بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

الحمد للّه‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى ‌القاسم المصطفی محمّد و على آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة ‌الله فى الارضین. اللهمّ صلّ على ولیّک علىّ‌ بن ‌موسى الرّضا المرتضى الامام التّقىّ النّقى و علی آبائه و اولاده المعصومین المطهّرین.

بڑا اہم اجلاس ہے اور بڑے اہم اور فیصلہ کن ایام ہیں۔ اس تقریب اور اس اجلاس کے انعقاد کا حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و السلام کے یوم ولادت با سعادت سے متصل ہونا ملت ایران اور یہاں تشریف فرما افراد کے مشتاق دلوں کے لئے با برکت اور فال نیک ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ جیسا کہ اس عظیم ہستی نے اسی ملک میں اور طوس کے قریب واقع شہر یعنی نیشاپور میں سلسلۃ الذھب کی وہ معروف حدیث ارشاد فرمائی اور کلمہ توحید کو دین کی بنیاد اور ستون قرار دیا؛ کَلِمَةُ لا اِلٰهَ اِلَّا اللهِ حِصنی وَ مَن دَخَلَ حِصنی اَمِنَ مِن عَذابی (2)، ہم بھی اپنی زندگي میں خواہ وہ ذاتی زندگی ہو یا سماجی زندگی ہو یا اسلامی جمہوری حکومت کی بنیاد کا درجہ رکھنے والے اداروں میں فرائض منصبی ادا کرنے کی دفتری زندگی ہوں، کلمہ توحید کو اور حقیقت توحید کو ان شاء اللہ مستحکم بنائیں۔

اس اجلاس کی اہمیت دو پہلوؤں سے ہے۔ ایک تو یہ کہ ملک کے نئے انتظامی دور کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ امید ہے کہ ان شاء اللہ محترم منتخب صدر کے ہمراہ جو عہدیداران میدان عمل میں قدم رکھیں گے، اپنی جدت عملی سے اور اپنی توانائیوں کے استعمال سے ملت ایران کو ماضی سے زیادہ خوشنودی اور مسرت فراہم کریں گے اور ان مطالبات کو جس کا تذکرہ صدر محترم نے اپنی تفصیلی تقریر میں کیا پورا کریں گے۔

دوسرے یہ کہ یہ اجلاس جمہوریت کا آئیںہ ہے۔ اوائل انقلاب سے تا حال یہ اس انداز کا بارہواں اجلاس ہے۔ یعنی آغاز انقلاب سے بارہ بار ملت ایران نے ملک کے صف اول کے عہدیداران کے انتخاب میں اپنا رول ادا کیا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ عوام کے انتخاب سے اور عوام کے ووٹوں سے دس پارلیمانیں تشکیل پائیں، پانچ دفعہ بلدیاتی و دیہی کونسلوں کی تشکیل عمل میں آئی، پانچ ماہرین اسمبلیاں وجود میں آئیں، یہ سب اسلامی انقلاب کی برکتیں ہیں۔ ہماری نئی نسل کو فراموش نہیں کرنا چاہئے، ہم نے اسلامی انقلاب سے پہلے کا زمانہ اپنے پورے وجود سے محسوس کیا ہے، ڈکٹیٹر شپ، عوام کا حاشئے پر ہونا، حکومتی امور میں عوام کو لائق اعتنا نہ سمجھنا، ان چیزوں کو ہم نے اپنے پورے وجود سے دیکھا ہے، ہمارے آج کے نوجوانوں نے وہ زمانہ نہیں دیکھا ہے۔ انقلاب سے پہلے ملک کے انتظامی امور اور عہدیداران کی تقرری میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔ سربراہان، سلاطین، بادشاہ حضرات اور ان کے حلقہ بگوش افراد آتے تھے، جاتے تھے، عوام بس تماشائی بنے رہتے تھے، ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا۔ اسلامی انقلاب آیا اور اس نے عوام الناس کو حاشئے سے لاکر مرکز میں کھڑا کر دیا، عوام صاحب اختیار ہو گئے۔ اوائل انقلاب سے یہ بارہواں موقع ہے کہ مجریہ کی باگڈور سنبھالنے کے لئے عوامی مینڈیٹ کا نتیجہ سامنے آیا ہے، تو اس طرح یہ اجلاس خاص اہمیت کا حامل ہے۔

ہم اپنے عظیم المرتبت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو بھی یاد کریں جن کے عزم راسخ، گہرے ایمان اور بیکراں بصیرت کی برکتوں سے اور  اس عظیم ہستی کی عدیم المثال شجاعت کے نتیجے میں ملت ایران کو یہ کامیابیاں ملیں۔ ہم عہدیداران اور عوام کو زیادہ فخر کرنا چاہئے کہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں کہ جس میں اللہ تعالی نے اس ملک میں ایک عظیم انسان کو چنا جس نے اس سمندر کو متحرک و متلاطم کر دیا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، آسان کام نہیں ہے۔ آپ نے ملک و قوم کی سمت ہی بدل دی۔ سالہا سال بلکہ صدیوں سے سلطنتی نظام، موروثی حکومت کا سلسلہ چلا آ رہا تھا، پہلوی حکومت کے اواخر میں تو سلطنتی نظام کے کلنک کے ساتھ ہی ایک اور کلنک کا داغ بھی لگ گيا اور وہ تھا اغیار کی مداخلت۔ رضاخان کو برطانیہ نے ہمارے ملک کے اقتدار میں پہنچایا، پھر برطانیہ نے ہی اسے اقتدار سے بے دخل کرکے اس کے بیٹے محمد رضا کو تخت سلطنت پر بٹھا دیا، 19 اگست 1953 کی بغاوت میں سب کچھ امریکیوں نے انجام دیا۔ عوام کے لئے بادشاہ مقرر کر دیا، وزیر اعظم منصوب کر دیا! ملک کے عہدیداران کی  تقرری وہ کرتے تھے۔ ہمارے ملک کی یہ حالت تھی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس سسٹم کو دگرگوں کر دیا۔ اس میدان میں انھوں نے قدم رکھا اور آپ کے عزم راسخ نے، گہرے ایمان نے، بے نظیر شجاعت نے، اللہ پر توکل کے جذبے نے، عوام الناس پر آپ کے اعتماد نے حالات کو تبدیل کر دیا۔

اس کے بعد تقریبا چالیس سال کے اس دور میں عہدیداروں کا ایک دوسرے سے وابستہ ایک سلسلہ رہا جن میں سب نے اپنی اپنی جگہ اور اپنے اعتبار سے محنت کی، جفاکشی کی، اپنی خلاقانہ توانائیوں کو استعمال کیا، کام کئے، اپنا رول ادا کیا۔ اسلامی جمہوری نظام کے عہدیداران کی چالیس سالہ محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ اور ثمرہ آج موجودہ عہدیداران کے سامنے ہے جو آج رسمی حیثیت حاصل کر لینے کے بعد مصروف عمل ہونے جا رہے ہیں۔ صدر محترم کے رفقائے کار جنھیں عہدے دئے جا رہے ہیں، وہ اس قومی سرمائے کو بڑھائیں اور اسے آئندہ نسل کے حوالے کریں، آئندہ کے عہدیداران کے ہاتھ میں سونپیں اور یہ سلسلہ اسی طرح روز بروز آگے بڑھتا رہے اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے۔

 ان چار عشروں میں عوام اور حکومت نے بہت بڑے کام انجام دئے۔ ملک کے اندر اس مدت میں علمی میدان، اجرا‏ئی میدان، فکری و عملی میدان میں ساختیاتی کام بہت وسیع پیمانے پر ہوئے جو انقلاب سے پہلے ناپید تھے۔ اسلامی انقلاب سے قبل یہ عظیم انفراسٹرکچر نہیں تھا۔ یہ انفراسٹرکچر در حقیقت مستقبل کی سمت اس قوم کے جست لگانے کا لانچنگ پیڈ ہے۔ ان چار عشروں کی کارکردگی کے نتیجے میں توانائیوں اور تجربات کا ایک ذخیرہ آج ملک کے عہدیداران کے پاس موجود ہے۔ نئی نسلیں انقلابی طرز فکر کے ساتھ اور تربیت یافتہ جذبات سے آراستہ ہوکر سامنے آئی ہیں۔ اوائل انقلاب میں انتظامی عہدوں کے لئے اس تعداد میں ہمارے یہاں عہدیداران نہیں تھے۔ آج بحمد اللہ ملکی نظم و نسق کے مختلف شعبوں میں صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے لئے آمادہ نوجوان بکثرت موجود ہیں، انقلاب نے ان کی پرورش کی ہے۔ ان چار عشروں کی مدت میں سرگرم عمل افراد اور موثر عمائدین حکومت کی کاوشوں کے نتیجے میں یہ عظیم کامیابیاں ملت ایران کو حاصل ہوئی ہیں۔

ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس مدت کے دوران ملک کے عہدیداران بحمد اللہ دنیا کے ساتھ تعاون کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ حالانکہ دشمنوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ملت ایران تنہا ہو جائے، لیکن ملت ایران تنہا نہیں ہوئی، اس قوم نے دنیا سے لین دین رکھا اور ساتھ ہی ساتھ استکباری و تسلط پسندانہ نظام کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا، حربوں کے مقابل مزاحمت بھی کی۔ البتہ دشمن اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔ ایک اہم نکتہ جو میں بار بار دہرانا چاہتا ہوں اور یہ کوشش کرتا ہوں کہ کسی کے بھی ذہن سے نکلنے نہ پائے وہ دشمن اور اس کے حربوں کا ہمیشہ موجود رہنا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا؛ مَن نامَ‌ لَم‌ یُنَم‌ عَنه،‌ اَخَا الحَربِ اَرِق (3) اگر محاذ جنگ پر آپ کو نیند آ گئی تو آپ کے مد مقابل محاذ پر جہاں آپ کا دشمن تعینات ہے، ممکن ہے کہ آنکھیں بیدار ہوں اور عین اسی وقت آپ کے خلاف کوئی کارروائی ہو جائے، تو آپ کو ہرگز نیند نہیں آنا چاہئے، احتیاط کو کبھی فراموش نہ کیجئے تمام امور میں۔ اس سلسلے میں خصوصی خطاب عہدیداران سے ہے۔ دشمن تو اپنے عناد میں لگا ہوا ہے، گوناگوں ریشہ دوانیاں کر رہا ہے، تاہم فضل پروردگار سے، توفیق خداوندی سے ملت ایران اور ملک کے عہدیداران کافی تجربہ کار ہو چکے ہیں۔

ہمارے اوپر پابندیاں لگائی گئیں۔ پابندیوں سے بے شک وطن عزیز کے لئے مشکلات کھڑی ہوئیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، لیکن پابندیاں لگیں تو ہماری نگاہیں ہمارے اپنے وسائل کی طرف مرکوز ہوئیں۔ ہمارے پاس بہت سی توانائیاں تھیں جن سے ہم لا علم تھے، غافل تھے۔ جب پابندیاں لگیں تو ہم بیدار ہوئے، ہم نے جائزہ لیا، داخلی توانائیوں کو تلاش کیا اور ان سے استفادہ کیا۔ آج دشمن کی مرضی اور خواہش کے بالکل برخلاف ہم طاقتور ہیں، سیاسی اعتبار سے طاقتور ہیں، دفاعی میدان میں طاقتور ہیں، سیکورٹی کے شعبے میں طاقتور ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ شروعاتی برسوں کی نسبت کئی گنا زیادہ طاقتور اور مستحکم ہے۔ اتنی ساری پابندیوں کے باوجود، اتنی دشمنی کے باوجود شروع کے برسوں کی نسبت اگر آج اسلامی جمہوریہ کئی گنا زیادہ طاقتور، مقتدر اور مستحکم ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دشمن نے ہمارے خلاف جو حربے آزمائے ہم نے انھیں حربوں کو اپنے فائدے میں استعمال کیا۔ دشمن کی کھلی دشمنی نے ہمیں اور مستحکم بنا دیا۔ صرف آشکارا دشمنی ہی نہیں تھی، کیونکہ کچھ طاقتیں تو کھل کر دشمنی کرتی ہیں جیسے یہی لوگ جو آج امریکہ میں بر سر اقتدار ہیں اور بعض دیگر ملکوں میں ایوان اقتدار میں ہیں، مگر بعض لوگوں کی دشمنی مخملیں دستانوں کے اندر چھپے کرخت فولادی ہاتھ کی مانند ہوتی ہے، جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ یہ بھی دشمنی ہے۔ ان دشمنیوں کے مقابلے میں ہم فضل پروردگار سے، توفیق و ہدایت خداوندی سے اور زیادہ مستحکم ہوئے اور ہماری خود اعتمادی میں اضافہ ہوا۔ شروع کے برسوں کی نسبت آج ہم کئی گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ دشمن سے نمٹنے کے طریقے ہمیں معلوم ہیں۔ آج توفیق خداوندی سے ملت ایران نے دشمن کے حربوں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے، عہدیداران اس سے آگاہ ہیں، انھیں بخوبی علم ہے کہ دشمن سے کیسے نمٹنا ہے، کب جوابی کارروائی کرنا ہے، وسائل بھی ہمارے پاس زیادہ ہیں اور دشمن کے حربوں کا ہمیں کوئی خوف و ہراس بھی نہیں ہے۔

بے شک ہمارے یہاں بہت سی کمیاں بھی ہیں، ہم ان سے چشم پوشی نہیں کرتے، ان کا انکار نہیں کرتے، لیکن ہمیں اس کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارے پاس وسائل بھی بہت ہیں، ہم ان صلاحیتوں اور وسائل کو جو اب تک بروئے کار نہیں لائے گئے ہیں، توفیق پروردگار سے استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ ملک کے عہدیداران اور جو نئی کابینہ تشکیل پانے والی ہے، صلاحیتوں اور وسائل سے آراستہ اس نظام کے ذمہ داران ہیں، اسے آپ یاد رکھئے! اسلامی جمہوری نظام اور ہمارا یہ ملک استعداد، وسائل اور صلاحیتوں سے سرشار ہے، ان وسائل اور صلاحیتوں کو پوری طرح پہچاننے اور بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ انقلابی ماہیت پر توجہ دیتے ہوئے، یہ نکتہ بہت اہم ہے، آپ مجاہدانہ عمل کے ذریعے، عوامی حمایت کے ذریعے، بے پناہ مادی و روحانی وسائل کے ذریعے جو دست یاب ہیں، ملک کو آگے لے جا سکتے ہیں۔ میں تین گائیڈ لائنوں کا ذکر کرنا چاہوں گا؛

پہلی  گائیڈ لائن ہے عوام کی مشکلات پر توجہ۔ آج پہلے نمبر پر اقتصادی و معیشتی مشکلات ہیں۔ جو تین گائیڈ لائنیں ہیں بیک وقت رو بہ عمل آنا چاہئیں ان میں پہلی چیز یہی ہے کہ عوام کی مشکلات پر توجہ دی جائے، داخلی مسائل کو حل کرنے کے لئے کام کیا جائے، اقتصاد و معیشت کا مسئلہ، اسے آپ چار سال کے اس دور میں ایک قابل قبول صورت حال تک پہنچائیے۔

دوسری گائیڈ لائن ہے دنیا کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون۔ یہ ہماری دائمی سفارش رہی ہے اور یہ ہمارے دشمنوں اور دنیا کی عالمی طاقتوں کے عزائم کے بالکل برعکس چیز ہے۔ ہم دنیا کے ساتھ وسیع روابط قائم کر سکتے ہیں۔ دوسری حکومتوں اور اقوام کی مدد کر سکتے ہیں اور ان کے تعاون سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ انسانیت کی سماجی زندگی اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔ تعاون، ہمدلی، دنیا سے لین دین اور ہم آہنگی۔ ہمارے جغرافیائی محل وقوع، موسمیاتی صورت حال اور بے پناہ وسائل نے ہمارے لئے اس ہدف کو آسان بنا دیا ہے۔

تیسری گائیڈ لائن ہے تسلط پسندی کے مد مقابل پوری قوت اور سختی کے ساتھ ڈٹ جانا۔ تسلط پسند طاقت کوئی بھی ہو، ویسے آج سب سے زیادہ جارحیت پسند اور پست ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت ہے۔ ان کے مقابل پوری سختی سے اور قوت کے ساتھ ڈٹ جانے کی ضرورت ہے، قومی اقتدار کی مدد سے اور عوامی حمایت کی مدد سے آپ ان طاقتوں کے حربوں کو ناکام بنائیے اور ان کے شر کو دفع کیجئے۔ چالیس سالہ بین الاقوامی سرگرمیوں کے تجربات ہمیں یہ دکھاتے ہیں کہ توسیع پسند طاقتوں کے سامنے جھک جانے کی قیمت ان کے مد مقابل ڈٹ جانے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ توسیع پسند طاقتوں کی توسیع پسندی کے سامنے جھک جانا ملکوں اور قوموں کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے، ان کی پیشرفت کے راستوں کو حقیقت میں مسدود کر دیتا ہے، انھیں انسانی اقدار سے دور کر دیتا ہے، اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ توفیق خداوندی سے اور نصرت پروردگار سے ہم استکبار کے سامنے اور توسیع پسند نظام کے سامنے کبھی نہیں جھکے، ہم نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے، ہم نے ان کے مطالبات اور خواہش کو کبھی پورا نہیں کیا۔ آج ہم ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور اور توانا ہیں، ہمارے وسائل آج ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ہم ان طاقتوں کے مد مقابل ڈٹ کر کھڑے ہیں، ہم ان کے سامنے نہیں جھکے، یہ بہت اہم تجربہ ہے۔ البتہ ہمیں اس راہ میں شہیدوں کی قربانی دینی پڑی، بہت کچھ قربان کرنا پڑنا۔ ہم نے بڑی گراں قدر اور نمایاں ہستیوں کو کھویا، لیکن نتیجتا اسلامی جمہوری نظام کو ارتقا حاصل ہوا، یہ نظام آگے بڑھا اور اس کے نعرے مزید نمایاں ہوئے۔

میں صدر محترم کو اسی طرح مختلف شعبوں میں آپ سے تعاون کرنے والے خواہران و برادران گرامی کو چند سفارشات کرنا چاہوں گا، آپ یہ سفارشات مد نظر رکھئے۔ اس ذمہ داری کو اور اس توانائی کو امانت سمجھئے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا؛ یہ تمہاری گردن پر ایک امانت ہے؛ وَ اِنَّما هِیَ فی عُنُقِکَ اَمانَة (4) یہ عہدہ امانت خداوندی ہے جو آپ کے اختیار میں ہے، آپ امانت کا خیال رکھئے، امانت کی حفاظت کیجئے۔ یہ آیہ کریمہ؛ «اِنَّ اللهَ یَأمُرُکُم اَن تُؤَدُّوا الاَمانٰتِ‌ اِلىٰ‌ اَهلِها» (5) صرف مادی امانتوں کے سلسلے میں نہیں ہے۔ بلکہ اہم روحانی امانت یعنی یہ عہدہ اس کا اور اہم مصداق ہے۔

اگلی سفارش یہ ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور کام زیادہ ہے تو ترجیحات کا خیال کیجئے۔ اخراجات میں بھی، منصوبہ بندی میں بھی، تمام کاموں میں بھی۔ ہمیشہ دیکھئے اور ترجیحات کو مد نظر رکھئے۔ بے شک آج ترجیح یہی ہے جس کا ذکر صدر محترم نے کیا؛ انصاف و مساوات کا مسئلہ، غربت کی بیخ کنی کا مسئلہ، ہماری پہلی ترجیحات یہی ہیں، انھیں ہر چیز پر مقدم رکھنا ہے۔ کچھ اور کام بھی ہیں جو دوسرے مرحلے میں انجام دینے ہیں۔

ایک اور سفارش یہ ہے کہ پیشگی منصوبے کے مطابق عمل کیجئے۔ چھٹا ترقیاتی منصوبہ بہت جامع منصوبہ ہے۔ یہ اس منصوبے کے آغاز کا سال ہے۔ البتہ کچھ تاخیر ہوئی ہے، یہ پروگرام سال گزشتہ ہی شروع ہو جانا چاہئے تھا۔ چھٹا ترقیاتی منصوبہ بہت اہم منصوبہ ہے۔ بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ، پوری توجہ اور دقت نظری کے ساتھ اور وسائل و امکانات کے پیشگی تخمینے کے ساتھ آگے بڑھئے، پروگرام کو خاص اہمیت دیجئے۔

میری اگلی سفارش یہ ہے کہ قومی اتحاد کی اہمیت کا ہمیں ہمیشہ احساس ہونا چاہئے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے اتحاد کا ثمرہ ہے، عوام کے آپسی اتحاد کا ثمرہ ہے اور ملک کے حکام و عہدیداران اور عوام الناس کی باہمی یکجہتی کی دین ہے۔ ہمیں اس اتحاد کی حفاظت کرنا چاہئے۔ اشتعال انگیزی نہیں ہونا چاہئے، ضرر رساں محاذ بندی نہیں ہونا چاہئے۔ عوام کے نظریات اور رجحانات الگ الگ ہو سکتے ہیں، یہ اچھی بات ہے، الگ الگ نظریات و رجحانات کے ساتھ عوام کو پرسکون باہمی زندگی کا موقع فراہم کرنا چاہئے۔ الگ الگ نظریات اور رجحانات کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں، آپس میں متصادم رہیں۔ وہ مل جل کر اچھی زندگی بسر کریں ساتھ ہی الگ الگ نظریات کے حامل بھی رہیں۔ اشتعال انگیزی نہیں ہونا چاہئے۔ مخالف نظریات سے آپ برافروختہ نہ ہوں، اگر مخالفین نے کوئی رائے زنی کی ہے، کوئی تنقید کی ہے، تو انھیں تنقید کرنے دیجئے، اپنی رائے کا اظہار کرنے دیجئے، اس پر آشفتہ نہ ہوئیے۔ بہرحال ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ ہماری کارکردگی میں خامیاں بھی کم نہیں ہیں، ممکن ہے کہ ہمارے کام کے سلسلے میں کسی کی کوئی تنقید ہو تو ہمیں اس کی تنقید قبول کرنا چاہئے، یعنی برداشت کرنا چاہئے، تحمل کرنا چاہئے۔

عوام کے درمیان جائیے، عوام سے براہ راست خود کو وابستہ رکھئے، لوگوں کی باتیں سنئے۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ رپورٹیں ہمیں ملتی رہتی ہیں لیکن وہ رپورٹیں چاہے جتنی درست ہوں پھر بھی بڑا فرق ہوتا ہے اگر انسان خود عوام کے درمیان جاتا ہے، انھیں قریب سے دیکھتا ہے، حالات کا مشاہدہ کرتا ہے۔

پرجوش اور انقلابی فورسز کی قدر کیجئے۔ میں تمام عہدیداران کو سفارش کرنا چاہوں گا۔ پرجوش انقلابی اور مومن افراد وہ ہیں جو مشکلات کے وقت ملک کی حفاظت کرتے ہیں، دفاع کرتے ہیں، سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ ان کی قدر کیجئے۔

عالمی سطح کے مسائل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھئے کہ دشمن اپنی پوری توانائی کے ساتھ آپ کو نابود کرنے پر کمربستہ ہے۔ جو حکومتیں ہمارے خلاف اور ہمارے مد مقابل ہیں ان کے بعض عہدیداران یہ بات آج صریحی طور پر کہہ بھی رہے ہیں، صریحی طور پر کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی نابودی کے در پے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے۔ بعض افراد اپنی یہ خواہش خفیہ رکھتے ہیں، منہ سے نہیں کہتے لیکن حقیقت میں ان کی بھی نیت یہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تعاون کی پالیسی ہمیں اس حقیقت سے غافل نہ کرے کہ کچھ دشمن موجود ہیں جو ہماری نابودی پر کمر بستہ ہیں۔ وہ ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آپ سیٹیلائٹ کیریئر میزائل کا تجربہ کرتے ہیں (6) اور یکبارگی آپ کو کیا نظر آتا ہے کہ ساری دنیا میں ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ایک سائنسی اقدام ہے، ٹیکنالوجیکل عمل ہے، ملک کے لئے انتہائی ضروری عمل ہے جو بہت عام بات ہے، لیکن آپ جب یہی عمل انجام دیتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان سر پر اٹھا لیا گيا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کو اور بھی محتاط رہنا ہے۔

اس روئے کا جواب ہے نپا تلا، مجاہدانہ اور مستحکم عمل۔ اس دشمنی کا جواب ہے خود کو اور بھی مستحکم بنانا۔ خود کو مستحکم بنانے سے میری مراد صرف دفاعی اور سیکورٹی کے شعبے میں خود کو مستحکم بنانا نہیں ہے، بے شک ان شعبوں میں بھی ہمیں مستحکم رہنا چاہئے، لیکن ساتھ ہی اقتصادی میدان میں بھی خود کو مستحکم بنانا چاہئے، ثقافتی میدان میں بھی خود کو مستحکم بنانا چاہئے، اسلامی و انقلابی ماہیت کی حفاظت کے سلسلے میں بھی روز بروز زیادہ مستحکم اور مضبوط بننے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی دشمنی کا یہی جواب ہو سکتا ہے۔

میری آخری گزارش؛ اللہ پر توکل کیجئے، نصرت خداوندی کے وعدے پر یقین رکھئے؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم (7) ایک اور آیت میں ہے؛ وَ لَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه (8) کتنی تاکید کی گئی ہے؟! دین کی ترویج کی راہ میں، دین کے احیاء کی راہ میں، دین خدا کی بالادستی قائم  کرنے کی راہ میں اگر آپ مصروف خدمت ہیں تو اللہ کی طرف سے نصرت کا یہ وعدہ ہے۔ آپ مطمئن رہئے کہ اللہ تعالی نصرت ضرور کرے گا۔ دین پر ہونے والے حملوں اور قانون شکنی پر کبھی خاموش نہ رہئے، لا تعلقی کا اظہار نہ کیجئے۔ یقین رکھئے کہ مستقبل آپ کا ہے۔

پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کی قسم دیتے ہیں ہمیں اپنی رضا و خوشنودی کے حصول میں کامیاب فرما۔ پروردگارا! اس نئی حکومت کو، بارہویں حکومت کو، ملک کی خدمت گزار اس جماعت کو اس کے دوش پر جو اہم فرائض ہیں ان کی انجام دہی میں کامیاب فرما۔ پروردگارا! ہمارے ان ایام کو، ہماری عمر کو، ہماری زندگی کے لمحات اور برسوں کو ہمارے لئے غنیمت قرار دے، افسوس اور پچھتاوے کا سبب قرار نہ دے۔ پروردگارا! ہمارے شہدا کی پاکیزہ ارواح کو،  ہمارے عظیم امام کی روح مطہرہ کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام‌ علیکم ‌و رحمة الله‌ و برکاته

(۱) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر داخلہ جناب عبد الرضا رحمانی فضلی اور صدر محترم ڈاکٹر حسن روحانی نے تقریریں کیں۔

 (2) امالی صدوق، صفحہ ۲۳۵ (قدرے فرق کے ساتھ)

(3) نهج ‌البلاغه، مکتوب نمبر ۶۲ (قدرے فرق کے ساتھ)؛ «کوئی سو گیا تو اس کا دشمن نہیں سویا ہے، جنگ کا سپاہی ہمیشہ بیدار و ہوشیار رہتا ہے۔)

(4) نهج‌ البلاغه، مکتوب نمبر۵ (قدرے فرق کے ساتھ)

(5) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۵۸ کا ایک حصہ «اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو صاحبان امانت کو لوٹاؤ.»

(6) اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے سیٹیلائٹ کیریئر راکٹ 'سیمرغ' کے کامیاب تجربے کی جانب اشارہ۔

(7) سوره‌  محمّد،  آیت نمبر۷ کا ایک حصہ «...اگر اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری نصرت کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔»

(8) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ؛ «...یقینا اللہ اس کی نصرت کرتا ہے جو دین خدا کا مددگار ہو...»