، اس کے ایک پروگرام میں خلاف شریعت ایک عمل انجام پایا۔ میں بہت فکرمند ہوا۔ اس لئے نہیں کہ انھوں نے گناہ کا ارتکاب کیا، یہ تو اپنی جگہ پر تشویش کی بات تھی ہی، مجھے زیادہ فکر اس بات کی ہوئی کہ انھوں نے اپنا راستہ بدل لیا ہے۔ بعد میں دیکھا تو واضح ہو گیا کہ ایسا ہی تھا۔ یعنی واقعی «ثُمَّ کانَ عاقِبَةَ الَّذینَ اَسآؤُا السّواىٰ‌ اَن کَذَّبُوا بِایٰتِ الله‌» (۱۲)، جب انسان تکالیف شرعیہ پر عمل نہیں کرتا، اللہ کی بندگی کو ترک کر دیتا ہے تو اللہ تعالی اسے ہدایت کی نعمت سے محروم کر دیتا ہے۔

ایک سفارش اور ہے جرئت عمل کے بارے میں، بعض اوقات بعض یونینیں اس تذبذب میں پڑ جاتی ہیں کہ کہیں ہم نے ایسا کیا تو مثلا فلاں ادارے یا فلاں شخص کو تشویش ہو جائے گی، تکلیف پہنچے گی۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے، آپ اقدام کیجئے، لیکن جیسے ہی آپ کو اندازہ ہو کہ آپ کا اقدام غلط ہے، فورا روک دیجئے۔ یعنی وہیں سے پاؤں پیچھے کھینچ لیجئے۔ یعنی کاموں کی انجام دہی اور اقدام کی جرئت آپ کے اندر ہونی چاہئے۔ البتہ جب بھی انسان کوئی اقدام  کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں پر پہلے ہی بخوبی غور کر لے (13)۔

میری ایک اور سفارش ہے اور یہ سفارش طالبات سے ہے۔ ان دو طالبات نے واقعی بڑی اچھی تقریر کی، دونوں ہی نے بڑے اہم نکات بیان کئے۔ میری سفارش ہے طالبات سے کہ طلبہ یونینوں کے اندر جن موضوعات پر وہ کام کر رہی ہیں ان میں 'مغرب میں عورت' کا موضوع بھی شامل رہے۔ ہم نے اس مسئلے پر کم کام کیا ہے۔ البتہ چند سال قبل یہیں پر ایک نشست میں ایک خاتون نے، اب مجھے یاد نہیں کہ وہ طالبہ تھیں یا استاد، اسی موضوع پر تفصیل کے ساتھ بڑی اچھی تقریر کی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس پر کام ہونا چاہئے، اس موضوع پر کام کرنے کے لئے میدان موجود ہے۔ تو یہ رہا ایک اور نکتہ۔

آخری بات یہ ہے کہ طلبہ یونینیں یونیورسٹیوں میں امید کا جذبہ عام کریں۔ خود بھی پرامید رہیں اور دوسروں کو بھی پرامید بنائیں، نوجوانوں میں مایوسی کی حالت پیدا نہ ہونے دیں۔

آخر میں مزید دو نکات آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پہلا نکتہ کرپشن کے بارے میں ہے۔ طلبہ کی تقاریر میں بھی یہ نکتہ تھا اور میں نے سنا کے باہر بھی لوگ کہتے ہیں۔ دیکھئے میرا نظریہ یہ ہے کہ ملک میں سسٹم کرپٹ نہیں ہوا ہے۔ جو بھی کہتا ہے کہ سسٹم کرپٹ ہو گیا ہے بکواس ہے! کرپٹ سسٹم ایک الگ چیز ہوتی ہے۔ کرپٹ سسٹم طاغوت کے زمانے (شاہی دور) میں تھا۔ وہ سسٹم بنیادی طور پر بدعنوانی پیدا کرنے والا اور اسے پروان چڑھانے والا  تھا۔ اس سسٹم میں بہت ڈھونڈنے پر شاید ہی کوئی ایماندار آدمی مل پاتا تھا۔ آج ایسا نہیں ہے۔ بے شک کرپشن ہے، بہت برا کرپشن ہے، لیکن کہیں کہیں ہے، جس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ آپ نے جو شفافیت پر زور دیا ہے اور شفافیت لانے کی بات کہی ہے تو میں نے اسے نوٹ کر لیا ہے۔ بہت اچھا اور صحیح نکتہ ہے۔ یہ اپنی جگہ بالکل درست بات ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ سسٹم کرپٹ ہو گیا ہو۔ کہیں کہیں کرپشن ہے اور اس کرپشن کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا نکیہ؛ یہ بات کہ کچھ لوگ ملک کو مغربی کلچر میں غرق کر دینا چاہتے ہیں اور ملک کے اندر مغربی رجحان روز بروز پھیلانے کی فکر میں ہیں، حقیقت ہے، جی ہاں ایسا ہے۔ بعض لوگ مغربی کلچر پر اپنے ایقان و ایمان کی وجہ سے اور بعض لوگ کمزور قوت ارادی، تساہلی اور بے توجہی وغیرہ جیسے عوامل کی بنیاد پر ملک کو مغربی کلچر کی جانب کھینچ رہے ہیں۔ ایسا ہو رہا ہے۔ مگر جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا وہ انقلاب کو اس کی اصلی ڈگر سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور کیا ملک کو مغربی کلچر میں غرق کر دیں گے تو آپ سن لیجئے کہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بحمد اللہ آج جو نسل تربیت پاکر سامنے آئی ہے اور بہت وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، یہ انقلاب کی گرویدہ ہے، اسلام کی شیدائی ہے، جذبہ عمل سے سرشار ہے، یہ نسل ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گی۔ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں اس نسل کا پھیلاؤ اور اس کی گہرائی بڑھتی ہی جائے گی۔ چنانچہ آج یہاں جو باتیں آپ نے کی ہیں وہ مثال کے طور پر پانچ سال پہلے یہاں طلبہ نے جو باتیں کی تھیں ان سے کہیں زیادہ مستحکم اور عمیق ہیں۔

ملت ایران اپنے راستے پر رواں دواں ہے، آگے بڑھ رہی ہے اور آج جو 'آتش بازی' ہوئی (14) اس طرح کی حرکتوں سے عوام کے عزم و ارادے پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، اسے سب بخوبی سمجھ لیں! یہ لوگ اس سے کہیں زیادہ حقیر ہیں کہ ملت ایران اور ملک کے عہدیداران کے عزم و ارادے کو متاثر کر سکیں! البتہ جیسا کہ بعض احباب نے یہاں ذکر کیا؛ ان واقعات سے بھی ثابت ہو گیا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران انھیں علاقوں میں جو ان فتنوں کے اصلی مرکز ہیں مزاحمت نہ کرتا تو آج ملک کے اندر اس طرح کے بہت سے مسائل پیدا ہو چکے ہوتے۔ ان شاء اللہ ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔

پروردگارا! ان نوجوانوں کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرما۔ پروردگارا! ان تمام عزیز نوجوانوں کو اور ہم کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ۔ پالنے والے! بحق محمد و آل محمد آج ہمارے ان عزیزوں کی حاجات پوری فرما ان پر اپنے لطف و کرم کا سایہ فرما۔ ان عزیزوں کو اور اس حقیر کو اس مبارک مہینے میں بالخصوص شبہائے قدر میں روز افزوں لطافت و پاکیزگی عنایت فرما۔ ہمارے عظیم الشان امام اور شہدا کو پیغمبر اکرم کے ساتھ محشور فرما۔ امام زمانہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱)  اس ملاقات کے آغاز میں کچھ طلبہ نے تقریریں کیں اور بعض اہم نکات بیان کئے۔

۲)  ہندوستان کی تحریک آزادی اور کانگریس پارٹی کے رہنما اور پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو

3) پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی ایک عمارت اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر دہشت گردانہ حملہ جس میں بے گناہ عوام شہید اور زخمی ہوئے۔

4) مورخہ 4 جون 2017 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کے پروگرام کے موقع پر خطاب

5) اس پر رہبر انقلاب اسلامی اور خاضرین ہنس پڑے۔

6) طلبہ کے اجتماع سے مورخہ 22 جون 2015 کا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

7) سورہ نساء آیت نمبر 75 کا ایک حصہ؛ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں؟ ...»

8) اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں اور اہلکاروں کے اجتماع سے مورخہ 11 جولائی 2013 کا رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب

9) حاضرین کی ہنسی

10) حاضرین کی ہنسی

11) سوره‌ روم، آیت نمبر 10 کا ایک حصہ؛ «اس وقت ان لوگوں کو انجام جنہوں نے برا عمل انجام دیا بہت بدتر ہوگا، کیونکہ انھوں نے اللہ کی نشانیوں کو جٹھلایا۔..»

12) حاضرین میں سے ایک صاحب نے ہاتھ اٹھایا تو اس کے جواب میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر آپ کی تقریر کے دوران میں ہاتھ اٹھاتا تو آپ بھی خاموش نہیں ہوتے، اس لئے اب آپ نے ہاتھ اٹھایا ہے تو میں بھی چپ نہیں ہوں گا۔ اس پر رہبر انقلاب اسلامی اور حاضرین کا قہقہہ گونجا۔

13) پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کی ایک عمارت اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر دہشت گردانہ حملہ جس میں بے گناہ عوام شہید اور زخمی ہوئے۔